کیا جنسی تعلیم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی روکنے میں معاون ہوسکتی ہے؟

921

وومن اسلامک لائرز فورم
اولاد اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کی حفاظت اور تربیت ایک عظیم اور اہم ترین ذمہ داری ہے۔ بچے کا رویہ اور اس کی سوچ معاشرے کی عکاسی کرتی ہے، جو معاشرے کی کردار سازی میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔
بدقسمتی سے ایک طرف والدین اولاد کی تربیت جیسی اہم ذمہ داری میں نہ صرف ناکام نظر آرہے ہیں، بلکہ اس حوالے سے ان کے معیارات بھی بے حد پسماندگی کا شکار نظر دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا اور ہمارا لبرل طبقہ بھی بچوں، خاص طور پر نوجوانوں کو، ان کی اصل سے اکھاڑ پھینکنے کی سرتوڑ کوشش میں لگا ہوا نظر آرہا ہے۔
قصور کے افسوس ناک واقعہ اور اس جیسے کئی واقعات کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہ سانحہ نہ صرف عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ حکمرانِ وقت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اس سانحہ کو ایک طرف ہمارا میڈیا اپنی شہرت اور ریٹنگ کا ذریعہ بناتا نظر آتا ہے، تو دوسری طرف لبرل طبقہ اپنے مذموم عزائم کے لیے اسے استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس واقعے کی آڑ میں ان دونوں (میڈیا اور لبرل) مافیا نے جنسی تعلیم کو فروغ دینے کا نعرہ بھی بلند کردیا ہے، جو کسی بھی عقل وشعور رکھنے والے کے لیے بہت بڑا سوال ہے۔
کیونکہ اگر جنسی تعلیم کی تاریخ، وجوہات اور مضمرات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں مغرب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی، جنسی جرائم، HIV/AIDS کی شرح، بغیرشادی کے بچوںکی پیدائش کی شرح، اور ان کی پیدائش کو روکنے جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے جنسی تعلیم کو متعارف کروایاگیا، جس کا مقصد عوام الناس کو حفاظت کے طور طریقے سے آگاہی دینا تھا، نہ کہ بڑھتے ہوئے جنسی رجحان کو روکنا۔
جب ہم اس کے مضمرات پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکا جیسا ملک جو سپر پاور کہلاتا ہے، وہاں زنا بالجبرکی شرح آج کی 21 ویں صدی میں ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی صرف ایک ریاست کیلی فورنیا میں 2016ء میں زنا کی شرح 13700 واقعات سے اوپر رہی ہے۔ مغرب میں ہر آٹھ منٹ میں ایک بچہ جنسی حملے کا شکار ہوتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ جنسی تعلیم کا فروغ ایک ناکام تجربہ بن چکا ہے، اس تعلیم نے مغرب کے خاندانی نظام کو نہ صرف برباد کردیا ہے بلکہ معاشرے کو HIV/AIDS جیسی جنسی بیماریوں اور ناجائز بچوں کی پیدائش کے ساتھ ساتھ جنسی جرائم کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
اب ہم آتے ہیں دینِ اسلام کی طرف کہ یہ جنسی رجحان اور اس سے وابستہ جرائم کا کیسے تدارک کرتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ دنیا کے قوانین بنتے ہی اُس وقت ہیں اور حرکت میں بھی اسی وقت آتے ہیں جب جرم سرزد ہوجائے۔ جبکہ دینِ اسلام جرم سرزد ہونے سے پہلے اس کا سدباب پیش کرتا ہے۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کی اچھائیوں، برائیوں، ان کی پسند اور ناپسند سے خوب واقف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ ہمارا خالق ہے جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے، وہ انسان کی فطرت سے بخوبی واقف ہے۔
سورۃ الملک آیت 14 میں اللہ فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘
اللہ باخبر ہے مرد اور عورت کی جسمانی اور ذہنی ساخت، صلاحیت اور ضرورت سے… اور ان کی چھپی ہوئی اچھائیوں اور برائیوں سے خوب واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ستر وحجاب کے احکامات نازل فرمائے ہیں جو جنسی بے راہ روی کا راستہ اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی روک یتے ہیں۔
اب مسئلہ بچوں کو صرف جنسی رجحان سے محفوظ رکھنا ہی نہیں ہے، بلکہ ان کو آگاہی دینا بھی مطلوب ہے، تاکہ ان میں اچھائی اور برائی کی تمیز پیدا ہوسکے۔
چونکہ یہ نسلِ انسانی کی روحانی، اخلاقی اور ذہنی بقا کا معاملہ ہے، اس لیے اسلام نے کچھ قواعد وضوابط وضع کیے ہیں جو بڑھتے ہوئے بچوں میں جنسی احساسات اور معاملات کو ابتدا ہی سے کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
’’اور وہ (شیطان) تو بس تمہیں بدی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘
دوسری طرف فرائیڈ جس کو آج کے دور میں نفسیات کا امام مانا جاتا ہے، کے نظریے سے انسانی فطرت کو پرکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اُس کے نزدیک بھی سب سے طاقت ور عنصر ہی سیکس ہے۔ مگر اس کا سدباب دینے میں اور ذہن سازی کرنے میں وہ مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق:
٭ جب بچہ بڑا ہوجائے، سات سال کا، تو اس کا بستر ماں سے علیحدہ کردیا جائے۔ استطاعت ہو تو کمرہ ہی علیحدہ کردیا جائے۔
٭دو سگے بھائیوں… یا بہنوں کو بھی ایک چادر تلے سونے کی اجازت نہیں۔
٭ مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک، جبکہ خاتون کا مکمل جسم ہے۔ (نابالغ بچی ہو تو چہرہ، ہاتھ، پائوں شامل نہیں)۔ ستر وہ جگہ ہے جہاں کسی غیر کا یا دوسرے کا ہاتھ لگانا نہایت غیر اخلاقی حرکت ہے۔
٭ بچیوں کے بڑے ہوتے ہی اُن پر ستر و حجاب کے احکامات نافذ العمل ہوجانے چاہئیں۔
٭ والدین کو تاکید کی گئی ہے کہ بچہ بڑا ہوجائے تو اس کی شادی میں عجلت کریں۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر شادی میں دیر کرنے سے لڑکا کسی غلط کاری میں ملوث ہوا تو اس کا وبال باپ پر بھی آئے گا۔
٭ جنسی جذبات کو مشتعل کرنے والی چیزوں کی سختی سے روک تھام کے لیے بھی اسلام نے بڑے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ رقص، موسیقی، شراب، منشیات وغیرہ… سب کو حرام قرار دے دیا ہے۔
اسی طرح مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی روک تھام بھی اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔
تجاویز:
٭ غیر اخلاقی ویب سائٹس پر پابندی لگانی چاہیے۔ چین کمیونسٹ ملک ہوتے ہوئے فحش سائٹس پر پابندی لگا سکتا ہے تو پاکستان تو ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں پابندی پر تردد ایک سوالیہ نشان ہے۔
٭پیمرا کو اپنے قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
٭ بچوں کے مروجہ حفاظتی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت پر زور ڈالا جانا چاہیے۔
٭ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر مجرم کو، خاص طور پر جنسی جرائم میں ملوث مجرمان کو فی الفور عوام کے سامنے سزائیں دینی چاہئیں۔ ان کو عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے۔
٭ علماء کو اپنا کردار بھرپور اور مؤثر انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کو، خاص طور پر نوجوانوںکو گائیڈ کریں کہ بڑھتی ہوئی بے راہ روی سے نوجوان طبقہ اپنے آپ کو کس طرح بچا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے کردار کو بھی بھرپور طریقے سے اجاگرکرنے کے لیے آگے آئیں۔
٭ حکمران طبقہ جو عوام کا خادم ہوتا ہے، ملک میں ہونے والے جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کی صورت میں اپنی نااہلی کو قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے دست بردار ہوجانے سے دریغ نہ کرے۔ یعنی معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری اٹھائیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ان کی ناکامی کو ظاہر کررہی ہے، اس کے باوجود ان کا اپنے عہدوں پر رہنا ان کی بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ عمل کی غمازی کرتا ہے۔
٭ بڑھتے ہوئے جنسی جرائم میں والدین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ والدین اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں۔ بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی اور میڈیا کے کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کو سمجھیں۔
٭ میڈیا کی بے لگام آزادی اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی بچوں اور نوجوانوں پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہی ہے، اور یہ والدین کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے تبدیل ہوتے ہوئے رویوں اور سوچ کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور باخبر رہیں۔
٭ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اور بچوں کے درمیان اعتماد کا ایسا مضبوط رشتہ استوار کریں کہ بچہ اپنا ہر مسئلہ، ذہن میں اٹھنے والا ہر سوال اور ہر احساس صرف اپنے والدین سے ہی پوچھے اور شیئر کرے۔
٭ نکاح اور شادی کے مسائل اور طریقہ کار کو سہل کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری رسومات، جہیز اور شادی کے کھانوں پر بے انتہا خرچا شادی جیسے اہم امور میں مسائل کھڑے کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی پسند کی شادی کے معاملات کو سنجیدگی اور بردباری سے حل کریں۔
٭ این جی اوز، اور اسکولوں کو اس بات کی اجازت نہیںدینی چاہیے کہ وہ جنسی مسائل کے حوالے سے بچوں کے لیے لیکچرز یا پروگراموں کا انعقاد کروائیں۔ بلکہ والدین کے لیے اس حوالے سے آگاہی پروگرام منعقد کروائے جاسکتے ہیں تاکہ بچوں کے مسائل صرف والدین ہی حل کریں۔
٭ جرائم کی تحقیق اور انصاف کی فراہمی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے، تاکہ مجرم اپنے کیفرِکردار تک پہنچے اور اس کی عبرت ناک سزا معاشرے میں موجود ہر شہری کے لیے نہ بھولنے والا سبق بنے۔

حصہ