معروف شاعر اور تنقید نگار ڈاکٹر ضیا الحسن سے خصوصی گفتگو

720

سیمان کی ڈائری
(تیسرا اور آخری حصہ)
اقبال ایک نظریاتی شاعرہے ۔ان پر نظریہ کسی نے imposeنہیں کیا تھا ۔یہ انھوں نے خودبنایا تھا۔ اس لیے وہ نظریاتی شاعری کرسکے۔ ہماری ساری کلاسیکی شاعری تصوف کے نظریے سے پیدا ہوئی ہے ۔ وہ نظریہ بھی کسی نے کسی پر imposeنہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ ہمیں دردؔکے ہاں imposedنظر آتا ہے کیونکہ وہ صوفی بزرگ شاعرتھے لیکن صوفیانہ شعری تجربہ میرؔ کا دردؔ سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔ دردؔ تصوف کے چھوٹے شاعر ہیں اور میرؔبڑے شاعر ہیں ۔ کوئی شاعر ایسا ہے ہی نہیں جس نے تصوف کے نظریے پر شعر نہ کہیں ہوں ۔جب بھی سوسائٹی یا سوسائٹی کی قوتیں کسی تصور یا نظریے کو imposedکریں یا پھر کوئی تحریک جیسے ترقی پسندیا تھی۔کسی مذہبی جماعت کی ادبی تحریک بھی ایسا نہیں لکھ سکتی۔ فرض کریں وہ اگر فکشن میںمذہب دکھائیں گے تو ہیرو نماز پڑھ رہا ہوگا یا جہاد پر جا رہا ہوگا ۔ جب ہم ایسا ادب لکھیں گے تو ہم دونوں کومذاق بنا دیں گے چاہے وہ ترقی پسند ایسا کررہے ہوں یا اسلام پسند ۔
ادب نہ صرف آزاد تخلیقی تجربہ ہے بلکہ آزاد انسان کی آرزو مندی سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ آزاد انسان جو نہ مذہب میں جکڑا ہوا ہو نہ کیمونزم میں جکڑا ہوا ہو اور نہ ہی کسی اور آئیڈیالوجی میں جکڑا ہوا ہو۔جس تجربے کی ہم بات کررہے ہیں اسے لگ بھگ ایک صدی گزر چکی ہے ۔ اس سے پہلے بھی آپ چیزیں ڈھونڈیں گے تو مل جائیں گی۔ صرف اقبال میں اتنی طاقت تھی جو لکھ سکتا تھا۔’’اگر ہوعشق تو ہے کفر بھی مسلمانی‘‘۔ یہ کوئی نہیں لکھ سکتا تھالیکن اقبال نے لکھ دیا۔ جو انھیں شاعر اسلام بناتے ہیں، اُن کی اِن چیزوں پر نظر نہیں جاتی یا پھروہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ابلیس کو خواجہ اہل فراق کہنے کا مطلب کسی کو اگر معلوم ہو جائے تو وہ انھیں کافرِ اعظم ضرورقرار دیدے۔ خواجہ اہل فراق بہت بڑا ٹائٹل ہے۔ ایسا مصرع لکھنے کے لیے طاقت بھی چاہیے اور علم بھی۔ایک جگہ اور دیکھیں کہ’’خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا…میرے طوفاں یم بہ یم ،دریا بہ دریا،جُو بہ جُو‘‘۔ یہ کون کہہ رہا ہے،؟بلیس کہہ رہا ہے۔ابلیس کی مجلس شوریٰ میں جہاں اس نے کیمونزم کو
rejectکیا ہے، وہاں موجودہ اسلام کو بھیrejectکیا ہے۔مثلاً’’ یہ امت روایات میں کھو گئی‘‘ پڑھیں تو وہ موجودہ اسلام کے بارے میں لکھا ہے ۔ اقبال مذہب اور خدا کو شدت سے مانتے تھے۔ ویسے نہیں جیسا ہم مانتے ہیں۔
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کی مرکزی خصوصیت دولت ہے۔ کیوں کہ یہ کثرت سے پیدا ہوئی ہے۔دولت اس وقت جتنی دنیا میں ہے ،ماضی کے کسی زمانے میں نہیں تھی۔پہلے دولت ہیرے جواہرات تھے ،سونا چاندی تھے۔ اب ڈالر دولت ہے یا اس کے بعد پاؤنڈاوریورو ہے۔ جس آدمی کے پاس جتنے ڈالر ہوں گے، وہ اتنا ہی انسان ہے ۔یعنی انسان ہونے کا پیمانہ یہی بنا دیا گیا ہے۔ ایک زمانہ پہلے انسان کا پیمانہ اعلٰی نسب ،علم اور خاندان تھا ۔ اب علم کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اب علم خریدو فروخت ہے۔ دنیا کے سارے عالم ملٹی نیشنل کمپنیاں خریدتی ہیں ۔ انھیں لیبارٹریوں میں بٹھاتی ہیں ۔ ان سے نئی نئی ایجادات کراتی ہیں اور انھیں بیچتی ہیں۔ پہلے مثلا ایک بادشاہ ہے۔ اس کی شان و شوکت کے کئی پیمانے تھے۔ اس کا ملک بہت بڑا ہو۔ اس ک فوج بڑی ہو۔ اس کا خزانہ بہت بڑا ہو اور اس کے دربار میں علماور اہل فن کتنے زیادہ ہیں۔ یہ ایک پیمانہ تھا اس کو جاننے کا ۔نتیجہً جس بادشاہ کے دربار میں وزیر کھڑا ہوگا اور عالم کرسی پر بیٹھا ہوگا توسارا معاشرہ اس کی عزت کرے گا۔ آپ کے معاشرے میں کسی عالم کی کوئی عزت نہیں ہے۔ نہ کوئی مقام ہے تووہ علم کیوں تخلیق کرے گا اور کس کے لیے کرے گا۔ آپ عالم آدمی کواگر پیسے نہ دیں،اس کا احترام کریں تو آپ کے ہاں علم تخلیق ہونے لگ جائے گا۔
ادب ہمارے معاشرے میں تخلیق نہیں ہو سکتا کیوں کہ ہمارے سسٹم میں کہا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے طریقے سوچو۔ کام کرو اور پیسے کما کر لاؤ۔ پیسے زیادہ ہوں گے توآپ کے بچے فلاں اسکول میں پڑھ سکیں گے جس کی زیادہ فیس ہے۔ وہ گاڑی پر جائے گا اور اس کی عزت اتنی ہوگی۔ وہ جیسے گھر میں رہے گا، اس کی عزت ویسے ہوگی ۔اب یہ جو اسٹریکچر ہے، اس کو کون توڑے گا؟ اس کو توڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس سسٹم کو توڑنے کے لیے کوئی عالمی موومنٹ ہوگی۔ پاکستان میں تو یہ کام کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ہم تو جانتے ہی نہیں کہ ہمارا پرابلم کیا ہے؟ ہم کون ہیں؟ کیا کررہے ہیں ؟ انتظار حسین کی ایک کہانی ہے’’کایاکلپ‘‘جس میں ایک شہزادہ شہزادی کوآزادکرانے جاتا ہے تو شہزادی اسے مکھی بنا دیتی ہے۔صبح جب دیو چلا جاتا تولڑکی شہزادے کو دوبارہ انسان بنا دیتی۔ دن بھروہ گھومتے ، عیاشی کرتے ۔ اسی طرح شہزادہ رات کو پھر مکھی بن جاتا۔ شہزادہ اپنے مقصد کو بھول جاتا ہے کہ اس کا کام کیا تھا؟وہ شہزادی کو آزاد کرانے آیا تھا۔ ایک دن جب صبح دیو جاتا ہے تو وہ مکھی انسان نہیں بنتی کیوں کہ اُسے مکھی بننے میں مزا آگیا ہے۔ ہمیں بھی مکھی بننے میں مزا آ رہا ہے۔ اب ہم انسان بننے کو تیار نہیں ہیںاوراس میں کیا شک ہے کہ ہماری حیثیت مکھیوں سے کم ہے ۔
ظفر اقبال کا شعر ہے،’’پالتو ہیں کہ فالتو مت پوچھ… میں کبوتر، چکور، کتا ،بھینس‘‘۔ہم اس سرمایہ داری معاشرت میں یہ ہوتے جا رہے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ ہمیں خبر نہیں ہے کہ ہم انسان نہیں رہے ہیں۔ہم انسانوں جیسے ہیں لیکن ہمیں نہ انسان کی پہچان ہے نہ عالم کی ۔ آپ سوچیں کہ نواز شریف، عمران خان یا زرداری کی گاڑی کے آگے ناچنے والا آدمی کتنا انسان ہوگا۔مجھے تو یہ انسان نہیں لگتے۔ میں اتنا انسان ہوں جتنا میری معاشرے کوضرورت ہے ۔ جیسے ہی مجھے معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے، میں اس میں داخل ہوجاتا ہوں۔
راشد کی وہ نظم ’’تعارف‘‘کہ ’منفی زیاد ہ ہیں انسان کم، ہو ان پر نگاہ کرم‘ راشد کے زمانے میں کم انسان تھے۔ اب پچاس سال بعد انسان ہے ہی نہیں۔ اب کون ہیں ؟ٹیوٹا کرولا، ہونڈاکے پیچھے بھاگنے والے ، دن رات ناجائزدولت کمانے والی مشینیں ہیں۔ جو کچھ ہم کماتے ہیں وہ شاپنگ مال میں جا کر سارا انھی کو واپس دے آتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں ۔کام کرتے ہیں۔ اپنی زندگی ان کے لیے وقف کی ہے پھر گھر واپس آ جاتے ہیں ۔کوئی ان سے پوچھے کہ تمہیں کیا حاصل ہوا ہے؟ سوائے ٹشو پیپر کے جو تم نے خریدا ۔یا اس طرح کی چیزوں کے۔ آپ سوچیں کہ وہ کیسے باکمال لوگ ہیں کہ جو چیز ہماری ضرورت نہیں ہے، انھوں نے ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ یہ ہماری ضرورت ہیں۔ہم ان کے بغیر سانس نہیں لے سکتے ۔ زندگی نہیں گزار سکتے۔اب ہماری زندگی ان چیزوں کے بغیر نہیں گزرتی۔ کیا نعوذباللہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اہم انسان ہیں ؟ جب ان کاوصال ہوا تو ان کے گھر سے ایک پیالہ، ایک کمبل ،ایک تلوار ،زرّہ اور اس طرح کی چند چیزیں ملیںجو تاریخ اسلام میں لکھی ہوئی ہیں۔اُس وقت آپ ؐ پیغمبر کے علاوہ بادشاہ بھی بن گئے تھے ۔ ایک سلطنت بھی کام کررہی تھی،آپ اس کے سربراہ تھے۔ آپ ؐان چیزوں کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ کیا ہم زیادہ نخریلے انسان ہیں کہ ہمیں بہت ساری چیزیں چاہییں؟سرمایہ داردھڑا دھڑ چیزیں بنا رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کو اپنی پراڈکٹ کے علاوہ آج کے انسان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔جن معاشروں نے یہ چیزیں بنائیں، انھی کے معاشروں میں یورپین اور مریکن نے ریسرچ کی ہے ۔وہ اتنی خوفناک ہے کہ پڑھ کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ ہم زندہ کیسے ہیں ؟آج کا آدمی اٹھارہویں،سترہویں یا سولہویں صدی کاا ٓدمی نہیں ہے،جس کے پاس وقت تھا اور محبت کر سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس محبت کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار خاندان ایسے ہیں جہاں اپنے بچوں سے ملاقات صرف ویک اینڈ پر ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ جب وہ اسکول جاتے ہیں تووہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔جب بچے واپس آتے ہیں تو وہ دفتر ہوتے ہیں۔ جب یہ گھر واپس آتے ہیں تو بچے سوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ان کی اپنی بیویوں سے بہنوں سے بھائیوں سے دوستوں، عزیزوں سے ملاقات ویک اینڈپر ہوتی ہے۔ یہ والا جو معاشرہ جس میں نہ بہن کی محبت ہے نہ بھائی کی محبت ہے ،نہ دوست کی نہ ماں کی محبت ہے، باپ کی نہ بیوی بچوں کی محبت ہے ۔کیا ہے پھر ہمارے پاس سوائے اشیا کے جو وہ مالیاتی کارپوریشنیں بنا رہی ہیں۔ آج کے انسان کا وجود اتنا پیچیدہ، غیر منظم اور غیر شاعرانہ ہے کہ شاعری اس کو بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ اپنی پچھلے پچیس سال کی شاعری اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ جو انسان اس میں موجود ہے اصل نہیں ہے اورجو انسان اصل میں موجود ہے وہ شاعری میں دکھائی نہیں دیتا۔ آپ مشاعرے پڑھتے ہیں، سنتے ہیں ۔آپ کو وہ کون سا انسان نظر آتا ہے؟ اگر آج کا انسان شاعری میں نظر آئے گا تو کیا شاعری بھی بنے گی؟ اس میں بہت بڑا سوال ہے۔ کیا وہ شاعری ہوگی ؟جس میں ایسا انسان ہوگا۔اب اس انسان کو میرے حساب سے نثر میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ کیو ں کہ شاعری ایسے انسان کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ شاعری میں وہ انسان پیش ہوگا جس میں انسانی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ اب نہ ویسا انسان ہے ،نہ ویسا قاری ہے۔ لٹریچر کا قاری دنیا میں بہت کم ہو گیا ہے ۔پاپولر لکھاریوں کو لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں جیسے Paulo Coelhoلیکن milan kundera کو پڑھنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ مارکیز کو پڑھنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ انسان میں کمال یہ ہے کہ وہ کسی حالت پر مطمئن نہیں رہتا۔کچھ ریسرچرز نے سارے نظام کی تحقیق کی ہے جنھیںconspiracy theorist کہتے ہیں۔یعنی جو حقائق ڈھونڈ کے لاتے ہیں انھیں سازشی کہا گیا ہے۔ اُن کے مطابق کہ یہ تقریبا پچھلے ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو سال تک کازمانہ انسان کا گزرا ہے۔ جب دنیا کو ایسا بنانے کی پلاننگ کی گئی اور stepwise اس کو بناتے چلے گئے۔ آئندہ کیا ہوگا وہ یہ بھی بتاتے ہیں ۔مثلا وہ یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کو آدھا کرنا چاہتے ہیں۔اسٹیفن ہاکنگ چیختا ہے کہ دنیا کے آخری ہزار سال ہیں۔ اس کے بعد یہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ انھیں اور کوئی سیارہ ڈھونڈنا پڑے گا زندہ رہنے کے لیے۔ یہ کوئی پیچیدہ بات تو نہیں کی اس نے۔جس تیزی سے ہم پینے والا پانی اور سانس لینے کے لیے ہوا کو خراب کررہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں پالویشن ایٹم بم سے بڑا خطرہ ہے۔ اب ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ یہ انڈسٹری اسی طرح سے کیمکل ویسٹ نکال رہی ہے، دھواں اگل رہی ہے۔ آئندہ عالمی جنگ پانی پر ہوگی۔کسی بھی ایٹمی ملک کویہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ ایسے ہتھیار بنائے جو انسانوں اور دنیا کو اتنی برے طریقے سے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ انھیں جرات ہوئی میری بزدلی سے۔ میرے انسان نہ ہونے سے ۔اگر میں انسان ہوتا تو میں یہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اب وہ جو کچھ بنا رہے ہیں، اس میں میری اجازت شامل ہے۔ امریکیوں نے کیوں نہیں روکا اپنی حکومت کو؟آپ سوچیں ہم نے جشن منایا کہ ہم ایٹمی طاقت ہوگئے ہیں۔یعنی جس بات پر بیٹھ کر ہمیں رونا چاہیے تھا اس بات پر ہم جشن مناتے ہیں۔ ہر سال سالگرہ مناتے ہیں ایٹمی دھماکوں کی ۔ یعنی یہ کتنی خوفناک بات ہے اور خوفناک بات کیا ہے؟ کئی سال پہلے انڈیا میں طاؤن کی وبا پھیلی تھی ۔اس بیماری سے مرتے انسانوں کی موت پر ہم نے خوشیاں منائیں ۔چاہے وہ ہندو ہیں،عیسائی ہیں، سکھ ہیں ۔ کیا انسانوں کی موت پر خوشیاں منانے والا انسان ہوسکتاہے؟ایسا دنیا میں کوئی مذہب نہیں آیا جس نے ایسا انسان بنایا ہو اور اسلام تو بالکل بھی ایسا انسان نہیں بناتا۔اسلام انتہائی خیر کا مذہب ہے۔ یہ باتیں کس نے ہمیں سکھائی ہیں؟کون ایسے انسان بناتا ہے؟اور ہم ایسے انسان بن رہے ہیں تو کیاہمیں انسان کہلانے کا حق ہے ؟ جب ہم طاعون پہ خوش ہو سکتے ہوں تو ہمیں اپنے انسان ہونے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔اب بتائیے اس معاشرے میں ادب کیا ہوگا؟ادب کون پیدا کرے گا؟ابھی مجھے کوئی آدمی آ کر کہے کہ آپ کو صدر مملکت نے طلب کیا ہے ملاقات کے لیے۔ میں سب چھوڑ کر اس کی بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے کے ساتھ چل پڑوں گا اور میں کوشش کروں گاکہ صدر مملکت وہ ایوارڈ مجھے بھی دے دیں جو وہ پچاس ہزار غیرشاعروں، غیرادیبوں اور غیر دانشوروں کو دے چکے ہیں۔ میں نہ صرف وہ ایوارڈ لے لوں گا بلکہ اس کے لیے دوسروں کے خلاف سازشیں بھی کروں گا۔ اگر میں یہ سب کروں گا تو پھر میں کون انسان ہوں؟ میں وہ انسان ہوں جو کسی ایسے مشاعرے میں جہاں پیسے ملتے ہیں یاجیسے پی ٹی وی کے مشاعروں میں شرکت کے لیے کسی کے خلاف بھی سازشیں کروں تو میں کتنا انسان ہوں ؟شاعر ہونا تو خیر بہت بڑی بات ہے۔ میں انسان کتنا ہوں؟تو اس معاشرے کو جس کی ہم بات کررہے ہیں اس معاشرے کومیرے حساب سے شاعری پیش تو کر سکتی ہے ۔شاعری میں اتنی طاقت ہے لیکن وہ کرے گی نہیں ۔اس کی مثال یہ ہے کہ آپ اپنے دورکے کسی بھی شاعر کی شاعری کو اٹھا کر پڑھیں آپ کو یہ انسان اگراس میں نظر آئے تو آپ سمجھیں کہ وہ پیش کرسکتی ہے، اوراگر نہ نظر آئے توپھر پیش نہیں کر سکتی ۔دو چیزیں ضرور ہیں ایک یہ کہ وہ کرے اور دوسرا یہ کہ وہ شاعری بھی ہو۔
میں نے لٹریچر سے سمجھا ہے کہ انسان کیسے ہوتا ہے۔ میرؔنے اس انسان کو عاشق کہا تھا، اقبالؔ نے اسے مردمومن کہا۔ ہم نے غلطی سے اسے مسلمان سمجھ لیا۔ مردِ مومن کا مطلب ہے تخلیقی انسان ۔ایسا انسان جو دنیا داری کے oppsit ہوتا ہے جو انسانوں کی دنیا میں خوبصورت اعلیٰ انسانی معاشرت پیدا کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ ہے تخلیقی انسان جو علم تخلق کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ماہرین اقبال یہ بات نہیں مانتے ۔مردِ مومن کا تخیل اقبال کے پاس قرونِ اولاکے مسلمانوں سے آیا کیوں کہ وہ تخلیقی انسان تھے۔ انھوں نے خوبصورت انسانی معاشرہ پیدا کیا ۔ انھوں نے اپنے عہد کے مطابق خرابیاں، برائیاں دور کیں اور بہتر انسان پیدا کیا ۔وقت گزرا وہ خود برے انسان بن گئے جیسے ان برے انسانوں کے خلاف وہ نظریہ آیا تھا ۔ کس کے خلاف آیا؟ابو جہل کے خلاف آیا تھایا ابو جہل کی ذہنیت کے خلاف آیا تھا۔ابوجہل کی ذہنیت یہ تھی کہ وہ پرانے طرز زندگی پر اڑا ہوا تھا۔ اسلام ایک نیا طرز زندگی لے کر آیا تھا ۔ابوجہل اس کا symbolبن گیا۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نئے علم کو قبول کرنے والے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ہیں۔ اگر ہم نئے علم کو قبول کرنے والے ہیں تو سمجھیں ہم مسلمان ہیں اور اگرنئے علم کے رستے میں رکاوٹ ڈالنے والے ہیں تو سمجھیں کہ ہم ابو جہل کے راستے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ اس نے بھی نئی روشنی کا رستہ روکا تھا۔ آج ہر آدمی دوسرے آدمی کو بتا رہا ہے کہ وہ غلط ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسروںکویہ بتائیں کہ وہ غلط ہے۔ ہم خود کیوں نہ دیکھیں کہ ہم غلط ہیں یا ٹھیک ہیں ہم کیا کررہے ہیں ؟اس پر غور کریں،یسرچ کریں تو ہمیں پتا چل جائے گا کہ ہم کون سے انسان ہیں۔اب یہ کیسے ہوگا؟ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے ۔کوئی عالمی موومنٹ کہیں سے شروع ہوگی اور اس پورے نظام کو ختم کرے گی۔ ایک نیا نظام لائے گی۔ اس پر ایک چھوٹا ساناولٹ آئن رنڈ نے لکھا۔آصف فرخی نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو شروع یہاں سے ہوتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے بعد جو تھوڑے سے انسان بچ گئے ہیں۔ پچھلے تجربے سے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کوئی ہتھیار نہیں رکھا جائے گا۔حتٰی کہ زراعت کے آلات اور چاقو چھریاں بھی ختم کردیں کہ یہ ہتھیار بھی نہیں ہوسکتے۔ محبت کرنے اور نفرت کرنے پر پابندی لگا دی یعنی انسانی جذبات پر پابندی لگا دی گئی۔گو کہ یہ چھوٹا سا ناولٹ ہے لیکن ہمارے بنیادی مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ہو سکتا ہے یہ ساری گفتگوکچھ بے ربط لگے لیکن اس سے یہ نتیجہ تو بہرحال اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کس طرح کی زندگی میں داخل ہو گئے ہیںاور اس زندگی کو بیان کرنے والی زبان ،اسلوب اور ہیئیت کیا ہو سکتی ہے۔کیوں شاعری ہمارے باطن سے متصادم ہے اورشاعری نما سی کسی شئے کو ہم نے شاعری تسلیم کر لیا ہے کیوں کہ یہ ہمیں ہمارے نا انسان ہونے کا احساس نہیں دلاتی۔

حصہ