برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

347

قسط نمبر 126
تیسرا حصہ
اجتماعِ عام کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ ایسے وقت میں جب کہ اچانک ہی لاؤڈ اسپیکر کی اجازت بھی منسوخ کی جاچکی تھی، اراکینِ جماعت مشرقی و مغربی پاکستان سے اجتماع میں شرکت کے لیے آنے کو بے چین تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں متفقین اور کارکنان نہایت پُرجوش انداز سے اس اجتماع کے انقعاد کے منتظر تھے۔ اجتماعِ عام کے لیے جو مقام شرکاء کی حاضری کے خیال سے اقبال ٹاؤن کا وسیع میدان تجویز ہوا تھا اُس کو بھی انتظامیہ نے تبدیل کیا، اور بھا ٹی و ٹکسالی دروازے کے وسط میں ایک میونسپل باغ میں کرنے کی اجازت دی۔ ظاہر ہے کہ یہ میدان کسی بھی بڑے جلسے اور اجتماع کے لیے ناکافی تھا۔ آبادی اور ٹریفک کی اڑچند الگ… مگر سب سے بڑا مسئلہ سیکورٹی کا تھا جو آبادی کے بیچوں بیچ کرنا کارکنان کے لیے سخت دشوار کام تھا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی قیادت نے اس پر بحالت مجبوری رضامندی ظاہر کردی۔
البتہ لاؤڈ اسپیکر کی بلاجواز پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت کے جج نے جماعت اسلامی کی دائر کردہ درخواست پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی۔ واضح رہے کہ اسی مجسٹریٹ نے ان ہی دنوں میں دوسرے سیاسی جلسوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے پہلے کہ عدالت کو کوئی وضاحت پیش کی جاتی، صوبائی گورنر امیر محمد خاں نواب آف کالا باغ نے لاؤڈ اسپیکر پر مستقل پابندی کا آرڈیننس جاری کردیا، تاکہ کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے پہلے ہی قانون میں تبدیلی کی جاسکے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس کی اجازت دینے سے اہلِ محلہ کی مخالفت اور نقضِ امن کا اندیشہ ہے۔ مگر معززینِ علاقہ یہ لکھ کر دینے کو بھی تیار ہوگئے تھے کہ ہمیں جلسے میں لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اس کشیدہ ماحول میں بیرونِ لاہور اور مشرقی پاکستان سے جماعت اسلامی کے کارکنان کے قافلے جلسہ گاہ پہنچنے شروع ہوگئے۔ 25 اکتوبر کو اجتماع گاہ تقریباً بھر چکی تھی۔ چونکہ لاؤڈ اسپیکر پر پابندی تھی مگر اس کا بھی حل نکال لیا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکبر (جیسے نمازِ عید میں ہوتے ہیں) مقرر کردیے گئے تھے جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسٹیج سے ادا ہونے والا ہر جملہ بآوازِ بلند دہرا دیں۔ افتتاحی اجلاس میں شرکاء کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے افتتاحی اجلاس سے خطاب شروع ہی کیا تھا اور ابھی سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد دو چار جملے ہی ادا کیے تھے کہ باہر سے آئے ہوئے تقریباً دودرجن مسلح غنڈوں نے جلسہ گاہ پر ہلہ بول دیا اور اجتماع گاہ کے اندر موجود اسٹالوں کو الٹنا شروع کردیا۔ اُن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں بھی تھیں اور خنجر بھی۔ غنڈے کھلے عام پستول اور خنجر لہراتے دندناتے پھرتے تھے، اور ان کے راستے میں جو بھی اسٹال دکھائی دیا اس کو الٹنا شروع کردیا۔ مغلظات ان کی زبان سے جاری تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کرائے کے غنڈوں نے آگ لگانی شروع کردی۔ یہ غنڈے حکومتی سرپرستی میں محض اجتماع کو درہم برہم کرنے آئے تھے۔ مگر سیکورٹی پر موجود کارکنان نے نہایت حکمت کے ساتھ اس معاملے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور میاں طفیل محمد صاحب اپنی تصنیف ’’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’کارکنان شامیانوں میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے میں لگ گئے، بہت حد تک آگ پر قابو پالیا گیا۔ کچھ کارکنان حملہ آوروں کا تعاقب کرنے لگے۔ ایک حملہ آور آگ لگانے کے بعد بھاگ کر ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔ ایک حملہ آور نے اجتماع گاہ پر گولی چلادی۔ وہ اصل میں مولانا مودودی کو نشانہ بنانا چاہتا تھا، لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو فوراً بھاگ اٹھا، بھاگتے ہوئے اُس نے مزید دو فائر کیے۔ ایک گولی جماعت کے کارکن اللہ بخش کو لگی جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ملزم کا پیچھا کرکے اسے پکڑلیا اور پولیس کے حوالے کردیا، لیکن پولیس نے ملزم کو چھوڑ دیا۔ جماعت کے کارکن جو اس کی نگرانی کررہے تھے اسے پھر پکڑ لیتے اور پولیس کے حوالے کردیتے۔ آخرکار پولیس ملزم کو پکڑ کر اپنے کیمپ لے گئی۔‘‘
اس تمام ہنگامہ آرائی اور اللہ بخش کی شہادت کے دوران مولانا مودودی نہایت اطمینان کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے رہے۔شرکائِ اجتماع بھی اپنی اپنی جگہ نہایت صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ موجود رہے۔ چودھری غلام محمد صاحب جو اسٹیج پر ہی موجود تھے، انھوں نے مولانا سے درخواست کی کہ ’’مولانا بیٹھ جائیے، گولیاں چل رہی ہیں، کہیں گولی نہ لگ جائے‘‘۔ مولانا مودودی نے بآوازِ بلند تاریخی جملہ ادا کیا ’’اگر آج میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا؟‘‘
اس سانحے کے بعد اجتماع کا افتتاحی سیشن ختم کردیا گیا۔ مگر مولانا مودودی نے کارکنان کو ایک ہدایت کی کہ آپ تمام کارکنان وفود کی شکل میں لاہور شہر میں نکل جائیں، انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کریں، عوام کو آگاہ کریں کہ پُرامن شرکاء پر حکومتی دہشت گردی کی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ وفود لاہور شہر میں اور قریبی علاقوں میں نکل گئے جس کی وجہ سے نہ صرف لاہور بلکہ تمام ملک میں حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔ غنڈہ گردی سے خائف ہوکر اجتماع ختم کرنے کے بجائے جماعت اسلامی نے اجتماعِ عام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح تین دن کامیابی کے ساتھ اجتماع جاری رہا۔ اسٹیج سے تقاریر ہوتی رہیں۔ مکبر کارکنان اپنی زوردار آواز میں وہی جملے دہراتے جو مقرر نے کہے ہوتے۔ اس طرح اطمینان کے ساتھ ہر مقرر کا خطاب شرکاء تک پہنچایا گیا۔
یہ تھا ایوب خان کی مارشل لائی جمہوریت کا وہ چہرہ جس پر سے نقاب الٹ چکی تھی۔ اگرچہ اُس وقت کمیونی کیشن کی ان سہولیات کا تصور تک نہیں تھا جو ہمیں آج موبائل فون، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ جیسی صورتوں میں میسر ہیں، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی کے اجتماع عام پر ایوب خان کی جارحیت کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ ایوب خان نے سرتوڑ کوشش کرلی کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی آواز کو روکا جاسکے۔ یہاں تک کہ لائوڈ اسپیکر کے استعمال تک پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر اللہ نے سچ اور حقانیت کا پیغام پلک جھپکتے پورے پاکستان میں پہنچانے کا بندوبست کردیا۔
جماعت اسلامی کے وفود نے شہر کے گلی کوچوں، چوباروں اور گھر گھر جاکر ایوب خان کی آمریت کا پردہ چاک کیا۔ اس طرح دنیا بھر میں جماعت اسلامی کا پیغام پہنچ چکا تھا۔
اس اہم ترین اجتماعِ عام کے ساتھ ہی مولانا مودودی نے ایوب خان کی شخصی آمریت کا سر کچلنے اور عوامی رائے عامہ بیدار کرنے کا پیغا م دیا، اور تحریک بحالیٔ جمہوریت کا آغاز کردیا۔ نومبر 1963ء میں جماعت اسلامی نے دو نکاتی مہم چلانے کا فیصلہ کیا اور اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا۔
مذکورہ دو نکات یہ تھے:
٭ بنیادی انسانی حقوق بلا کسی شرط کے عدالتوں سے بحال کروائے جائیں۔
٭ پاکستان میں رہنے والوں کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے۔
اس مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر رابطۂ عوام مہم کا آغاز ہوا اور عوام سے محضرناموں پر دستخط کروائے گئے۔ یہاں تک کہ ’’9میل لمبا‘‘ محضرنامہ تیار ہوگیا۔
ایوب خان نے اس مہم کو بزور طاقت روکنے کے بہت جتن کیے، مگر سوائے شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ مجبور ہوکر میاں طفیل محمد اور چودھری غلام محمد پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے کے بعد ان دونوں اکابرین کو گرفتار کرلیا۔ جس بدنام زمانہ ایکٹ کے تحت گرفتاری عمل میں آئی تھی اُسے ’’آفیشل سیکرٹ ایکٹ ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایک سال تک کراچی کی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا، مگر کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ اس طرح حکومت نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مقدمہ خاموشی کے ساتھ واپس لینے میں عافیت جانی۔
9 میل لمبا محضرنامہ اب پارلیمنٹ میں پیش ہونے کو تیار تھا۔ چنانچہ اس کے لیے 18دسمبر 1963ء کا دن مقرر ہوا، اور یہ محضرنامہ تین چار چھکڑوں پر لاد کر ڈھاکا کی پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے تک لایا گیا۔ پھر اسلامی جمہوری محاذ کے مرکزی رہنما میاں عبدالباری نے پارلیمنٹ کے دوسرے اراکین کے دستخط کروانے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ اس محضرنامے سے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ملک کے عوام کیا چاہتے ہیں؟
جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ دسمبر کے آخر میں ہی سلیکٹ کمیٹی نے کچھ ترامیم کے ساتھ بنیادی حقوق کا بل قومی اسمبلی سے منظور کروایا۔ مگر یہ نامکمل بل تھا۔ اس بل میں عائلی قوانین اور مغربی پاکستان کے فوجداری قانون کو استثنیٰ حاصل تھا۔ ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی اس بل کے حوالے سے شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتی، چنانچہ متوقع ردعمل سے بچنے کے لیے حکومت نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلافِ قانون جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا اور مولانا مودودی کو گرفتار کرکے نظربند کردیا۔ اور انتہائی عجلت میں 15 جنوری کو صدر مملکت نے اس بل پر دستخط کرکے اسے نافذالعمل کردیا۔ اور اس طرح اس کے فوری بعد ایوب خان کی جیب کی پارٹی کنونشن مسلم لیگ نے ڈھاکا میں ایک اجلاس بلاکر ایوب خان کو اس جماعت کا سربراہ مقرر کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ کا نام جہاں پاکستان بنانے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہیں یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اسی مسلم لیگ نے پاکستان میں قائداعظم کی دی ہوئی جمہوریت کا منہ کالا کرنے اور بدنام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقتدار کی ہوس اور تخت کی بھوک نے مسلم لیگ کے اتنے ٹکڑے کردیے کہ اصل مسلم لیگ کے مخلص رہنماء تعداد میں اتنے بھی نہیں تھے کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے۔
(جاری ہے)

حصہ