نصراللہ خان‘ ایک عہد ساز کالم نگار

2364

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی
(ان کی برسی پر لکھی گئی تحریر، ۲۲؍فروری ۲۰۰۲ء)
نصراللہ خان کا شمار اردو صحافت کے معروف فکاہیہ کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ واحد فکاہیہ کالم نویس ہیں جنھوں نے کم و بیش نصف صدی تک مسلسل کالم نویسی کی۔ اس عرصے میں وہ ملک کے مشہور اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے جن میں روزنامہ ’حریت‘، روزنامہ ’جنگ‘ اور ہفت روزہ ’تکبیر‘ سر فہرست ہیں۔ نصراللہ خان کا قلم اگرچہ تحریر و تخلیق کے دیگر شعبوں مثلاً ڈراما نویسی اور خاکہ نگاری میں بھی رواں رہا تاہم ان کی اول و آخر پہچان کالم نگاری ہی رہی اور اسی شعبے کو انھوں نے اوّلیت بھی دی۔ ان کی تحریر کی شگفتگی اور روانی نے قارئین کو نہ صرف ان کی طرف متوجہ کیے رکھا بلکہ ایک صاحبِ اسلوب کالم نگار کی پہچان بھی دی۔
نصراللہ خان کے آباو اجداد غیر منقسم ہندوستان میں صوبہ سرحد کے شہر پشاور کے رہنے والے تھے ان کے دادا میاں محمدخان کی مادری زبان پشتو تھی اور پیشہ تجارت تھا بعد ازاں وہ امرتسر میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ان کی شادی ایک کشمیری جاگیردار گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کی بیوی کا نام عزیزی بیگم تھا جن کے نام پر کشمیر میں ایک گاؤں ‘‘عزیزپورہ’’ بھی ہے۔
نصراللہ خان کے والد کا نام محمدعمرخان تھا۔
بقول نصراللہ خان ان کے والد کا شمار ان شیوخ مکتب میں ہوتا تھا جن کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ کہا ہے:

شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

محمدعمر خان کے شاگردوں میں اے حمید، سعادت حسن منٹواور کیلاش ناتھ کاٹجو (جو بعد میں ہندوستان کا وزیردفاع بنا) شامل تھے۔
محمدعمرخان نے گِبن کی شہرہ آفاق تصنیف ’’رائز اینڈفال آف دی رومن ایمپائر‘‘کا دو حصوں پر مشتمل اردو ترجمہ کیا۔ اسی طرح انھوں نے ’’ہرن‘‘ کی خصوصیات پر بھی ایک طویل مضمون لکھا تھا جس کے نافے سے مشک نکلتا ہے۔ وہ ’’طلسمِ ہوشربا‘‘ اور ’’داستانِ امیرحمزہ‘‘ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔
ان کے ننھیال کا تعلق جاؤرے کے بانیٔ ریاست کے خاندان سے تھا جاؤرے میں جو لوگ نواب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نصراللہ خان ۱۱نومبر۱۹۲۰ء کو ریاست ’’جاؤرہ‘‘ (مالوہ) میں پیدا ہوئے۔ جاؤرہ ہندوستان کے ایک علاقے مالوے کی ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست تھی۔ اس زمانے میں اس کا نام ’’گلشن آباد‘‘ تھا۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں وہاں علم و ادب کا بہت چرچا تھا۔
جاؤرے کے نواب صاحب کے بڑے بھائی صاحبزادہ سرفراز علی خان بہت علم دوست اور ادب پرورشخص تھے ان کے دولت کدے پر داغ دہلوی، اکبر الٰہ آبادی، مولوی نذیراحمد، علامہ راشدالخیری اور خواجہ حسن نظامی آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ نصراللہ خان کا بچپن جاؤرے ہی میں گزرا، جاؤرے میں ہی رام پور کے رہنے والے ایک بزرگ پیر محمدیوسف خان تھے، انھوں نے مثنوی مولانا روم کا ترجمہ بھی کیا تھا جس کا نام ’’پیراہن یوسفی‘‘ ہے۔ پیرجی مصنف اور شاعر بھی تھے اور میاں رزاق رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور بعد میں خلیفہ بھی بن گئے تھے۔ ان کی دو کتابیں باقی رہ گئی تھیں جن میں سے ایک جاؤرے کی تاریخ تھی، اسی میں لکھا ہے کہ نواب اسمٰعیل خان صاحب کے زمانے میں جاؤرے کا نام گلشن آباد رکھا گیا تھا جو کہ بعد میں دوبارہ جاؤرہ ہی ہوگیا۔
نصراللہ خان نے اپنی یادداشتوں میں ہندوستانی ریاستوں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی فرنگی حکومتوں کی نو آبادیاں تھیں جو انھوں نے نوابوں اور جاگیرداروں کو ٹھیکے پر دے رکھی تھیں اور وہاں کے نواب یہ سمجھتے تھے کہ یہاں کی رعایا کا کام صرف محنت مزدوری کرنا ہے اور حکمرانوں کا خزانہ بھرنا ہے اور اس کے بدلے میں نواب انھیں جو کچھ دے دلادیں اس پر صبر و شکر کرنا ہے۔ چوںکہ وہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے لوگوں کو اپنے حقوق کا احساس نہیں تھا۔ وہاں کے نوابوں کے شوق بھی عجیب تھے۔ ریاست ٹونک جو ملحقہ ریاست تھی وہاں کے نواب امیر خان کو شکار کا بہت شوق تھا اور وہ جنگلی جانوروں سے کھلے میدانوں میں اپنے شکاریوں کے ساتھ تیغ اور بھالوں سے شیر کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔
نصراللہ خان جب جاؤرے سے امرتسر گئے تو وہاں اردو کا چرچا تھا۔ اس زمانے میں عبدالمجید سالکؔ، چراغ حسن حسرت ؔاور مولانا ظفر علی خاں کی تحریریں چھپا کرتی تھیں اور نصراللہ خان انھیں کی طرز پر لکھنے کی مشق کیا کرتے تھے۔ مگر ان کی انگریزی اردو سے بہتر تھی۔ سعادت حسن منٹو ان کے دوست تھے اور دونوں انگریزی ناول پڑھا کرتے تھے اور انگریزی میں ہی مضامین لکھا کرتے تھے۔ منٹو کیوں کہ ان سے ایک جماعت آگے تھے اس لیے ان سے ایک سال قبل ہی میٹرک پاس کرکے مساوات میں مترجم لگ گئے تھے اور نصراللہ خان مساوات اور زمیندار میں مضامین چھپوایا کرتے تھے۔
نصراللہ خان نے باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے ایم اے او (MAO)کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت وہاں فیض احمد فیض ؔبھی پڑھایا کرتے تھے جو ان کے گھرکے سامنے رہا کرتے تھے اور نصراللہ خان سے بھی ان کی دوستی ہوگئی تھی۔ فیض ؔبہت شرمیلے اور دبلے پتلے ہوا کرتے تھے اور کلاسیکی موسیقی سے شغف رکھتے تھے جب کبھی رفیق غزنوی یا خورشید انور امرتسر آتے تو فیض، نصراللہ خان کے ساتھ مجید وکیل کے گھر موسیقی سننے کے لیے جایا کرتے تھے۔اس وقت ایم اے او کالج کے پرنسپل ڈاکٹرایم ڈی تاثیر اور وائس پرنسپل صاحب زادہ محمود الظفرخان تھے جو کہ مشہور افسانہ نگار ڈاکٹررشید جہاں کے شوہر تھے۔
نصراللہ خان نے ۱۹۴۵ء میں اجمیر سے بی اے (BA) اور بی ٹی (BT) کیا اور ۱۹۴۷ء میں ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
علم حاصل کرنے اور اسے عام کرنے کا شوق انھیں ورثے میں ملا تھا وہ ایک علم دوست شخصیت کے صاحبزادے تھے۔ زندگی بھر اپنے والد کو طالب علموں میں گھرا دیکھا،تعلیم دیتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے صحافت کو بطور پیشہ اپنایا مگر ایک بہترین تعلیمی ادارہ ان بچوں کے لیے قائم کیا جو آمدنی میں کمی کے باعث اچھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ اس اسکول کا نام ‘‘ہیپی ڈیل’’ رکھا گیا۔یہاں ان کی BT کی تعلیم بہت کام آئی جو Happy Dale اسکول قائم کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہ اعلیٰ معیار کا ایسا تعلیمی ادارہ تھا جہاں پر معیاری تعلیم دیگر اسکولوں کے مقابلے میں معمولی فیس کے عوض دی جاتی تھی۔ نصراللہ خان نے اس اسکول کے لیے بہت محنت کی۔
یہ اسکول ۱۹۵۲ء میں ناظم آباد میں قائم کیاگیا۔ آنسہ ممتاز صاحبہ اس کی بانی پرنسپل تھیں۔ سات ایکڑ پر اس کی عمارت بنوائی گئی تھی اور طلبا کی بڑی تعداد اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے آیا کرتی تھی۔
خوش قسمتی سے نصراللہ خان نے بچپن ہی سے مختلف علاقوں کی تہذیب و ثقافت دیکھ رکھی تھی اور انھیں وہاں کے اس وقت کے مشاہیر سے ملنے کا شرف حاصل تھا۔ وہ بھوپال، امرتسر، اجمیر، ناگپور اور لاہورمیں بھی رہے۔ بقول نصراللہ خان وہ جو شخصیات جو میرے لیے اساتذہ کا درجہ رکھتی ہیں، ان میں مولانا ظفر علی خان، مولانا چراغ حسن حسرت، مرتضیٰ احمدمیکش، حاجی لق لق اور مولانا عبدالمجید سالک کے علاوہ شورش کاشمیری، سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض بھی شامل ہیں۔ نصراللہ خان کے گھر میں شروع ہی سے مختلف اخبارات و رسائل آیا کرتے تھے جو کہ اس زمانے میں بہت مشہور تھے جن میں ساقی، پھول، اور بنات وغیرہ شامل تھے۔ مشہور ادبی شخصیات کا بہت آنا جانا تھا جس میں شورش کاشمیری، اے حمید، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ شامل تھے۔ غازی علم دین کا واقعہ نصراللہ خان کے سامنے پیش آیا تھا جس نے ان پر بہت اثر کیا۔ علامہ اقبال سے بھی نصراللہ خان کے اچھے مراسم تھے اور خط وکتابت رہتی تھی۔ مجاز سے بھی ان کی خاصی بے تکلفی تھی وہ ان کے بہت اچھے دوست تھے۔ حفیظ جالندھری، احمدندیم قاسمی سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت ادبی قسم کا تھا۔ گھر کا ماحول بھی علمی تھا کیوں کہ والد خود ماہر تعلیم تھے اس لیے نصراللہ خان کے لکھنے کے شوق کو نہ صرف پسند کرتے تھے بلکہ بہت حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا ظفر علی خان ان کے اولین استاد کا درجہ رکھتے تھے، جو بابائے صحافت مانے جاتے ہیں۔ چوںکہ نصراللہ خان کے والد کے دوست بھی تھے اس لیے ان سے تعلق ایسا ہی تھا جیسا ایک بیٹے کا باپ سے ہوتا ہے۔
جب نصراللہ خان امرتسر میں تھے تو مولانا ظفر علی خان جی ٹی GT روڈ پر واقع ان کے گھر میں آیا جایا کرتے تھے۔ ان کے والد سے بہت دوستی تھی اور جب بھی امرتسر آنا ہوتا تو ان کے گھر ہی میں ٹھہرا کرتے تھے۔ نصراللہ خان ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان پر اشعار بھی کہے۔مثلاً:

کیسی آسانی سے آجاتے ہیں نصراللہ کے دام میں
بڑے ہی بھولے ہیں مسلمانانِ امرتسر

نصر اللہ خان نے سترہ (۱۷) برس کی عمر سے ظفر علی خان کی صحبت میں لکھنا شروع کیا بلکہ سیکھنا شروع کیا۔شروع شروع میں جو کچھ تحریر کیا وہ علمی اور ادبی موضوعات پر مضامین ہوا کرتے تھے جنھیں کالم نگاری یا صحافت نہیں کہہ سکتے جو کبھی زمیندار میں، کبھی احسان میں شائع ہوجایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اخبار ’زمیندار‘ تھا۔ یہ اخبار کیا تھا ایک یونیورسٹی تھی۔ ایک جامعہ تھا۔ بڑے بڑے نامور لوگوں نے اس میں شامل ہونا اپنے لیے باعث فخر سمجھا ان میں سلیم پانی پتی، نیاز فتح پوری، سالک اور مہر بھی تھے اور مولانا کلکتے سے چراغ حسن حسرتؔ کو بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے اگر ’زمیندار‘ میں کبھی ہڑتال ہوتی تو ظفر علی خان، اخترشیرانی کو اپنے دفتر میں بلا لیتے اور یہ دونوں مل کر پورا اخبار نکال لیتے۔ تھوڑی سی خبریں بھی اس میں شامل کردی جاتیں۔
نصراللہ خان نے پاکستان آنے کے بعدعملی زندگی کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۲ء تک بحیثیت پروڈیوسر ریڈیوپاکستان سے وابستہ رہے۔ بیسیوں ریڈیو ڈرامے، بے شمار فیچر اور ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ کے عنوان سے ریڈیو کے لیے کالم سب سے پہلے انھوں نے لکھے، ’’بات سے بات‘‘ کا ریڈیائی فیچر بھی ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بہت مقبول ہوا۔ ’’دیکھتاچلا گیا‘‘ ایک طرح سے روڈ کمنٹری تھی۔ حمید نسیم صاحب نے اس کی دھن بنائی تھی۔ عبدالماجد اسے پڑھا کرتے تھے۔ ابوالخیرکشفی اور چمن دہلوی نے بھی زور آزمائی کی۔ بعد ازاں انھوں نے انگریزی سے اخذ کیا گیا ایک ڈرامہ ’’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘‘ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ’’سومنات‘‘، ’’ایک حقیقت چار فسانے‘‘، ’’نام کا چکر‘‘ بھی ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔
ریڈیو کی ملازمت کے دوران ہی روزنامہ ’’امروز‘‘میں ’’چہار دیش‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم نگاری کا آغاز کیا۔ ’’نمکدان‘‘ اور ’’امروز‘‘ سے باقاعدہ مزاح نگاری کی۔ اس کے علاوہ خاکے بھی لکھے اور سب سے پہلا خاکہ شاہد احمددہلوی کا لکھا جس پر حسن عسکری نے ان کی تعریف کی اور کہاکہ’’ اچھے خاکہ نگار ہو۔باقاعدہ لکھو‘‘ پھر اس کے بعد انھوں نے بہت خاکے لکھے اور باقاعدہ خاکہ نگاری شروع کردی۔ کچھ عرصے میں ہی ان کی خاکوں پر مبنی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ شائع ہوئی جس میں باون خاکے شامل تھے، اس کو بہت پذیرائی ملی۔ اس کے بعد ان کے مختلف کالموں کا مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ طبع ہوا۔
۱۹۶۲ء میں فخر ماتری مرحوم نے اپنے اخبار ’’حریت‘‘ کا کراچی سے اجرا کیا تو نصراللہ خان آغاز سے ہی اس اخبار سے منسلک ہوگئے اور کالم نگار کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور اس کے پہلے پرچے سے ہی ’’آداب عرض‘‘ کے نام سے فکاہی کالم لکھنا شروع کیے۔
انھیں صحافت کے تمام گر آتے تھے۔ تجربے کار صحافی اور صحبت یافتہ تھے۔ قدیم صحافیوں سے بہت کچھ سیکھا ہوا تھا۔ ان کے انداز تحریر سے قدیم صحافتی انداز چھلکتا تھا۔ انھوں نے مسلسل ۲۸برس تک کالم لکھے۔ ان کے ساتھ شروع میں حسن مثنیٰ ندوی بھی ہوا کرتے تھے اور سب مل کر ’’حریت‘‘ کو ایک بہترین اخبار بنانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
نصراللہ خان جس وقت ’’حرّیت‘‘ میں تھے اس وقت ان کے ساتھ انور مقصود، سجاد میر، افسر آزر، جمال احسانی، حسن مثنیٰ ندوی، رضا علی عابدی، محمدیوسف، عبدالرؤف عروج اور شمع زیدی بھی کام کیا کرتے تھے بلکہ خان صاحب کچھ عرصہ ’’حریت‘‘ کے اعزازی مدیر بھی رہے۔ وہ اخبار کے رسیا تھے۔ درویش صفت آدمی تھے۔ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے، انھیں لوگوں کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو باہر نکالنا آتا تھا۔ وہ قافلہ آگے بڑھانے والوں میں سے تھے۔ ان کے پاس معلومات بہت تھیں۔ بہت آسانی سے سادہ اور سلیس زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کردیا کرتے تھے۔
فخر ماتری زیادہ عرصے حیات نہ رہے اور ان کا اخبار ’’حرّیت‘‘ ہیرالڈپبلی کیشنز Herald Publications نے لے لیا مگر نصراللہ خان اس کے ساتھ وابستہ رہے کیوںکہ اس کے مالکان ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ نصراللہ خان خود کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بہتر مالکان نہیں دیکھے۔ فخر ماتری کے بعد ان کے صاحب زادے انقلاب ماتری نے بھی انھیں بہت عز ت و احترام سے رکھا۔ نصراللہ خان کی کالم نگاری سے حریت کی فروخت اور شہرت میں اضافہ ہوا۔ قارئین کے ایک بڑے حلقے میں انھیں پسند کیا جانے لگا۔ اس کے بعد روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں میر خلیل الرحمن کے اصرار پر ’’آداب عرض‘‘ کے عنوان سے ہی کالم لکھنا شروع کیا۔ نصراللہ خان اپنے کالم میں مزاح کے ساتھ جو سیاست کا رنگ لاتے تھے وہ ان کا خاصہ تھا، ان کے علاوہ کوئی ایسا نہ کرسکا۔
حریت کے بعد جنگ میں آداب عرض کے نام سے تقریباً پانچ سال کالم لکھے۔ اس کے علاوہ محمدصلاح الدین کے کہنے پر ’’تکبیر‘‘ کے پہلے شمارے سے ہی اس میں کالم لکھنا شروع کیا اور دس سال تک ’’نصراللہ خان کا کالم‘‘ کے عنوان سے لکھا۔
نصراللہ خان نے ’’جنگ‘‘ میں کالم نویسی کا آغاز۱۹۹۰ء سے کیا اور اس کا عنوان ’’آداب عرض‘‘ ہی رکھا۔ نصراللہ خان کو ’’جنگ‘‘ میں عالی جی لے کر آئے تھے۔ مالکان اخبار ’’جنگ‘‘ اورادارہ ان پر فخر کرتا تھا۔
نصراللہ خان نے ’’تکبیر‘‘ میں بھی کالم لکھے جو زیادہ تر شخصیات کے خاکے تھے، ’’تکبیر‘‘ کے مدیرمحمد صلاح الدین سے ان کا رشتہ بالکل باپ بیٹے کا سا تھا۔ جب ۱۹۸۴ء میں ’’تکبیر‘‘ کے لیے مجلس مشاورت بنائی جارہی تھی تو صلاح الدین صاحب نے بغیر پوچھے ہی نصراللہ خان کا نام شامل کردیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ میں آپ کی خاکہ نگاری کا بہت بڑا مداح ہوں اور خاکہ نگاری چوںکہ قارئین کو اور مجھے بہت پسند ہے اس لیے ’’تکبیر‘‘ میں آپ خاکہ نگاری کریں گے۔ کالم چوںکہ ہفتہ بھر بعد پرانا ہوجاتا ہے مگر خاکے کبھی بھی چھپ سکتے ہیں۔ لہٰذا نصراللہ خان نے ’’تکبیر‘‘ میں خاکہ نگاری کی، پہلا خاکہ ظفر علی خان کا تھا جو کہ ٹائٹل پر بھی چھپا۔
نصراللہ خان نے اتنے زیادہ کالم تحریر کیے کہ انھیں خود بھی خاکوں اور کالموں کی تعداد یاد نہیں تھی۔ ایک مرتبہ فرہاد زیدی نے ان کے کالموں کے لیے کہا تھا، ’’اگر نصراللہ خان کے کالم کراچی سے بچھانا شروع کیے جائیں تو بلاشبہ ۱۵میل تک تو با آسانی بچھ جائیں گے۔‘‘
نصراللہ خان نے کچھ عرصے ’’نوائے وقت‘‘ میں بھی ’’پیر صاحب‘‘ کے نام سے فکاہیہ کالم لکھے۔
جامعہ کراچی کے ممتاز فارغ التحصیل طالب علموں پر مشتمل جماعت یونی کیرینزنے جمعرات ۲۴؍نومبر۱۹۹۴ء کو نصراللہ خان کی ۷۵ویں سالگرہ منائی تھی۔ اس وقت ان کی صحافتی خدمات کو پچاس برس ہوچکے تھے۔ اس موقع پر اس وقت کے سندھ کے گورنر جناب محمود اے ہارون نے اپنے پیغام میں کہا تھا:
نصراللہ خان ہماری صحافت کی ان باقیات الصالحات میں سے ہیں جنھوں نے مولانا ظفر علی خان جیسے نابغۂ روزگار صحافیوں کی آنکھیں دیکھیں ہیں لہٰذا وہ ان صحافتی روایتوں کے امین ہیں جن میں قلم کی عصمت کو بہو بیٹی کی عصمت کی طرح عزیز رکھا جاتا ہے۔ صحافت کی آبرو نصراللہ خان جیسے بزرگوں کے دم سے قائم ہے۔ بے شک وہ ملک کے منفرد کالم نگار ہیں۔
محمد صلاح الدین (ایڈیٹرتکبیر) نصراللہ خان کے بارے میں کہتے ہیں:
نصراللہ خان اپنی طبعی اور صحافتی عمر کے لحاظ سے اس وقت برصغیر کی اردو صحافت میں معمرترین صحافی اور مزاح نگار ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ طبعی عمر پرتو بڑھاپے کے اثرات کو روکنا ان کے بس میں نہ تھا۔ لیکن اپنے قلم کی جولانی کو انھوں نے۵۰ سال تک جس طرح محفوظ رکھا بلکہ مزید نکھارا اور سنوارا وہ ان کا عظیم اور منفرد کارنامہ ہے۔
کالم نگار کی حیثیت سے خان صاحب کا یہ کارنامہ ہے انھوں نے عام آدمی میں سیاسی شعور بیدار کیا، سیاست دانوں کو ان کی غلطیوں پر ٹوکا۔ ’’حریت‘‘ کے (۲۸) برسوں میں شاید ہی کوئی سیاست دان اور حکمران ہوگا جسے خان صاحب نے اپنے طنز و مزاح کا ہدف نہ بنایا ہو اور یہ ثابت نہ کیا ہو کہ اتنی اونچی کرسیوں پربیٹھنے والے کتنی نیچی سطح پر رہتے ہیں۔ وہ ان لکھنے والوں میں سے تھے جنھیں دیکھ کر بہت سوں نے لکھنا سیکھا اور بہت سوں نے چھوڑ بھی دیا۔خان صاحب کی کالم نگاری سے ہماری صحافت کو تو بہت فائدہ پہنچا لیکن خود خان صاحب گھاٹے میں رہے۔ وہ اس طرح کے ان کی کالم نگاری ان کے دیگر کمالات کا پردہ بن گئی۔ ایسا اکثرہوا ہے کہ کسی ادیب کی ایک حیثیت اتنی نمایاں ہوجاتی ہے کہ اس کی دوسری حیثیتوں کی طرف نظر نہیں جاتی۔ مولانا ظفرعلی خان جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے نثرنگار تھے لیکن ان کی شاعری ذہنوں پر ایسی مسلّط ہوئی کہ ان کی نثرنگاری کو فراموش کردیا گیا۔ پطرس کی مزاح نگاری کی ایسی دھوم ہوئی کہ کسی کو یاد نہ رہا کہ وہ اعلیٰ درجے کے نقاد بھی ہیں اور ان کی سنجیدہ تحریریں، ان کی مزاحیہ تحریروں سے کئی گنا زیادہ ہیں اور نہایت فکر انگیز ہیں اسی طرح اگر نصراللہ خان کا نام لیجیے تو ذہن میں ایک بے مثال کالم نگار کا تصور ابھرتا ہے حالانکہ وہ ڈراما نویس اور خاکہ نگار بھی بے مثال ہیں۔ خان صاحب نے ریڈیو پاکستان کے لیے تین درجن سے زیادہ ڈرامے لکھے ہیں جنھیں ریڈیوپاکستان کی تاریخ میں سنگ ہائے میل کی حیثیت حاصل ہے۔
نصراللہ خان کو ان کی طویل خدمات کے اعتراف کے طور پر ۱۹۸۴۔۱۹۸۳ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا اور اے پی این ایس (APNS) ایوارڈ کے اجرا کے پہلے سال انھیں بہترین کالم نگار کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ جب نصراللہ خان کو APNS ایوارڈ کی اطلاع ملی کہ آپ کو بہترین کالم نگار کا ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے مبارک ہوتو انھوں نے کہا:
یہ توآپ کو مبارک ہو کیوںکہ میں ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے نہیں لکھتا، میرے لیے تو سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ ایک شخص صبح سویرے مجھے ٹیلی فون کرکے کہتا ہے کہ ’نصراللہ خان!آج تمھارا کالم بہت اچھا تھا۔‘
نصراللہ خان کی دو کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ ایک کالموں کا مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ اور دوسری شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ’’کیاقافلہ جاتا ہے‘‘ اس کے علاوہ ایک غیرمطبوعہ آپ بیتی ’’ایک شخص جو مجھ سا تھا‘‘ ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔
آخری عمر میں بیمار ہوگئے اور امریکہ میں (میری لینڈ)، اپنی صاحبزادی کے پاس چلے گئے تھے۔ ۸۲برس کی عمر میں بائیس۲۲؍فروری ۲۰۰۲ء کوپاکستان میں فن فکاہیہ کالم نگاری کا یہ روشن ستارہ جو جانِ انجمن تھا ہمیشہ کے لیے بجھ گیا اور اپنے پیچھے یادوں کے ہزاروں دیپ جلتے ہوئے چھوڑ گیا۔

حصہ