عفت و پاک دامنی

619

نازمین عامر
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اور اخلاقی طور مضبوط اکائی معاشرے میں مضبوط اخلاقی اقدار کی ضامن ہے۔ پاکستان میں ایک مضبوط خاندانی نظام موجود تھا جو اب بتدریج شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ہماری خاندانی روایات اسلام سے جڑی ہیں، ان روایات میں سب سے اہم حیا اور عفت و پاک دامنی ہے، اور یہ ہمارے ایمان کا اہم جزو بھی ہے۔ اسلام کا نظامِ عفت و عصمت بہت وسیع نظام ہے جس میں رہنے سہنے کی اقدار سے لے کر چال ڈھال، نشست و برخاست اور لباس کے لیے اصول تک شامل ہیں۔ یہ تمام ضابطے گھر کے افراد کی عفت اور خاندان کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک طرف والدین کی خواب گاہ میں اجازت لے کر داخلے کا حکم ہے تو باہر کے افراد کے لیے بھی گھر میں داخلے کو اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے کہ کوئی کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والے پتھر مارکر آنکھ پھوڑ دیں اس کا کوئی قصاص نہیں۔
عورت کی نامحرم مردوں کے ساتھ بات چیت اور تنہا رہنے کی ممانعت صنفِ نازک کی جان اور عزت کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ والدین جو خاندان کے سربراہ ہوتے ہیں، کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس کی آگاہی دیں۔ کیونکہ محفوظ خاندان محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔ بچوں اور بچیوں کو محرم اور نامحرم کی پہچان، اجنبی کے ساتھ جانے کی ممانعت، مخلوط محفلوں کے انعقاد پرپابندی… اس طرح کے اقدامات بچوں کو سمجھا کر کیے جائیں کہ دراصل یہ ان کے وقار اور حفاظت کے لیے ہیں۔ اس کے ساتھ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات کرے جن سے چادر اور چار دیواری کا تقدس برقرار رہے اور ہماری نسلیں ایک پُرسکون ماحول میں زندگی کی دوڑ میں شریک ہوں۔

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

سائرہ نعیم
مجھے اچھا لگتا ہے تمہارے پیچھے چلنا، ایک قدم ہی سہی مگر پیچھے رہنا، آگے نہ آنا، تم سے مقابلہ نہ کرنا۔ میں اپنے آپ کو بہت طاقتور اور محفوظ سمجھتی ہوں جب تم میرے آگے چلتے ہو۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہر زاویے سے میں تم کو بس آگے ہی دیکھنا چاہتی ہوں۔
رشتہ خواہ کوئی بھی ہو، تم میرے سر کا تاج ہو۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا ہر روپ میں آگے رہنا تمہارا حق ہے کبھی احترام کی ردا میں، کبھی محبت کی شکل میں اور کبھی مکمل لباس ہونے کے احساس میں… لیکن یہ تم نے کیا کیا کہ مجھے اپنے سے آگے دھکیل دیا…؟ ’’تم سب کرسکتی ہو، کسی سے کم نہیں ہو‘‘ کے شور میں تم کہاں چلے گئے…! میں تو اپنی حفاظت کے قابل نہیں، تمہاری کیسے کرسکتی ہوں…! اتنا تو سوچا ہوتا۔
’’تم بہادر ہو، سب کچھ کرسکتی ہو‘‘۔ تمہارے ان دلفریب الفاظ پر میں سحر زدہ ہوگئی اور بھاگتی چلی گئی۔ کتنی بڑی اور پُرپیچ رکاوٹیں آئیں، لیکن میں نہ رکی نہ پیچھے ہٹی… مگر آج منزل پر پہنچ کر سب کچھ پاکر میں ادھوری ہوں تم بِن۔ تم دور رہ گئے یا شاید کھو ہی گئے… کہاں رہ گئے؟ اب آ بھی جاؤ۔
بہادر ہونے کا یہ دھوکا مجھ سے زندگی کی چالیس بہاریں لے گیا۔ میں تنہا کھڑی رہ گئی۔ میں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جارہی تھی، سارے سہارے ہی ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتے چلے گئے، میرا دل بری طرح ٹوٹ چکا تھا، یہاں تک کہ مجھے وہ کتاب میسر آئی جس میں میرا ذکر ہے، تب مجھے پتا چلا کہ میری وجۂ تخلیق کیا تھی؟ اور میں کہاں کہاں سے فریب سمیٹتی رہی…اس الکتاب میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دل کو بہت محبت سے تھامتے ہیں، مایوس انسانوں کو سہارا دیتے ہیں، یوں ہاتھ پھیلا کر بانہوں میں لیتے ہیں جیسے کوئی بچھڑا کتنی صدیوں سے اپنے پیاروں کا انتظار کررہا ہو۔ اس کتاب میں اللہ تبارک تعالیٰ نے کتنا معتبر کیا تھا تمہیں، کتنا مان دیا تھا، میرا سہارا بنایا تھا، قوام بنایا تھا، لیکن نجانے کس دھوکے میں تم نے اپنے آپ کو بے وقعت کرلیا؟ اپنی طاقت کے نشے میں کیا کیا کرلیا؟ مگر میرے رب نے مجھے تھام لیا۔ اب بہت سے محبت کرنے والے میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہاں میں زیادہ بہادر ہوں، مگر تمہارے ساتھ۔ سنو! رب کے قوانین میں آجاؤ، دیکھنا زندگی کتنی حسین ہوگی۔

حصہ