بات یہ ہے

222

عبدالرحمن مومن
ابھی تمہاری روح کو جسم میں منتقل نہیں کیا گیا تھا۔ تمہیں ایک میدان میں جمع کیا گیا اور تم سے کہا گیا: ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔‘‘ تم سب نے ایک آواز ہو کر کہا: ’’آپ ہی ہمارے رب ہیں۔‘‘ یعنی تم نے اللہ کو اپنا رب مان لیا اور اس کی بندگی کا عہد کرلیا۔ اس کے بعد تمہارے باپ آدم اور تمہاری ماں حوا کو پیدا کیا گیا۔ اُنہیں رہنے کے لیے جنت میں جگہ دی اور انہیں ایک خاص پھل چکھنے سے منع فرمایا۔ تمہارے ماں باپ سے بھول ہوئی اور انہوں نے ممنوع شجر کے پھل کو چکھ لیا۔ ان کے رب نے انہیں سزا کے طور پر ان کے گھر یعنی جنت سے بے دخل کردیا۔ انہیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ان کے رب نے انہیں معافی مانگنا سکھایا۔ انہوں نے معافی مانگی اور انہیں معاف کردیا گیا۔ اب انہیں دنیا میں بھیج دیا گیا جسے تم زمین کہتے ہو۔ انہیں زندگی گزارنے کے کچھ اصول اور قاعدے بتادیے اور یہاں بھی ان سے اللہ نے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔ ان کو دنیا میں خاص مدت کے لیے بھیجا گیا جس کا انہیں بھی علم نہیں تھا۔ انہیں اپنے رب کی اطاعت کرنے کے انعام کے طور پر ان کے گھر یعنی جنت کے دروازے ان کے لیے دوبارہ کھولنے کی یقین دہانی کروائی۔ کہنا نہ ماننے والوں کا ٹھکانہ جہنم بتایا جہاں کھولتا ہوا پانی، آگ اور کانٹے ان کے منتظر ہوں گے۔
آدم اور حوا سے لے کر آج تک بے شمار انسان اس دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ ابھی تم دنیا میں موجود ہو۔ کل تمہاری جگہ کوئی اور ہوگا۔ تم سے بھی تمہارے رب کا وہی مطالبہ ہے جو آدم اور حوا سے تھا۔ تمہیں نہیں معلوم کہ تمہیں واپس بلالیا جائے گا۔ دنیا کی چکاچوند، مکانوں اور دکانوں سے تم دھوکا مت کھاجانا۔ تمہارا وطن اور اصل گھر جنت ہے۔ تمہیں بھی آدم اور حوا کی طرح واپس اپنے گھر جانا ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں محو ہو کر اپنا اصل گھر مت بھول جانا۔ کیا ہوا؟ پریشان کیوں ہورہے ہو؟ اگر بھول گئے تھے تو آج ہی اپنے رب سے معافی مانگ لو۔ وہ مہربان ہے، تمہیں معاف کردے گا۔ بس تم اس سے کیا وعدہ پورا کرو اور اپنے گھر جنت میں واپس جانے کی تیاری کرو کیونکہ علامہ اقبال کہہ رہے ہیں۔

عیش منزل ہے غریبانِ محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

الفاظ کا مرہم

ڈاکٹر فضیلت بانو
امی صبح سے کتنی بار سلیم کو جگانے آچکی تھیں وہ آکے بار بار اسے ہلاتیں پیار سے پچکارتیں اور اسکول سے لیٹ ہونے کے خدشے کا بھی اظہار کرتیں مگر سلیم پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا وہ غصے سے کروٹ بدلتا اور کہتا مجھے جلدی اٹھنے سے نفرت ہیں اس لئے مجھے اسکول جانے سے بھی نفرت ہیں کیونکہ اس کے لیے صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے جس چیزسے بھی سلیم کو دلچسپی نہ ہوتی یا اسے پسند نہیں ہوتی وہ بے دھڑک اس کے بارے میں کہہ دیتا کہ مجھے اس سے نفرت ہے یہ ایک طرح سے اس کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔
ایک دن کلاس میں بھی ایسا ہی ہوا کہ بابر کے ابو نے اسے نیا جیومیٹری بکس لے کردیا اس نے اسکول آکے بڑے شوق سے سلیم کو دکھایا مگر سلیم کو اس جیومیٹری بکس کا رنگ پسند نہ آیا اور اس نے اسے پوری طرح دیکھے بغیر فوراً کہہ دیا مجھے تو تمہارے جیومیٹری بکس کا رنگ ہی پسند نہیں مجھے تو اس رنگ ہی سے نفرت ہے بابر جو رات بھر سے اس قدر خوش تھا کہ صبح اسکول جاکر سلیم کو اپنا جیومیٹری بکس دکھائے گا وہ سلیم کی بات سن کر ایک دم بجھ کر رہ گیا اور خاموش ہوگیاباقی سارا دن بھی اس کا سلیم سے کوئی بات کرنے کو دل نہ چاہا لیکن سلیم عموماً ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ اس کے نفرت کے اظہار کے بعد دوسروں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔
ایک دن کھیل کے میدان میں بھی ایسا ہی ہوا ثاقب کے چچا باہر کے ملک سے اس کے لیے کالے رنگ کے نئے جوگر بوٹ لے کر آئے وہ اگلے دن اسکول پہن کر آیا سب دوستوں کو اس کے بوٹ بہت پسند آئے سب اس کی تعریف کرنے لگے مگر جیسے ہی سلیم نے دیکھے تو جھٹ سے کہہ دیا کہ مجھے اس طرح کے بوٹ بالکل پسند نہیں مجھے نفرت ہے ایسے جوتوں سے ثاقب جو صبح سے ہر ایک سے اپنے جوتوں کی تعریف سن چکا تھا سلیم کی بات سن کر ایک دم اس کا دل ٹوٹ گیا اس نے سلیم کو تو کچھ نہ کہا مگر اسے سلیم کی یہ بات بہت بری لگی۔
سلیم کی امی نے آج سب گھروالوں کی پسند سے تڑکے والی دال پکائی تھی سب نے بہت شوق اور محبت سے کھانا کھایا مگر جب سلیم اسکول سے گھر آیااور امی نے اس کے لئے کھانا نکال کر اس کے سامنے رکھا تو سلیم نے نفرت سے منہ بسورتے ہوئے کہا امی آپ کو پتا ہے کہ مجھے دال سے نفرت ہیں آپ دال کیوں پکالیتی ہیں اٹھالیں کھانا میں نہیں کھاؤں گا سلیم گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لئے اس کی بات کا کوئی برا نہیں مانتا تھااس کی امی نے دال اس کے سامنے سے اٹھالی اور اسے کھانے کے لئے آملیٹ بنادیا سلیم نے کھانا کھایا اور سو گیا شام کو سلیم اپنا ہوم ورک کرنے کے بعد اپنی خالہ کے گھر چلا گیا اس کی خالہ کا گھر ان کی گلی میں ہی تھا وہ اکثر فرصت کے اوقات میں اپنے خالہ زاد بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا تھا آج جب خالہ کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے خالو کافی سارے پھل لے کر آئے ہوئے ہیں اور خالہ باورچی خانے میں بیسن پر کھڑی پھلوں کو دھو دھو کر ٹوکری میں رکھ رہی ہیں انہوں نے جب سلیم کو دیکھا تو اسے بھی ایک پلیٹ میں رکھ کر کچھ پیش کیے مگر سلیم نے تکبر سے منہ سکیڑ لیا اور کہنے لگا کہ خالہ جی میں پھل پسند نہیں کرتا مجھے پھلوں سے نفرت ہے خالہ کو سلیم کی بات سخت ناگوار گزری مگر انہوں نے اسے پیار سے کہا کوئی بات نہیں بیٹا آپ کوئی چیز کھالیں زندگی کے ماہ سال گزرتے گئے سلیم اور اس کا دوست بابر اور خالہ زاد عمران تینوں اب اسکول اور کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر نوکریاں کی تلاش میں تھے عمران کے والد نے تو تجارت کو مقدم سمجھتے ہوئے نوکری کی بجائے عمران کو ایک دکان کھول دی اللہ نے برکت بھی خوب دی اس کی دکان چل نکلی اور وہ اطمنیان سے دکانداری کرنے لگا۔
اللہ کی مہربانی اور حسن اتفاق کہ بابر اور سلیم کو ایک ہی ادارے میں ایک ساتھ ملازمت مل گئی یہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی جو ملک کے مختلف قسم کی ترسیل کا کام کرتی تھی سلیم اور بابر کو اچھی تنخواہ پر اس کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی دونوں کا ایک ہی ڈیپارٹمنٹ تھا اس لئے وہ دونوں بہت خوش تھے وہ بچپن اسکول اور کالج سے اب تک ساتھ ساتھ رہتے آئے تھے اب ان کی خوش قسمتی کہ کام بھی ایک ساتھ مل گیا تھا دونوں کے گھر والے بھی بہت خوش تھے مگر سب لوگ محسوس کررہے تھے کہ جتنا بابر اس کام سے خوش تھا سلیم اتنا خوش دکھائی نہیں دیتا تھاگھر آگے بھی وہ سب سے الجھا الجھا رہتا اس کے بابا نے بھی یہ بات محسوس کی تو ایک دن اس سے پوچھنے لگے کہ بیٹا سلیم کیا بات ہے؟بہت اچھی ملازمت ملنے کے باوجود آپ مجھے خوش دکھائی نہیں دیتے بلکہ پہلے کی نسبت چپ چپ رہنے لگے ہو۔
’’سلیم نے پہلے تو بڑی بے چارگی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہنے لگا ابا جان میں یہ نوکری نہیں کرنا چاہتا مجھے اس نوکری سے نفرت ہے اس کے ابا کے لئے یہ ایک غیر متوقع سی صورتحال تھی کیونکہ سب جانتے تھے یہ ملازمت بہت اچھی ہیں اور اس میں تنخواہ کے علاوہ دیگر مراعات بھی تھیں پھرسلیم کو یہاں کیا مسئلہ تھا اس کے ابا نے نہایت شفقت اور پیار سے پہلے تو اسے سمجھانے کی کوشش کی پھر اس سے نوکری سے بددل ہونے کی وجہ پوچھی تو سلیم کہنے لگا کہ میں انتہائی محنت اور خوش اسلوبی سے کام کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بھی کوتاہی نہ ہوں مگر میرے ڈیپارٹمنٹ میں جو میرے سینئر آفیسرز ہیں انہیں میرا کام پسند نہیں آتا وہ میرے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں دن میں مجھے کئی بار ان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے میں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں اس کی فائل اپنے آفیسر کو دکھاتا ہوں تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ کیا کام اس طرح کرتے ہیں مجھے اس طرح کام کرنے والوں سے نفرت ہیں حالانکہ میرے اوربابر کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا مگر بابر کے ساتھ کسی کا رویہ اس طرح کا نہیں ہے میں اپنے آپ کو آہستہ آہستہ نااہل تصور کرنے لگا ہوں مجھے اب اپنی قابلیت پر بھی بھروسہ نہیں رہا اب میں نے سوچ لیا ہے کہ میں یہ ملازمت چھوڑدوں گا سلیم کے ابا اس کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے انہوں نے سلیم کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ ملازت کی بجائے کچھ اور چھوڑدو تو آپ کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں سلیم نے ایک دم چونک کر باپ کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ ایسا کیا ہے اس کے پاس جو وہ چھوڑ ے دے اس کے ابا جواب تک اس سے دور بیٹھے اس سے بات کررہے تھے اٹھ کر اس کے پاس آگئے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے دیکھو بیٹا آپ بچپن سے ہماری محبت اور شفقت کے باعث اپنی مرضی کی زندگی گزارتے آئے ہو آپ چیزوں کا پسند اور ناپسند کے بارے میں اپنی مرضی کارویہ رکھتے تھے کن چیزوں سے آپ کو محبت ہے اور کن چیزوں سے نفرت ہے آپ بلا جھجک ان کا اظہار کرتے آئے ہیں ہمارے الفاظ زخم بھی ہوتے ہیں اور مرہم بھی ہماری کہی ہوئی بات سے دوسروں پر کیا گزرتی ہے ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے نفرت کا لفظ کسی تلوار سے کم نہیں ہوتا یہ جس کے لئے بھی بولا جائے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے اس کی ہمت اور طاقت کو ختم کردیتا ہے بلکہ دوسروں کے دلوں میں آپ کے لیے محبت ختم ہونے لگتی ہے جیسے اب آپ کے دل میں اپنے سینئرز کے لئے احترام ختم ہوتا جارہا ہے پہلے یہ ادب و احترام ختم ہوتا ہے اور پھر اس کی جگہ نفرت لے لیتی ہے اور رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں اور پھر وہ ٹوٹنے لگتے ہیں جب تعلق میں مضبوطی نہ رہے تو زیادہ دیر تک ساتھ چلنا مشکل ہوجاتا ہے ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کی بجائے غلطی ہماری ہوں۔
سلم اپنے ابا کی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا وہ ایک ایک بات اپنے دل میں اتاررہا تھااسے یاد آیا کہ کل جب وہ فائل لے کر اپنے صاحب کے کمرے میں گیا اور انہیں اپنے کئے کام کی تفصیل بتانے لگا تو انہوں نے ایک سرخ رنگ کی پنسل سے فائل پر جگہ جگہ بڑے بڑے دائرے کھینچ دئیے یہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہئے تھا اوہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہئے تھا اور آخر میں انہوں نے جو کچھ کہا کہ انہیں اس طرح کا کام پسند نہیں بلکہ ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اب سلیم کو حساس ہونے لگا کہ وہ بھی تو بچپن سے دوسروں کے دل ایسے ہی توڑتا آیا ہے اس نے تو کبھی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا تھا کہ دوسروں کے دل پر اس کی بات کا کیا اثر ہوتا ہے حالانکہ وہ کبھی کسی کا آفیسر نہ تھا پتہ نہیں اس کی وجہ سے کتنے لوگ بددل ہوئے ہوں گے کتنے اصل ٹارگٹ تک نہ پہنچے ہوں گئے کتنوں نے اپنے راستے بدل لئے ہوں گے اب سلیم کو لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سب کا ذمہ دار وہ خود ہے آفیسرز کے رویے کا باعث اس کی جرأت وہمت اور اس کی شوخی و شرارت سب ختم ہوکر وہ گئی تھی اس کے ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ کیا میرے الفاظ بھی دوسروں کے لئے ایسے ہوتے تھے کیا میں بھی قصورواروں میں سے ہوں؟وہ اپنے ابا کی طرف دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے اس کے ابا اس کی نگاہوں کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے کہنے لگے کہ گناہ اور غلطی کا احساس ہونے پر اسے چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے واپسی کا راستہ موجود ہوتو پلٹنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے سلیم کے اندر کچھ دنوں سے جو دھواں بھرگیا تھا اور اس کی تلخی اسے اپنی نس نس میں محسوس ہورہی تھی وہ دھواں اب آہستہ آہستہ اس کے وجود سے الگ ہورہا تھا نفرت کا لفظ اسے دور جاتا محسوس ہورہا تھا سلیم کے اندر کا احساس کیا بدلا ہر چیز ہی بدل گئی۔

ناشکری کی سزا

امیرہ سلیم
ایک دن بارہ سنگھا جنگل میں ہری گھاس چررہا تھا، پیٹ بھرجانے پر اسے پیاس محسوس ہوئی۔ اس جنگل میں شفاف پانی کی ایک ندی بہتی تھی۔ بارہ سنگھا پیاس بجھانے کے لئے اس ندی کے کنارے پر جاپہنچا جب اس نے پانی پینے کے لئے منہ نیچے جھکایا تو شفاف پانی میں اپنا عکس نظرآیا۔
عکس دیکھ کر بارہ سنگھا بہت خوش ہوااس نے اپنے سر پر مضبوط اور لمبے سنگ دیکھ کر سوچا کہ ان سینگوں کی وجہ سے میری خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میں جنگل کا سب سے حسین جانور ہوں اور سر پر سینگوں کا تاج بھی ہے۔
اس لئے جنگل کا بادشاہ شیرکو نہیں مجھے ہونا چاہیے۔
بارہ سنگھا ابھی اپنے سینگوں کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا کہ اس کی نظر اپنی پتلی اور کمزور ٹانگوں پر پڑیں ، ٹانگوں کو دیکھ کر بارہ سنگھا ایک وم افسردہ ہوگیا اور سوچنے لگا کاش میری ٹانگیں بھی سینگوں کی طرح خوبصورت ہوتیں کچھ دیر اپنی ٹانگوں کو دیکھنے کے بعد بارہ سنگھا اپنے گھر کی طرف چل پڑا وہ اپنی پتلی ٹانگوں کو کوستا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک شیر نے اس پر حملہ کردیا ،شیر کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر بارہ سنگھا جان بچانے کے لئے گھنے جنگل کی طرف بھاگنے لگا بارہ سنگھا انہیں پتلی ٹانگوں کے ساتھ اتنی تیزرفتاری سے بھاگا کہ شیر بہت پیچھے رہ گیا۔
بھاگتے بھاگتے بارہ سنگھے نے مڑکر اپنے تعاقب میںآ نے والے شیر کو دیکھنے کی کوشش کی توا س کے لمبے اور خوبصورت سینگ ایک درخت کے جھکی ہوئی ٹہنیوں میں الجھ گئے اچانک سینگ پھنس جانے پر بارہ سنگھا بہت پریشان ہواوہ اپنے سینگ چھڑانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کرنے لگالیکن اس کوشش میں اس کے سینگ ٹہنیوں میں مزیدالجھ کررہ گئے ، اب اسے احساس ہوا کہ ان لمبے اور خوبصورت سینگوں سے اس کی دبلی پتلی ٹانگیں جن کو وہ کچھ دیر پہلے بدصورت کہہ رہا تھا زیادہ بہتر ہیں ان ہی ٹانگوں کے سہارے اپنی جان بچانے کے لئے وہ اب تک بھاگتا رہا۔
بارہ سنگھا خود کو آزاد کو کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ شیر اس کے قریب آن پہنچا اور چھلانگ لگا کر اس کی گردن اپنے نوکیلے دانتوں میں دبوچ کر کھانے لگا۔
ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہیے۔

حصہ