مظلوم کی صدائیں تمہیں یاد کررہی ہیں

371

بنتِ عطا
سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی گھنٹوں میں کچھ ایسا ماحول بن گیا کہ دن چاہ چیخوں چلائوں اور زور زور سے روئوں مگر پھر معلوم تھا کہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں ایسے خیالات سے بالاتر لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنے میں پڑے ہیں۔ میں ایک طرف شام کے شہر الغوطہ کے میں بچوں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھتی تو دوسری جانب اپنے ملک کے کھیلتے کودتے بچے۔ میں حیران تھی کہ یہ سب کیا اور کیسے ہوگیا۔ کیا وہ مسلم نہیں، جنہیں اس بے دردی سے قتل کیا گیا۔ کیا وہ کسی غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں۔ ہم تو برما، میانمر اور کشمیر کو رو رہے تھے کہ وہ غیروں کے رحم و کرم پر ہیں مگر یہاں تو سب اپنے تھے۔ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ میرے دل نے گواہی دی۔ شاید نہیں۔۔۔ شاید ہم وہاں نہیں یا ہمارے کردارمیں کمی آگئی ہے۔ انہیں خیالوں میں غلطاں میں تھی کہ مجھے ووہ حدیث یاد آگئی۔
رسول اللہ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘ تو ایک صحابی نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس وقت بہت ہو گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو ں گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا‘‘ تو صحابی نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم! وہن کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے‘‘۔

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا عرب سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

شاید یہ حدیث آج کے ہمارے معاشرے پر پوری اترتی ہے۔ ایک ہی خطے میں رہنے کے باجود ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اجنبی ہیں۔ ہم پر جنگیں مسلط کردی جاتی ہیں اور ہم خاموش تماشائی بن کر اپنی تجارت میں پڑے رہتے ہیں۔ ہمیں اس پر یقینا سوچنا ہوگا کہ قبل ہم اللہ کی دربار میں پہنچ جائیں۔ ظلم سہنا بھی درحقیقت ظلم ہی کی مدد کرنا ہے۔ ظالموں کا ہاتھ نہ روکنا ان کے خلاف آواز تک نہ اٹھانا ظلم میں شمولیت کا اعلان ہے۔ یہ مظلوم اہل شام نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ مجھے تو عالم ، عالم انسان اور اقوام متحدہ کی خاموشی سے یہی بات سمجھ آئی ہے کہ حلب اور اہل شام کا المیہ یہ ہے کہ وہاں کے باسی ملبے کا ڈھیر بنی عمارتوں میں دفن اپنے پیاروں کو نکالتے ہیں اور پھرمٹی میں دفنا دیتے ہیں۔
معصوم بچوں خواتین کی لاشیں گر رہی ہیں سفاکی ودرندگی کی انتہا ہو چکی ہے مگر اقوامِ متحدہ خاموش مسلم دنیا خاموش ہے۔ایسے میں ان تمام مظلوم مسلمانوں کی آواز ہمیں بننا ہوگا۔ اسلامی ممالک کی قیادت کو برانگیختہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی فوج کو مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے بھیجیں۔ سفارتی سطح پر ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی جائے۔ اسلامی اتحاد کی تنظیم کو بھی جھنجھوڑا جائے یا پھر مسلمانوں کو جہاد عام اجازت دی جائے کیونکہ قرآن کا یہ ہی حکم ہے۔ ’’اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے ، (القرآن)۔ شام چیخ چیخ کے کہ رہا ہے ’’اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے باشندے ظالم ہیں‘‘۔ (القرآن)
خدارا ہوش میں آئیے! مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، معصوم بچوں کو مائوں کے سامنے قتل کیا جارہا ہے۔ مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتا ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب اہل شام تباہ ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی (رواہ الترمذی)
آج ہمیں اپنی طور پر مئوثر آواز اٹھانی ہوگی۔ ان بچوں کے لیے،امت مسلمہ کے لیے ہمیں صدائے احتجاج بلند کرنی ہوگی۔ مسلمانوں جاگو اور اپنا فعال کردار ادا کرو۔ اس کے لیے ہم جہاں بھی ہیں، کوئی سوشل میڈیا پر ہے، کوئی بیرون ملک رہتا ہے، جو جہاں بھی آواز بلند کرے۔ احتجاج کیا جائے،اپنے ملک کے سفارتخانے کو خط لکھ کر مکمل جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہا جائے۔ یہ دبائو بڑھایا جائے تاکہ ہم روز محشر اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ یہ بتا سکیں کہ ہم نے کچھ نہ کچھ تو کیا تھا۔ ایک کمزور مومن کی مثال بھی یہیں کہ وہ اگر کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم اپنی آواز تو بلند کرسکتا ہے۔ اللہ ہمارے تمام مسلم بہن بھائیوں کی حفاظت فرمائے،آمین

حصہ