حریم ادب، بامقصد ادب کا علمبردار

358

طوبیٰ احسن
حریم ادب کی خوب صورت اور پُروقار محفل میں شرکت کرنا میرے لیے باعثِ افتخار ہے۔
حریم ادب کی نشستوں میں شامل ہوکر انسان کچھ وقت کے لیے اپنی ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ ایک خوش گوار وقت گزار کر بہت کچھ سیکھنے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بنانے کا موقع ملتا ہے۔ اس محفل میں جن ساتھیوں سے ملاقات ہوتی ہے، آہستہ آہستہ یہ ملاقات ایک گہری محبت اور دوستی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ دل محبت اور خلوص کے عظیم بندھن میں بندھ جاتا ہے۔ دوسرے کی خوشی اپنی خوشی اور دکھ اپنا دکھ محسوس ہوتا ہے۔
ایسی ہی نشستوں میں ہماری ملاقات ایک بہت ہی سینئر اور تجربہ کار قلم کار آسیہ بنتِ عبداللہ سے ہوئی، جو کہ صاحبِ کتاب بھی ہیں، اور پھر بار بار ملنے سے یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا، اور اس تعلق میں محبت اور خلوص کی چاشنی اپنا رس گھولنے لگی۔
آج میں آپ کے سامنے جس نشست کا تذکرہ کررہی ہوں وہ بروز پیر محترمہ فرحی نعیم کے گھر میں رکھی گئی تھی۔ اس محفل میں غزالہ عزیز کے ساتھ ہماری بزرگ اور سینئر قلم کار آسیہ بنتِ عبداللہ بھی موجود تھیں۔ یہ محفل آسیہ آپا کے اعزاز میں ہی سجائی گئی تھی۔ جب فرحی نے مجھ کو بتایا کہ پیر کے دن حریم ادب کا پروگرام رکھا گیا ہے تو بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً حریم ادب کا پروگرام بدھ یا جمعہ کو رکھا جاتا ہے، معلوم ہوا کہ آسیہ آپا جو کہ ایک ماہ ملیر اور ایک ماہ ڈیفنس میں رہتی ہیں، ان کے ڈیفنس میں قیام پذیر بیٹے جو مشہور مصور ہیں، اب امریکا شفٹ ہورہے ہیں، لہٰذا اب ان کا ڈیفنس آنا مشکل ہوگا، اسی لیے ان کے ملیر جانے سے پہلے ان کی محبت اور اپنائیت بھری صحبت اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک ادبی نشست رکھی گئی ہے۔ حریم ادب کا پروگرام بڑا ہی دلچسپ اور متاثر کن ہوتا ہے جس میں سینئر اور تجربہ کار افراد کی آمد پروگرام کو گویا چار چاند لگا دیتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دو گھنٹے پلک جھپکتے ہی گزر جاتے ہیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ تلاوت کے بعد نعت رسولؐ طاہرہ سلیم سوزؔ نے پیش کی۔ تلاوت کے بعد مریم شہزاد نے افسانہ سنایا جس کا عنوان تھا ’’کھلتا کسی پہ کیوں…‘‘ پھر فرحی نعیم نے اپنا خوب صورت تازہ افسانہ سنایا۔ ’’قدرت کے رنگ‘‘ فائزہ کے افسانے کا عنوان تھا جس میں زر اور زمین کے لالچ میں اپنی اولاد کو بھلا دینے والی عورت کا تذکرہ تھا۔
ڈوبتی جاتی ہے جب زیست اے میرے ساتھی
ڈھلتے سورج کو کسی اونچے مکاں سے دیکھو
یہ خوب صورت غزل شبانہ فواد نے سنائی اور خوب داد سمیٹی، ساتھ ہی انہوں نے ایک کہانی بھی سنائی۔
’’دعائے مستجاب‘‘ یہ خوب صورت عنوان اُس افسانے کا ہے جو کہ آسیہ بنتِ عبداللہ کے قلم سے لکھا گیا ہے۔
اب پھر شاعری کی باری آئی۔ طاہرہ سلیم سوزؔ نے بڑی خوب صورت نظم سنائی جو زینب کی شہادت کے پس منظر میں کہی گئی تھی، اس کے دو شعر پیش خدمت ہیں :
ایسا قانون زمانے میں بنایا جائے
ایسے شیطانوں کو گردن سے اڑایا جائے
حوّا کی بیٹی کو نوچا ہے جو بے دردی سے
ابنِ آدم تجھے سولی پر چڑھایا جائے
آخر میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ’’گرین ویزا‘‘ کے عنوان کے تحت نظم سنائی جس میں آسیہ آپا کے جذبات کی اچھی طرح ترجمانی کی گئی تھی۔
غرضیکہ ایک مزیدار اور دلچسپ رسالہ تھا جو کہ سنا گیا، جس میں نعت، غزل، نظم، کہانی، افسانہ سبھی کچھ موجود تھا۔ پھر غزالہ عزیز کی تجربہ کار رائے اور مستند مشوروں نے مزید نکھار پیدا کردیا تھا۔
آسیہ آپا سے گلے مل کر ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے اس دعا کے ساتھ کہ ان شاء اللہ خدا ضرور ملاقات کی کوئی نہ کوئی سبیل نکالے گا، ورنہ آپ کی تحریروں کی صورت میں تو ملاقات ہوگی، کیونکہ آسیہ بنتِ عبداللہ اسلامی ادب کے قافلے کی ایک بہت اہم رہنما ہیں۔ اسلامی ادب میں ان کا اپنا ایک منفرد لہجہ ہے جسے ادب میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اللہ ان کو لمبی زندگی ایمان و صحت کے ساتھ عطا کرے۔ قافلۂ ادب کے ہر ساتھی کا اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو، آمین۔

حصہ