کراچی میں ادبی جرائد کی دستیابی

3557

نعیم الرحمٰن
اردو ادب کو قاری کی تلاش ہے۔ مطالعے کا شوق روز بہ روز کم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ادبی جرائد نے ادب کی شمع کو فروزاں رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں ادب کا بڑا مرکز لاہور ہے جہاں بہت سے پبلشنگ ہاؤس اور بک اسٹال موجود ہیں۔ سنگِ میل، مقبول اکیڈمی اور دوسرے کئی پبلشرزکی اپنی بھی بڑی بڑی بک شاپ موجود ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی اس وقت ادبی رسائل کا بھی بڑا مرکز ہے۔ پاکستان کے کئی خوبصورت ادبی جرائد کراچی ہی سے شائع ہورہے ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ادبی کتب اور رسائل کراچی ہی میں دستیاب نہیں ہیں۔ اردو بازار کراچی کی دو اہم بک شاپس ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز نے ادبی جرائد رکھنا بندکردیے ہیں، جس کی وجہ سے کراچی ہی کے رسائل کراچی میں بھی دستیاب نہیں ہیں۔
ادبی کتب و جرائد کی ترقی اور فروغ کے لیے اُن کا، مطالعے کے شائقین تک پہنچنا ضروری ہے۔ کتابوں کی مہنگائی کے علاوہ ان کی عدم دستیابی بھی فروغِ مطالعہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پبلشرز اپنی کتب وجرائد کی تشہیر نہیں کرتے جس سے قاری کو اُس کے پسندیدہ ادیب یا موضوع پرچھپنے والی کتاب کا علم ہوسکے۔ پرستاروں کے ذوق وشوق کا اندازہ سالانہ کتب میلے اور لٹریری فیسٹول سے بخوبی کیا جاسکتا ہے، جہاں کروڑوں روپے کی کتابیں خریدی جاتی ہیں۔ کراچی میں یہ مسئلہ اس لیے بھی سنگین ہوگیا ہے کہ شہر میں ادبی کتب و رسائل رکھنے والی بک شاپس کی انتہائی کمی ہے۔ اردو بازار میں بھی پنجاب بک ہاؤس سمیت بیشتر دکانیں صرف درسی کتب تک محدود ہوگئی ہیں۔ جو دو تین دکانیں موجود ہیں وہ بھی قاری کی نہیں، اپنی مرضی کی کتابیں بھاری کمیشن پر فروخت کے بعد ادائیگی کی شرط پر رکھتی ہیں۔ رہی سہی کسر دو بڑے بک سیلرزکے ادبی جرائد نہ رکھنے سے پوری ہوگئی، جبکہ بیشتر جرائد دیر سویر سے فروخت ہوجاتے ہیں اور ان دکانوں پر تلاش کرنے پر پرانے شمارے نہیں ملتے۔ ان میں کتابیں درآمدکرنے والی دکانیں بھی شامل ہیں۔ بیرون شہر شائع ہونے والے اچھے ادبی پرچے تو ایک طرف، اب کراچی کے رسائل بھی عام قاری کو دستیاب نہیں۔ یہ صورت حال قاری کو مطالعے سے مزید دورکررہی ہے۔
اردو ادب کے فروغ اور ترقی میں ادبی جرائد کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ نثروشعرکی کتابوں سے زیادہ ادبی رسائل نے اردو زبان کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ ان جرائد میں قاری کو نثر و نظم کی ہر صنفِ ادب یکجا مل جاتی ہے، جس میں ناول، افسانہ، تنقید، طنزو مزاح، غزل، نظم، مرثیہ، رباعی اور جدید اصناف شامل ہیں۔ اور ہر قاری کو اپنی پسندیدہ صنف اور شاعر و ادیب کو پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
سرسید احمد خان کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سے لے کر سر عبدالقادر کے ’’مخزن‘‘ ، ’’کاروان‘‘،’’ادبی دنیا‘‘،’’نگار‘‘ ،’’نیرنگ خیال‘‘، ’’ساقی‘‘ اور بے شمار ادبی رسائل نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان میں سے کئی جرائد جاری رہے۔ شاہد احمد دہلوی اپنا ادبی پرچہ ’’ساقی‘‘ پاکستان لے آئے۔ ’’نیرنگِ خیال‘‘ اور’’ادبِ لطیف‘‘ ستّرسال سے زائد مدت سے جاری ہیں۔ ممتاز شیریں اور عبدالصمدکا ’’نیادور‘‘، محمد طفیل کا ’’نقوش‘‘، احمدندیم قاسمی کا ’’فنون‘‘، ڈاکٹر وزیرآغاکا’’اوراق‘‘، نسیم درانی کا ’’سیپ‘‘، صہبا لکھنوی کا ’’افکار‘‘، اظہر جاوید کا ’’تخلیق‘‘ اور مولانا ظفرعلی خان کے خانوادے کا ’’الحمرا‘‘… پھر سرکاری سرپرستی میں ’’ماہ نو‘‘، ’’لوح وقلم‘‘ اورکئی معیاری رسائل شائع ہوتے رہے۔ باذوق قارئین آج بھی ان کے پرانے شماروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اپنے خاص نمبروں اور معیار کے اعتبار سے جو مقام ’’نقوش‘‘ نے حاصل کیا، وہ کوئی اورادبی جریدہ حاصل نہ کرسکا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے محمد طفیل کو اُن کے پرچے کے حوالے سے محمد نقوش کا نام دیا۔ طفیل مرحوم کے انتقال کے بعد کئی برس تک اُن کے صاحبزادے جاوید طفیل اس بے مثال جریدے کو شائع کرتے رہے۔ لیکن اب کئی سال سے اس کی اشاعت موقوف ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ سال نقوش کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمبرکی تیرہ جلدوں کی اشاعتِ نو ہوئی تو شائقینِ ادب نے یہ نمبر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دس ہزار روپے قیمت کا یہ نمبر ایک مرتبہ پھر مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ نقوش کے شائع کردہ نمبروں کی آج بھی شائقینِ ادب کو تلاش رہتی ہے۔ اگر یہ نمبر دوبارہ شائع کیے جائیں تو یہ پرستاروں کے لیے کسی تحفے سے کم نہ ہوں گے۔
نسیم درانی کا ’’سیپ‘‘ نصف صدی کے بعد بھی اسی آب وتاب سے شائع ہورہا ہے۔ ’’الحمرا‘‘ کی اشاعتِ نو کا بیڑہ شاہد علی خان نے اٹھایا اور اسے سترہ سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں الحمرا کا شاندار سالنامہ اشاعت پذیر ہوا ہے۔ ’’تخلیق‘‘ کو اظہر جاوید کے فرزند سونان اظہر جاوید اسی شان سے شائع کررہے ہیں جو اُن کے مرحوم والد کا طرۂ امتیاز تھا۔ ’’فنون‘‘ بھی احمد ندیم قاسمی کی صاحبزادی ناہید قاسمی اور نواسہ نیرحیات قاسمی تعطل کے باوجود جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام پرچے بھی کسی اسٹال پر دستیاب نہیں ہیں۔
کراچی اور لاہور کے ادبی مراکز سے دور چھوٹے شہروں سے بھی کئی قابلِ دید ادبی جرائد شائع ہوتے ہیں، جن میں گوجرہ سے ’’نزول‘‘، محمد خالد فیاض کا ’’تناظر‘‘، میانوالی کا جریدہ ’’آبشار‘‘، اسلام آباد سے ارشد خالد ’’عکاس‘‘ اور بہاولپور جیسے ادبی مرکز سے دور شہر سے ڈاکٹر شاہد حسن رضوی ’’الزبیر‘‘ کی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں الزبیر کا ’’طنز و مزاح‘‘ نمبر شائع ہوا ہے۔ فیصل آباد سے قاسم یعقوب کا دلکش ادبی مجلہ ’’نقاط‘‘ اور علامہ ضیا الحسن کا ’’زرنگار‘‘ شائع ہوتے ہیں۔ ملتان سے ’’سطور‘‘ بھی باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ گوجرانوالہ سے جان کاشمیری کا ’’قرطاس‘‘ شائقینِ ادب کی داد حاصل کررہا ہے۔ لیکن ان تمام پرچوں کی قاری تک کوئی رسائی نہیں۔
لاہورکے اہم ترین ادبی رسائل میں ’’تخلیق‘‘، ’’الحمرا‘‘، ’’ادبِ لطیف‘‘ باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں۔ عطا الحق قاسمی کا بے مثال پرچہ ’’معاصر‘‘ بھی سال دوسال میں منظرعام پر آجاتا ہے۔ ترقیٔ اردو کے ادبی اور تحقیقاتی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کا دو جلدوں پر مشتمل بے مثال مکاتیب نمبر حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ سرکاری جریدے ’’ماہِ نو‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ 1948ء سے جاری ہے۔ کئی نشیب وفراز کے باوجود ’’ماہِ نو‘‘ ہر سال کئی بہت شاندار شمارے شائع کرتا ہے۔ حالیہ شمارہ سرسید احمد خان نمبر ہے۔ تاہم ماہِ نو بھی کہیں دستیاب نہیں، حتیٰ کہ رسالے پر دیے گئے فون نمبر پر سالانہ خریداری کے بارے میں معلومات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ اس طرح قاری اسے براہِ راست بھی حاصل نہیں کر پاتا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’’مباحث‘‘ کے نام سے تحقیقی مجلے کا آغاز کیا ہے۔ امجد طفیل اور ریاض احمد نے ’’استعارہ‘‘ کے نام سے پرچے کا اجرا کیا ہے۔ زاہد حسن ’’کہانی گھر‘‘ کے نام سے منفرد پرچہ شائع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر انوار احمد زئی کا ’’پیلوں‘‘ اردو، پنجابی اور سرائیکی ادب شائع کرتا ہے۔ ذکا الرحمن ’’ادبِ لطیف‘‘ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ منفرد نظم گو شاعر نصیر احمد ناصرکا ادبی جریدہ ’’تسطیر‘‘ کشمیر اور راولپنڈی سے دوبار جاری ہوکر بند ہوا۔ خوش قسمتی سے تسطیر کی اشاعت کا ذمہ بک کارنر جہلم کے امر شاہد اورگگن شاہد نے اٹھایا ہے اور اب یہ پرچہ پہلے سے زیادہ دلکش انداز میں شائع ہورہا ہے۔ تسطیر کے دورِ نو میں تین شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سے لگ بھگ نصف صدی سے جاری ’’سویرا‘‘ کی اشاعت کی ذمے داری القا پبلشرز نے اٹھائی ہے، جس کے بعد سویرا کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اور ہر سال اس کے دو شمارے شائع ہورہے ہیں۔ لیکن پرچہ اب بھی دستیاب نہیں۔
راولپنڈی سے ممتاز شیخ نے انتہائی خوبصورت اور ضخیم ادبی جریدہ ’’لوح‘‘ جاری کیا ہے، جس کے اب تک پانچ شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ لوح کا موجودہ شمارہ ’’اردو افسانہ صدی نمبر‘‘ ہے۔ آٹھ سو صفحات کے اس مجلد بے مثال نمبر میں ایک سو دس سال کا افسانوی انتخاب شائع کیا گیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف افسانے ہی شامل کیے گئے ہیں، تنقید اورمضامین کو جگہ نہیں دی گئی۔ یہ نمبر ادب کے دیوانوں کے لیے قیمتی اور بے مثال تحفے سے کم نہیں۔ انتہائی کم مدت میں لوح نے اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ بلاشبہ اس پرچے کو ’’نقوشِ ثانی‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لوح کا ہر شمارہ بھی نقوش کی طرح ضخیم خاص شمارہ ہوتا ہے جو صوری اور معنوی اعتبار سے بھی قابلِ دید ہوتا ہے۔ راولپنڈی سے معروف شاعر علی محمد فرشی کا انتہائی شاندار جریدہ ’’سمبل‘‘ بھی شائع ہوتا رہا ہے۔ دس شماروں کے بعد فرشی صاحب نے صحت کے مسائل کے باعث رسالہ بند کردیا۔ اسلام آباد سے شاعر فیصل عجمی نے ثمینہ راجا کی ادارت میں بہت ہی خوبصورت ادبی جریدہ ’’آثار‘‘ شروع کیا، جس کے دس شماروں میں دو شاندار خاص نمبر بھی شامل تھے۔ ثمینہ راجا نے وفات سے قبل آثار کی دوبارہ اشاعت کا ارادہ ظاہرکیا تھا، لیکن ان کے انتقال سے ایسا نہ ہوسکا۔ کاش کوئی ادارہ سمبل اور آثار کی اشاعتِ نو کا بیڑہ بھی اٹھالے۔
اسلام آباد سے اکادمی ادبیات کا رسالہ ’’ادبیات‘‘ شائع ہورہا ہے جس کے 100 سے زیادہ شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ ادبیات نے مشاہیرِ ادب احمد فراز، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ پربہت عمدہ نمبر شائع کیے ہیں۔ ادبیات کا تازہ شمارہ ’’انتظار حسین نمبر‘‘ ہے۔ جلد ’’عبداللہ حسین نمبر‘‘ بھی شائع کیا جائے گا۔ ادبیات بھی اکادمی کے دفاترکے سوا کہیں دستیاب نہیں ہے۔
کراچی سے ان دنوں کئی عمدہ ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں جن میں اجمل کمال کا منفرد ’’آج‘‘ سرفہرست ہے۔ ’’آج‘‘ کے 100 سے زائد شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ سینچری نمبر تقسیم کے موضوع پر ہزار صفحات سے زائد کا ناول ’’سچا جھوٹ‘‘ پر مشتمل تھا۔ اگلے شمارے میں معروف شاعر سید کاشف رضا کا ناول نگار کی حیثیت سے نیا روپ سامنے آیا۔ ’’آج‘‘ کا تازہ شمارہ نمبر 103 ارون دھتی رائے کے نئے ناول پر مشتمل ہے۔ اجمل کمال ’’آج‘‘ کے ذریعے اپنے قارئین کو دنیا بھر کے ادب سے متعارف کرانے کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ’’آج‘‘ کا آفس مدینہ مال میں موجود ہے جہاں سے پرچہ دستیاب ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا ملک بھر سے بھی رابطہ ہے جہاں خریداروں کو باقاعدگی سے نہ صرف ’’آج‘‘ ارسال کیا جاتا ہے بلکہ یہاں اورکتب وجرائد بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔
اکادمی بازیافت کے روحِ رواں مبین مرزا دوعشروں سے بے مثال پرچہ ’’مکالمہ‘‘ شائع کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مکالمہ کا دو ضخیم جلدوں پر مبنی شاندار افسانہ نمبر بھی شائع کیا گیا تھا۔ ایک سال سے مبین مرزا نے مکالمہ کو ماہنامہ بنادیا اور رسالہ ہر ماہ شائع ہورہا ہے۔ مکالمہ اور ادارے سے چھپنے والی کتب اس کے دفتر سے دستیاب ہیں۔
ڈاکٹرآصف فرخی کے شاندار ادبی جریدے ’’دنیازاد‘‘ کے بھی پینتالیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’دنیا زاد‘‘ کا ہر شمارہ کسی خاص موضوع کی مناسبت سے چند تحریریں شامل کرتا ہے۔ ابتدا میں کئی عمدہ نمبر بھی اشاعت پذیر ہوئے۔ آصف فرخی کا ادارہ ’’شہرزاد‘‘ نظم و نثرکی عمدہ کتب بھی شائع کرتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر حسن منظر، ڈاکٹر شیر شاہ سید، اپنے والد مرحوم ڈاکٹر اسلم فرخی کے علاوہ کئی عمدہ کتابیں شائع کی ہیں۔ کچھ عرصے سے ’’دنیا زاد‘‘ کی اشاعت عدم تسلسل کا شکار ہے۔ پرچے اورکتب کی دستیابی میں بھی مسائل ہیں۔
احسن سلیم مرحوم نے انتہائی پُروقار ادبی جریدہ ’’اجراء‘‘ جاری کیا، اور اپنی وفات تک اسے باقاعدگی سے ہر تین ماہ بعد شائع کرتے رہے۔ اجراء کی اشاعت اب نوجوان خورشید اقبال نے سنبھالی ہے۔ انہیں پرچے کی مسلسل اشاعت کے ساتھ دستیابی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
اقبال نظر نے ’’کولاژ‘‘ کے نام سے بہت عمدہ ادبی رسالہ شروع کیا ہے جس کا پانچواں شمارہ ’’گلزار نمبر‘‘ کی صورت میں شائع کیا گیا۔ یہی شمارہ اب جہلم بک کارنر نے ’’گلزارنامہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ اردو بازار میں رسائل نہ رکھنے کے باعث ’’کولاژ‘‘ بھی اب دستیاب نہیں ہے۔ گزشتہ سال اس کے دو شمارے ایک ساتھ شائع کیے گئے تھے جو دستیاب نہیں ہیں۔
نسیم درانی کا نصف صدی سے جاری ’’سیپ‘‘ کا 84 واں شمارہ کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا تھا۔ یہ شمارے بھی براہِ راست ہی لیا جاسکتا ہے۔ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔
فہیم انصاری ’’اجمال‘‘ کے نام سے ایک بہت خوبصورت پرچہ شائع کررہے ہیں جس کے 13 شمارے بہت باقاعدگی سے شائع ہوئے ہیں۔ انصاری صاحب کی مہربانی سے پرچہ مل جاتا ہے لیکن اردو بازار میں دستیاب نہیں ہے۔
ترقی پسند ادب کا منفرد جریدہ ’’ارتقا‘‘ ڈاکٹر سید جعفراحمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اس کا ’’کرشن چندر نمبر‘‘ شائع ہوا تھا۔ یہ پرچہ صرف آج کے دفتر سے مل جاتا ہے۔
معروف افسانہ نگار ناصر بغدادی چند سال پہلے تک ’’بادبان‘‘ شائع کرتے رہے ہیں۔ ناصر بغدادی سے گزارش ہے کہ خوبصورت پرچے کی اشاعت پھر سے شروع کریں۔
محترم سحر انصاری کی صاحبزادی معروف شاعرہ عنبرین حسیب عنبر نے کچھ عرصہ پہلے ’’اسالیب‘‘ کے نام سے بہت عمدہ ادبی رسالہ شروع کیا تھا جس کے دو ضخیم جلدوں میں خاص نمبر بھی شائع کیے گئے۔ ’’اسالیب‘‘ اپنے چھٹے شمارے کے بعد سے منظرعام پر نہیں آیا۔ لیکن عنبرین صاحبہ نے اسے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ پرچہ اکادمی بازیافت میں مل جاتا ہے۔
ادبی خانوادے سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اور ادیبہ محترمہ حجاب عباسی نے حال ہی میں ’’ادبِ عالیہ‘‘ کے نام سے ادبی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا ہے۔ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں‘‘ نظرآنے کے مترادف اس پرچے کی اٹھان شاندار ہے۔ نظم ونثرکے گلدستے کی مہکار چہار جانب پھیل رہی ہے۔ مسئلہ صرف دستیابی کا ہے۔
افسانہ نگار احمد زین الدین ’’روشنائی‘‘ کے نام سے عمدہ پرچہ شائع کرتے ہیں۔ روشنائی نے افسانہ نمبر اور قرۃ العین نمبر بھی شائع کیے۔ اب کچھ عرصے سے پرچہ نظر نہیں آرہا۔ دعا ہے کہ اس کی اشاعت جاری ہو۔

حصہ