شرم جب آتی نہیں شرمائیں کیا

11263

خالد معین
آخری حصہ
گزشتہ دنوں ’ادب میں بیگمات کا کردار‘ نامی اظہاریے پر احباب نے پسندیدگی بھی ظاہر کی اور اس ضمن میں کچھ مشوروں سے بھی نوازا۔ کچھ احباب کا کہنا تھا کہ اُن مظلوم شوہروں کا حال بھی بیان کیا جانا چاہیے، جن کی بیگمات معروف شاعرات ہیں۔ اس ضمن میں میرا ذہن شاعر ِ خوش نوا، خالد عرفان کی ایک ایسی نظم کی جانب گیا، جو عین اسی موضوع پر ہے اور اُنہوں نے حسب ِ روایت اس نظم میں شگفتہ بیانی کے ساتھ طنز میں بھی شائستگی اور تخلیقی اُپج کو ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے۔ خالد عرفان اگرچہ کئی دہائیوں سے امریکی ریاست نیویارک میں مقیم ہیں، تاہم امریکی شہریت کے باوجود اُن کے اندر کا مشرقی شاعر عموماً ایسے موضوعات پر زیادہ متحرک رہتا ہے، جن کا تعلق براہِ راست پاکستانی معاشرے کے گہرے تضادات سے ہے۔ وہ جدید زندگی کے بدلتے ہوئے معمولات پر بھی نظر رکھتے ہیں اور اپنی تہذیب اور اخلاقیات سے بھی صرف ِ نظر نہیں کرتے۔ دلاور فگار کے بعد خالد عرفان بجا طور پر اکبر الٰہ آبادی کی عظیم روایت کو بہ حسن و خوبی آگے بڑھا رہے ہیں، ایک جانب وہ نکتہ آفرینی کے فن سے واقف ہیں تو دوسری طرف طنزو مزاح میں برجستگی اور فنی چابک دستی سے بھی خوب آشنا ہیں۔ فیس بُک نے گزشتہ چند برسوں سے خالد عرفان کو پاکستان کے ادبی دوستوں سے قریب رکھا ہوا ہے اور یوں وہ امریکا کے ہوتے ہوئے بھی پاکستانی ادب کا مستقل حصہ تصور کیے جا سکتے ہیں۔ آئیے! اب خالد عرفان کی نظم پڑھتے ہیں، جو جگہ کی تنگی کے باعث تھوڑی سی مختصر کردی گئی ہے:
بے چارہ
(ایک مشہور شاعرہ کے شوہر کی فریاد)

کہیں میری محبت کھو گئی ہے
بہت مشہور بیوی ہوگئی ہے
اکیلا شخص ہوں کیا کیا سنبھالوں
کروں میں جاب یا بچوں کو پالوں
کچن میں اب نہیں کام اُس کا
میری ہانڈی ہے لیکن نام اُس کا
بہت سے شاعرو ں کو کھَل رہا ہوں
میں اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں
کبھی ٹی وی سے لائیو آ رہی ہے
ابھی آئی، ابھی پھر جا رہی ہے
یہ اردو کے رسالوں کے لیے ہے
ادب کے سب حوالوں کے لیے ہے
یہ تنقیدی نشستوں میں ملے گی
مگر مجھ کو یہ قسطوں میں ملے گی
سمندر پار بھی مشہور ہے یہ
مگر میری پہنچ سے دور ہے یہ

اطہر شاہ خان کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔ ایک جانب وہ ٹی وی ڈراموں کے کام یاب اور مشہور ڈراما نگار ہیں، جن کے کریڈٹ پر ’’انتظار فرمایئے،‘، ’’ہیلو ہیلو‘‘، ’’باادب باملاحظہ‘‘ اور ’’ہائے جیدی‘‘ وغیرہ موجود ہیں، تو دوسری طرف اُنہوں نے ڈراما نگاری کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ اُنہوں نے ’جیدی‘ کا بے مثال کردار بھی تخلیق کیا اور دوسری طرف خود ’جیدی‘ بن کے لاکھوں کروڑوں دلوں پر راج بھی کیا۔ اپنی ڈراما نگاری کی طرح اطہر شاہ خان نے ’جیدی‘ کے تخلص سے طنز و مزاح کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ کئی دہائیوں تک مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے اور اپنی محبتی شخصیت کے ساتھ اپنی خوب صورت اور خوب سیرت مزاحیہ شاعری کا ڈنکا بجاتے رہے۔ اِدھر چند برسوں سے اطہر شاہ خان جیدی ناسازی ِ طبع کے باعث مشاعروں اور ادبی دنیا سے دور ہیں، تاہم کراچی کی ادبی فضا اُنہیں پہلے کی طرح یاد کرتی ہے اور خواہش مند ہے کہ وہ ایک بار پھر کراچی کے مشاعروں کو رونق بخشیں اور کم معیار والی اُس مزاحیہ شاعری پر گرفت بھی کریں، جو پھکڑپن اور عامیانہ سطح کی نمایندہ ہے:
سعید آغا کا تعلق خاص ہماری نسل سے ہے، اور ہم سب دوست کم و بیش 1980ء کی دہائی میں آگے پیچھے جہان ِ ادب میں وارد ہوئے۔ سعید آغا میں بڑی خوبیاں ہیں، جن میں شخصی خوبیاں بھی ہیں اور شاعرانہ خوبیاں بھی۔ وہ بڑے ہنس مکھ اور بزلہ سنج ہیں، دھیما مزاج رکھتے ہیں، لڑائی جھگڑے سے دور رہتے ہیں، البتہ غیبت اور چائے کے شوقین کہے جا سکتے ہیں۔ اچھے فقرے کا مزا لیتے ہیں اور اچھا فقرہ چست کرنا بھی جانتے ہیں، لیکن اس فقرے بازی میں بھی اپنی مرصع مزاحیہ شاعری کی طرح تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، یعنی وہ ذاتی زندگی میں بھی اپنی مزاحیہ شاعری کی طرح متوازن اور مہذب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دوست دار اور خیال دار بھی ہیں، چھوٹوں سے شفقت کا سلوک روا رکھتے ہیں اور بڑوں کا دل سے ادب کرتے ہیں۔ اُیک زمانے تک اُن کی ویسپا، اُن کی پہچان رہی، لیکن اب چند برس سے نہ وہ ویسپا رہی اور نہ ہمارے شگفتہ مزاج سعید آغا کی آمد ورفت ہی مشاعروں میں پہلے جیسی رہی۔ سنا ہے کہ اُن کی طبیعت بھی پہلے جیسی نہیں رہی، لیکن وہ اب بھی اپنی ہمت اور دوستوں کے اصرار پر کبھی کبھی کسی مشاعرے اور شعری نشست میں اپنی منفرد مزاحیہ شاعری کی جھلکیاں دکھانے آ جاتے ہیں، اور درحقیقت کراچی میں مزاحیہ شاعری پر آئے ہوئے اس بُرے اور کڑے وقت میں سعید آغا جیسے ٹھکے ہوئے نکتہ سنج مزاحیہ شاعر کا دم بڑا غنیمت ہے۔ وہ اپنی مزاحیہ شاعری میں اکبر الٰہ آبادی، دلاور فگار اور خالد عرفان کی تخلیقی روش پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنے لیے ایک جداگانہ تخلیقی فضا تعمیر کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔ مشاعروں میں اُنہیں خوب خوب سنا جاتا ہے، ایک جانب اُنہیں سنجیدہ سامعین کی خصوصی توجہ حاصل ہے، دوسری طرف وہ خواص کے بھی پسندیدہ ہیں۔ دُعا ہے کہ سعید آغا جلد ازجلد مکمل طور پر صحت یاب ہوجائیں اور پہلے کی طرح کراچی کے مشاعروں میں اپنی شائستہ اور نکتہ آفریں مزاحیہ شاعری کا جادو بکھریں:

ایک صاحب کل پجیرو میں نظر آئے مجھے
یوں لگا جیسے کوئی آپے سے باہر ہو گیا
میں نے پوچھا، آپ ڈاکو ہیں کہ لیڈر، تو کہا
پہلے ڈاکو تھا، ترقی پا کے لیڈر ہو گیا

بڑے میاں سے بڑی بی نے کہہ دیا جل کر
تم اس قماش کے ہوتے تو گفت گو کرتے
وہ لے اُڑی ہے تمھارے کمائو بیٹے کو
اب اُس کے گھر نہیں جانا بہو بہو کرتے

تھا اُس کے بالوں پہ یہ تبصرہ مکینک کا
یہ تم سے کس نے کہا بے وقوف لگتی ہو
اُدھر سے دیکھو تو بونٹ ہو فوکس ویگن کا
اِدھر سے دیکھنے میں ہائی روف لگتی ہو

حیدر حسنین جلیسی کی شاعرانہ انٹری 1990ء کی دہائی کے اختتام پر ہوئی، ابتدا میں وہ کچھ دبے دبے سے رہے،اور بڑی حد تک محتاط بھی رہے۔ وہ دلاور فگار کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر دلاور فگار کی زندگی میں ایسی کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے کہ دلاور فگار جیسے عالی دماغ کو متاثر کرتے، مگر دلاور فگار کے بعد حیدر حسنین جلیسی آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہوئے۔ سیاسی اور سماجی معاملات پر اپنے بے باک قطعات سے انہوں نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں پہلے کراچی کے مشاعروں میں جگہ بنائی اور اب گزشتہ برس سے وہ باہر کے مشاعروں میں بھی آنے جانے لگے ہیں۔ ویسے ابھی اُن کے بیرونی مشاعرہ جات کے سفر کا آغاز ہی ہوا تھا کہ چند دن قبل اچانک اُن کی طبیعت کی خرابی کی خبریں سامنے آئیں۔ دُعا ہے کہ حیدر حسنین جلیسی جلد از جلد صحب یاب ہوجائیں اور دوبارہ اسٹیج پر اپنے مزاحیہ قطعات کے رنگ اپنے مخصوص جملوں اور آواز کے مخصوص زیرو بم کے ساتھ بکھریں۔ گزشتہ برس کے اختتام پر اُن کا پہلا مزاحیہ مجموعہ بھی شایع ہوا ہے، جب کہ ابھی اُنہیں مزاح میں مزید بہت سا کام بھی کرنا ہے۔ ویسے وہ بعض اوقات مشاعروں میں مزاح کے نام پر اپنی سطح سے نیچے آجاتے ہیں، جو دلاور فگار کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے مناسب نہیں:
حکیم ناصف کی اندرون ِ سندھ سے کراچی آمد کو بھی اب کم و بیش دس پندرہ برس سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے، اور اس مختصر عرصے میں بھی اُنہوں نے اپنی ہمہ صفت شخصیت کے بل بوتے پر مزاح کے میدان میں خاصی جگہ بنائی ہے۔ وہ مزاح اور خالص مزاح کے آدمی ہیں۔ مشاعرہ پڑھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ مرے سے مرے مشاعرے میں بھی اپنی مزاحیہ شاعری کے انتخاب اور اپنی شان دار پُرفارمنس سے جان ڈال دیتے ہیں۔ بلاشبہ حکیم ناصف کی ٹائمنگ اعلیٰ ہے، وہ مشاعرہ پڑھتے ہوئے اپنی بلند آہنگ آواز اور اُس سے بڑھ کے اپنی بے ساختہ پُرفارمنس سے عوام اور خواص کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی کالج یا تعلیمی ادارے میں کون سا کلام پڑھنا ہے اور کسی عام سے ٹھس مشاعرے میں کون سا مزاحیہ کلام چلے گا، بلکہ دوڑے گا۔ وہ اس حوالے سے باقاعدہ محنت اور ہوم ورک کرتے ہیں۔ اس کے بعد مشاعرے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں اُن کی پُرفارمنس کہیں زیادہ مؤثر بھی رہتی ہے۔ حکیم ناصف اسکرین کے آدمی ہیں، وہ خاصے عرصے تک پی ٹی وی پر مزاحیہ شاعری کا ایک پروگرام بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے ناظرین سے داد کی وصولی اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تاہم اُن کی مزاحیہ شاعری میں کم تناسب ہی سے سہی، وہ عنصر کبھی کبھی ضرور جھلک جاتا ہے جو کسی سنجیدہ مزاحیہ شاعر کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اُنہیں مشاعرے کی کام یابی سے ہٹ کر اپنی مزاحیہ شاعری کو کاغذ پر ضرور پرکھنا چاہیے:

’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
تُو نے یہ پیار کی سوغات کہاں چھوڑی ہے
میرے شکوے پہ جھلا کے، تنک کے بولی
یہ مری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے

پیار کی قبر پر چڑھے ہیں گلاب
یہ محبت بھی مالیاتی ہے
کاش وہ چاکلیٹ کھا لیتی
عالیہ، چھالیہ ہی کھاتی ہے

میں مبائلرز ہوں کہ ای میلر
سب ترقی کے شاخسانے ہیں
لیکن ان ظالموں کے شَر کے طفیل
ڈاک خانے، یتیم خانے ہیں

حیدرآباد سے حال ہی میں کراچی منتقل ہونے والے بزرگ شاعر عنایت علی خان کا ذکر ہمارے اس اظہاریے میں اس لیے نہیں ہوسکا کہ اُن کی دل آویز شخصیت،کارگر مزاح اور پُراثر اصلاحی شاعری ایک بالکل الگ مضمون کی متقاضی ہے۔ مزاح کے حوالے سے کراچی میں مسٹر دہلوی، شوکت تھانوی، ظریف جبل پوری، سید محمد جعفری، مجید لاہوری اور زیڈ ایچ ہنگامہ وغیرہ کی طویل خدمات بھی قابلِ ستائش ہیں، مگر ہم یہاں ایک حوالے سے کراچی میں طنز و مزاح کے موجودہ منظرنامے کا جائزہ پیش کریں گے۔ اس لیے عنایت علی خان کے فن اور شخصیت پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔ اب آخر میں جس شاعر کا ذکر مزاح کے حوالے سے ضروری محسوس ہوتا ہے، اُن کا نام علا الدین خان زادہ ہے۔ اگرچہ وہ ممتاز صحافی ہیں، جنہوں نے پہلے اخبارات میں خود کو منوایا۔ اُس کے بعد الیکٹرونک میڈیا میں صحافت کے معیارات بڑھائے۔ وہ پریس کلب کراچی کے مرکزی عہدوں پر بھی براجمان رہے، اور اب چند برس سے باقاعدہ شاعری کے میدان میں قدم جمارہے ہیں۔ لکھ تو وہ پہلے سے رہے تھے لیکن صحافتی مصروفیات کے باعث شعرو ادب کی محفلوں میں کم کم دکھائی دیے، تاہم اب وہ مشاعروں میں تواتر سے نظر آنے لگے ہیں۔ علا الدین ہم دم کے نام سے حال ہی میں اُن کا سنجیدہ شعری مجموعہ ’محبتوں کا سفر‘ سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے اُجڑتی ہوئی کراچی کے نوحے بھی لکھے ہیں، محبتوں کا ذکر بھی کیا ہے، معاشرتی تضادات اور برائیوں پر کھل کے تنقید بھی کی ہے، تاہم یہاں اُن کی شاعری کے دوسرے رُخ یعنی مزاحیہ شاعری پر بات کا محل ہے۔ علا الدین ہم دم مزاحیہ شاعری کے لیے ’بندۂ گستاخ‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ اُن کی مزاحیہ شاعری میں کہیں کہیں اچھی خاصی چھیڑ چھاڑ اور گرما گرمی دکھائی دیتی ہے، یہاں وہ اپنی فطری شگفتہ بیانی کا سہارا بھی لیتے نظر آتے ہیں، عام طور مزاحیہ شاعری کے لیے وہ غزل کی فارم کو پسند کرتے ہیں اور غزل ہی کی طرح مزاح کے پیرایے میں جداگانہ شعر لکھتے ہیں۔ گستاخی معاف میں نے گزشتہ دنوں ایک مشاعرے کے دوران خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مزاحیہ غزلوں کے ساتھ ساتھ اب مزاحیہ قطعات پر توجہ دیں، بندۂ گستاخ کو اور تمام گستاخیاں تو خیر معاف ہیں لیکن اُنہیں ان دل پسند گستاخیوں کے درمیان ایک حد ِ اعتدال کا خیال ضرور رکھنا چاہیے اور اس بات کا بھی ادراک رکھنا چاہیے کہ اُن کے الفاظ مصرعے اور شعر میں جو علامتی اور استعاراتی تصویریں بناتے ہیں، وہ خود اُن کے تخلیقی ذہن میں بھی انہی معنوں میں موجود ہوں، ورنہ معنی کے تصادم سے بعض اوقات اچھا بھلا شاعر بھی عجیب سا لگنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کو مزاح کے کم تر معیار پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے:

یہ ہائے ہائے دعا و سلام تھوڑی ہے
اور ایسا کرنا کوئی اچھا کام تھوڑی ہے
بڑے کمال سے کی چائنا کٹنگ میں نے
کسی بھی لسٹ میں فدوی کا نام تھوڑی ہے
حرام گوشت سے بس اجتناب لازم ہے
شراب، سود، کرپشن حرام تھوڑی ہے

حصہ