حکمت

1505

سیدہ عنبرین عالم
’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے، اور جس کو حکمت ملی اسے بہت بڑی دولت مل گئی، اور نصیحت تو دل والے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 229)
لفظ ’’ذکر‘‘ کا ترجمہ میں نے نصیحت کیا ہے۔ اس آیت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ ’’یاد تو دل والے کرتے ہیں‘‘۔ اور اولی الالباب کا ترجمہ ’’عقل مند لوگ‘‘ بھی ہوسکتا ہے، تاہم میں نے یہاں پر ’’دل والے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ ’’حکمت‘‘ کی مناسبت سے ’’عقل مند لوگ‘‘ زیادہ مناسب ہے۔
قارئین! میں اگر آپ سے کہوں کہ عبادت کرو، تو آپ کیا کریں گے؟ نماز پڑھیں گے، قرآن پڑھیں گے، اللہ کے ناموں کا ورد کریں گے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب غارِ حرا میں عبادت کرتے تھے تو وہ ان موجودہ رائج عبادات کے طریقوں سے قطعاً واقف نہ تھے، نہ قرآن اترا تھا، نہ اللہ کے نام جانتے تھے، نہ نماز کا طریقہ معلوم تھا۔ تو آخر وہ حرا میں کرتے کیا تھے؟ کبھی یہ سوال آیا آپ کے دماغ میں؟
وہی، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا کرتے تھے یعنی تدبر، غور و فکر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج، ستاروں اور چاند پر تفکر کیا اور خالقِ کائنات کو پا لیا۔ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے عقائد، طور طریقوں اور رسوم سے اس قدر نالاں تھے کہ جاکر تنہا غارِ حرا میں بیٹھ جاتے اور سوچتے کہ یہ سب غلط ہے تو صحیح کیا ہے؟ اور بے انتہا غور وفکر کے بعد وہ بالآخر ان نتائج پر مطمئن ہوگئے تھے جن کی تصدیق آخرکار حضرت جبریل علیہ السلام نے قرآن کے ذریعے کردی۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تدبر ایسا نیک کام ہے، کہ جس کے انعام کے طور پر نبوت و رسالت کا تحفہ بھی مل سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ قمر میں بار بار فرمایا ’’کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے۔‘‘
حکمت و ہنر سے نہ صرف آپ اللہ کو پا سکتے ہیں بلکہ تخلیق سے لے کر حشر تک کے کئی رازوں سے بھی پردہ ہٹا سکتے ہیں۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت ہی تھی کہ وہ ’’پردے‘‘ کے رواج کے لیے بے چین ہیں اور آسمان پر بیٹھا رب ان کے حکمت بھرے مطالبے پر راضی ہوجاتا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بوقتِ وصال کاغذ طلب کرتے ہیں کہ اپنے جانشین کا نام لکھ دیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم قرآن کی روشنی میں فیصلہ کریں گے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات مان لیتے ہیں، اور قرآن کی روشنی میں خلافت کے حق دار وہی ابوبکرؓ ٹھیرے جن کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجویز فرماتے۔ ’’بے شک ہم نے قرآن کو آسان کردیا، تو کوئی ہے کہ سوچے اور سمجھے۔‘‘ (سورۃ القمر)
الحمدللہ ہمیں وہ سہولت حاصل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں تھی۔ ہمیں قرآن عطا کیا گیا ہے، اور مذکورہ انبیاء نے بغیر کسی الہامی کتاب کے محض حکمت کے ذریعے اللہ سے رابطہ قائم کیا۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ قرآن اور اسوۂ رسولؐ سے ہمیں موجودہ دور کے ہر مسئلے کا حل مل سکتا ہے۔ محض خلوصِ دل سے حکمت کو استعمال کیجیے۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ صرف عالم سوچیں سمجھیں۔ یہ حکمت عام لوگوں کے لیے ہے، تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔
حکمت کو انگریزی زبان میں Logic کہا جاتا ہے، یعنی اللہ کا جو بھی حکم ہے اگر آپ اس کی Logic کو سمجھ لیں گے تو عین اس مقصد کے مطابق عمل کریں گے جو اللہ کی فی الحقیقت منشا تھی۔ Logic کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: Reasoning (توجیہ) اور Understanding(تفصیلات)… یعنی اگر کوئی چیز ٹھیک ہے تو کیوں ٹھیک ہے، وجوہات کیا ہیں‘… یہ ہوگئی توجیہ۔ اب یہ کیوں نافذ نہیں ہے اور اس کو نافذ کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟… یہ ہے تفصیلات۔ اگر کوئی غلط چیز نافذ ہے تو وہ کیوں غلط ہے، اور کیوں نافذ ہے؟ یہ ہے توجیہ… اور اس کی درستی کیسے ممکن ہے اور اس درستی کو نافذ کیسے کیا جائے؟ یہ ہے تفصیلات۔ ’’بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘
اب میں آپ کو ایک مثال دوں گی۔ قرآن میں بارہا حکم دیا گیا کہ عفو و درگزر سے کام لو۔ اور قرآن میں یہ حکم بھی ہے کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے۔ اب فرض کیجیے کہ اسلامی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے جو قتل کے مجرم کا ہے۔ فیصلہ قرآن کے حکم کے مطابق ہونا ہے۔ ایک مفتی کہتا ہے کہ معاف کردینا خدا کی کتاب کا حکم ہے، اور دوسرا مفتی کہتا ہے کہ نہیں، قرآن کا حکم تو قصاص ہے۔ تو اب قاضی کیسے فیصلہ کرے گا؟ اگر کوئی بوڑھا لاچار ہے جس نے ظلم کی تاب نہ لاکر، شدتِ جذبات میں پہلی بار قتل کردیا تو اُسے معاف کردیا جائے گا، اور اگر کوئی عادی مجرم ہے جو بدمعاشی اور غارت گری کا ماضی رکھتا ہے تو اُس کے بارے میں سزائے موت یا بدلے کی رقم… یعنی قصاص کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ یہ ہے حکمت۔
کچھ عرصہ پہلے ایک واقعہ پیش آیا۔ مختاراں مائی نامی خاتون کا بھائی ایک خاتون سے دوستی میں ملوث پایا گیا۔ جرگہ بیٹھا اور فیصلہ قرآن کے مطابق کیا گیا ’’ناک کے بدلے ناک، آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور ہر زخم کے بدلے ویسا ہی زخم…‘‘ یہ آیت چُنی گئی اور فیصلہ یہ ہوا کہ عزت کے بدلے عزت اور بھائی کے جرم کے بدلے بہن مجرم قرار پائی، اور مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر ’’انصاف‘‘ کردیا گیا۔ نہ جانے سچا واقعہ ہے یا جھوٹا؟ لیکن یہ واقعہ تمام دنیا میں پاکستان اور اسلام کی جگ ہنسائی کا موجب بنا۔ حکمت یہ تھی کہ اس کیس کا فیصلہ اس آیت کے مطابق نہیں ہونا تھا، بلکہ ایسے معاملات کے لیے الگ سے کوڑوں، قید اور سنگساری کی دفعات، کیس کے مطابق، قرآنی قانون میں موجود ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بغیر حکمت کے تو قرآن بھی رحمت نہیں زحمت بن جاتا ہے، اسی لیے اللہ رب العزت نے حکمت کو سب سے بڑی دولت قرار دیا۔ ’’بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘
اسلامی تاریخ میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ حکومتوں کے کہنے پر کسی طرح سرکاری مفتی توڑ مروڑ کر قرآنی آیات کا مفہوم سرکار کی مرضی کے مطابق نکال کر پیش کردیتے ہیں اور عوام کے پاس ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارے نصاب میں ’’حکمت‘‘ کا علم شامل ہی نہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ یہ غلط ہورہا ہے، مگر قرآن کو حکمت سے اخذ کرکے درست بات پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جس علم کو سکھانے کے لیے تمام انبیاء کو بھیجا گیا وہ ’’حکمت‘‘ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نسلِ انسانی کو کتاب، حکمت اور تزکیہ سکھانے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ ہیں۔ آپ حکمت اور تزکیہ کو چھوڑ کر محض کتاب لے لیں گے تو پھر کتاب صرف جنازوں کو قرآن بخشنے کے کام آئے گی، اور اگر کتاب کے ساتھ حکمت اور تزکیہ بھی ہو تو پھر عمر فاروقؓ، ٹیپو سلطانؒ اور طارق بن زیادؒ جیسے سپوت سامنے آتے ہیں۔ ان تینوں چیزوں میں سے بھی اللہ کے حکم کے مطابق ’’حکمت‘‘ سب سے بڑی ’’دولت‘‘ ہے، کیونکہ بغیر کتاب کے بھی کافروں کے گھروں میں پلنے والے صرف ’’حکمت‘‘ کے زور پر پیغمبر منتخب ہوجاتے ہیں، مگر کتاب اور تزکیہ بغیر حکمت کے سراسر گمراہی ہے۔
اب میں آپ سے سوال پوچھتی ہوں: ختم نبوت ہوچکی، ٹھیک… کیا ختمِ رسالت بھی ہوچکی ہے؟ اب اپنا جواب ایک کاغذ پر لکھیے، اس کے بعد آگے پڑھیے۔
’’نبوت‘‘ کا لفظ ’’نبا‘‘ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ’’خبر دینا‘‘۔ رسولؐ نے خبر پہنچا دی۔ جتنی خبر آسمان سے آنی تھی، آچکی۔ مزید کوئی خبر نہیں آئے گی، یعنی ختم نبوت ہوگیا۔ اب یہ خبر تمام انسانوں کو ارسال کرنی تھی، یہ ہے رسالت۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ حجۃ الوداع میں کھڑے ہوکر پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے پہنچا دیا، لوگ کہتے ہیں کہ بے شک پہنچا دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ پھر جن تک پیغام نہیں ارسال ہوا، وہاں تم پیغام پہنچائو گے، یعنی رسالت کا عمل جاری ہے۔ ’’تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘ (سورہ بقرہ)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام کرکے گئے، اب جن تک ہم پیغام نہ پہنچا پائے اور وہ کافر مر گئے، ان کا گناہ امتِ مسلمہ کے سر ہے، جن کو ان کے نبی رسالت کا منصب سونپ کر گئے تھے، اور پھر ہم نے نافرمانی کی، فرض ادا نہ کیا… ’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘
اللہ کرے کہ کسی کو ’’حکمت‘‘ کا مفہوم سمجھ میں آچکا ہو، میری محنت وصول ہوجائے گی۔ یہ اتنا بڑا مضمون ہے کہ اسے مسلمان بچوں کے کورس میں شامل ہونا چاہیے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 23 سال یہی تعلیم فرماتے رہے۔ بہرحال کم از کم مائیں ہی بچوں کو کہیں کہ روز ایک آیت کی مکمل تفسیر لکھ کر دکھائو۔ مائیں خود بھی اسی آیت کی تفسیر لکھیں، پھر بچوں کی تفسیر بھی چیک کریں، ضروری نہیں ہے کہ یہ تفسیریں درست ہوں، مگر آپ کو غور و فکر کا ثواب تو مل گیا۔ پھر ان شاء اللہ آپ کی حکمت بڑھتی جائے گی تو آپ صحیح تفسیر بھی لکھنے لگیں گے۔ پھر بڑے علما کی تفاسیر بھی پڑھیں، لیکن یاد رکھیں کہ بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کو آپ کی زندگی کے مطابق قرآن پر عمل نہیں سکھا سکتا۔ اپنی ذاتی زندگی کو صرف آپ جانتی ہیں، اس لیے آپ کو خود قرآن پڑھ کر، اپنی زندگی میں شامل کرنا ضروری ہے۔ ہم عیسائیوں کی طرح جاکر دینی عالموں کو اپنے گھر کے اندر کی باتیں تو نہیں بتا سکتے، ہمارا دوست اور رازدان صرف ہمارا رب ہے، کسی کے ہاتھ اپنی کمزوری دینا بے وقوفی ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ لہٰذا اپنی ذاتی زندگی کے مسائل قرآن کی مدد سے حل کرنے کی سوجھ بوجھ ضروری ہے۔
جہاں ہم نے بات کی، کہ حکمت کے ذریعے پیغمبری اور پھر کتاب حاصل کی گئی، وہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ پہلے کتاب یعنی قرآن کا علم حاصل کیا گیا اور پھر اس کی برکت سے حکمت بھی حاصل ہوگئی۔ ان لوگوں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام سرفہرست ہے جو انتہائی غصیلے نوجوان تھے، اپنی بہن کے گھر میں چند آیاتِ قرآنی کیا سنیں کہ دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ ایسی حکمت سے نوازا گیا کہ وہ جو مشورہ دیتے، آسمانوں پر سنا جاتا اور آفاقی دینِ اسلام کا حصہ بن جاتا۔ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے اُسے حکمت اور علم کا یہ انمول خزانہ ودیعت کردیا جاتا ہے۔ پھر وہ حال ہے کہ ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ (اقبالؔ) خود اقبال کو ہی دیکھیے، انہیں اکثر حکیم اقبال بھی کہا جاتا ہے، جس کی وجہ ان کی دور اندیشی اور حکمت ہے۔ قرآنی آیات کو ایسے شاعری میں پروتے کہ آیت بآسانی سمجھ میں آجاتی۔ تاریخِ انسانی میں بھلا کتنے ایسے شاعر ہوں گے جنہوں نے نئی مملکت بنا ڈالی! بے شک حکمت سب سے بڑی دولت ہے… ’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘
آج کے دو مسئلے ہیں: خونخوار سرمایہ داری اور طبقاتی نظام۔ ان دونوں کو ایک حدیث سے ختم کیا جاسکتا ہے… حکمت… کسی بھی کاروبار میں منافع آٹے میں نمک کے برابر لو (حدیث)۔ دورِ نبویؐ میں اس علامتی حکم کو بھی صحابہؓ نے مکمل عمل کے ساتھ نبھایا، مگر آج کے دور میں علامت کافی نہیں، لہٰذا اسلام نافذ یوں ہوگا کہ حکومتی سطح پر یہ حکم دے دیا جائے کہ لاگت کے مطابق صرف 50 فیصد منافع کسی بھی پروڈکٹ پر لیا جاسکتا ہے، اور کوئی ٹیکس نہ ہو، صرف سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ لی جائے گی۔ اور ایمان داری سے نگرانی کا نظام ہو جو سب چیزیں چیک کرے، اس طرح 500 روپے کا جو کرتا ائر کنڈیشنڈ بوتیک میں میک اَپ زدہ لڑکیاں 6,000 روپے میں بیچتی ہیں وہ فٹ پاتھ کے پٹھان کے برابر ہی کما سکیں گی، لہٰذا وہ فالتو خرچا بچانے کے لیے سادہ دکانیں بنائیں گی اور وی آئی پی کلچر رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گا۔ یہ اصول ہر چیز پر لاگو ہے۔ امیر کے بازار الگ اور غریب کے الگ نہیں ہوں گے، کیوں کہ منافع دونوں کو ایک ہی ملنا ہے۔ قرآن اور حدیث کا کثیر مطالعہ پابندی سے لازمی ہے، جب ہی آپ اپنی حکمت کو استعمال کرسکتے ہیں کہ کب کیا حکم نافذ ہوگا۔ اس مضمون میں جو مثالیں دی گئیں وہ صرف حکمت سکھانے کے لیے تھیں، خدانخواستہ میرا مقصد کوئی فتوے صادر کرنا نہیں تھا، اس لیے آپ میری نہ سنیں اپنا دماغ چلاتے رہا کریں، کبھی نہ کبھی اللہ کا نور آپ کو مردِ مومن کی نگاہ عطا کردے گا، کسی دن حق آپ کو بھی ایسے ہی بے چین کرے گا جیسے انبیاء کو۔ ’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا، تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘

حصہ