ہم نہ بھولے تجھے، ایک یادگار تقریب

371

ڈاکٹر نثاار احمد نثار
مسعود احمد برکاتی کی شناخت ان کی تحریریں ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں ان کی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں‘ ان کے کاٹ دار جملے ہمارے ذہنوں میں فکر و آگہی کے در کھولتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و صحافی محمود شام نے یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) اور چلڈرن فائونڈیشن کے اشتراک سے مسعود احمد برکاتی کی یاد میں منعقدہ تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ برکاتی صاحب کا شمار اردو زبان کے محسنوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس نفسانفسی کے دور میں بھی قابل ستائش خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کے تقدس کو پروان چڑھایا‘ وہ بغیر کسی لالچ کے طویل عرصے تک بچوں کا ادب تخلیق کرتے رہے۔ سعدیہ راشد کو چاہیے کہ وہ ہمدرد یونیورسٹی میں برکاتی صاحب کے نام سے ایک Chair قائم کریں اور ان کے لیے ایک یادگاری لیکچر کا باقاعدہ اہتمام کریں۔ ’’ہم نہ بھولے تجھے‘‘ کے عنوان سے مسعود احمد برکاتی کے لیے یہ پروگرام کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی کے سیمینار ہال میں منعقد ہوا جس میں تلاوت کلام مجید اور نعت رسولؐ پیش کرنے کی سعات قاری حامد محمود نے حاصل کی۔ سیدہ نقوی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسعود احمد برکاتی کے بارے میں کہا کہ انہوں نے چار سال برکاتی صاحب کی مجلسِ ادارت میں گزارے ہیں اس دوران انہوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ انتہائی نفیس انسان تھے وہ ایک قد آور قلم کار تھے انہوں نے زندگی بھر سچائیاں رقم کیں۔ وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ ان کی رحلت ایک سانحہ عظیم ہے۔ چلڈرن فائونڈیشن کے صدر علی حسن ساجد نے کہا کہ انہوں نے مسعود احمد برکاتی کی انگلی پکڑ کر اپنا ادبی سفر شروع کیا تھا۔ وہ میرے محسن و غم خوار تھے انہوں نے حکیم محمد سعید اور ماہنامہ ’’نونہال‘‘ کی بہت خدمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ آج کے پروگرام میں سعدیہ راشد تشریف لاتیں لیکن وہ اپنی مصروفیات کے سبب اس پروگرام کے لیے وقت نہیں نکال پائیں اگر وہ آجاتیں تو برکاتی صاحب کی روح بہت خوش ہوتی اور برکاتی صاحب کے عقیدت مندوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی۔ فاضل مقرر نے یہ بھی کہا کہ حکیم محمد سعید کہا کرتے تھے کہ برکاتی صاحب اور وہ مرنے کے بعد ہی ہمدرد سے رخصت ہوں گے خدا کی شان دیکھیے کہ ہر دو صاحبان نے زندگی بھر ہمدرد کی خدمت کی اور موت نے ان کو ہمدرد سے جدا کیا۔ جب ہمدرد نونہال کی اشاعتی لاگت بڑھ گئی تو برکاتی صاحب نے اس کا ذکر حکیم محمد سعید سے کیا جس پر حکیم محمد سعید نے کہا کہ انہیں نقصان قبول ہے لیکن پرچہ بند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنا سرمایہ نونہالانِ وطن پر صرف کررہے ہیں جس کا صلہ اللہ تعالیٰ دے گا۔
اس محفل میں بچوں کے ادب سے وابستہ راحت عائشہ‘ صالحہ عزیز‘ محمود الٰہی مخمور‘ سلیم فاروقی‘ ڈاکٹر ظفر احمد خاں اور شاہین حبیب بھی موجود تھے لیکن وقت کی کمی کے باعث ان لوگوں نے تقریریں نہیں کیں۔ پروفیسر ذکریا حسن ساجد باوجوہ تقریب میں شریک نہ ہوسکے تاہم ان کا مضمون سامعین کو سنایا گیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستانی حکومت بچوںکے ادبی شعبے کو تسلیم ہی نہیں کرتی جب کہ یہ ادب کی نرسری ہے بچوں کے ادب کے بڑے بڑے اہم نام آہستہ آہستہ گم نام ہوتے جارہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے غیر معیاری درجہ بندیوں پر حکومتی سول ایوارڈز کی بندر بانٹ جاری ہے۔ جدون ایب نے کہا کہ انہیں ادارتی امور پر آگاہی ہمدرد نونہال سے ملی ہے۔ برکاتی صاحب جب تک کسی لفظ سے مطمئن نہیں ہوتے تھے اس وقت کوئی تحریر نونہال میں نہیں جاتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ برکاتی صاحب کراچی کے حالات سے پریشان رہتے تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ ہر طرف امن وامان ہو‘ ادبی محفل سجائی جائیں۔ نونہالانِ وطن دولتِ علم سے مالا مال ہوں تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ وہ بچوں سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ برکاتی صاحب بہت پُر خلوص و ملن سار انسان تھے انہوں نے 1947ء میں صحافتی میدان مین قدم رکھا اور پانچ نسلوں تک وہ بچوں کی بھرپور تربیت کرتے رہے۔ انہوں نے بچوں کا پہلا سفر نامہ لکھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ پروفیسر سلیم مغل نے کہا کہ مسعود احمد برکاتی نے 66 سال تک انتہائی دیانت داری اور دل جمعی سے ادب کی خدمت کی۔ ادبی دنیا میں وہ معتبر شخصیت تھے اور عام زندگی میں بھی وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ان کے اوصافِ حمیدہ ہم سب پر روشن تھے۔ وہ نیک دل انسان تھے ان کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔ اس تقریب میں زاہدہ برکاتی کا مضمون سیدہ نقوی نے پڑھ کرسنایا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ ان افراد کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے برکاتی صاحب کی یاد میں اتنی شان دار تقریب کا اہتمام کیا۔ یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے کہا کہ مسعود احمد برکاتی بچوں کے ادب کا ایسا سایہ دار درخت تھے جس کی چھائوں میں پاکستان کی کئی نسلوں نے پرورش پائی۔ 10 دسمبر 2017ء کو وہ ہم سے جدا ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملے ان کے انتقال سے ہمدرد نونہال یتیم ہوگیا وہ جس کلیبر کے انسان تھے اس سطح پر ان کی خدمات کاتذکرہ ہونا چاہیے تھا لیکن ان کو وہ پزیرائی نہ مل سکی جس کے وہ حق دار تھے۔ ہم من حیث القوم اپنی تہذیبی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ برکاتی صاحب نے ہمدرد فائونڈیشن کے لیے اپنے روز و شب وقف کر رکھے تھے لیکن اس ادارے نے بھی ان کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی اور کوئی قابل ذکر پروگرام نہیں کیا۔ اس موقع پر سلمیٰ خانم نے حاضرین اجلاس کی سامنے تین قراردادیں پیش کیں:
(1) حکومت پاکستان مسعود احمد برکاتی مرحوم کی ادبی خدمات کے صلے میں انہیں بعداز مرگ سول ایوارڈ سے نوازے۔
(2) اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسعود احمد برکاتی کے نام سے بچوں کے ادب کے لیے خصوصی شعبے قائم کیے جائیں۔
(3) کسی معروف شاہراہ کو مسعود احمد برکاتی کے نام سے منسوب کیا جائے۔
یہ تینوں قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تسلیم الٰہی زلفی نے ٹیلی فونک پیغام میں کہا کہ مسعود احمد برکاتی اپنی ذات میں اردو ادب کی یونیورسٹی تھے۔ ان سے بے شمار طالبان علم و فن نے استفادہ کیا اور آج بھی ان کا فیض عام جاری ہے ان کی تربیت یا فتہ افراد ہمدرد نونہال کا اثاثہ ہیں۔ برکاتی صاحب جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہم نے انہیں اپنے درمیان پایا۔ انسان مر جاتا ہے لیکن اس کے کارنامے یاد رہتے ہیں برکاتی صاحب بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا پروگرام

ادکامی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ملک کی معروف شاعرہ کینیڈا میں مقیم شاہدہ حسن نے کی جب کہ مہمان خاص روبینہ تحسین بینا اور گلشن سندھو جب کہ مہمان اعزازی سید مہتاب شاہ اور ڈاکٹر رحیم خان ہمراز تھے۔ اس موقع پر شاہدہ حسن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے صدیوں سے ہر انسان اپنی مادری زبان سے نہ صرف بے پناہ محبت کرتا ہے بلکہ اسے مقدس بھی سمجھتا ہے‘ دیکھا جائے تو دنیا کی ہر قوم اور معاشرے کا ہر فرد یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ جو اس بات کو نہیں مانتے ان کی یا تو زبان نہیں ہوتی یا پھر ان کو اپنی زبان نہیںآتی۔ 12 فروری مادری زبانوں کو یاد کرنے کا عالمی دن آج ہم منا رہی ہیں جو ہمیں یاد دلاتا ہے مادر (Mother) یعنی دھرتی جس زبان کے لوگ آپس کے تعلقات میں استعمال کرتے ہیں اس کے احترام کا مطلب عوام کو مقدم جاننا ہے‘ جو عوام کو جاہل گنوار سجھتے ہیں‘ عوام میں بولی جانے والی اور سمجھنے والی زبانوں کو بھی گھٹیا‘ بے کار اور غیر تہذیب یافتہ قرر دیتے ہیں بالعموم اور بالغ رائے دہی کی طرف اور خصوصی طور پر اقوام متحدہ بننے کے بعد زبانوں کے بارے میں ان خیالات نے بدلنا شروع کیا تھا۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ بلاشبہ مادری زبان ایسا ذریعۂ اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان سب سے پہلے اظہارِ خیال کرتا ہے اس لیے مہذب اقوام مادری زبانوں کے تحفظ کے لے اقدامات کرتی ہیں اور بچوں کو ابتدائی تعلیم بھی مادری زبان میں دیے جانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی متعدد علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں کئی زبانیں ایسی ہیں جو معدوم ہو رہی ہیں‘ ان زبانوں کو بچانے کے لیے حکومتی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں علاقائی یا مادری زبانیں بچوں پر علم کا پہلا دروازہ کھولتی ہیں ان کے بعد ان پر دوسری زبانوں کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ اس موقع پر معروف افسانہ نگار شاعرہ زینت کوثر لاکھانی اور زیب النساء زیبی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام سنایا ان میں سرور شمال پشتو‘ افضل ہزاروی ہندکو‘ شبیر نازش پنجابی‘ یامین عراقی انگریزی اور دیگر کئی شعرا نے سندھی‘ اردو کے علاوہ اپنی اپنی زبانوں میں کلام پیش کیا جن میں عرفان عابدی‘ کھتری عصمت علی پٹیل‘ سرور شمال‘ زیب النساء زیبی‘ غازی بھوپالی‘ اقبال افسر رضوی‘ صغیر احمد جعفری‘ عشرت حبیب‘ جرح دیبا‘ طاہر سلیم طاہر‘ شگفتہ ناز‘ ریحان احسان‘ ریحان گوہر فاروقی‘ دلشاد احمد دہلوی‘ ہدایت سائر‘ فرح کلثوم‘ ذکی محی الدین‘ عبید رضا مرزا‘ تنویر حسین سخن‘ سمیر بونیری‘ نصیر شاہ قمر‘ امان اللہ فائق۔ آخر میں ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کی جانب سے سب کا شکریہ ادا کیا۔

آزاد خیال ادبی فورم کا مذاکرہ اور مشاعرہ

آزاد خیال ادبی فورم کراچی کی ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو ہر مہینے دو پروگرام ترتیب دیتی ہے۔ ہر پروگرام کے پہلے حصے میں مذاکرہ ہوتا ہے اور دوسرے میں محفل شعر و سخن سجائی جاتی ہے۔ اس تنظیم نے 20 فروری کو کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں ’’ادبی تحریک اور اس کی ادب پر اثرات‘‘ کے عنوان سے مذاکرے کااہتمام کیا۔ شمس الغنی نے صدارت کی اس موقع پر ممتاز شاعر‘ نقاد اور صحافی سرور جاوید نے کہا کہ ادب پر رجحان اور نظریات اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب لوگوں کی اکثریت آپ کے ساتھ مل جائے تو تحریک بنی جاتی ہے ورنہ رجحان۔ ادب کا قاری ادب کاعنوان ہوتا ہے اور کسی بھی فن پارے پر رائے زنی کا حق رکھتا ہے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے ماننے والے رجحانات میں ادب کی دو بڑی تحریکیں سامنے آئییں ایک سرسید کی تحریک دوسری ترقی پسند تحریک۔ سرسید کی روشن خیال تحریک کی وجہ سے معاشرے میں تبدیلی رونما ہوئی‘ مولانا الطاف حسین حالی چونکہ سرسید کے حامی تھے لہٰذا اردو ادب میں بھی اس کا اثر پڑا اور ادب میں گل و بلبل کے بجائے نئے تجربات ہوئے۔ ترقی پسند تحریک نے اردو شعر و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے اس تحریک نے ادب کو نئے نئے رجحانات دیے اور ادب کو زندگی سے مربوط کر دیا اس تحریک کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ادب کے ذریعے انسانی ذہنوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ادب کا زرین دور وہ تھا جب ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس تحریک سے ہٹ کر بھی چند قلم کاروں نے اپنی ادبی حیثیت کو منوایا ہے۔ 1936سے 1960 تک ترقی پسند تحریک کا سنہری دور تھا۔ اس تحریک نے تمثیلاتِ شاعری کو تبدیل کیا ان کا کہنا تھا کہ زندگی کو براہِ راست لکھا جائے۔ فکشن اور شاعری میں زندگی کو لکھنے کا رواج پیدا کیا اس تحریک کے تحت شاعری میں جو علامات استعمال کی گئیں وہ زندہ علامات تھیں اس تحریک نے ممنوع موضوعات کو بھی ڈسکس کیا۔ اس تحریک نے ظالم اور مظلوم کو الگ الگ خانوں میں رکھا۔ انہوں نے منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی اور معاشرتی شعور بلند کرنے پر زور دیا۔ سرور جاوید نے مزید کہا کہ ترقی پسند تحریک نے انسانی مسائل کو بھی ادب کا حصہ بنایا۔ عوام پر جو ظلم ہو رہے تھے اس پر آواز اٹھائی۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی حالتِ زار پر قلم اٹھایا۔ اس مذاکرے میں حسن جاوید‘ افضال بیلا‘ نصیر سومرو‘ سلمان ثروت‘ غلام علی وفا نے بھی حصہ لیا۔ صاحب صدر نے کہا کہ 1990ء میں جدیدیت ختم ہوچکی ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی تک جدیدیت پر بات ہو رہی ہے ہمارے ملک میں بیشتر نظریات مغرب سے آئے ہیں۔ ادب سیاست اور معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ ہر زمانے میں ظالم طبقہ موجود ہوتا ہے اور مظلوم طبقہ بھی۔ جب ادیب و شعرا ظلم کے خلاف لکھنے لگتے ہیں تو معاشرے میں انقلاب آتا ہے آج بھی ایک طبقہ حکمران ہے اور دوسرا محکوم‘ لیکن فی زمانہ سچائیاں لکھنے والے کتنے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرور جاوید علم دوست آدمی ہیں ان کی محبت میں ہم سب یہاں جمع ہوتے ہیں آج کی محفل میں ہر شاعر نے خوب صورت کلام پیش کیا۔ اس موقع پر صاحب صدر کے علاوہ سرور جاوید‘ غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ سیف الرحمن سیفی‘ افضل بیلا‘ راقم الحروف‘ سخاوت علی نادر‘ محمد عمر برناوی‘ نصیر سومرو‘ عمران شمشاد‘ نعیم سمیر‘ احمد جہانگیر‘ تاج علی رانا‘ سلمان ثروت‘ ہدایت سائر‘ آزاد حسین آزاد‘ سلطان حسان‘ شاہ زیب خان اور عارف اللہ برہم نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس پروگرام میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

حصہ