جیل کی کہانی، غصّہ

1010

قدسیہ ملک
غصہ اور جارحیت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے جو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کسی مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیش آئے، یا اپنی خواہش اور رضامندی سے وہ جو کچھ کرنا چاہے، نہ کرسکے۔ عام طور پر لوگ غصے میں دوسروں کے خلاف بہت کچھ کرجاتے ہیں جس کے باعث وہ دوسروں اور خود اپنے لیے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ غصے کو کنٹرول کرنے کے بہت سے طریقے ماہرین نے بیان کیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اچھے انسان تیار کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا یہ حل تجویز فرمایا کہ جب کسی کو غصہ آئے تو وہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، اور بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اسی طرح آپؐ نے غصے کی حالت میں وضو کرکے اسے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا۔ بہت سے اہلِ علم نے مشورہ دیا ہے کہ غصہ کرنے والے انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کائنات میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے، کیا وہ اپنے خالق کی ناراضی اور غضب کا سامنا کرسکتا ہے؟ ایسی صورت میں اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوگا اور اس کا غصہ کنٹرول ہوجائے گا۔ یہ سب تجاویز اُس وقت کے لیے ہیں جب انسان غصے کی حالت میں ہو۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے سرے سے غصہ ہی نہ آئے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی توقعات کو کم سے کم سطح پر لے جائے۔ غصہ آنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان دوسروں سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیتا ہے، اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو افسوس اور غصہ آجاتا ہے۔ ہیلتھ ٹی وی اردو کے مطابق ماہرین کہتے ہیں کہ اکثر اوقات چند معمولی چیزیں بھی ہارٹ اٹیک کی وجہ بن جاتی ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے، ان میں سے ایک شدید غصہ بھی ہے۔
شدید غصہ:ایک تحقیق کے مطابق شدید غصے کے دو گھنٹے بعد تک دل کے دورے کے خطرات آٹھ گنا تک بڑھ جاتے ہیں۔ غصہ آنے سے خون کی شریانوں پر اسٹریس بڑھنے لگتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے تو ایسی صورتِ حال سے ہی بچا جائے جس میں غصہ آئے۔ اگر غصہ آ بھی جائے تو کوشش کی جائے کہ اسٹریس یا ذہنی دباؤ زیادہ نہ ہو۔
فکر یا تشویش: بہت زیادہ فکر یا تشویش دل کی دھڑکن بڑھ جانے، ہائی بلڈ پریشر، خون کی شریانوں میں تناؤ اور خون میں لوتھڑے بننے کے عمل کو بڑھا دیتی ہے۔
سردی میں غیر معمولی جسمانی سرگرمیاں: بلڈپریشر، ہائی کولیسٹرول، تمباکو نوشی اور سست طرزِ زندگی کے عادی افراد کے لیے بھی سردی میں مشقت سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کسی بھی سخت جسمانی سرگرمی کے دوران کچھ دیرآرام ضرور کریں۔
الکوحل اور منشیات کا استعمال:الکوحل اور منشیات کا استعمال مجموئی صحت کے لئے نقصان دہ ہے جو افراد الکوحل یا منشیات کا روزانہ استعمال کرتے ہیں ایسے افراد میں بلڈپریشر اور ٹرائی گلیسیڈر کا لیول بڑھ جاتا ہے جو امراض قلب اور اچانک حرکت قلب بند ہونے کے نتیجے میں موت کی وجہ بن سکتے ہیں۔
زیادہ کھانا:کھانا ہمیشہ اعتدال میں ہی کھانا چاہیے۔ زیادہ کھانے کی صورت میں دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، جبکہ کھانے میں شامل فیٹی ایسڈز خون میں شامل ہوجاتے ہیں یا انسولین کی شرح بڑھا دیتے ہیں جو دل کی شریانوں کو سکیڑ دیتی ہیں اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
غم زدہ ہونا: غم زدہ افراد میں دل کے دورے کا خطرہ اکیس گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ امریکا میں کی گئی تحقیق کے مطابق کسی پیارے کی موت کے بعد تنائو، نیند کی کمی اور ادویہ لینا بھول جانا بھی غم زدہ افراد میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
انسانی دماغ بہت سے کیمیکلز سے مل کر بنا ہے۔ جب ان کیمیکلز میں کچھ کمی بیشی ہوتی ہے تو انسان کو بات بات پر غصہ آ جاتا ہے جو بسا اوقات نہایت ہی شدت اختیار کر جاتا ہے۔ دوسری جسمانی بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہے۔ ایسی صورت میں فوراً کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں لوگ بالعموم دماغی امور کے ماہرین کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں انہیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ انہیں پاگل سمجھیں گے۔ یہ ایک غلط سوچ ہے۔ کیمیکلز میں کمی بیشی ایک نارمل بات ہے جو کہ کسی بھی انسان کو پیش آسکتی ہے۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق 50 سالہ اٹینائی ایفامیلیونا نامی شخص آسٹریلوی شہر سڈنی میں اپنی بیوی ٹیپیریا کے ساتھ کار میں سفر کررہا تھا۔ جب ٹیپیریا نے اس سے کوئی بات کی تو دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ جھگڑے پر اٹینائی نے گاڑی روک دی، اپنی سیٹ کے نیچے سے چھرا نکالا اور غصے سے اپنی بیوی پر وار کرنے لگا، جن سے بچنے کی کوشش میں بیوی کے ہاتھوں کی 6 انگلیاں کٹ گئیں۔ بیوی جان بچانے کے لیے گاڑی کے نیچے گھس گئی۔ اس پر اٹینائی بھی نکلا اور اس کے پیروں پر چھرے سے وار کرنے لگا، جس سے اس کے پیروں کی کچھ انگلیاں بھی کٹ گئیں۔ وہ خود ہی اسے ہسپتال لے کر گیا اور وہاں چھوڑتے ہوئے معافی مانگی۔ اس نے کہا کہ ’’مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا، میں تمہاری بات پر غصے میں آگیا تھا‘‘۔ اٹینائی اس کے بعد گھر چلا گیا اور اپنے خون آلود کپڑے بدل کر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ رپورٹ کے مطابق سزا سنائے جانے کے روز عدالت میں ٹیپیریا نے جج سے استدعا کی کہ ’’میں اس غلطی پر اپنے شوہر کو معاف کرتی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ اسے کم سے کم سزا دی جائے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق عدالت کی طرف سے مجرم کو 6سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

غصے میں گناہ

غصہ ایک نہایت طاقتور جذبہ ہے جو انسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ غصے کے دوران نامعقول فیصلے کرنا عام بات ہے۔ بہت مشکل ہے کہ غصے میں ہوش و حواس پر قابو رکھا جائے۔ ماہرین کے مطابق شدید غصہ دل کے اچانک دورے، دماغ کی شریان پھٹنے یا فالج کے حملے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مستقل غصہ کرنا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہاں آج ہم جو سچا واقعہ آپ کو سنا رہے ہیں اس کا بھی براہِ راست تعلق غصے سے ہے۔ یہ جیل میں موجود ’’نور‘‘ کی سچی آپ بیتی ہے۔ نور ایک کھاتے پیتے معزز گھرانے کی غیر شادی شدہ اکلوتی لڑکی ہے۔ آیئے اسی کی زبانی اس واقعے کو سنتے ہیں۔
’’میرے دو بھائی ہیں۔ ایک شادی شدہ ہے، اس کے دو بچے ہیں۔ امی ابو کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ بہت خوش رہتی تھی۔ بھتیجا اور بھتیجی ہی میری کُل کائنات تھے۔ چھوٹے بھائی کی اچھی جاب لگ گئی تھی۔ اب اس کے لیے لڑکی کی تلاش جاری تھی۔ بڑی بھابھی بہت اچھی تھیں مگر غصے کی تیز تھیں۔ جیسے ہی وہ بچوں پر غصہ دکھاتیں، میں ان کی ڈھال بن جاتی، ان کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتی۔ خیر بالآخر ہمیں ایک لڑکی پسند آگئی۔ بھائی کو تصویر دکھائی، اس نے بھی رضامندی کا اظہارکردیا۔ بس پھرکیا تھا، میرے تو جیسے پَر لگ گئے۔ دن رات نئی بھابھی کے لیے کپڑے، میچنگ جوتے، جیولری، بیگز اور مختلف اشیاء کی خریداری کے لیے بھائی کے ساتھ مختلف بازاروں کے چکر لگاتی۔ ایک دو بار بھابھی کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تو انہوں نے مصروفیت اور بچوں کا بہانہ بنادیا۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی۔ چھوٹے بھائی کے آتے ہی میں اسے لے کر نکل جاتی اور پھر ہم رات گئے گھر پہنچتے۔ بھائی بھی میرے ساتھ خوشی خوشی چلنے کو تیار ہوجاتا۔ آخرکار منگنی کا دن بھی آن پہنچا۔ بڑی بھابھی کچھ چپ چپ سی تھیں۔ میں گھر کے دیگر کاموں میں اتنی الجھی ہوئی تھی کہ ان کی خاموشی کو سمجھ نہ سکی۔ رات میں منگنی کی تقریب ہمارے ہی گھر میں ہونا قرار پائی تھی۔ بھائی بالکل تیار تھا۔ کھانا آرڈر کردیا تھا۔ سب کام احسن طریقے سے ہوگئے تھے۔ 9 بجے ہمارے گھر لڑکی والے آگئے۔ پھر رسومات شروع ہوئیں۔ دونوں کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ خوب خوشیاں اور مسرتیں تھیں۔ اچانک بڑے بھائی کے کمرے سے بھابھی کی زور زور سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ بچوں کو تیز آواز میں گالیاں دے رہی تھی اور ساتھ میں بچوں کے بھی رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ خیر میں نے جاکر بھابھی کو چپ کرانا چاہا لیکن وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھیں۔ تقریب میں اچانک خاموشی چھاگئی۔ اصل میں بھابھی کو آنے والی سے حسد ہوگیا تھا۔ چھوٹے بھائی کی تنخواہ زیادہ ہونے کے سبب ہم نے چھوٹی بھابھی کو بہت سے گفٹ دئیے تھے۔ بس یہی بات بڑی بھابھی کو پسند نہیں آئی تھی۔ اب وہ غصہ بچوں پر نکال رہی تھیں۔ انہیں سب کے سامنے گندی گالیاں دے رہی تھیں۔ اچانک لڑکی والے منگنی کی تقریب ادھوری چھوڑ کر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ میں نے اور بھائیوں نے مل کر انہیں بہت روکنا چاہا، مگر وہ لوگ نہ رکے اور چلے گئے۔ گھر جاکر لڑکی کے باپ نے فون کردیا کہ ہم منگنی ختم کر رہے ہیں، جس گھر میں اتنا فساد ہوتا ہو وہاں ہماری بچی نہیں رہ سکتی۔ چھوٹا بھائی ایک دم سناٹے میں آگیا۔ اس نے بڑی بھابھی کو خوب سنائیں، بڑی بھابھی بھی ساتھ ساتھ بولتی جارہی تھیں کہ میں نے سب کچھ اپنے بچوں کے ساتھ کیا ہے، تمہارا تو کچھ نہیں بگاڑا۔ بھابھی کی اتنی بات سن کر بھائی کوغصہ آگیا، اس نے طیش میں آکر بھابھی کو ایک زور کا مُکّا مارا، وہ لہرا کر فرش پر گریں اور بے ہوش ہوگئیں۔ اب بھائی بھی پریشان ہوگیا۔ بھابھی گہرا سانس لے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر پُرسکون ماحول میں رہتیں تو ٹھیک ہوجاتیں، لیکن میں نے بھائی سے کہا انہیں فوری ہسپتال لے چلو۔ چھوٹا بھائی تیار ہوگیا۔ ہم اسے بڑے ہسپتال لے آئے۔ رات کا وقت تھا، پورا عملہ سورہا تھا۔ بھائی نے بڑے ڈاکٹر سے جاکر بات کی تو وہ بولا: اس ٹائم تنگ کرنے آجاتے ہو۔ بھابھی بولیں مجھے گھر لے چلو۔ لیکن ہم بضد تھے کہ ڈاکٹری چیک اپ کے بعد ہی گھر لے جائیں گے تاکہ وہ مکمل صحت یاب ہوکر اپنے بچوں کے پاس لوٹیں۔ ڈاکٹر کی بات سن کر بھائی طیش میں آگیا، اس نے ڈاکٹر کو دو گھونسے جڑدیئے۔ وہ فوری بھابھی کو ایمرجنسی میں لے گیا۔ ہم باہر کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں نرس آکر بولی، آپ کی پیشنٹ ایکسپائر ہوگئی ہے۔ اسی اثناء میں پولیس آگئی۔ ہم کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، سب یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی بھابھی کو مارا ہے۔ جب کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اب میں یہاں جیل میں اپنے اچھے وقتوں کو یاد کرکے بہت روتی ہوں۔ بھابھی کے گھر والوں سے ویمن ایڈ ٹرسٹ نے رابطہ کیا تو وہ 10 لاکھ روپے خون بہا مانگ رہے ہیں۔ اب جیسے ہی وہ رقم جمع ہوتی ہے ہم چھوٹ جائیں گے۔ بھائی کی نوکری بھی ختم ہوگئی۔‘‘
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے نور کی قانونی امداد کی گئی۔ WAT کی سابقہ صدر اقبال النساء کے مطابق’’عدالت کو باور کروایا گیا کہ گھر والوں کی طرف سے قتل نہیں ہوا بلکہ ہوسکتا ہے ہسپتال میں اسے دشمنی میں غلط انجکشن لگایا گیا ہو۔ لیکن اس کے لیے عدالت پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دے رہی۔ دوسری جانب اسپتال کا عملہ بہت اثررسوخ والا ہے۔ اب مقتولہ کے گھر والے قصاص کا مطالبہ کررہے ہیں، جس کی ادائیگی کے بعد نور کو رہائی مل جائے گی۔ جیل میں نور نے ادارہ ’’ویٹ‘‘ کے تحت قرآن کی کلاسز اور کمپیوٹر کلاسز بھی لی ہیں۔ اسے غصے کے نقصانات سے دوبارہ آگاہ کیا گیاکہ غصہ ہمیشہ حماقت سے شروع ہوکر ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ اب دونوں بچے اس کے بڑے بھائی کے پاس ہیں جو ان بچوں کا باپ ہے۔ وہ بھی پیسوں کا انتظام کررہا ہے تاکہ اس کا گھر دوبارہ آباد ہوسکے۔‘‘
غصے کے باعث نور کا ہنستا بستا گھر شعلوں کی نذر ہوگیا۔ اللہ ہم سب کو غصے کے اثرات سے محفوظ رکھے۔ یہ وہ آگ ہے جو سب کچھ جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔

حصہ