جیل کی کہانی، قتل کا گناہ

514

قدسیہ ملک
جنگ آن لائن نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں قیدی خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق اس وقت 7لاکھ14ہزار خواتین مختلف ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ یہ تعداد2000ء کے مقابلے میں 53 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اسی مدت کے دوران یعنی گزشتہ17سال کے دوران جیلوں میں قید مردوں کی تعداد میں20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ان میں وہ خواتین اور مرد بھی شامل ہیں جن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ لندن یونیورسٹی برس بیک کے انسٹی ٹیوٹ آف کرمنل پالیسی ریسرچ کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی شرح 9 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق فی الوقت برطانیہ کی جیلوں میں قید خواتین کی مجموعی تعداد4 ہزار 400ہے، جس میں انگلینڈ اور ویلز کے جیل خانوں میں قید3 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق شمالی آئرلینڈ کے جیلوں میں51 اور اسکاٹ لینڈ میں 360 خواتین قید ہیں۔
قتل، یعنی کسی کو غیر قانونی طور پر مار ڈالنا بلاشبہ ایک قبیح فعل اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ قطع و قتل کی چار صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے۔ قتل بالسبب، قائم مقام خطاء، قتل خطاء، شبہ عمد۔ قرآن میں بھی قتل کے متعلق بہت وعید آئی ہے۔ سورۃ الاسراء33 میں ارشاد ہوا:
(ترجمہ) ’’اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرنا، اور جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کے واسطے اختیار دے دیا ہے، لہٰذا قصاص میں زیادتی نہ کرے، بے شک اس کی مدد کی گئی ہے۔‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص بھی ظلم سے مارا جائے تو اس کے خون کا ایک حصہ پہلے ابنِ آدم کی گردن پر ہوتا ہے، کیونکہ اسی نے یہ طریقہ رائج کیا‘‘ (سنن ابی ماجہ)۔ اور یہ کہ ’’جو شخص اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملا کہ نہ تو اُس نے شرک کیا اور نہ ہی کسی کے ناحق قتل کا مرتکب ہوا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (سنن ابی ماجہ)
آن لائن محدث میگزین کے مطابق ان نصوص کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ قتل انتہائی گھناؤنا اور شنیع فعل ہے، حتیٰ کہ جمہور علماء کا خیال ہے کہ قصاص بھی قاتل کے جرم کا پوری طرح کفارہ نہیں بن سکتا، کیونکہ اس سے مقتول کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا… اور بعض علماء تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دانستہ قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہی نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی توبہ کیوں نہ کرے، کیونکہ یہ کام:
1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک، نیز مقتول، اسلامی معاشرے اور انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔
2۔ نصوصِ شرعیہ کے مطابق قتلِ عمد کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور انتہائی دکھ دینے والا عذاب ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کا مقام اتنا بلند ہے کہ وہ فرشتوں سے بھی سبقت لے گیا ہے۔
کراچی جیل میں اس وقت خواتین قیدیوں کی کل تعداد 142 ہے، جس میں 23 بچے ہیں۔کچھ بچے تو یہیں پیدا ہوئے ہیں، اور کچھ بچے اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں ماؤں سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وہ ماؤں کے ساتھ ہی جیلوں میں قید ہیں۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ (WAT) کی طرف سے قیدی خواتین کی کس کس طرح مدد کی جا رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی جیل میں ’’ویٹ‘‘ کے تعاون سے نہ صرف یہ کہ نماز کے کمروں میں درس کا انعقاد کروایا جاتا ہے بلکہ درس کے بعد قیدی خواتین کی کونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔ انہیں گناہوں سے نفرت دلوائی جاتی ہے۔ مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ ان کی تفریح کے لیے ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے نوجوان خواتین قیدیوں میں کمپیوٹر گیمز، اِن ڈور گیمز اور ہینڈی کرافٹ کمپٹیشن کا انعقاد کروایا جاتا ہے تاکہ ان میں پیدا ہونے والی ناامیدی، مایوسی اور انتشار کو ختم کیا جاسکے۔ بچوں کے لیے مختلف پروگرام رکھے جاتے ہیں جن میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔25 بستروں پر مشتمل ایک ہال نما کمرے میں نہ صرف جیل انتظامیہ کے تعاون اور ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے اچھے بستروں، کمفرٹرز اور تکیوں کا انتظام کیا گیا ہے بلکہ قیدی خواتین کو ’ویٹ‘ کی جانب سے ضرورت کی ہر شے فراہم کی جاتی ہے۔ جیل انتظامیہ نے مختلف این جی اوز کی جانب سے ہر کمرے میں “21 کلر ٹی وی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے، جس سے یہاں کی قیدی خواتین بیرونی دنیا سے باخبر رہتی ہیں۔ یہاں قتل کے الزام میں بھی خواتین قید ہیں۔ کچھ اپنے اوپر لگنے والے الزام سے قطعاً انکاری ہیں۔ کچھ ثبوت ہونے کے باوجود انکاری ہیں۔ کچھ قیدی صرف الزام کے سبب بیرونی مضبوط اثر رسوخ کے باعث اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ ان کا کوئی مضبوط فیملی بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ یہاں موجود عالیہ کے ساتھ پیش آیا جو ہم ’ویٹ‘ کے تعاون سے معمولی ردوبدل کے بعد انہی کی زبانی پیش کررہے ہیں۔
……٭٭٭……
’’میرا نام عالیہ ہے۔ میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ ہوں۔ میرے تین بھائی ہیں۔ الحمدللہ ہمارے ابو نے ہمارے تعلیمی اخراجات میں کبھی کوئی کمی نہ آنے دی۔ میں تعلیمی مدارج کامیابی کے ساتھ طے کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی میں بی بی اے تک پہنچی۔ کراچی یونیورسٹی آنے جانے میں دقت کے باعث ابو نے مجھے چھوٹی ایف ایکس خرید دی تھی۔ میں اس کے بعد بآسانی یونیورسٹی آجاتی تھی۔ یہاں میری دوستی فاطمہ سے ہوئی۔ وہ اور اُس کا منگیتر بھی بی بی اے میں میرے ساتھ ہی تھے۔ رفتہ رفتہ میری دوستی فاطمہ سے گہری ہوتی چلی گئی۔ اس کے منگیتر نے مجھے اپنی منہ بولی بہن بنایا ہوا تھا۔ کیونکہ میری ایوننگ شفٹ تھی، اس لیے میں کبھی کبھی فاطمہ کی خواہش پر اُسے اپنی گاڑی میں اُس کے گھر چھوڑ دیتی تھی۔ وہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور اُس کا منگیتر بھی اسی کی طرح متمول گھرانے کا فرد تھا۔ اُس دن بھی میں فاطمہ کے کہنے پر اُسے اُس کے گھر چھوڑنے گئی تھی۔ لیکن اس نے کہا کہ اسے منگیتر نے بلایا ہے۔ میں اُسے لے کر اُس کے منگیتر عادل کے گھر گئی، اس کو وہاں چھوڑا اور گھر واپس آکر سوگئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میرے کمرے میں لیڈی پولیس کھڑی تھی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہہ رہی تھیں۔ میں نے بمشکل چپل پہنی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ پہلے تھانے اور پھر ویمن جیل لے آئے۔ مجھ پر الزام تھا کہ میں نے اپنی دوست فاطمہ کو قتل کیا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے فوت ہوگئی۔ جب گھر والے مجھ سے ملنے آئے تو انہوں نے مجھے پوری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ وہ بتارہے تھے کہ تمہارے چھوڑنے کے تھوڑی دیر بعد فاطمہ کی ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہوگئی۔ جب پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی تو آخر میں تمہاری گاڑی کوگیراج سے باہر نکلتے دیکھا۔ فاطمہ کے گھر والوں نے بھی تم پر شبہ ظاہر کیا جس کے باعث تم کو پکڑلیا۔ جیل میں مجھے آئے ہوئے پورے تین سال ہوگئے۔ اس دوران میں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی رابطہ کیااور اپنے سابقہ ریکارڈ کے باعث اُن سے معاونت کی اپیل کی، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے میری ایک نہ سنی، الٹا میری رجسٹریشن منسوخ کرکے مجھ پر مجرم ہونے کی مہر ثبت کردی۔ اب میں یہاں ہوں اور اپنے مقدمے کی کارروائی شروع ہونے کا انتظار کررہی ہوں تاکہ اپنی صفائی میں عدالت کے سامنے بیان دے سکوں۔ اس جیل میں سب مجھے مجرم سمجھتے تھے، سوائے ویمن ایڈ ٹرسٹ کی باجیوں کے۔ انہوں نے میری ہر ممکن مدد کی۔ میں ان کے تحت ہونے والے کمپوٹر کورسز بھی کرچکی ہوں اور سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرچکی ہوں۔‘‘
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت عالیہ کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ اسے ناامیدی و مایوسی سے نکالنے کے لیے اس کی کونسلنگ کی گئی۔ اسے قرآن سے جوڑا گیا۔ یہاں آکر وہ بہت دکھی تھی۔ اس کے ذہن میں مستقبل کے بہت سے سہانے سپنے تھے جو یہاں آکر کرچی کرچی ہوگئے تھے۔ والدین اور بہن بھائیوں کے سوا تمام عزیز و اقارب ساتھ چھوڑ گئے تھے جس کی وجہ سے وہ بہت اداس تھی۔ اس کو رب کی رحمت کی امید دلائی گئی۔ وہ واقعی بے گناہ تھی لیکن اس کا فیصلہ ابھی عدالت کو کرنا تھا۔ جب تک اس کا کورٹ میں کیس نہیں لگتا، وہ بے گناہ قید کی مشقت برداشت کرتی رہے گی۔
یہاں پاکستان میں بہت سے ایسے افراد جیلوں میں قید ہیں جو جرمِ بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ آن لائن نیوز کے مطابق شوہر کے قتل کے الزام میں 19 سال سے قید خاتون بے گناہ قرار دیے جانے کے باوجود رہا نہیں ہوسکی۔ لاہور ہائی کورٹ نے رانی بی بی کی رہائی کا حکم ایک ماہ قبل دیا تھا۔ چنیوٹ کی رہائشی خاتون رانی بی بی جسے1998ء میں شوہر کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، ساتھ ہی رانی بی بی کے والد، والدہ، بھائی اور کزن کو بھی اس کا ساتھ دینے پر گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ چلا تو رانی بی بی کی والدہ کو تو رہائی مل گئی لیکن رانی بی بی سمیت 4 افراد کو 2001ء میں عمرقید کی سزا سنا دی گئی۔ سزا کے خلاف اپیل بھی عدالت تک نہ پہنچ سکی۔ دورانِ قید رانی بی بی کا والد جیل میں ہی انتقال کرگیا۔ رانی بی بی کے بھائی اور کزن کو اچھے چال چلن پر باقی سزا معاف کرکے 2007ء میں رہا کردیا گیا۔ متاثرہ خاتون کے مطابق والد امیر جیل میں ہی انتقال کرگئے تھے، جبکہ اس فیصلے کے خلاف ہم نے جیل سے ہی پہلے بھی اپیل کی تھی لیکن جیل میں موجود وارنٹی کو چار سو روپے رشوت نہ دینے کی پاداش میں ہماری اپیل صرف جیل تک ہی محدود رہی۔ پھر آخرکار سزا کے خلاف اپیل بھی منظور ہوگئی۔ 24 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے رانی بی بی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ لیکن بدقسمت رانی رہائی ملنے کے بعد بھی ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں قید ہے۔ جیل انتظامیہ کے مطابق انہیں اب تک رانی بی بی کی رہائی کا حکم نامہ نہیں ملا۔ 19 سال جرمِ بے گناہی اور ایک ماہ انتظامیہ کی غفلت کے باعث قید کاٹنے والی رانی بی بی کے گھر والے اب بھی اس کی رہائی کے منتظر ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں بے گناہوں اور بے کسوں کے ساتھ یہ امتیاز رکھا جاتا ہے۔ میں اور آپ گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل کے معصوم اور بے گناہ افراد پر ستم سے واقف ہی ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر جرمِ بے گناہی کی سزا کاٹ چکے ہیں، اور بہت سے سزا کے دوران ہی ابدی نیند سوچکے، اور بعض بے گناہی کے باعث رہا کردیئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے کون واقف نہیں! ’اردو پوائنٹ‘ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان ہیں جنہیں امریکی حکومت نے 2003ء سے غیر قانونی طور پر قید کرکے رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی وراثیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ان تمام نکات کو ذہن میں رکھ کر’’ویمن ایڈ ٹرسٹ‘‘ کی جانب سے عالیہ جیسے پڑھے لکھے معصوم لوگوں کی کونسلنگ کی جاتی ہے، اور انہیں مایوسیوں کی دلدل سے نکال کر مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔

حصہ