اسلام میں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت

1327

محمد علیم نظامی
اسلام ہمیں اتحاد و یکجہتی کا درس دیتا ہے عالم اسلام میں جتنی ضرورت اس وقت اتحاد و یکجہتی کی ہے اتنی پہلے زیادہ نہ تھی۔ اگرچہ اس وقت بھی تمام مسلمانوں کے درمیان کافی حد تک اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے اور اکثر ممالک اپنے اندر اسلامی تعلیمات کا احترام کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر یہ بات ناپید ہے کہ مسلم ممالک میں مکمل طور پر امن و آشتی کا بول بالا ہے۔ اسلام ہمیں اس بات پر سوچ و بچار کرنے کو کہتا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اس حد تک امن قائم ہوجائے کہ دشمن ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے اور نہ ہی انہیں جانی و مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکے۔ بظاہر پوری طرح دنیا میں مسلم ملکوں کے اندر جتنے بھی مسلمان کہتے ہیں ان کے اندر کافی حد تک ادب و احترام کو اولیت دینے کی سعی ہے اور تمام مسلمان ملکوں میں اس کا تاثر کا واویلا مچایا جاتا ہے کہ اگر مسلمان آج مکمل طور پر اتفاق و اتحاد کو اولیت نہیں دیں گے تو کل دشمن آن پر چڑھائی کرکے انہیں جانی و مالی نقصان پہنچاسکتے ہیں یہ بات قابل غور ہے کہ آج وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اتنی زیادہ ترقی کرلیں گے اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارا ملک (پاکستان) بھی اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ یہاں اسلامی نظام رائج ہوگا اور تمام مسلمان بھائی بھائی بن کر رہیں گے مگر افسوس کہ فرقہ واریت نے آج کل اتنا زیادہ منہ کھول لیا ہے کہ مسلمان ایک ہونے کی بجائے مختلف تفرقوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں اور جو کام اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے تھے وہ یورپ اور دیگر غیرمسلم ملکوں نے انجام دیے اس وجہ سے بیش بہا قربانیاں دے کر بھی ہم اتنے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں شمار نہیں ہوپائے او رہمار املک ابھی بھی اتنا زیادہ مضبوط نہیں ہوا جتنا کہ وقت تقاضا کرتا ہے۔
اسلام مسلمانوں کو رواداری اور مساوات کا درس دیتا ہے مگر ہم ان اصولوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جن کا کوئی ثانی نہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام گھر گھر پہنچاتے رہے اور مسلمانوں کو آپس میں پیار و محبت اور والدین کے علاوہ بچوں‘ نوجوانوں اور بوڑھے سب ہی لوگوں کو ایک دوسرے سے صلح و صفائی کے ساتھ رہنے کا حکم پہنچاتے رہے مگر آج جو صورتحال ہے مسلمان اس سے نابلد ہوچکے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں ان سے اللہ تعالیٰ حساب نہیں لے گا او رنہ انہیں جہنم رسید کرے گا وہ غلط سوچ رکھتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگیں او ران روایات کو اپنالیں جو کہ مسلمانوں کے لیے ہیں او ریورپی ممالک سے آگے نکل جائیں اس بات میں ہماری نجات ہے اور اس میں ہم ترقی یافتہ بن کر دنیا میں راج کرسکتے ہیں۔ گزشتہ سالوں کے اندر اندر ایران ‘ عراق جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کام مسلمان نہیں کررہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے سے بہت آگے جانے کی بجائے پستی کی جانب چلے جارہے ہیں۔ ہم منافقت کرتے ہیں اور جب ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ منافقوں جیسی خصوصیات کو اپنے اندر کیوں غیر ضروری اور غیر اسلامی باتوں کو چھپارہے ہیں تو سچ کو چھپانے کی غرض سے جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور یہ جھوٹ ہماری گردنوں میں پھانسی کا پھندا بن جاتے ہیں اس دلدل میں پھنس کر ہم اپنے رب کو فراموش کر بیٹھے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں سے ناراض ہیں اور دنیا میں جو چپقلش یا منافقت جیسی عادتیں مسلمانوں نے اپنائی ہیں ہم ان سے روگردانی کرتے ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔

بچپن کی یادیں

تبسم ناز
مانی ایک آٹھ سال کا لڑکا تھا۔ پڑھنے لکھنے میں بالکل زیرواور کھیل کود مارپیٹ میں ہیرو۔ مانی کے والدین اور جماعت کے تمام طالب علم ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اس کی شرارتوں سے پریشان تھے۔ کسی مضمون میں اس کا دل نہیں لگتا تھا کسی کی بات نہیں سنتا ابو سمجھا کر تھک چکے تھے اب تو اس کی شرارتوں پر تقریباً روزانہ ہی پٹائی ہونے لگی تھی۔ مانی مار کھا کھاکر اور ڈانٹ کھاکھا کر ڈھیٹ ہوگیا تھا۔ بھائی بہنوں میں بڑا تھا اس کے دو بھائی بہن چھوٹے تھے شمیزا 4 سال کی تھی اور شاہ زیب تین سال کا دونوں ہی ابھی اسکول نہیں جاتے تھے۔ مانی کی شرارتوں سے بے چارے یہ بھی نہیں بچ سکے تھے۔ امی اس کی اس عادت سے سخت پریشان تھیں۔ سب ہی مانی کی شرارتوں سے پریشان تھے پر دادی ہمیشہ اس کی شرارتوں پر یا پھر اس کی پٹائی ہوتی تو اس پر قرآن کی تلاوت کرکے دم کیا کرتی۔ روزانہ صبح جب وہ اسکول جانے لگتا تو دادی کے پاس دوڑ کر جاتا وہ اسے دم کرتی اور کہتیں اللہ تمہیں ہدایت دے اور مانی بھاگتا دوڑتا وین میں بیٹھ جاتا۔
ایک دن اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا مانی نے بھی ایک مضمون لکھا جسے پڑھ کر پورا اسکول ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ مضمون کچھ یوں تھا۔
شام کا وقت تھا۔ میں باغ میں پہنچا دیکھا میٹھے رسیلے درخت سے ایک ہاتھ سے لٹکے تھے۔ میں نے ہاتھ بڑھایا چاہا کہ ایک آدم توڑ لوں۔ آم زور سے چیخا۔ بچائو بچائو یہ لڑکا مجھے کھا جائے گا میں ویسے ہی لنگڑا ہوں اب میری دوسری ٹانگ بھی توڑ دے گا۔ بچائو لوگوں بچائو۔ میں گھبرا گیا دوسرے دم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس آم نے ایک جھولا لیا میرے منہ پر ٹکڑ مار میں درخت سے نیچے پڑا آم کی ہمت کو داد دینے لگا اتنے میں وہ بولا میں طوطا پری مجھے ہاتھ لگائو گے تو کردوں گا طبیعت ہری۔ پیچھے سے آواز یں ہو انور رٹور … اپنا حصہ نہ بٹور۔
میں نے کپڑے جھاڑے سوچا کیسے آم ہیں باتیں کرتے ہیں۔ میں نے سوچا چلو ڈھنڈو دسیری کچھ کروں اسیری۔ دسیری بولا دوست میرا چونسا… ماروں گا ایک گھونسہ میں تو گھبرا گیا۔ یہ کیسا باغ ہے بھاگو بھئی بھاگو۔
یہ مضمون پورے اسکول میں بہت پسند کیا گیا اور اسکول کے ماہانہ رسالے میں بھی شائع ہوا۔ مانی کی عادتوں اور باتوں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ اتنی مہارت سے لکھ سکتا ہے۔ اس لیے ان کی پرنسپل نے اسے اپنے پاس بلوایا اور اس کے والدین کو بھی بلوایا۔ اس کے امی ابو نے کہا یقینا مانی نے اسکول میں کوئی بڑی شرارت کرڈالی ہے کہ ہمیں پرنسپل نے بلوایا ہے۔
بس پھر کیا تھا امی ابو اور مانی سب پرنسپل کے کمرے میں حاضر تھے۔ پرنسپل نے کہا کہ ہمیں بہت خوشی ہے کہ مانی شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین بھی ہے۔ امی ابو حیرانی سے ایک دوسرے کو پھر پرنسپل کو دیکھنے لگے۔ پرنسپل نے تمام تفصیل بتائی اور اسکول کا ماہانہ رسالہ بھی انہیں دیا۔ اس کے والدین بہت حیران اور خوش تھے۔ پرنسپل نے مانی کو ایک تحفہ بھی دیا اور اس کے والدین سے صرف ایک سوال پوچھا کہ میں حیران ہوں سات سال کے بچے کو آم کی اتنی قسموں کا پتا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
والدین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مانی بچپن سے ہی آم کھانے کا بہت شوقین ہے اور یہ ہمیشہ ہم سے آم کا نام ضرور پوچھتا تھا۔
جب یہ تین سال کا تھا تو ا س نے اپنے بابا سے کہا یہ آم ہے لیکن کیا ہم سب کی طرح اس آم کا کوئی نام ہوگا ناں بابا؟ بابا مسکرائے اور کہا ہاں بیٹا اس کا نام چونسا ہے۔ اسی طرح وہ ہر بار آم کا نام ضرور پوچھتا اور اب تو فرمائش کرتا ہے کہ بابا لنگڑا آم لائیں یا دسیری وغیرہ اس طرح اسے آم کے ذائقوں کے ساتھ ساتھ ان کے نام بھی یاد ہوگئے۔ امی نے کہا ہم حیران ہیں کہ اسے یہ نام اتنے اچھی طرح یاد تھے کہ اس نے ان کی مدد سے کہانی بناڈالی۔ واقعی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک نہ ایک ایسی خوبی دی ہوتی ہے جو انہیں دوسروں سے الگ بناتی ہے۔

ہالینڈ یورپ کا امیر ترین ملک

محمد جاوید بروہی
ہالینڈ براعظم یورپ میں واقع ہے اس کے مشرق میں جرمنی شمال اور مغرب میں بحیرہ شمالی اور جنوب میں بیلجیئم ہے یہ یہ دریائے رائن اور ماس کے دہانے پر واقع ہے ہالینڈ کا نیا نام نیدر لینڈ ہے اس کا سرکاری نام مملکت نیدرلینڈ ہے اس کا رقبہ 41548مربع کلو میٹر ہے۔ ہالینڈ کا کمرشل کیپٹل ایمسٹرڈم اور ایڈمنسٹریٹو کیپٹل ہیگ ہے یہاں سیاسی نظام آئینی ملوکیت ہے سربراہ مملکت ملکہ نیدرلینڈ اور سربراہ حکومت وزیراعظم کہلاتا ہے ہالینڈ کے لفظی معنی ہیں خالی زمین Hollow Land اس کا شمار یورپ کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے اہم شہر ایمسٹرڈم ‘ دی ہیگ‘ الریکٹ اور ٹریڈیم اور پارلم ہیں۔ ایمسٹرڈیم کو ڈائمنڈسٹی کہا جاتا ہے دی ہیگ ہالینڈ کا دوسرا بڑا شہر ہے صوبہ جنوبی ہالینڈ کا صدر مقام ہے ہیگ کے لغوی معنی میں امیر کی رہائش گاہ ہیگ دنیا کا واحد شہر ہے جس کے نام کے ساتھ The لکھا جاتا ہے بین الاقوامی دولت انصاف کا صدر دفتر ہیگ یں واقع ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ہیگ میں 1945 ء میں قائم ہوئی تھی ایمسٹرڈیم ہیگ سے 31 میل کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ ہیگ کی بنیاد ولیم دوم نے تیرہویں صدی میں رکھی تھی۔ ہالینڈ کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے۔ یہاں کی سب سے بڑی بندرگاہ روٹریڈیم ہے۔ ہالینڈ کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے یہاں اکثریت کا مذہب عیسائیت ہے۔ یہاں کی سرکاری زبان ڈچ ہے۔ انگریزی ‘ فرنچ اور جرمن بھی بولی جاتی ہے۔ سری نام کی سرکاری زبان بھی ڈچ ہے ہالینڈ دنیا کا سب سے نیچا ملک ہے اسے پھولوں او رپن چکیوں خا ملک کہا جاتا ہے ہوائی پن چکیوں کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ بجلی ہالینڈ میں پیدا کی جاتی ہے یہاں کا قومی نشان گل لالہ ہے اہل ہالینڈ نے براعظم آسٹریلیا کو دریافت کرنے کے بعد اس کا نام نیوہالینڈ رکھا دنیاکا عظیم مصور دان گاگ کا تعلق ہالینڈ سے تھا ہالینڈ دنیا بھر کو سب سے زیادہ مقدار میں کھانے پینے کی اشیاء برآمد کرنے والا ملک ہے۔ یہاں کی کرنسی یور وہے۔ یہاں اسٹاک ایکسچینج 1602 ء کو ایمسٹرڈیم میں قائم ہوا تھا۔ ہالینڈ فیفا ورلڈ کپ کا چیمپئن رہ چکا ہے ہاکی اور فٹ بال یہاں کے مقبول کھیل ہیں۔ ہیند بال کے بین الاقوامی مقابلوں کے لیے قوانین 1927ء کو ایمسٹرڈیم میں منظور ہوئے‘ ہینڈبال کی بین الاقوامی تنظیم ایف آئی ایچ اے کا قیام 14 اگست 1928ء کو ایمسٹرڈیم میں عمل میں آیا کک باکسنگ بھی یہاں کا مقبول کھیل ہے۔
یہاں کی قومی ایئر لائن کے ایل ایم رائل ڈچ ایئر لائن ہے۔ بین الاقوامی ہوائی اڈوں میں سطح سمندر سے سب سے نیچے ہوائی اڈا ایمسٹرڈیم ہے یہاں کا جھنڈا تین رنگوں سرخ سفید اور نیلا پر مشتمل ہے۔ ہالینڈ کی ملکہ ولپینا 1890 ء سے 1948 ء تک 58 سال حکومت کی۔ یہاں کا قومی ترانہ ولیم آف ناسائو ہے۔ یہاں کا وقت پاکستان کے وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے یہاں کے قدرتی وسائل میں نمک‘ قدرتی گیس ‘ تیل اور خام پیٹرولیم شامل ہیں۔

حصہ