وقت کی قدر کریں

316

ارم فاطمہ
سالانہ امتحان کی ڈیٹ شیٹ آچکی تھی۔ بلال بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے کئی مضامین کا کام اس کی کاپیوں پرموجود نہیں تھا وجہ یہ تھی کہ اس نے کرکٹ کلب جوائن کیا ہوا تھا۔اس کے میچز کھیلنے اور پریکٹس کے لیے اکثر اسکول سے چھٹی کرلیا کرتا تھا پھر کلاس نہ لینے کی وجہ سے اس کئی مضامین کے سبق سمجھ نہیں آتے تھے اور کبھی کبھی کسی کلاس فیلو سے کاپی نہ ملنے کے باعث وہ کام مکمل نہ کرپاتا اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسے کوئی سبق سمجھنے میں دقت ہوتی تھی۔
اب وہ پریشان تھا کہ کیسے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرپائے گا جبکہ وہ ہمیشہ سے پڑھائی میں بہت اچھا رہا تھا۔ اور سبھی لوگ اس کی بہت تعریف کرتے تھے مگر جب سے اس نے کرکٹ کلب جوائن کیا تھا وہ اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔ اسے کرکٹ کا بے حد شوق تھا۔ اس لیے اس نے کلب کرکٹ شروع کی تھی۔ وہ اپنے اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی بن گیا تھا۔
اچانک اسے خیال آیا کہ اسے سر عظیم سے بات کرنی چاہیے کہ وہ اسے اسکول کے بعد ایک گھنٹہ پڑھا دیا کریں تاکہ جن مضامین میں اسے مشکل پیش آرہی ہے وہ انہیں سمجھ سکے۔ جب وہ ان سے بات کرنے اسٹاف روم میں گیا اور ان سے بات کی تو وہ بے حد خوش ہوئے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ پڑھائی میں محنت کی کیا اہمیت ہے۔ پھر بھی وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے! ’’ یہ ایک بہت اچھی بات ہے کہ تم پڑھائی کو اہمیت دیتے ہو اور محنت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہر چیز سمجھنے کی کوشش کرتے ہو اور محنت بھی کرتے ہو۔ تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہر کام کو اس کے وقت کے حساب سے ختم کرنا بہت اچھا ہوتا ہے۔ تمہیں کرکٹ کھیلنے کا شوق ہے تو ضرور کھیلو مگر اس کے بعد اپنی پڑھائی کے اوقات بڑھا دو اور اپنے وقت کوایسے تقسیم کرو کہ تمہارا شوق بھی پورا ہو جائے اور تم اپنی پڑھائی کو بھی وقت دے سکو‘‘۔
بلال خاموشی اور توجہ سے ان کی بات سن رہا تھا۔ان کے خاموش ہونے پر کہنے لگا !’’ سر میں آپ کی بات بالکل سمجھ گیا ہوں۔ اب میں واقعی اپنا شیڈول ایسا بناؤں گا کہ اپنے سبھی کام مکمل کر سکوں اور کرکٹ کو بھی وقت دے سکوں‘‘۔ آپ کی رہنمائی کا بہت شکریہ سر، میں آپ کی اس بات پر ضرور عمل کروں گا۔

سلطان کا عدل

خالد عمران
سلطان نور الدین زنگی اپنے خاندان کا دوسرا حکمران تھا اس کے زمانے میں دو یہودیوں نے رسول اکرمؐ کے روضہ مبارک کو(نعوذباللہ) نقصان پہنچانے کی ناپاک جسارت کی تھی جنہیں سلطان نور الدین زنگی نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا،کہتے ہیں کہ ایک دن سلطان نور الدین زنگی چوگان کھیل رہا تھا کہ اس وقت ایک سپاہی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور محترم قاضی صاحب نے آپ کو ایک مقدمے کے سلسلے میں اسی وقت عدالت میں طلب کیا ہے سلطان یہ سن کر کھیل چھوڑ کر فوراً اس سپاہی کے ساتھ قاضی صاحب کی عدالت میں جا پہنچا تو قاضی صاحب نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس شخص نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ اس کی زمین پر آپ نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے آپ کا اس سلسلے میں کیا جواب ہے؟ سلطان نے نہایت ادب و احترام سے کہا کہ اس شخص کا دعویٰ درست نہیں ہے وہ زمین میری اپنی ہے اور میرے پاس اس کے ثبوت بھی ہیں قاضی صاحب نے کہا کہ آپ وہ تحریری ثبوت اگلی تاریخ کو پیش کردیں۔
سلطان نور الدین زنگی نے مقررہ تاریخ کو کچھ کاغذات عدالت میں پیش کردئیے ان کاغذات کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ زمین سلطان کی ملکیت ہے سلطان نے فیصلہ سنا اور قاضی صاحب کے سامنے ہی کہا کہ اب زمین اپنی طرف سے اس شخص کو دیتا ہوں جس نے مجھ پر مقدمہ دائر کیا ہے کسی نے کہا کہ حضور محترم جب آپ نے یہ زمین اس شخص کو دینی تھی تو مقدمہ لڑنے کی کیا ضرورت تھی وہ پہلے ہی اس شخص کو دے دی ہوتی سلطان نے جواب دیا کہ اگر میں عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی زمین اس شخص کو دے دیتا تو لوگ کہتے کہ میں نے واقعی اس زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا تھا اور عدالت کے ڈر سے میں نے قبضہ چھوڑ دیا ہے اب جبکہ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور سب لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ یہ زمین میری ہے تو میں نے اپنی طرف سے زمین اس شخص کو دے دی تاکہ اس کے اوپر کوئی برا اثر نہ پڑے قاضی صاحب اور عدالت میں جتنے بھی لوگ تھے سلطان کے عدل دیکھ کر حیران ہوگئے،
واہ! کیسے حکمران تھے کہ وہ لوگ انصاف اور عدل کو اپنا فرض سمجھتے تھے مگر آج کے زمانے میں پاکستان کے طاقتور لوگوں پر جب ایسا وقت آتا ہے تو وہ قانون کی پیروی نہیں کرتے بلکہ جرم کرنے کے باوجود اپنے آپ کو بے قصور ثابت کروا لیتے ہیں اور قانون کا مذاق اڑاتے ہیں، کاش ایسے حکمران ہمارے ملک میں آجائیں جو سلطان نورالدین زنگی کی طرح جو عدل و انصاف کو مقدم سمجھیں۔

انوکھی دوستی

مناہل
دوستی کا جذبہ انسانوں میں ہی نہیں جانوروں میں بھی ہوتا ہے ایک انوکھی دوستی چوہے اور بلی کے درمیان قائم تھی انوکھی اس لحاظ سے کہ ان کی لڑائی تو ہمیشہ سے مشہور ہے اور ان کی لڑائی کی تو مثال دی جاتی ہے کسی جگہ بلی کی موجودگی میں چوہے کا رہنا ممکن نہیں لیکن اس انوکھی دوستی کے باعث چوہا اور بلی ایک گھر میں موجود تھے۔ چوہے کو بلی سے اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا بلی کا چوہے سے وعدہ تھا کہ وہ بے خطر رہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر شرط یہ ہے کہ وہ بھی گھر کے مکینوں کو اپنی عادتوں سے پریشان نہیں کرے گا کھانے اور دیگر اشیاء کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ چوہا ایک عرصے تک اپنے اس وعدے پر قائم رہا اس نے اشیاء کو کترنے کی خراب عادت سے خود کو دور رکھا اور محفوظ زندگی گزارتا رہا۔ آخر کب تک اس نے اپنی فطرت کا مظاہرہ شروع کر دیا کھانے کی اشیاء کے علاوہ اخبارات اور کتابوں کو کترنے لگا۔ گھر کے مکین پریشان تھے کہ بلی کی موجودگی کے باوجود چوہا کیوں یہاں ہے اگر ہے تو بلی کا گھر میں کیا فائدہ۔ گھر کے افراد نے طے کیا کہ چند دن اور دیکھا جائے اگر چوہے کی کار ستائیاں بند نہ ہوئیں تو پہلے بلی کو گھر سے نکالا جائے اس کے بعد چوہوں کا خاتمہ کیا جائے بلی کو جب اس منصوبے کی بھنک پڑی تو وہ پریشان ہوئی اس نے چوہے کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا آخر ایک دن بلی نے چوہے پر حملہ کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا چوہے کی وعدہ خلافی سے اس کی بقا کو خطرہ تھا اس نے اپنی بقا کی خاطر چوہے کا خاتمہ کر دیا اور چوہا اپنی بری عادت اور وعدہ خلافی کے باعث انجام کو پہنچا۔

توازن

حذیفہ عبداللہ
موسم گرما کی تعطیلات گزار کے جاوید جب اسکول پہنچا تو بہت خوش تھا اور اپنی چھٹیوں کے دوران کی تفصیل اپنے دوستوں کو بتانے کے لیے بہت بے چین تھا جاوید نے چھٹیوں کے متعلق منصوبہ بندی پہلے سے ہی کی ہوئی تھی اور اس کے مطابق وادی کاغان اور دیگر مقامات کی سیر کی تقریباً ایک ماہ سیر و تفریح میں گزرا اور اپنے دوستوں کے لیے تحائف بھی خریدے دوستوں کو اپنے سیر و تفریح کے احوال بتانے اور ان سے سنے کے لیے بے قرار تھا۔
انٹرویل کے دوران تمام دوست ایک جگہ جمع ہوئے یہ کے دوستوں کا ایک گروپ تھا جو اپنے معاملات اور مسائل میں ایک دوسرے کو شریک رکھتے نہ صرف شریک رکھتے بلکہ بعض مسائل کے حل کے لیے اپنی ممکنہ کوشش بھی کرتے ان کے کلاس ٹیچر بھی واقف تھے اور ان کے اس عمل کو اچھا سمجھتے ہوئے بھر پور تعاون بھی کرتے اور مشورے بھی دیتے، تمام دوستوں نے اپنی چھٹیوں کے دنوں کی مصروفیات بیان کیں جاوید نے بتایا کہ اپنے اسکول کے ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد وہ سیر و تفریح کے لیے روانہ ہو گئے اور ایک ماہ شہر سے باہر گزارا بہت انجوائے کیا آج کی اس نشست میں ایک نیا بچہ ذیشان بھی شریک تھا جس کا آج اسکول میں پہلا دن تھا اسے جاوید کے ساتھ ہی کلاس میں نشست ملی تھی جاوید نے اسے خصوصی طور پر آج کی دعوت دی تھی سب نے ذیشان سے تعارف حاصل کرنے کے بعد چھٹیوں کی مصروفیات جانا چاہی تو ذیشان نے بتایا کہ پہلی بات یہ کہ ہم لاہور سے دو ماہ قبل ہی شفٹ ہو کر کراچی آئے ہیں جس کا سبب والد صاحب کا تبادلہ ہے چھٹیوں کے ابتدائی پندرہ دن تو شفٹنگ کے کام میں لگ گئے۔ لاہور میں رہائش ہونے کے باعث مری وغیرہ کی پہلے کی سیاحت کر چکے ہیں ہم نے کراچی شہر کی سیر کا پروگرام بنایا جس کا آغاز مزار قائد سے کیا مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی ساحل سمندر اور شہر کے اہم مقامات اور پندرہ دن بہت انجوائے کیا۔
رہ گیا ایک ماہ تو اس میں نصابی کتب کا مطالعہ، مذہبی اور تاریخی کتب کا مطالعہ کیا چھٹیوں کے دنوں میں قرآن پاک کا باترجمہ مطالعہ کیا صورتوں کو حفظ کیا اور ارکانِ اسلام کے متعلق معلومات کے علاوہ نماز کی درستگی اور غلطیوں کی اصلاح پر توجہ دی یہ گفتگو جاری تھی کہ کلاس ٹیچر جو اس نشست میں موجود تھے بولے دیکھو ذیشان ایک ایسا بچہ ہے جس نے اپنے معاملات میں توازن رکھا دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی دینی تعلیم پر بھی توجہ دی صرف تفریح میں ہی وقت نہیں لگایا اپنی دینی معلومات میں بھی اضافہ کیا یہ ہے توازن جو دین اور دنیا کو فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ انہوں نے بچوں سے عہد لیا کہ تمام بچے توازن کا راستہ اختیار کریں گے۔

اقوال زریں

گل بشراولد ندیم
٭زندگی ہمیشہ مسکرا کرگزارو کیونکہ تم نہیں جانتے کتنی باقی ہے ۔
٭دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے ۔
٭دنیا جس کے لئے قید خانہ، قبر اس کے لئے آرام دہ۔
٭اتناکھائو، ہضم کرسکو اور اتنا پڑھ، جتنا جذب کرسکو۔
٭اپنا زخم اس کو مت دکھائو جس کے پاس مرہم نہ ہو۔
٭ٹھوکر وہی کھاتا ہے جو راستے کے پتھر نہیں اٹھاتا ۔
٭ہمت ایک ہتھیار ہے جوبزدل کو بہادر بنادیتا ہے ۔

حصہ