آج اور کل

560

اسمامعظم
سوم انعام یافتہ
’’آج‘‘ سے مراد یہ دنیا کی پوری زندگی ہے، اور ’’کل‘‘ سے مراد آخرت، یعنی وہ یومِ قیامت جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔
دنیا کی زندگی جو فانی ہے، ختم ہوجائے گی۔ آخرت جو دائمی ہے، ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ دنیا (آج) کی حقیقت سورۃ الکہف آیت نمبر 45 تا 49 میں اللہ تعالیٰ اس طرح بیان کرتا ہے: (ترجمہ) ’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھائو کہ آج ہم نے آسمان سے مینہ برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی، اور کل وہی نباتات بُھس بن کر رہ گئی، جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الشوریٰ آیت 26 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
’آج‘ جو یہ دنیا ہے بالکل بے ثبات ہے، فانی ہے، حقیر ہے، کم تر ہے، اس کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے جیسے سمندر کے آگے انگلی میں لگے پانی کی ہوتی ہے، پہاڑ کے آگے ریت کے ایک ذرے کی ہوتی ہے کہ ہوا چلی اور وہ انگلی کا پانی چند سیکنڈ میں سوکھ گیا، اور ریت کا ذرہ اڑ کر غائب ہوگیا۔
آج ہم جس کھیتی یا باغ کو لہلہاتا دیکھ رہے ہیں، سرسبز و شاداب دیکھ رہے ہیں، جو آج ہمیں عروج پر نظر آرہی ہے، وہ کل بھس بن کر رہ جائے گی، اور اس دنیا میں اتنا ہی دل لگانا ہے جتنا کہ یہاں رہنا ہے، اصل فکر آخرت کی کرنی ہے۔ حدیث میں ہے ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘
یعنی اِس دنیا میں ہم جو بھی اعمال کریں گے وہ آخرت میں پائیں گے، اور یہ بھی کہ جیسے اعمال کریں گے آخرت میں ان کا ویسا ہی پھل پائیں گے۔ اگر اِس دنیا میں اچھے اعمال کریں گے، اچھا پھل آخرت میں پائیں گے… اور اگر برے اعمال کریں گے، ویسا ہی برا بدلہ آخرت میں پائیں گے یعنی ’’جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے‘‘ کے مصداق ہمیں اچھا یا برا بدلہ آخرت میں ملے گا۔ لہٰذا عمل کرتے ہوئے ہمیں اس کا خیال رکھنا ہوگا۔
دنیا ایک امتحان گاہ ہے، ہمیں یہاں آزمانے اور امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔ قرآن میں مکمل ضابطۂ حیات دے دیا گیا۔ ہم اس کو ترجمہ و تفسیر سے سمجھ کر پڑھیں، اور جو پڑھیں اس پر عمل بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کے آئینے میں پرکھے گا۔ یعنی اِس دنیا میں جو امتحان گاہ ہے، ہمیں دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اسی دنیا میں رہ کر ہمیں دین پر عمل کرنا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو ادا کرنا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج بھی ادا کرنے ہیں اور والدین، رشتے داروں، پڑوسیوں، مساکین، فقرا کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ گویا ایک مومن کے لیے حقوق و فرائض لازم قرار دیے گئے ہیں کہ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو دنیا (جو مہلتِ عمل ہے) میں اچھے اچھے کام کرو تاکہ اللہ کے ہاں سرخرو ہو۔ جہاں تمہیں فلاح و کامیابی حاصل ہو۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت دائمی زندگی ہے، ہمیشہ ہمیشہ کا سُکھ… ہمیشہ ہمیشہ کا دکھ۔
لہٰذا فکر ہمیں اس دائمی زندگی کی ہی کرنی ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی ہیں۔ وہ نیکیاں ہی ہیں کہ مسکرا کر دیکھنا، خندہ پیشانی سے ملنا، راستے سے کانٹا ہٹا دینا، صدقہ کرنا، نماز اوّل وقت میں پڑھنا، بیمار کی عیادت کرنا، بھوکے کو پیشگی سامان فراہم کرنا۔ ہر شخص کو آپ ہی اپنا محتسب بنایا گیا ہے کہ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کی تمیز پیدا نہ ہوجائے اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہوسکتا کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہوجائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمائے، اپنی محنت، اپنی قابلیت اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کررہا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جارہی ہیں یا جہنم کی طرف۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے۔ نہ دیکھے گا تو آپ ہی اپنا مستقبل خراب کرے گا۔
لہٰذا ہمیں آج کی فکر صرف اتنی کرنی ہے جتنی ایک مسافر اپنے سفر میں کررہا ہوتا ہے۔ اسے سفر سے زیادہ منزل کی فکر ہوتی ہے۔ وہ اتنا سامان سفر میں رکھتا ہے جتنا اسے سفر میں ضرورت پڑتی ہے۔ وہ زیادہ سامان منزل کے لیے رکھتا ہے۔ ہمیں بھی اس آج سے دل اتنا ہی لگانا ہے، ایک مسافر کی سی زندگی بسر کرنی ہے۔ اصل فکر آخرت کی کرنی ہے جو ہماری منزل ہے۔
دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے
طے کر رہا ہے جو تُو دو دن کا یہ سفر ہے

ندامت کے آنسو اور تسبیح کے دانے

فرح ناز فرحؔ
گناہوں سے توبہ کیے جا رہے ہیں
گناہ پھر بھی لیکن کیے جا رہے ہیں
ندامت کے آنسو اور تسبیح کے دانے
گنے بن خدایا گرے جا رہے ہیں
کرم پہ ہے تیرے یقیں ہم کو اتنا
ہم غلطی پہ غلطی کیے جا رہے ہیں
کروڑوں ہیں پروانے توحید کے جو
طوافِ وہ کعبہ کیے جارہے ہیں
کبھی ہم بھی دیکھیں مدینے کی گلیاں
اسی آس میں ہم جیے جا رہے ہیں

حصہ