چین سے یاری

291

زاہد عباس
مجھے ذرا ذرا یاد ہے جب ہم چھٹیاں گزارنے اپنی نانی کے گھر لاہور جایا کرتے تھے اُس وقت ہمارے ننھیال میں ہر جگہ قالین بچھے ہوتے۔ گھر میں بچھائے گئے اعلیٰ قسم کے ان قالینوں پر ہم شہزادوں کی طرح چلتے پھرتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ہمارے نیند سے جاگنے سے قبل ہی گھر میں ڈالے گئے قالین تبدیل کردیے جاتے۔ نانی کے گھر اس طرح اعلیٰ قسم کے قالینوں کی جگہ مزید خوبصورت قالینوں کا بچھایا جانا میرے لیے حیران کن ہوتا۔ چھٹیوں کے دوران جب تک ہم اپنے ننھیال میں قیام کرتے، یہی کچھ دیکھنے کو ملتا۔ خیر جوں جوں وقت گزرتا گیا، بات کھلتی گئی کہ ماموں قالین کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ درجنوں چھوٹے بڑے کارخانوں سے تیار شدہ مال پہلے گھر لایا جاتا ہے بعد ازاں مقررہ وقت پر مختلف پارٹیوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ہم نے اپنے ننھیال میں ہمیشہ ہی اعلیٰ قسم کے قالین بچھے ہوئے دیکھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قالین کے کام کو قومی صنعت کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان میں تیار کیے جانے والے قالینوں کی دنیا بھر میں مانگ ہوا کرتی تھی۔ یہاں کراچی کی غریب آبادیوں میں بسنے والے لوگوں، خاص کر خواتین کی بڑی تعداد اس پیشے سے وابستہ تھی جو اپنے گھروں میں مال بنایا کرتیں۔ اسی بنا پر اسے گھریلو صنعت بھی کہا جاتا۔
ایران عراق جنگ کے زمانے یعنی 1980ء کی دہائی میں یہ صنعت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ ایک جانب یہ صورتِ حال، تو دوسری طرف بازاروں میں مشین سے بنائے جانے والے غیر ملکی قالینوں کی بھرمار پر حکومتی خاموشی اور عدم توجہی نے اس صنعت کو زمین بوس کرکے رکھ دیا۔
یہاں قالین کی صنعت پر تمہید باندھنے کا مقصد حکومت کو آنے والے اُس طوفان سے آ گاہ کرنا ہے جو کارچوبی یا سلمیٰ ستارے کہلانے والی دوسری بڑی گھریلو صنعت زردوزی پر آیا کھڑا ہے۔ میرے ایک دوست گزشتہ چالیس برس سے کارچوبی یعنی ساڑھیاں، دلہنوں کے شرارے اور غرارے بنانے کی صنعت سے وابستہ ہیں،نے اس صنعت پر آنے والے زوال کے بارے میں بتایا کہ پاک چین دوستی ہمارے کاروبار پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوئی ہے ہمارے کام میں ستارے اور نگینوں سمیت جتنے ایٹم لگائے جاتے ہیں وہ تمام تر ہی چائنا سے درآمد کیے جارہے ہیں خام مال تو ایک طرف بنے بنائے سوٹ تک درآمد کیے جاتے ہیں ہم بازاروں سے آڈر لے کر مال تیار کرتے ہیں کئی کاریگروں سمیت بجلی اور جگہ کا کرایہ بھی نکالنا پڑتا ہے بڑی محنت مزدوری کے بعد بچوں کی روزی روٹی کا بندوست ہو پاتا ہے چائنا کا ہماری صنعت میں آنا ہمارے لئے زہر قاتل ثابت ہوتا جارہا ہے جتنی لاگت میں ہم مال تیار کرتے ہیں اس سے کہیں کم میں چائنا سے تیار شدہ مال بازاروں میں دستیاب ہے
بڑے سرمایہ کاروں کو اس صورت حال میں زیادہ فائدہ ہو رہا ہے جس کے پاس پیسے ہیں وہ خام مال کنٹینر کے حساب سے لا رہا ہے لوگ اپنی دولت دوگنی کرنے میں مصروف ہیں اگر کوئی متاثر ہوا ہے تو وہ چھوٹا کارخانے دار ہے بازاروں میں خریداری کرنے والوں کو معیار سے غرض نہیں وہ تو تعداد دیکھتے ہیں۔
میں اس گھریلو صنعت کو بھی آہستہ آہستہ زمین بوس ہوتے دیکھ رہا ہوں میں نے اپنے بیٹے کو خاص طور پر ٹیکسٹائل سے متعلق تعلیم دلوائی اس وقت میرے ذہن میں تھا کہ یہ صنعت خاصی بہتر ہے لہٰذا اسی میدان میں جدید تعلیم ہی میرے لیٹے کا مستقبل بہتر بنا سکتی ہے لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوئیں اس میدان میں بھی چائنا چائنا ہونے لگا جس نے ہمارے کپڑے کی صنعت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ساری دنیا میں حکومتیں اپنے صنعت کاروں خاص طور پر چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لئے سہولیات پیدا کرتی ہیں لیکن پاک چین دوستی بجائے پاکستانیوں کے چائنا کو ایسی راس آئی کہ جس کا عملی نمونہ ہمارے بازاروں میں عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔‘‘
اس بات سے انکار نہیں کہ پاک چین منصوبے ملک کے لئے خوش آیند ہیں سی پیک ہو یا بجلی پر لگائے جانے والے منصوبے ان سے ہونے والے فوائد اپنی جگہ میں تو ان کاروبار سے منسلک افراد پر پڑنے والے اثرات کی جانب اشارہ کررہا ہوں جس نے کئی خاندانوں کو بے روزگاری کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ چائنا زیادہ تر ان گھریلو صنعتوں پر وار کررہا ہے جو لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کا ذریعہ ہیں، کھلونے،پرس، کاٹن ،جینزیا پھر ایمبرائیڈری اور میک سے جڑی مصنوعات جیسے کاروبار پر چینی کمپنیوں کا تیزی سے ہوتا قبضہ آنے والے معاشی بحران کی طرف اشارہ ہے۔ حکومت اگر پاک چین دوستی کے تحت ترقیاتی منصوبے لگانا چاہتی ہے تو ضرور لگائے لیکن اجازت بڑے منصوبوں تک ہی محدود رہے ۔
بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور اُس کے ممکنہ طور پر مقامی صنعت پر منفی اثرات کے حوالے سے اب ملک میں بحث شروع ہوگئی ہے۔ کچھ سرمایہ کار اس کے حق میں ہیں، جبکہ بہت سوں کو اس پر تحفظات ہیں۔ سستی چینی مصنوعات کی بدولت کاٹیج انڈسٹری بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ چینی مصنوعات قیمت کے لحاظ سے ارزاں تو ہوتی ہیں مگراس کے ساتھ انتہائی غیر معیاری بھی ہیں، جس کا خمیازہ نہ صرف پاکستانی سرمایہ کاروں بلکہ عوام کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے مقامی چھوٹے صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ چینی سرمایہ کار کن کن شعبوں میں آرہے ہیں اور اس سے مقامی صنعت کو کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔ چینیوں کو یہاں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ان کے لیے ویزے کی شرائط انتہائی نرم ہیں۔ وہ یہاں پر زمینیں بھی خرید رہے ہیں۔ جب کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو چینی ویزے کے حصول میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ بعض اوقات مہینوں ان کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں۔ ویزے کی درخواست کے ساتھ کئی طرح کے کاغذات کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے اور ویزے جاری بھی بہت محدود وقت کے لیے کیے جاتے ہیں۔
میں نے اپنی تحریر میں پہلے ہی اس بات کی جانب اشارہ کردیا ہے کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے آنے سے ٹیکسٹائل اور فینسی مصنوعات سمیت کئی دیگر شعبے متاثر ہوں گے۔ اس کی مزید تفصیلات کے مطابق صرف ٹیکسٹائل سے ہی چالیس لاکھ افراد کا روزگار پنجاب میں وابستہ ہے، جب کہ لاکھوں لوگ کراچی سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ چین پہلے ہی چلڈرن گارمنٹس میں سستی مصنوعات مارکیٹ میں ڈمپ کررہا ہے، جس سے مقامی صنعت کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ قوی امکان ہے کہ چینی سرمایہ کاری ٹیکسٹائل اور چھوٹی گھریلو صنعتوںکو بہت بری طرح متاثر کرے گی، جس سے لاکھوں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔
گھریلو صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق ’’جس طرح کی سہولیات چینی سرمایہ کاروں کو دی جارہی ہیں، اگر اسی طرح کی سہولیات مقامی صنعت کاروں اور تاجروں کو دی جائیں تو ملکی معیشت بہت بہتر ہوسکتی ہے۔ یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آر صنعت کاروں کے اربوں روپے ری بیٹ کی مد میں روکے ہوئے ہیں۔ ایک سرمایہ کار اگر دس کروڑ روپے کماتا ہے تو چار کروڑ ایف بی آر روک لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران و افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ سے بھی مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکومت اسے کیوں نہیں روکتی؟‘‘
’’اگر کپڑے کی صنعت پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ٹیکسٹائل ملکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے، لیکن حکومت کو خود پتا نہیں کہ چینی سرمایہ کاری کس طرح اس صنعت کو متاثر کرے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہ نہ صرف مقامی صنعتوں کو خریدیں گے، جیسا کہ انہوں نے ڈاولینس فریج کے ساتھ کیا… بلکہ یہ اُن صنعتوں میں بھی پیسہ لگائیں گے جو مقامی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ٹیکسٹائل، الیکٹریکل اپلائنسز اور کئی دوسرے شعبے چینی سرمایہ کاری سے متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ ہو بھی رہے ہیں۔‘‘
مقامی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’’حکومت چینی سرمایہ کاروں کو نوازنے کے لیے تو تیار ہے لیکن جب ہم نے بیمار صنعتوں کو پھر سے چلانے کی بات کی تو ہمیں کوئی بیل آؤٹ پیکیج نہیں دیا گیا۔ صرف سو بلین روپے سے ان صنعتوں کو دوبارہ سے فعال کیا جا سکتا ہے، اور اگر ہمیں سہولیات دی جائیں تو ہم 13 بلین ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو 36 بلین ڈالر تک لے جا سکتے ہیں، جس سے 23 لاکھ افراد کو روزگار مل سکتا ہے۔ ویت نام ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 125 بلین ڈالر ہے، اسی طرح بنگلہ دیش کی 28 بلین ڈالر تک پہنچی ہوئی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری برآمدت اوپر نہ جاسکیں!‘‘
اس سلسلے میں حکومت کو فوری طور پر جنگی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ، ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے سے غریب کے گھر دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے نئی صنعتوں خاص کر گھریلو چھوٹے کارخانداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔حکومتی عوام دوست اقدامات سے ہی آنے والے معاشی بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔

حصہ