عورت تہذیبوں کا ستون

676

زر افشاں فرحین
النسا عمادالبلاد ’’وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ‘‘ یہ امر حقیقی بچپن سے ہی نہ صرف سنا بلکہ شعور کی حدوں میں قدم رکھتے ہوئے اس احساس نے ہمیشہ ہی ایک فخر اور تقویت عطا کی کہ واقعتاً جس گھر میں صنف نازک ماں کی صورت جنت، بیٹی کی صورت رحمت اور بیوی کی صورت میں نعمت کسی کو عطا ہوجائے تو وہ گھر آسمان پر دمکتے چاند کی مانند اور گلشن میں گلاب کی مانند دل و دماغ کو راحت ہی عطا نہیں کرتا بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بھی ممتاز کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
صنف نازک جو کہ ایک طبعاً و فطرتاً کمزور خلوق ہے لیکن اس کا وجود خاندان کے لیے کسی ستون کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح ایک عمارت کا بوجھ ستون اٹھاتے ہیں عورت اپنے نازک کاندھوں پر خاندان جو کہ معاشرے کے لیے اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اس خاندان کی تعمیر و تشکیل میں ستون کا کردار ادا کرتی ہے عربوں کا یہ مشہور مقولہ ’’النسا عمادالبلاد‘‘ عورت تہذیبوں کا ستون ہے یونہی نہیں مشہور ہوگیا عرب کی قدیم جاہلانہ تہذیب کے پروردہ معاشرے میں جہاں بیٹی ایک لعنت، باعث ندامت تھی اور زندہ زمین میں گاڑ دی جاتی تھی اسی معاشرے میں اس صنف نے اسلام کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنا حقیقی مقام حاصل کیا وہ رتبہ جس نے جنت قدموں تلے ڈھیر کردی۔ ماں کی صورت میں معاشرے کو گویا ایک ایسی قوت عطا کی جو نسلوں کی امین اور تہذیبوں کی سربلندی کے لیے مضبوط ستون ثابت ہوتی ہے۔
نوع انسانی کی تکثیر اور تحفظ کے لیے عقورت نے عورت کو دور حمل، رضع، رضاعت اور تربیت کے نہایت اہم اور دشوار مراحل سے گزرنے کی صلاحیت اور اہلیت بخشی ہے۔ انسان کی جہالت کا مبدور ان ہی زمانوں کی بے احتیاطی اور انسانی خوبیوں کا حقیقی سرچشمہ بھی ان ہی زمانوں کی حفاظت ہے۔
بچے جنت کا پھول ماں کی گود میں آتا ہے تو صاف شفاف آئینے کی مانند ہوتا ہے اگر خوشنما نقش و نگار سے اس کی سطح ماں مزیّن کردے تو وہ ہمیشہ کے لیے خوبصورت ہوگیا اگر بدقسمتی سے ٹیڑھی سیدھی لکیریں تو وہ ہمیشہ کے لیے بدنما ہوگیا۔ اس کی صاف شفاف سطح سیاہ و سفید سے بے خبر ہوتی ہے جس مصور کے ہاتھ قدرت نے اسے سپرد کیا وہ اس کے آگے سر تسلیم خم کردیتا ہے۔ گویا ماں جو ایک عورت ہے انسان کی تخلیق سے تعمیر تک کا مرحلہ اپنے ہاتھوں سے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ عورت بحیثیت ماں فطری مصور ہے۔ ایک عورت بہترین ڈاکٹر، بہترین وکیل یا پارلیمنٹیرین ہو۔ قانون دان ہو یا بیرسٹر مگر ایک اچھی ماں نہ بن سکے تو یہی عورت خاندان کی عمارت میں داراڑ پیدا کرنے اور بالآخر اس گھر کو منہدم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی لیے عورت کو امّ یعنی جڑ کی نسبت دی گئی جیسی جڑ ہوگی ویسا ہی درخت پروان چڑھے گا اور ثمربار ہوگا۔
لیکن یہ مثبت نتائج اسی صورت میں ملنا ممکن ہیں جبکہ عورت کو عورت ہی رہنے دیا جائے۔ اس کی نسوانیت اور نسائیت کو مجروح نہ کیا جائے مغربی دنیا میں عورت کو اس کے اصل دائرہ کار سے نکال کر جب مردانہ وار حالات کے مقابلے کے لیے دلفریب نعروں اور سازشوں کے جال میں دھکیل دیا گیا تو اسی معاشرے کا مرد اپنے خاندان، نسل، تہذیب و تمدن کی گراوٹ دیکھ کر چیخ اٹھا کہ عورت کو عورت نہیں رہنے دے۔
’’یورپ کا سر بر آور و مصنف ژول سیماں‘‘ ’’ریویو آف ریویوز‘‘ میں انے مضمون میں لکھتا ہے ’’عورت کو عورت رہنا چاہئے اسی میں اس کی فلاح ہے یہی وہ سعادت ہے جس سے اس کی قدر و منزلت بڑھے گی یہ ہی قدرت کی ہدایت ہے اس ہدایت سے وہ جتنی دور ہوگی اس کے مصائب بڑھیںگے‘‘۔
آج مغرب کی عورت ان مصائب سے نبردآزما اور سکون کی متلاشی ہے۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ عورت محض غلامانہ زندگی بسر کرنے کے لیے خلق نہیں ہوئی قدرت نے اسے ایک خاص حد تک آزادی عطا فرمائی ہے اس کا فرض ہے کہ اس معتدل آزادی کو حاصل کرنے کے لیے وہ سعی کرے۔ اس ہتھیار کے ساتھ جو قدرت نے اس کو عطا کیا اور وہ ہتھیار ہے عورت کا اپنے فرض منصبی کی ذمہ داری سے آگاہ ہونا جس وقت عورت اپنے اس قدرتی صلاحیت سے کام لیتی ہے تو دلوں کی سلطنت پر حکومت کرتی ہے اور وہ اندانی احساسات کی قلمرو کی ملکہ بن جاتی ہے پھر وہ ایک اشارے پر شخصی حکومت کو جمہوری حکومت میں بدل دیتی ہے۔ یہ تمام کامیابیاں اس صلاحیت کی بدولت کیسے حاصل ہوتی ہیں؟ جب عورت اپنی نسل اپنی اولاد کی تربیت خود اپنے ہاتھوں سے کرتی ہے اور وہ اولاد بہترین تربیت پاکر معاشرے کے لیے فعال اور متحرک کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام کے مجموعہ قوانین میں عورت کی اس حیثیت کو متین کرتے ہوئے ’’عورتیں مردوں کی قوقبولیت میں ہیں۔‘‘النساء (3414) طے کردیا گیا کہ یعنی مرد کو قوامّ، نگہبان، نگران، ذمہ دار یعنی عورت کے تحفظ کے لیے ایسا سائبان بنادیا ہے جو اسے باپ بن کر دست شفقت کا تحفظ، شوہر بن کر محبت کا معمار اور بیٹے بھائی کی صورت میں ایک ایسی پناہ گاہ فراہم کرے جو اسے ہر سطح کی فکر سے آزاد کرکے صرف اپنے خاندان کی تعمیر بقاء کے لیے فعال کردے۔ جب اس قانون قدرت کے خلاف عمل ہوتا ہے تو بگاڑ آتا ہے۔ قدرت اپنی طے شدہ سنت پر عمل کرتی ہے ہماری خواہش کی پابند نہیں قوانین قدرت کا مکتبہ شناس استاذالاسانزد عکومہ ’’اگسٹ کونٹ‘‘ النظام السیاسی علی حسب الفلسفۃ الحسیاً میں رقم طراز ہے۔ اگر ہم ہمدرد اور وکیل نسواں بن کر عورتوں کی آزادی کا بے تقاضہ نا کریں تو صرف عورتوں کو اخلاقی حالت کو ہی صدمہ نہیں پہنچے گا بلکہ سوسائٹی کے قیام و انتظام کی جو ذمہ داری عورت کو قدرت نے مقرر کی ہے وہ بھی ٹوٹ جائے گی کیونکہ اسی حالت میں عورت کو روزانہ قوی مزاحمتوں کے پیش آنے کی وجہ سے تنگی پیش آئے گی جس کے نتیجے میں معاشرت کی دلفریبی مصائب و آلام کا شکار ہوکر مسخ ہوجائے گی مرد اور عورت کی باہمی محبت کا سر چشمہ مکدر ہوگا اور کشاکش کائنات میں یہ دونوں جنس آج جس طرح مل جل کر مسرت بخش زندگی بسر کررہی ہیں بالکل مفقود ہوجائے گی۔ پروفیسر جیورم فریئر لکھتا ہے اگر عورت کو اس کے اصل دائرہ عمل سے باہر کردیا گیا تو وہ مرد اور عورت کے مابین تیسری جنس کا نمونہ بن جائے گی جس کی امتیازی خصوصیات ترش روئی، غمگینی، دائمی پریشانی ہوگی، عہد جدید میں مشرق ہو یا مغرب آج کی عورت مجسم مظلوم، زود رنج، قوت، فیصلہ سے محروم اعتماد کے فقدان اور حسد رقابت کا شکار ہوکر ایک ایسی جنس بن چکی ہے جس پر ترس آتا ہے وہ جو اخلاق و تمدن کی عمارت کا ستون ہے، محبت و شفقت سے محروم، تحفظ کی متلاشی در بدر خاک چھان رہی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ستون کی بنیاد اس گھر اس پرسکون و محفوظ ماحول میں ہے جہاں مرد قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی، ادا کرے اور عورت اپنے مقام و مرتبے کی فضیلت سمجھتے ہوئے دل کی خوشی کے ساتھ اپنے حصے کا کام انجام دے۔
بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح تناسب، عمر رسیدہ کنواری نفسیاتی امراض کی شکار خواتین کی تعداد میں روز بروز اضافہ، رشتوں کے تقدس اور احترام میں کلی اور نتیجے میں عصمت دری کی دلسوز واقعات میں اضافہ ان سب کا تدارک ممکن ہے اگر ستون گرنے سے بچا لیا جائے۔
حکومتی سطح سے اس بات کی اہمیت کا فروغ اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر متحرک ہاتھوں سے عورت کے تقدس و وقار کی ترویج کچھ بعید نہیں کہ یہ تہذیب و تمدن کا زوال عروج میں بدل جائے (آمین)۔

اللہ کی خاص میں نعمت ہوں
لیکن بس جب تک عورت ہوں
ورنہ اک سنگ و حشت ہوں
میں عورت ہوں، میں عورت ہوں
از (بنت مجتبیٰ مسینا)

تہذیب ہے عورت کے بس میں

ربیعہ طارق
سلمیٰ:کیا ہوگیا ہے لوگوکو!میں نے آج انہیں حکم دیا اور کسی نے اس کی تعمیل نہیں کی۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے صدمے سے خیمہ میں آکر اپنی زوجہ محترمہ کو مخاطب کیا۔ جواب میں امی سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی معاہدہ حدیبیہ کی شرائط سے غم زدہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیے او رباہر نکل کر خود اپنی قربانی کردیں۔ بال ترشوالیں۔
سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیے کہ اتنے صائب اور بروقت مشورے پر عمل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین غم کی کیفیت سے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کی۔
یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ہے۔ جب قرآن مجید میں ’’فتح مبین‘‘ کہا گیا ہے۔ واحد موقع جس پر تمام صحابہ کرام ؓ فوری تعمیل نہ کرسکے۔ ایک بحرانی کیفیت تھی جس سے پوری امت کو ایک ’’خاتون حضرت ام سلمیؒ‘‘ کے ذریعہ نکلوایاگیا مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئے چھ سال گزرچکے تھے۔ خواتین ہر اہم کام میں شریک تھیں۔ صلح حدیبیہ واقعہ میں بھی چودہ سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ بنی رحمت ؒ عمرہ کی ادائیگی کو لیے مکہ مکرمہ تشریف لے جارہے تھے۔ مکہ ابھی فتح نہیں ہواتھا۔ یہ سفر بہت محفوظ نہیں تھا پھر بھی خواتین ساتھ تھیں۔ یہ ہمارے دین اسلام کی ’’حقیقی تصویر‘‘ ہے جس کے متعلق مسلسل پروپیگنڈاکیا جاتا ہے کہ
٭خاتون کو مدد کے برابر حیثیت نہیں دی جاتی۔
٭ عورت کی صلاحیتیں گھر میں رہنے سے متاثر ہوتی ہیں اور ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
٭عورت کا درجہ مرد سے کم تر ہے وہ اپنی ضروریات کے لیے مردوں کی محتاج ہے۔
یہ اس مذہب سے متعلق پروپیگنڈا ہے جس کے اس ایک واقعہ سے پورے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسلام نے عورت پر جو احسان عظیم کیا ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام سے قبل پوری تاریخ گواہ ہے کہ عورت کا وجود دنیا میں ذلت‘ شرم اور گناہ کا وجود سمجھا جاتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے سخت شرمندگی کا ذریعہ تھی۔ مدتوں تک یہی سوال حل نہ کیا جاسکا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں۔
یہ ’’اسلام‘‘ ہی ہے جس نے سب سے پہلے انسانیت کو باور کروایا کہ انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔
ترجمہ:’’اللہ نے تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اور اسی سے تمہارے جوڑے بنائے۔‘‘ (النساء1- )
واضح اعلان کردیا گیا کہ خالق کی نظر میں مرد اور عورت کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں۔ ایمان اور اچھے اعمال میں دونوں برابر ہیں جو درجات مرد حاصل کرسکتے ہیں وہ عورت بھی حاصل کرسکتی ہے۔
ترجمہ:’’مرد جیسے عمل کریں گے ان کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گی۔‘‘ (سورۃ النساء32- )
ترجمہ:’’میں تم سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہ کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کی جنس سے ہو۔‘‘ (آل عمران)
گویا ’’عورت ‘‘ کا’’عورت‘‘ ہونا ذلت کا باعث نہیں وہ اگر پانے آپ کو علم و تربیت کے ذریعے نکھار سکتی ہے اپنی ذمہ داریاں اچھی ادا کرسکتی ہے تو اسلام اس کے ہر عمل میں اسکو مرد کے برابر تسلیم کرتا ہے۔ البتہ اسلام کام کے دائرے مقرر کرتا ہے ہمارے خالق و مالک نے مرد و عورت انسانوں کو دو قسمیں بنائی ہیں۔ ان دونوں قسموں کو بنانے میں ان کے پیش نظر ان دونوں کا الگ الگ کام ہیں انہی کاموں کے مطابق ان کا جسم اور نفسیات بنائی۔ عورت کے سپرد معاشر کا ’’عمل‘‘ نسل نو کی گئی۔ مرد ’’آج‘‘ کا معاشرہ چلاتا ہے جبکہ ’’عورت‘‘ آنے والے ’’کل‘‘ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ وہ قوموں کی ’’معمار‘‘ (Builder) کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے معاشرے کی اہم ترین اور حساس ترین ذمہ داری عورت کے سپرد کی گئی ۔ یہ اس ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ اسے معاشرے کی دیگر ذمہ داریوں سے فارغ کیا جاتا یا اس کو کم سے کم شریک کیا جاتا۔ یہی اسلام نے طے کیا اور ہم خود بحیثیت عورت یہ جانتے ہیں کہ اگر ہم بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر سے باہر کی کچھ اور ذمہ داریاں اٹھالیتے ہیں تو بہرحال بچوں کی پرورش ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے مزاج میں تھکاوٹ اور چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔ ہماری توجہ تقسیم ہوجاتی ہے۔ ہمارے لیے اسلام نے کام مقرر کیا اس میں ہمارا بھلا تھا۔مگر افسوس ہم اس کو سمجھ نہ سکے۔ ہم نے اس احسان عظیم کی قدر نہ کی۔ اپنے دشمنوں کے جال میں پھنس گئے اور اپنے لیے اس کو ترقی‘ انصاف اور آزادی کہنے لگے کہ ہم ’’مرد‘‘بن جائیں۔ آج عورت کیا کررہی ہے۔ مردانہ لباس ‘ مردانہ انداز اور مردانہ کام کرنے کی آزادی سمجھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا عورت کی ترقی مرد‘‘ بننے میں ہے؟
آخر ہم بحیثیت عورت معاشرے میں کیوں جگہ نہیں حاصل کرسکتے ہمارے لیے اصل ’’انصاف‘‘ کیا ہے۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر میں اپنی تمام بہنوں سے درخواست کرونگی کہ اس بات پر ضرور غور کریں کہ ’’ہم کیا چاہتے ہیں؟‘‘
٭ کیا یہ ہمارے لیے انصاف ہے کہ ہمیں مرد بنایا جائے؟
٭ کیا یہ انصاف ہے کہ ہمیں صرف گلیمر اور خوبصورتی کے لیے استعمال کیا جائے؟
٭ کیا یہ انصاف ہے کہ ہمیں تعلیم و تربیت بالکل وہ دلوائی جائے جو مردوں کی دی جاتی ہے اور سولہ سال یا اٹھارہ اٹھارہ سال کے بعد جب ڈاکٹر یا انجینئر بن جائیں تو شادی کرکے گھر اور بچے سپرد کردیے جائیں۔ اگر معاشرے نے ہمارے لیے ’’نسل نو‘‘ کا کام طے کیا ہے تو کیا اسی کے مطابق عورت کو تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ ایک ذہین طالبہ جو اپنی زندگی کے بہترین سال ’’ انجینئر‘‘ بننے میں لگادیتی ہے وہ اپنے بچے تک کی نفسیات سے واقع نہیں ہوپاتی۔ گھریلو ذمہ داریوں کو مشکل سے سمجھ پاتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے تجربے پر اپنی نسل کی پرورش کرتا ہے اور نتیجہ ایک بکھری ہوئی قوم کی شکل میں سامنے آتا ہے آج ہمارے غور کرنے اور سمجھنے کا پہلو یہ ہے کہ اصل ہمارے ساتھ انصاف کیا ہے؟
کیا یہ نہیں ہے کہ نہ صرف ہماری شخصیت اور قابلیتوں کی نشوونما کا پور اپورا موقع فراہم کیا جائے بلکہ ہمیں اس قابل بنایا جائے کہ ہم زیادہ ترقی یافتہ صلاحیتوں کے ساتھ معاشڑے کے ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
پھر مرد کے ساتھ تعاون کا ایسا راستہ طے کیا جائے کہ ان دونوں کے اشتراک عمل سے معاشرہ صحت مند ماحول مہیا کرسکے اور اس کی بہترین شکل میاں بیوی کے اشتراک سے ایک پرسکون پرامن گھر کا ہے۔ جہاں دونوں کی محنتوں سے آنے والی نسل مکمل اعتماد اور توجہ سے پرورش پاتی ہے۔ جس طرح ہمارے آقا دو جہاں رحمۃ للعالمین نے بنا کر دیکھایا۔ اس وقت کون سے اسکول؍کالجز اور یونیورسٹیاں تھیں مگر ایسے انسان پیدا ہوئے جو انتہائی مہذب اور ایماندار تھے ان جیسا محنتی اور فرض شناس‘ بہادر و جرأت مندانسان تاریخ میں نظر نہیں آتا۔ ایک دوسرے کے ہمدرد‘ خیال رکھنے والے‘ اپنی ضرورت پر دوسروں کو ترجیح دینے والے ‘نیکی میں تعاون کرنے والے کیسا خوبصورت معاشرہ تھا جو آج Life Skills اور اخلاقیات کی باقاعدہ تعلیم دینے کے باوجود بنایا نہیں جاسکا۔
اس وقت عورتوں کے حقوق کے لیے بہت سی تنظیمیں بنانے کے باوجود عورتوں کو کیا حقوق ملے۔ روزبرو زان کی حیثیت ان کا مقام گرتا جارہا ہے۔ عورت کو میڈیا کے ذریعہ دل بہلانے کا آلہ بنادیا گیا ہے۔ آزادی کے نام پر تمام کام مردوں کے والے اس کو سپرد کردیے گئے ہیں۔
آج بھی اگر ہم اپنے لیے عزت‘ وقار اور خوبصورت زندگی چاہتی ہیں تو اس کا صر ف ایک ہی حل ہے کہ اپنے خالق اور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی تعلیمات پر عمل کریں۔ جو حیثیت انہوں نے مقرر کی اس پر مطمین ہوں۔ اس پر پورے اعتماد سے عمل کریں اور دنیا کو بتادیں کہ ہمارے اصل حقوق وہی ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اس کے علاوہ حقوق نہیں چاہیے۔ ہمارے ساتھ اصل انصاف وہی ہے جو اسلام نے کیا ہے۔ ہماری حقیقی ذمہ داریاں وہی ہیں جو ہمارے رب نے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہیں۔ باقی سب دھوکہ ہے فریب ہے۔ نعرے ہیں ان کی آڑ میں دراصل ہمارے ساتھ دھوکہ ہی کیا جاتا ہے۔ ہمیں صحیح مومن عورت کی زندگی ہی گزارنی چاہیے یہی اصل حقیقت ہے۔

حصہ