تاریکی کے باسی

304

قاضی مظہر الدین طارق
اگر ہم سمندر کی گہرائی میں اُترتے جائیںگے… تاریکی بڑھے گی، سردی بڑھے گی، دبائو بڑھے گا، آکسیجن کم ہوگی۔
کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ اس ماحول میں بھی بسنے والے ہوں گے؟
ایک دن ہم تین دوستوں نے سوچاکہ رب العالمین کی نشانیاں دیکھنے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں اُتریں۔ ایک دوست شجی نے کہا: ’’میرے چاچا پاک نیوی میں ہیں اُن سے مدد لیتے ہیں، وہ سمندر پر جانے کا انتظام کرسکتے ہیں۔‘‘
عمر نے کہا: ’’میںبابا سے کہہ کر پانی کی گہرائی میں اُترنے کے لیے آبدوز کا انتظام کرواتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’شجی بھائی! تم اپنے چاچا سے پوچھو، میرا خیال ہے کہ ’آبدوزایلوِن‘ پانی کے جہاز پر ضرور ہوگی۔‘‘
شجی بولا: ’’ہاں محمد بھائی! میں چاچا سے معلوم کرتا ہوں۔‘‘
عمر نے کہا: ’’پھر تو میرے بابا کو صرف ایک روبوٹِک آبدوز کا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘
………٭٭٭………
ہم’ایلوِن‘ میں بیٹھ کر جیسے ہی پانی میں اُترے، تو دیکھا کہ پہلے روشن خطے میں کچھ پودے اور جانور ہیں جو فوٹوسنتھے سِس کرکے غذا بنارہے ہیں، وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو غذا اضافی ہے اسے ایک اور قسم کے جان داروں کے حوالے کررہے ہیں جو اس کو لے کرسمندر کی تہ میں اُترتے جارہے ہیں تاکہ وہاں رہنے والے بھوک سے نہ مر جائیں۔
پھر ہم اور اُترے۔ اندھیرا ہونے لگا، ٹھنڈ بھی بڑھ گئی، دبائو بھی بڑھنے لگا۔ ابھی ہلکی ہلکی روشنی تھی، ہم اپنے اطراف بہت سی اقسام کی مخلوقات دیکھ رہے تھے۔ خُرد اور دیگر نباتات کی بنائی ہوئی غذائیں طوفان اور بارش کی طرح اُتر رہی تھیں۔ اُوپر رہنے والی بڑی مچھلیاں بھی رزق کی تلاش میں تیزی سے آجا رہی تھیں۔
ہم کو سمندر میں زبردست ہلچل محسوس ہوئی، دیکھا تو ’دیوقامت اِسکوئیڈ‘ نے وہیل پر حملہ کردیا۔ بے چاری وہیل شکار کرنے آئی تھی مگر خود ہی شکار ہوگئی۔
آگے بڑھے، ایک ہموار سطح نظر آئی، ہم نمونے اورتصویریں جمع کرنے میں مشغول تھے کہ سمندر میں لہروں کا طوفان اُمنڈ آیا، شُکر ہے کہ وہ ہم سے کچھ فاصلے پر تھا۔
جو غذائیں مٹی کی تہ دفن ہوگئی تھیں وہ مٹی کے ساتھ پانی میں ایک خزانے کی طرح باہر آگئیں۔
واہ! کیا منظر تھا! نہ جانے کہاں سے سیکڑوں مخلوقات آگئیں اور اس خزانے کی لوٹ مچ گئی!
ہم تیزی سے دوسری طرف نکل گئے۔
ہم نے ایک سمندری’ککڑی‘ دیکھی، جومٹی میںاپنا رزق تلاش کررہی تھی، دوسری طرف ’سمندری گھونگا‘ جوایک پیر سے سرک کر کچھ ڈھونڈ رہا تھا، اُدھر تین پایا مچھلی تہ میں چل کر اپنے پیروں کے نشانات بنا رہی تھی۔
پھرہم آگے بڑھے، مکمل اندھیرا ہوچکاتھا۔ یہاں آکسیجن بھی بہت کم تھی، اس لیے یہاں کی مخلوق کے دہانے بہت بڑے تھے۔
اِدھر دیکھا تو ایک بڑی اور موٹی مچھلی نظرآئی جس کا منہ بڑا تھا اور سر پر مشعل تھی اور دونوں طرف بہت ساری لائٹیں تھیں۔ آگے دیکھاکہ ایک مچھلی کی دُم پرمشعل جل رہی تھی، دوسری کے حلق کے اندر اور دونوں طرف بہت سی روشنیاں تھیں۔ ایک ’اِسکوئیڈ‘ سے اس طرح روشنیاں نکل رہی تھی کہ جیسے ہیروں جڑا زیور پہن رکھا ہو۔
ایک ٹرینچ دیکھی، یہاںسے ہم پلٹ گئے۔
مگرہم بھی ہارنے والے نہ تھے، ہم نے اپنی روبوٹِک آبدوز
خندق میں بھیج دی اور خود واپس سطح پر پہنچ کر پانی کے جہاز میںکمپیوٹرکے سامنے بیٹھ گئے، اور اسکرین پر نظر جما دی۔
روبوٹ گہرائی میں اُترکر تصویریں بھیج رہا تھا۔
اس نے نئی بات یہ بتائی کہ اب درجۂ حرارت اتنا بڑھا کہ تیل اُبلنے لگا ہے، سیسہ پگھلنے لگا ہے، آکسیجن تقریباً ناپید ہوگئی ہے۔
وہ تلاش میں نیچے جارہا تھا، مگر کوئی حیات نظر نہیں آرہی تھی، جبکہ ہمیں بھی یقین ہوچلا تھا کہ اب کچھ نہیں مل سکتا۔
اچانک دُورگہرائی میں کچھ روشنی نظرآرہی ہے، وہ اُس طرف بڑھا تو ہم نے دیکھاکہ وہاں کوئی آگ ہے۔
ہم میں سے بہت سوں کی چیخیں نکل گئیں۔ پانی میں آگ کیسی؟ ہم کو اَب پتا چلا، سردی سے گرمی کیوں ہوگئی! روبوٹ اور قریب گیا تو ہم نے دیکھا کہ سمندر کے فرش میں دراڑیں ہیں جن میںسے 1600درجے سینٹی گریڈ گرم لاوا نکل رہا ہے، پانی کا درجۂ حرارت 370سینٹی گریٹ تک پہنچ گیاہے۔
یہاں 150 فٹ اونچی چمنیاں بن گئی ہیں، اس کے قریب ہم نے تیس فٹ لمبے’ ٹیوب وارمز‘ دیکھے جن کے دہانے تیز نارنجی رنگ کے تھے۔ ان کے قریب اور بہت سے عجیب و غریب جاندار نظر آئے۔
ان میں چند ایک یہ ہیں: دو خولی سیپی، کیکڑے، سمندری مکڑی، آکٹوپس، جھینگے، مچھلی جیسی مخلوق اور بالوں والا اندھا کیکڑا جو سب سے عجیب ہے۔ یہ تو صرف چند ایک ہیں۔ اب تک تین سو مختلف نسلیں دریافت ہوچکی ہیں۔
صرف بیس سال پہلے انسان ایسی حیات سے واقف ہی نہیں تھے جوکہ آکسیجن کے بغیر، مکمل تاریکی، انتہائی گرمی اور اِتنے زبردست دبائو میں زندہ رہ سکتی ہو۔
یاد رہے! یہ سب سطح سے ہزار گنا سے زیادہ دبائو میں، بغیر آکسیجن، سخت ترین گرمی میں بھی زندہ ہیں۔
جدید علم والے جو اللہ کو خالق مانتے بھی ہیں،کہتے ہیں کہ: ’’خالقِ کائنات نے جو کچھ پیدا کردیا، اُس نے اِس کے چلنے چلانے کے جو اصول اور ضوابط بنادیئے، اب اِس کے پاس کوئی چوائس نہیں، یہ اپنے اصول خود بھی نہیں توڑ سکتا۔‘‘
توکوئی معجزہ نہیں ہوسکتا! (نعوذ باللہ) حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پانی نے نہیں ڈبویا۔
جبکہ ابھی ہم نے دیکھا کہ کن کن حالات میں وہ حیات کی کیسی کیسی چوائسس زمین پر ہی دکھا رہا ہے، وہ تو ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے سو کرتا ہے!
٭…٭…٭

حصہ