شرم جب آتی نہیں شرمائیں کیا

1861

خالد معین
طنزو مزاح لکھنا اور اُس میں نئے معیارات قائم کرنا مذاق نہیں۔ طنزو مزاح میں اپنا لہجہ اور اپنی جداگانہ پہچان بنانا، ایک طویل فنی ریاضت اور فطری ادبی صلاحیتوں کی تخلیقی نشوونما کے بغیر ممکن نہیں۔ مزاح لکھنے والا ہزار آنسوئوں کی مالا سے کوئی شگفتہ فن پارہ تخلیق کرتا ہے۔ یوں تو ملک بھر میں اچھی مزاحیہ شاعری ہورہی ہے، صاحب ِ اسلوب مزاح نگار، انور مسعود کی سربراہی میں مزاح کا جھنڈا بھی لہرایا جارہا ہے، پنجاب بھر میں مزاح کے کچھ نہ کچھ نئے لکھنے والے بھی سامنے آرہے ہیں، مگر اس حوالے سے کراچی کی صورت ِ حال بڑی مایوس کُن نظر آتی ہے۔ کراچی میں مزاحیہ شاعری کا سنہری دور سن ساٹھ کے آس پاس دلاور فگار سے شروع ہوا، اُنہی سے وابستہ رہا اور اُنہی کے ساتھ رخصت بھی ہوگیا۔ دوسری جانب دلاور فگار جیسے عالم فاضل اور بے مثال شاعر کی موجودگی میں کراچی کی مزاحیہ شاعری کا تخلیقی، اخلاقی، تعمیری اور فنی گراف بھی اُونچا رہا، اور اُنہی کی بہ دولت 1980ء کی دہائی کے آس پاس اُبھرنے والے مزاحیہ شاعر بھی مزاح کو سنجیدگی سے لینے لگے۔ ہر چند کہ کراچی میں مزاحیہ شاعری کی جانب اسّی کی دہائی اور اس کے بعد نئے لکھنے والے کم کم آئے، مگر اطہر شاہ خان کے بعد خالد عرفان اور سعید آغا جیسے تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال شاعر ضرور مزاحیہ شاعری کے نئے دور میں ایسے چمکے کہ ایک دنیا نے اُن کی چمک دمک دیکھی، اور اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ، اُن کی شائستگی، توازن، تعمیری جذبے اور ندرت ِ فکر کو سراہا۔
اس بات کی اہمیت شاید پہلے اتنی نہ تھی کہ وہ دور ہی ادب و آداب، شائستگی، اقدار کی پاس داری اور تہذبی رویوں سے عبارت تھا۔ اس لیے شاعری کسی بھی نوعیت کی ہو، مذکورہ معاشرتی آداب لازمی طور پر شاعرکی تخلیقات میں نمایاں رہتے تھے۔ دوسرے رُخ سے بات کریں تو دلاور فگار نے طنزو مزاح کے عظیم ترین شاعر حضرت اکبر الٰہ آبادی سے تخلیقی اور تعمیری سطح پر کسب ِ فیض کیا، اور یوں اپنی شخصیت میں تہذیبی، اخلاقی اور مثبت عناصر کو بھی رچا بسا لیا۔ وہ پاکستان کچھ دیر سے آئے، بدایوں جیسے علمی و ادبی شہر سے وابستگی، پھر حضرت جامی جام نوائی، آفتاب احمد جوہر اور سبطین احمد جیسی ممتاز شخصیات سے علمی رابطے اور اپنی غیر معمولی علمی وشعری اٹھان نے اُنہیں ساٹھ کی دہائی میں بھارت کے ادبی منظر میں جداگانہ شناخت بخش دی تھی۔
بھارت میں رہتے ہوئے دلاور فگار معاشیات اور اردو ادب میں ماسٹرز کرچکے تھے، جب کہ وہ بہت سے سخت معاشی، سماجی اور طبقاتی مقام طے کرکے ایک طویل جدوجہد کے بعد یہاں پہنچے تھے۔ پھر دلاور فگار پاکستان آگئے، اور کراچی میں یوں بسے کہ وہ اور کراچی ایک دوسرے کی پہچان بن گئے۔ والد بھی معلمی کرتے تھے، دلاور فگار بھی معلمی سے وابستہ رہے۔ فیض احمد فیض اُن دنوں کراچی کے ایک کالج عبداللہ ہارون کے پرنسل تھے، وہی حضرت دلاور فگار کو وہاں لے گئے، سنا ہے کہ یہ سلسلہ فیض احمد فیض کے کراچی سے ہجرت کرنے کے بعد زیادہ عرصے نہیں چل سکا۔ ایک الجھن اور بھی ہے،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دلاور فگار نے ایک ایم اے فارسی میں بھی کیا، اور کچھ کا کہنا ہے اُنہوں نے ایک ایم اے انگریزی ادب میں بھی کیا۔ تاہم آخر کے دونوں ایم اے مصدقہ نہیں ہیں، یعنی ہوسکتا ہے کہ پاکستان آنے کے بعد اُنہوں نے کوئی ایک ایم اے کیا ہو۔ البتہ اُن کی فارسی اور انگریزی زبان پر دست رس یقینا مسلّم ہے۔ اس کا اظہار ہمارے سینیرز نے بھی کیا اور اس کے بعض مظاہرے سن اسّی کی دہائی میں نمایاں ہونے والے شعرا اور ادیبوں نے براہِ راست دیکھے بھی ہیں۔
دلاور فگار کا پہلا مختصر مجموعہ ’حادثے‘ سن پچاس کی دہائی میں شایع ہوا، جب کہ مزاحیہ نظموں اور قطعات کا مجموعہ ’ستم ظریفیاں‘ سن ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں، اور پھر اسی دور میں اُن کا تیسرا مزاحیہ مجموعہ ’شامت ِ اعمال‘ سامنے آیا، اور یوں وہ بھارت کے مستند اور مشہور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے اُبھرے۔ بھارت میں دلاور فگار کے ہم جماعت عبداللہ ولی کے مطابق اُس دور تک وہ اپنی کئی مشہور نظمیں، جن میں ’شاعر ِ اعظم‘ بھی شامل تھی، لکھ چکے تھے۔ اُن کے ایک مجموعے پر اُنہیں سرکاری انعام بھی مل چکا تھا۔ وہ اُن دنوں مشاعروں میں چھائے ہوئے تھے اور اُن کے نام کا ڈنکا چاروں جانب بج رہا تھا۔ وہ اپنی نظموں میں اکبر الٰہ آبادی کی تقلید میں برمحل انگریزی کے الفاظ، اُس میں پیوند کاریاں اور تصرفات کرنے لگے تھے، اُن کا مزاح خوش دلی، خوش مذاقی پر مبنی تھا، جب کہ اُن کے طنز میں تہذیب ِ نفس اور روشنی ِ طبع کی نمود ملتی تھی۔
دلاور فگار اس خاص پس منظر کے ساتھ کراچی آبسے۔ تاہم ایک نئے ملک، نئے شہر اور نئے ادبی ماحول میں اُنہیں جمے جمائے لوگوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں یقینا اچھی خاصی جدوجہد کرنا پڑی ہوگی۔ تاہم وہ خود ایک بڑے ادبی محاذ سے سرخرو ہونے کے بعد یہاں آئے تھے۔ اس لیے وہ اپنی منفرد، مہذب، اچھوتی اور عوام و خواص کے دلوں میں گھر کرنے والی مزاحیہ شاعری کے ذریعے جلد نئے ادبی منظر میں بھی اپنی خاص جگہ بنانے میں کام یاب رہے، خاص طور پر دلاور فگار کراچی کے مشاعروں میں اوروں سے زیادہ پسند کیے جانے والے اور بے ساختہ سراہے جانے والے درویش صفت شاعر تھے۔ عام طور پر دلاور فگار گفتگو کم کرتے تھے، سینیرز کا احترام اور ہم عصروں کی عزت کرتے، جب کہ ایسے چھوٹوں سے شفقت کا سلوک کرتے، جن میں شاعری کے امکانات دیکھتے۔ ورنہ وہ متشاعروں اور بے وجہ کے بھرم بازوں سے بڑے اکتائے اکتائے سے رہتے۔ وہ قادرالکلام شاعر تو تھے ہی، اس کے ساتھ اعلیٰ پائے کے مترجم بھی تھے، اردو اور فارسی کے علاوہ دلاور فگار صاحب کی انگریزی زبان پر دست رس بھی قابل ِ رشک تھی۔ اس کا ثبوت دلاور فگار کے ترجمے پر مبنی اہم کتاب ’خوش بُو کا سفر‘ ہے، جس میں سو سے زاید ملکی اور غیر ملکی نظموں کے منظوم ترجمے کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں دیگر اہم شعرا کے ساتھ ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور نظم Moving Starirsکا شان دار ترجمہ بھی شامل ہے :
جیسے پت جھڑ میں نرم شاخوں سے
پتیاں نیچے گرنے لگتی ہیں
سیڑھیاں چلنے پھرنے لگتی ہیں
دلاور فگار مشاعروں کی جان بھی تھے اور ضرورت بھی، اس لیے وہ کراچی کے واحد شاعر تھے جو نذرانے کے بغیر کسی مشاعرے میں نہیں جاتے تھے، اور وہ بجا طور پر شاعر کی وقعت اور شاعری کی اہمیت کے عملی نگہبان تھے۔ نذرانے کے علاوہ وہ آنے جانے کا انتظام بھی منتظمین سے کراتے۔ مشاعرہ چاہے کیسا بھی ہو، چلتا ہوا یا ٹھس، لیکن دلاور فگار کا جادو ہر مشاعرے میں چلتا اور ایسا چلتا کہ چھتیں اُڑ جاتیں، لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے، لیکن مکرر ارشاد کی صدائیں کم نہ ہوتیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بہت سے مشاعرے ایسے بھی ہوئے کہ تابش دہلوی اور محشر بدایونی نے صاحب ِ صدر ہونے کے باوجود عافیت اسی میں سمجھی کہ دلاور فگار سے پہلے اپنا صدارتی کلام پڑھ لیں اور اس کے بعد مشاعرہ دلاور فگار کے سپرد کردیں۔ فہرست کو تھوڑا سا اوپر نیچے کرنے کا سبب بھی دل چسپ اور سامنے کا ہے، ہوتا یوں تھا کہ دلاور فگار مزاحیہ شاعر ہونے کی وجہ سے صدارت تو نہیں کرپاتے تھے لیکن اپنی سینیارٹی اور مقبولیت کی وجہ سے اکثر و بیش تر صاحب ِ صدر اور مہمان ِخصوصی سے پہلے اپنا کلام ِ دل پزیر سناتے تھے اور ظاہر ہے نہ صرف مشاعرہ لوٹ لیتے تھے بلکہ مشاعرے کو درہم برہم بھی کر جاتے تھے۔
اب جہاں دیدہ احباب سمجھ سکتے ہیں کہ ایک عام سا مزاحیہ شاعر بھی سنجیدہ مشاعرے کی فضا کو کتنا غیر سنجیدہ کردیتا ہے اور شاعری کی مجموعی فضا کا رُخ کیسے تبدیل کردیتا ہے۔ اس داد وفریاد اور ہنسی ٹھٹھے کے بعد ایک دو سنجیدہ شاعر تو قتل ہو ہی جاتے ہیں، اس پر ستم کہ شاعر بھی دلاور فگار جیسا ہو تو سمجھیں سامعین بالکل ہی ہاتھ سے نکل جاتے اور دلاور فگار کے بعد صرف ایک ہی شاعر کو سنا جا سکتا تھا اور وہ شاعر خود دلاور فگار تھے۔ اس صورت میں کیا محشر بدایونی،کیا راغب مراد آبادی اور کیا تابش دہلوی صاحبان، سب کے سب مشاعرے میں سامعین کی عدم توجہی کا شکار ہوجاتے، اسی لیے مذکورہ بزرگ، دلاور فگار کو اپنے سے پہلے پڑھنے سے روکنے لگے اور خود پہلے پڑھنے لگے، پھر یہ روایت بڑی حد تک مستحکم بھی ہوئی۔ تاہم 1998ء میں شہنشاہِ ظرافت کا برمحل خطاب پانے والے حضرتِ دلاور فگار جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے۔
اُن سے پہلے ہی ہمارے باریک بین اور طنزو مزاح کی روایتی لطافتوں کے پاس دار خالد عرفان امریکا جا چکے تھے۔ اب پیچھے، جو مزاح کے مستند اور اسی تہذیبی پیرائے کے جو گنتی کے شاعر کراچی میں رہ گئے تھے، اُن میں ایک اہم شاعر معروف ڈراما نگار اور اداکار اطہر شاہ خان جیدی اور معروف مزاح گو، سعید آغا کے نام بہ طور ِ خاص اہم ہیں۔ ضیاالحق قاسمی نے حیدرآباد سے کراچی آنے کے بعد قریب قریب اسی زمانے میں مزاحیہ مشاعروں کے انعقاد کی داغ بیل ڈالی اور وہ اس میں بڑی حد تک کام یاب بھی رہے، اُنہوں نے ’ظرافت‘ کے نام سے شگفتہ ادب کا ایک رسالہ بھی نکالا، مزاحیہ شاعروں کی قدرو قیمت میں اضافہ بھی کرایا، تاہم وہ اچھے منتظم ہونے اور تعلقات کی دنیا میں فعال کردار ادا کرنے کے باوجود خود اپنی مزاحیہ شاعری میں پھکڑ پن سے نہیں چوکتے تھے اور بعض اوقات تو خواتین کی موجودگی میں بھی ایسے ایسے بے سُرے قطعات پڑھ جاتے کہ سمجھ دار لوگ منہ چھپانے لگتے۔
ویسے پندرہ بیس برس پہلے ایسے پھکڑ پن پر سنجیدہ لوگ مناسب ردعمل دیا کرتے اور اساتذہ بھی کسی نامناسب رویّے پر اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کراتے تھے، مگر کتنے دکھ کی بات ہے کہ اب عمومی طور پر کم حیثیت اور کم علم مزاحیہ شاعر بہ بانگ ِ دہل گرے سے گرے اور اچھے خاصے مبتذل شعر بڑے فخر سے پڑھ جاتے ہیں اور شرمندہ تک نہیں ہوتے۔ مزاح کے حوالے سے متشاعروں اور متشاعرات کا تو خیر ذکر ہی کیا، جن کی اکثریت اب مزاحیہ شاعری کے نام پر مسلسل لچر پن،گھٹیا پن، نرے جہل اور کھلی بے ہودگی کے ساتھ محض سستی شہرت کے حصول میں جانے کیا کیا بکتی پھرتی ہے… اور مزے کی بات یہ ہے کہ اب اُنہیں روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں، کیوں کہ نہ اب وہ بزرگ رہے، جو ایسے بے سُروں کو برسر ِ محفل ٹوک دیں، اور نہ ایسے مخلص لوگ رہے، جو ایسے ناسمجھوں کو اخلاقیات، تہذیب اور سمجھ داری کا کڑوا ڈوز دے سکیں۔
آئیے! اس تشویش ناک صورت ِ حال پر ماتم کرنے کے بعد اب دلاور فگار کے چند سدا بہار قطعات بھی دیکھتے چلیں۔ دلاور فگار ایک ہمہ صفت شخصیت تھے، جو اکبر الٰہ آبادی جیسے عظیم شاعر کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے وارث رہے اور اُنہیں بجا طور پر اکبر ِ ثانی کا خطاب بھی دیا گیا۔ دلاور فگار ممتاز مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کے نعت گو اور قادرالکلام سنجیدہ شاعر بھی تھے، مگر اُن کے بہت سے غیر معمولی تخلیقی اوصاف، اُن کی مزاحیہ شاعری کی مقبولیت تلے دب گئے:

حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالاتِ حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
……

اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
شبِ برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں

جاری ہے

حصہ