آؤ سیزن کمائیں

291

زاہد عباس
بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی جانب سے اعلان کردہ امتحانی شیڈول کو سنتے ہی کمال، ماجد اور نصراللہ کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ خاصے مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے چہروں سے محسوس ہورہا تھا جیسے انہوں نے آنے والے میٹرک کے امتحانات کی پوری تیاری کررکھی ہو۔ تینوں دوست بے حد خوش تھے، اور کیوں ناں ہوتے! کسی بھی طالب علم کے لیے میٹرک تعلیمی کیریئر کی پہلی سیڑھی ہوا کرتا ہے، یہاں سے ہی طلبہ حصولِ تعیلم کے اس میدان میں قدم رکھتے ہیں جہاں انہیں اُس تعلیمی شعبے سے منسلک ہونے کا اختیار ملتا ہے جس میں کامیاب ہوجانے کی صورت میں وہ آگے چل کر معاشرے، خاص طور پر ملک کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ یعنی میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہی سائنس وٹیکنالوجی اور کامرس کے شعبوں میں اپنے جوہر دکھانے کے مواقع ملتے ہیں۔
خیر ذکر ہورہا تھا آنے والے میٹرک کے امتحانات کے شیڈول پر تین دوستوں کی اس غیر معمولی خوشی اور اعتماد کا، جو مجھے ماضی میں لے گیا جب ہم بھی سیکنڈری اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ امتحانات قریب آتے تو ہمارے لیے گھر کے کسی بھی کمرے کا کوئی کونا مختص کردیا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں پرچوں سے قبل ہی ہمیں زبردستی اعتکاف میں بٹھا دیا جاتا۔ اب ہم ہوتے اور ڈھیروں کتابیں۔ جب تک امتحانات چلتے، ٹیلی ویژن کا شمار ممنوع اشیاء میں ہوتا۔ کیسا ڈراما اور کون سی فلم… ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر ایسے پڑھائی میں جھونک دیے جاتے جیسے سی سی ایس کی تیاری ہو۔ کھانے سے لے کر چائے پانی تک اسی کونے میں پہنچایا جاتا۔ گھر میں شورو غل کرنے پر سخت پابندی عائد ہوتی۔ امتحانات کا خوف، اوپر سے والدین کی جانب سے سختی ہمیں پرچے اچھے ہوجانے کی دعائیں کرنے پر مجبور کردیا کرتی۔ ایک طرف رات گئے تک کتابوں سے جنگ کرنا پڑتی تو دوسری طرف معلوم نہیں کب آنکھ لگ جاتی۔ ہاں ہمیں تھوڑا سوجانے کی خبر اُس وقت ضرور ہوجاتی جب فجر کی نماز سے قبل ابو یہ کہتے ہوئے دوبارہ کتابیں ہمارے ہاتھ میں تھما دیتے کہ تہجد کے وقت یاد کیا جانے والا سبق کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ دورانِ امتحان ہم کس کرب میں مبتلا رہتے۔ بڑے بھائی کو ہر سال دورانِ امتحان تیز بخار ہوجاتا۔ بخار اور امتحانات اُن کے لیے لازم و ملزوم ہوا کرتے۔ ہر پرچہ دو مرتبہ دینا ہوتا، یعنی امتحانی مرکز میں تحریر کردہ پرچوں کی مشق والد صاحب کے سامنے دہرانا پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت سوالات کے غلط جوابات پر والد کی طرف سے پڑنے والے تھپڑوں کی گونج آج تک ہمارے کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ ایک طرف ہماری رام کہانی، تو دوسری طرف ان تینوں دوستوں کا امتحانات قریب آنے پر بھی واٹس ایپ پر چیٹنگ کرتے ہوئے گپ شپ کرنا معنی خیز تھا، سو ہم بھی ماضی کی یادوں کو اپنے ذہن سے جھٹکتے ہوئے دورِ حاضر کی طرف لوٹ آئے اور ان تینوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے لگے۔
ذرا سا دھیان لگاتے ہی ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ میری سمجھ میں آنے لگا، جس کے مطابق ماجد سیکنڈ ایئر جبکہ کمال اور نصراللہ میٹرک کے طالب علم تھے۔ یہاں ہونے والی کچہری کا واحد مقصد آنے والے امتحانات میں حل شدہ پرچے بروقت کمرۂ امتحان تک پہنچانے کے لیے نت نئے طریقہ کار پر بحث کرنا تھا۔ ماجد چونکہ بارہویں جماعت کا طالب علم تھا اس لیے پرچہ حل کرنے اور اسے کمرۂ امتحان تک پہنچانے کی تمام تر ذمے داری اسی کے کاندھوں پر تھی۔ وہ اپنی جانب سے نویں جماعت میں ’’بے لوث سروس‘‘ کے نتیجے میں کامیاب نقل کروانے کا حوالہ دیتے ہوئے تسلی دینے میں مصروف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جیسے کلاس نہم میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت واٹس ایپ کا سہارا لیتے ہوئے نقل کا مواد سینڈ (send) کیا گیا اسی طرح اِس مرتبہ بھی مکمل حل شدہ پرچہ وقتِ مقررہ پر کمرۂ امتحان تک پہنچا دیا جائے گا۔ وہ اس سلسلے میں اپنے دوستوں کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروانے میں مصروف تھا۔ ماجد نے ماضی میں ہونے والے امتحانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’فکر نہ کرو، پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے عموماً پاس ہو ہی جایا کرتے ہیں‘‘۔ اس کے بقول ’’زیادہ تر نجی اسکول من پسند امتحانی مراکز سے لے کر کمرۂ امتحان میں اپنے ہی اسکول ٹیچر کی ڈیوٹی لگوانے تک اپنے اسکول کے بچوں کی مدد کرتے ہیں، اب وہ زمانہ گیا جب بچے فیل ہوجایا کرتے تھے، اچھا نتیجہ اسکول مالکان کی مجبوری ہے، لہٰذا اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ کاروباری طرز پر تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں، اس سارے دھندے میں ثانوی بورڈ کے اربابِ اختیار بھی ملوث ہیں۔ نکمے بچے بھی پیسے دے کر اے ون گریڈ حاصل کرلیتے ہیں، ہر سال نتیجہ آنے سے قبل باقاعدہ بولی لگائی جاتی ہے… اور تو اور امتحانی سینٹر تک بکتے ہیں، رواں سال سینٹر ریٹ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے، اس مقدس پیشے سے وابستہ افراد اور بورڈ انتظامیہ کی ملی بھگت سے تعلیم مافیا دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی جارہی ہے، امتحانات اس مافیا کے لیے پیسہ کمانے کا سیزن ہوا کرتے ہیں۔‘‘
ماجد تعلیمی میدان میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں خاصی معلومات رکھتا تھا۔ آخرکار وہ جذبات میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ بتاگیا جس کی خبر کمال اور نصراللہ کو بھی نہ تھی۔ ماجد کے بقول وہ خود اسی پیشے سے وابستہ ہے اور امتحانات آتے ہی سیزن لگاتا ہے، کبھی کسی کی جگہ بیٹھ کر پرچے دیتا ہے تو کبھی پرچہ حل کرنے کے عوض ہزاروں روپے کماتا ہے۔ اس کی جانب سے بولے گئے ڈائیلاگ ’’بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کیا حرج ہے‘‘ مجھے اب تک یاد ہے۔
ماجد کی بتائی ہوئی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ماضی کی طرح اِس سال بھی نقل مافیا سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ رواں سال ہونے والے میٹرک کے سالانہ امتحانات کی آمد کے ساتھ ہی ایسی خبروں کا منظرعام پر آنا بورڈ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وزارتِ تعلیم کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزارتِ تعلیم کی سربراہی میں ہونے والے اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں امتحانات سے متعلق بنائی جانے والی پالیسیوں پر کیوں عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا؟ ایسی کون سی مجبوریاں ہیں جو اپنے ہی کیے گئے فیصلوں پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں؟ اس مشکل ترین سوال کا جواب لینے کے لیے میں نے پرائیویٹ اسکولوں کی نمائندہ تنظیم ’’پیک پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر سید شہزاد اختر سے رابطے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے اسی ایسوسی ایشن کے نامزد کردہ نمائندے غلام عباس بلوچ ممبر بورڈ کے الیکشن میں فتح یاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔
نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بورڈ کی جانب سے ہونے والی بدانتظامی پر اگر ان کا مؤقف نہ لیا جائے تو اصل بات کی تہ تک پہنچنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی بورڈ میں اسکولوں کی نمائندگی کرنے کے حوالے سے اس ایسوسی ایشن اور اس کی طرف سے منتخب ہونے والے ممبر کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق جس منصب پر براجمان ہیں، جواب دیں۔
لہٰذا میں نے وہ تمام سوالات جو ماجد کی باتیں سن کر ذہن میں ابھرے تھے، ان کے سامنے رکھ دیے۔
صدر پیک نے اٹھنے والے سوالات کو مذاق کہتے ہوئے بتایا کہ سندھ بھر میں 15000سے زائد اسکول ہیں، ایک اندازے کے مطابق 5 سے6 لاکھ بچے امتحان دیتے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں سے چند اسکولوں میں بدانتظامی اور نقل جیسے واقعات ہوجانے کے نتیجے میں سارے ہی تعلیمی نظام پر انگلیاں اٹھانا زیادتی ہے۔
اگر کہیں بدانتظامی ہو، بے شک جوکہ نہیں ہونی چاہیے، اس پر ماجد جیسے لوگوں کو چاہیے کہ بجائے الزام تراشیاں کرنے کے ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کریں، ایسوسی ایشن نہ صرف ان کے خلاف سخت کارروائی کے لیے آواز بلند کرے گی بلکہ جب تک وہ قانون کے شکنجے میں نہ آ جائیں، چین سے نہیں بیٹھے گی۔ جہاں تک اسکولوں کو بزنس بنانے کا تعلق ہے تو وہ ادارے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ فیسوں میں اضافے پر عدالت کے دیے گئے فیصلے کے مطابق سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں ڈی جی پرائیویٹ اسکولز منصوب حسین، رافعہ جاوید اور اخلاق احمد کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ جبکہ چیئرمین میٹرک بورڈ ڈاکٹر سعید اور کنٹرولر امتحانات خالد احسان کی جانب سے رواں سال ہونے والے امتحانات کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات خوش آئند ہیں۔
قارئین! ہمارے تعلیمی نظام خاص طور پر امتحانی مراکز میں ہونے والی بدانتظامی پر اٹھتے اعتراضات قابلِ توجہ ہیں۔
ماجد کی جانب سے کی جانے والی باتیں اور اُس پر دیا جانے والا مؤقف اپنی جگہ، مگر ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ گزشتہ تین دہائیوں سے سندھ خصوصاً کراچی میں ہونے والے امتحانات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ نقل مافیا کے خلاف حکومت اور اسکول ایسوسی ایشنوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی کاپی کلچر سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی تعلیم اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر کام ہے۔ مجھے امید ہے کہ رواں سال ہونے والے میٹرک کے امتحانات پر حکومت، خاص طور پر وزارتِ تعلیم سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔

حصہ