برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

331

پانچواں حصہ
جماعت اسلامی پر حکومت کی جانب سے الزامات کی ایک طویل فہرست تھی جو پابندی لگانے کا جواز بنائے گئے، جن میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی ’’غیر ملکی آقاؤں‘‘ سے ہدایات حاصل کرتی ہے اور غیر ممالک میں پاکستان دشمن ذرائع سے مالی امداد وصول کرتی ہے۔
ان بھونڈے اور بلاجواز الزامات کی آڑ میں جماعت اسلامی کے تمام اثاثہ جات ضبط کرلیے گئے۔ یہاں تک کہ شعبۂ خدمتِ خلق کی میت گاڑیاں بھی بحقِ سرکار ضبط کرلی گئیں۔ جماعت اسلامی کا ترجمان رسالہ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ چھ ماہ کے لیے بند کردیا گیا، اور دفتر کو سیل کرنے کے بعد سرکاری اہلکار تمام رجسٹر اور ریکارڈ اپنے قبضے میں لے کر چلے گئے۔ ظلم کی حد یہ ہوئی کہ جب جماعت اسلامی پر سپریم کورٹ کی اپیل کے نتیجے میں پابندی ختم کرنے کا فیصلہ ہوا تب بھی یہ اثاثہ جات اور ریکارڈ جماعت اسلامی کے حوالے نہیں کیا گیا۔
ایوب حکومت کی اس بدمعاشی اور غیر جمہوری طرزعمل کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا۔ جگہ جگہ عوامی مقامات پر جلسے اور جلوس نکالے گئے جن میں ایوبی آمریت کا پردہ چاک کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی قانونی ٹیم نے مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں بلاجواز پابندی کے خلاف ایک رٹ دائر کی۔ جون 1963ء میں ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کی درخواست کو 1908ء کے ایک کالے قانون کا سہارا لیتے ہوئے مسترد کردیا۔ حالانکہ اس فیصلے میں بینچ کے ایک فاضل جج (جسٹس وحید الدین احمد) کے یہ ریمارکس قابلِ غور ہیں جو انہوں نے الگ فیصلے میں لکھے: ’’درخواست دہندگان (جماعت اسلامی) کو صفائی کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ اس طرح انہیں جماعت سازی کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا، جو پاکستان کا دستور انہیں عطا کرتا ہے‘‘۔ جسٹس وحید الدین احمد نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی لکھا کہ ’’مجھے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ پابندی کے حکم سے فطری انصاف کے تقاضے متاثر ہوئے ہیں اور غیر قانونی ہونے کی بنا پر ایسے حکم کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘
جبکہ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ میں بھی جماعت پر پابندی کے خلاف رٹ دائر کی گئی تھی جو خصوصی بینچ نے سماعت کے لیے منظور کرلی، اور جولائی 1964ء میں اس خصوصی بینچ نے اپنے فیصلے میں 6 جنوری 1964ء والے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے خلافِ قانون قرار دے دیا۔ ادھر مغربی پاکستان سپریم کونسل کے جسٹس اے۔آر۔ کارنیلس نے مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جماعت کی اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔ ستمبر 1964ء تک جماعت اسلامی پابندی کے اس فیصلے کے خلاف اچھی پوزیشن میں آچکی تھی اور ایوبی آمریت کے چہرے سے نقاب اترنا شروع تھی۔ ایوب خان کی حکومت نے مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جو اپیل کی تھی اسے بھی مسترد کیا جا چکا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ جماعت اسلامی کے حق میں آگیا، لہٰذا اب غیر قانونی اور بلا جواز گرفتاریوں اور نظربندیوں کو بھی چیلنج کیا گیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان کے گرفتار شدہ رہنما ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں رہا کردئیے گئے۔19 اکتوبر 1964ء کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے بھی پابندی، گرفتاریوں اور نظربندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تمام مقدمات ختم کرنے اور گرفتار شدگان کو فوری رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
ایوب آمریت کے چہرے سے نقاب الٹی جاچکی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عدلیہ نے جبری حکومت کے خلاف کھل کر منصفانہ فیصلے دئیے اور کسی بھی نوعیت کے حکومتی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائی۔
جماعت اسلامی پر سے جیسے ہی پابندی ہٹائی گئی چند گھنٹوں کے اندر اندر خیبر سے لے کر کھلنا، چٹاگانگ، مشرقی اور مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کے پرچم گھروں، بازاروں اور عمارتوں پر لہرانے لگے۔ اجتماعیت، محبت اور نظریے سے والہانہ وابستگی کی اس سے اچھی شاید ہی مثال پیش کی جا سکتی ہو۔ ایوب خان کے مارشل لا اور جبری پابندی نے جماعت اسلامی کو مزید مستحکم اور توانا کردیا تھا۔
جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بے باکانہ انداز میں ایوب خان کے خلاف مہم شروع کردی تھی، وہ ہر جلسے میں ایوبی ظلم و آمریت کو بے نقاب کرتے رہے، اور موچی دروازہ پر ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایوب خان کو نااہل اور اس کی صدارت کو غیر قانونی قرار دیا۔
اس جدوجہد کے دوران ہی ایوب خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا بھرپور اتحاد وجود میں آچکا تھا۔ اس اتحاد کے قائدین نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی کہ وہ ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیں، جسے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود منظور کرلیا۔
اب حکومتی مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایسا گندا پروپیگنڈا کیا گیا کہ شرفاء کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوگئے۔ اس منفی پروپیگنڈے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی سب پر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف مہم اپنے جوبن پر تھی اور سرکاری اور خریدے ہوئے علما کے ذریعے اس بات کو پھیلایا گیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جلسوں میں اسلا م کے اس اجتہادی پہلو کو نمایاں کیا کہ ’’مجبوری کی حالت میں جب اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی خامی کو قبول کرنا ہوگا، اس صورت میں اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا کہ خاتون امیدوار کی حمایت کی جائے، اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کررہی ہے۔‘‘
اس مہم کے مقابلے میں ایوب خان ملک بھر میں طوفانی دورے کررہے تھے اور ہر جلسے میں اپنی حکومت اور اپنے صدارتی عہدے کو عین اسلامی قرار دیتا تھے۔ جس کی تائید سرکاری ملاّ اور میڈیا دونوں مل کر کرتے رہے۔ حد یہ ہوگئی تھی کہ فاطمہ جناح، جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے مؤقف کا سرکاری سطح پر مکمل بلیک آئوٹ کیا جانے لگا۔ پروپیگنڈے کے جواب میں وضاحت اور تردیدی بیانات تک کو اخبارات میں چھپنے سے روکا جارہا تھا۔
اپوزیشن کی بدقسمتی کہیے کہ انتخابی مہم کے دوران ہی سابق گورنر جنرل وزیراعظم خواجہ ناظم الدین دل کے دورے کے سبب انتقال کرگئے۔ خواجہ ناظم الدین ایوب آمریت کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم عمل تھے۔ واضح رہے کہ ایوب خان یہ دوسرا صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے، اس سے پہلے من چاہے ریفرنڈم نما انتخاب کی بدولت ان کو صدارت کے عہدے پر بٹھایا گیا تھا۔
ایوب خان نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے اور ساتھ ہی ساتھ سپورٹنگ امیدواروں کے طور پر اپنے چہیتے وزراء کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کریں۔ چنانچہ تین حکومتی وزراء محمد شعیب، ذوا لفقار علی بھٹو، اور صبور خان سمیت دو آزاد امیدواروں نے بھی اپنے کاغذات داخل کروائے جو بعد میں واپس لے لیے گئے۔ انتخابات سے کچھ دن پہلے 1958ء کے الیکشن ایکٹ کے قواعد کو ختم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا گیا۔ مطلب تھا کہ اب کھلم کھلا اور اخلاقی حدود سے آزاد ہوکر انتخاب لڑا جائے گا۔ انتخابی حلقوں، فہرستوں اور حد بندیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ازسرنو ترتیب دیا گیا، جعلی ووٹرز اور غنڈوں کی فوجِ ظفر موج تیار کی گئی، سرکاری وسائل اور انتظامی مشنری کو ہر ممکن طریقے سے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔
مشرقی پاکستان میں اپوزیشن کی مہم اور فاطمہ جناح کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ کسی طرح فاطمہ جناح کی مہم کو سبوتاژ کیا جائے یا روکا جائے۔ چنانچہ ایک اور حربہ اختیار کیا گیا، اور انتخابات کو جو کہ مارچ میں ہونا تھے، دو ماہ پہلے ہی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح نئی تاریخ 2 جنوری 1965ء کو کروانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
وقت سے پہلے انتخابات کے نوٹیفکیشن کا براہِ راست اثر محترمہ کی انتخابی مہم پر پڑا اور انہیں مختلف علاقوں میں دورے کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا۔ ایک اور بدمعاشی یہ ہوئی کہ بڑے پیمانے پر حکومت مخالف امیدواروں کو اغوا کیا جانے لگا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان جو اُس وقت نوجوانوں کا رہنما تھا، اپنی بھرپور مہم کے ساتھ محترمہ کے حق میں جذباتی فضا بنارہا تھا، جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن جماعتیں تمام تر مشکلات کے باوجود محترمہ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتی رہیں۔ مگر میڈیا میں ہر اعتبار سے اس جمہوری آواز کو روکا جارہا تھا۔ مغربی پاکستان میں کراچی کے سوا دیگر حصوں میں ایوب خان کا اثر زیادہ دکھائی دیتا تھا، مگر اس بات کا قوی امکان تھا کہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کے سامنے ایوبی آمریت کا چراغ گل ہوجائے گا۔ لیکن پاکستان کی انتخابی تاریخ کی بدترین دھاندلی اور غنڈہ گردی کے سامنے شرفا کی ایک نہ چل سکی اور انتخابی نتائج کو راتوں رات تبدیل کرتے ہوئے ایوب خان کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ نتائج کے مطابق ایوب خان کو پچاس ہزار اور فاطمہ جناح کو اٹھائیس ہزار ووٹ ملے۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو زیادہ تر ووٹ مشرقی پاکستان سے ملے، جبکہ مغربی پاکستان میں صرف کراچی سے فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں۔ نتائج آجانے کے بعد کراچی کے بے شمار ممبرز کوحکومت نے روپے پیسے اور زور زبردستی سے خرید کر ان کی حمایت اپنے نام کروالی۔ جبکہ کراچی کے یہ ممبرز فاطمہ جناح کے نام پر انتخاب جیتے تھے۔ صدارتی جھرلو اور جعلی مینڈیٹ کے بعد قومی اسمبلی کا چناؤ تھا جو دو ماہ بعد مارچ میں ہوا، اس میں بھی پرانی حکمت عملی اپنائی گئی اور سرکاری مسلم لیگ جو کنونشن لیگ تھی، کو کامیاب کروایا گیا۔ کراچی میں لسانی فسادات کی ابتدا بھی ایوب خان کے دور میں ہوئی اور پہلا اردو اور پختون جھگڑا بھی اسی دور میں ہوا، اور ایوب خان کا لڑکا گوہر ایوب ایک لسانی غنڈے کے روپ میں سامنے آیا۔ اس مقابلے پر آنے والے ہر شریف آدمی کو جعل سازی کے ذریعے ہروایا گیا۔
(جاری ہے )

حصہ