لاحاصل

409

فرح ناز فرح
’’یہ تمہیں کہاں سے ملی؟‘‘ نورین کے خوب صورت بڑے سے ڈرائنگ روم کی دیوار پر ایک خوب صورت اضافہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی اُسے اپنائیت کا احساس ہورہا تھا جیسے برسوں بعد کسی اپنے سے ملاقات ہوگئی ہو۔
’’پچھلے ہفتے آرٹس کونسل میں جو ایگزیبیشن لگی تھی ناں، وہیں سے لی ہے… اچھی ہے ناں؟‘‘ نورین نے چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے تفصیل بتائی۔
شانزے نے پینٹنگ کے بالکل قریب جا کر مصور کا نام پڑھا… اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور وہ لمحوں میں دس سال پیچھے چلی گئی۔
…٭…
ابا جان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ گھر کے اوپر کے پورشن کا ایک کمرہ کرائے پر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ امی کی سخت مخالفت کے باوجود کرایہ دار بھی ڈھونڈ لیا۔ ویسے تو ہمارے لیے نیچے کا پورشن کافی تھا، اوپر کا پورشن صرف فالتو سامان رکھنے کے کام آتا تھا… ایسا فالتو سامان جس کو پھینک دینے میں کوئی حرج نہیں تھا، لیکن ’’ہوسکتا ہے کبھی ضرورت پڑ جائے‘‘ والی امی کی پالیسی کے تحت سنبھال کے رکھ دیا جاتا تھا۔ امی کی تسلی کے لیے دو کمروں میں سے صرف ایک کمرہ کرائے پر دیا گیا تھا۔ اوپر ایک جزوقتی باورچی خانہ موجود تھا۔ کمرے میں اٹیچ باتھ کی سہولت موجود تھی۔ ہم اس وقت نئے نئے کالج جانے لگے تھے اور اپنی چھوٹی بہن اور بھائی کو اپنی موٹی موٹی کتابیں دکھا کر اپنی علمیت کا رعب جھاڑا کرتے تھے۔ امی کو جب پتا چلا کہ کرایہ دار ایک مصور ہے اور اس جگہ کو اپنے اسٹوڈیو کے طور پر استعمال کرے گا تو ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جانے کیسا ہوگا… کرایہ بھی دے سکے گا کہ نہیں… کس طرح کی تصاویر بناتا ہوگا، گھر میں جوان بچی ہے… اور بھی ڈھیروں اندیشے… لیکن جب ابا جان نے ٹھان لی تو ٹھان لی، اور پتا بھی نہ چلا کہ کب کرایہ دار آ بھی گئے۔ نہ شور نہ ہنگامہ۔ اماں کی سختی مجھ پر جتنی بڑھتی جارہی تھی اتنا ہی میرا تجسس کہ: کیا کرتا ہے… کیسا دِکھتا ہے اور تصویریں کیسی بناتا ہے… اور ایک دن موقع مل ہی گیا۔ امی کو قریبی عزیز کی عیادت کے لیے اچانک ہی جانا پڑ گیا۔ ہزاروں تاکیدوں، نصیحتوں اور ہدایتوں کے باوجود امی کے جاتے ہی ایک چھلانگ لگائی اور ہم مصور کے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہ اس وقت موجود نہیں تھا، یہ بات ہم نے پہلے ہی پتا کرلی تھی۔
چاروں طرف بے چہرہ، بے عنوان، بے نام پینٹنگز چھوٹے بڑے سائز میں بکھری پڑی تھیں۔ ایک غالباً ایزل پہ لگی ہوئی تھی جس پر کپڑا پڑا تھا۔ ہر پینٹنگ میں کوئی نہ کوئی شخصی کردار تو تھا مگر چہرہ نہیں تھا۔ سارے تاثرات پس منظر اور جسمانی حرکات سے نمایاں کیے گئے تھے۔ ہم اسکول سے تازہ نکلے ہوئے لاابالی بچے کی طرح آرٹ کی اتنی تمیز نہیں رکھتے، پھر بھی کچھ تھا جو پُراثر تھا۔ شاید رنگوں کا حسین امتزاج، ڈوبتا چاند، ابھرتا سورج، ساحل پر کسی کے نقشِ پا، پانی میں بادلوں کا عکس، یا چوکھٹ پہ رکھا اداس دِیا… ابھی شاید ہم مزید کچھ کھوج لگاتے کہ عمار بھائی آگئے۔ ہم اتنے محو تھے کہ اُن کے آنے کا پتا ہی نہ چلا۔ تصور سے بالکل مختلف… صاف ستھرے، تمیزدار اور تہذیب دار… ہم نے چاہنے کے باوجود بھاگنے کی کوشش نہیں کی، انٹرویو لینے کا جو شوق تھا۔ وہ غالباً ہمیں جانتے تھے، دیکھ کر ٹھٹک گئے۔
’’آپ؟ آپ نیچے سے آئی ہیں…؟‘‘
’’جی، آپ کی پینٹنگز دیکھنے آئی تھی۔‘‘
’’اچھا، کیسی لگیں پھر؟ ویسے یہ میری نہیں ہیں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں سچ مچ نہیں سمجھی اُن کا لہجہ نہ اُن کی بات۔
’’آپ نہیں سمجھیں گی، اب آپ جایئے۔‘‘
انہوں نے سائیڈ میں ہوکر مجھے راستہ دیا۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ ان کے پاس اکثر بڑی بڑی گاڑیاں آتیں اور کاغذ میں لپٹی ان کی پینٹنگز اس چھوٹے سے کمرے سے نکل کر کسی بڑے سے ڈرائنگ روم یا آرٹ گیلری کی زینت بننے کے لیے روانہ ہوجاتیں۔
عمار کی والدہ اور والد ایک دین دار سیدھے سادے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ پنجاب کے کسی چھوٹے سے گائوں میں رہتے تھے۔ عمار پڑھنے کے لیے شہر آیا تھا۔ اُس وقت لوگ فائن آرٹس کو ٹائم پاس سمجھا کرتے تھے۔
مصوری کو اپنا کیریئر بنانے کا ارادہ کیا تو گائوں کے لوگوں نے کفر کے فتوے لگا دیے، ماں باپ نے سرزنش کی کہ ہم نے تجھے افسر بننے بھیجا تھا، تُو تو تصویریں بنانے لگا…! گناہِ کبیرہ ہے، جان ڈالنی پڑتی ہے…
اس کا دل ٹوٹ گیا جب اس نے پینٹنگ کے بکنے پر پیسے اپنی ماں کو بھیجے، اور ماں نے یہ کہہ کر واپس کردیے کہ میں حرام کی کمائی نہیں کھاتی۔ اور پھر اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ چہرے نہیں بنائے گا۔ اس نے ماں کے پاکیزہ آنسوئوں کے سامنے اپنے رب سے کیے گئے وعدے پر اپنی پینٹنگز کو آنکھیں دان کردیں۔ اب اس کی پینٹنگز میں سب کچھ تھا بس چہرہ نہیں تھا۔ امی کا خدشہ درست ثابت ہوا کہ کرایہ کبھی وقت پر نہیں ملا۔ لیکن اس کی شرافت اور کام سے کام رکھنے کی عادت نے امی کے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ امی ابو سے بات کرتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں جھکی رہتیں۔ ہم دونوں بہنیں اکیلے میں اس کا خوب مذاق اڑاتیں۔ امی کے تحفظات دور ہوچکے تھے اس لیے سختی بھی کچھ کم ہوگئی تھیں۔
’’عمار بھائی، امی نے کھیر بھیجی ہے‘‘۔ ہمیں ایک اور موقع مل گیا عمار بھائی سے باتیں کرنے کا۔ عمار بھائی مصروف تھے، برش کے اشارے سے رکھنے کے لیے کہا۔ بڑی سی پینٹنگ کے پیچھے ایک چھوٹی سی پینٹنگ گویا چھپنے کی کوشش کررہی تھی۔ ہماری پُرتجسس نگاہوں نے اسے دیکھ لیا۔
’’عمار احمد‘‘ اس کے نیچے خوب صورت انداز سے چھوٹا سا نام لکھا ہوا تھا۔
’’عمار بھائی اس پینٹنگ پر تو آپ کا نام لکھا ہے؟‘‘
’’ہاں یہ میری ہے…‘‘ جواب آیا۔
’’اور یہ سب…؟‘‘
’’یہ سب میری نہیں ہیں، بک چکی ہیں۔‘‘
’’آپ نے ان کے نیچے اپنا نام نہیں لکھا، کیوں؟‘‘
’’کیونکہ پھر یہ بے قیمت ہوجائیں گی…‘‘ عمار بھائی نے دور خلائوں میں گھورتے ہوئے کہا۔
اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھنے والی مَیں کچھ نہ سمجھ سکی اور کندھے اچکا کر رہ گئی۔ چند ماہ بعد وہ گائوں چلے گئے اور آج دس سال بعد میں ایک ایسی ہی پینٹنگ کے سامنے کھڑی تھی جس میں ایک بے چہرہ عورت کے ہاتھوں سے ساحل کی ریت پھسل رہی تھی اور پس منظر میں تھکا تھکا، بوجھل بوجھل سا سورج ڈوب رہا تھا۔ وہی ساحل، بے چہرہ وجود، اداس سورج… مگر یہ پینٹنگ نہ بے عنوان تھی اور نہ بے نام، اس پینٹنگ کے نیچے ملک کی مشہور مصورہ افشاں نشاط کا نام چمک رہا تھا، اورغالباً افشاں نشاط کا ہی دیا ہوا عنوان ’لاحاصل‘ جگمگا رہا تھا۔ اسی لمحے سمجھ میں آگیا کہ نام کا بڑا ہونا ضروری ہے۔ صلاحیت کا ہونا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ کسی کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کو نام کی۔ اور یہ ادراک ہوا کہ آج ہر شعبے میں جانے کتنے گم نام عمار احمد ہوں گے جو اپنا نام، اپنا فن، اپنا ہنر، اپنی صلاحیتیں بڑے ناموں کے آگے قربان کررہے ہوں گے۔

حصہ