جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی جنرل سیکرٹری محترمہ دردانہ صدیقی سے گفتگو

456

غزالہ عزیز

حقیقی کامیابی

میں بچپن میں اکثر دیکھتی تھی کہ الیکشن میں ساری محنتوں کے باوجود نتائج دوسری جماعتوں کے حق میں آجاتے تھے، ایک دفعہ امی سے کہا کہ ہم کیوں ناں اُس جماعت میں چلے جائیں جو جیت جاتی ہے۔ امی نے کہا کہ بیٹا اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اور دنیا میں حق کے ساتھ کھڑے ہونا بڑی کامیابی ہے، ممکن ہے ہمارے کام میں کمی ہو، یا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو۔

میرا خاندان

میرے شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، کارڈیو ویسکولر میں ہوتے ہیں۔ کارڈیو انتھیزیا ان کی فیلڈ ہے، انسان دوست شخصیت ہیں، انتہائی شفیق ہیں، نرم ہیں، ہمدرد ہیں، انتہائی صابرانہ رفاقت ہے میرے ساتھ۔ اگر مجھ کو ان کی رفاقت میسر نہ ہوتی تو آج میں اتنی ذمے داری ادا کرنے کے قابل نہ ہوتی۔ میرے چار بچے ہیں، تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ ایک بیٹا بچپن میں اللہ کے پاس چلا گیا۔ ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی ہے، چھوٹا ابھی پڑھ رہا ہے، داماد بھی دین کو سمجھتا ہے اور کینیڈا میں اکنا کے ساتھ وابستہ ہے۔

ہمارا منشور

جماعت اسلامی اس بات کا منصوبہ رکھتی ہے کہ کم آمدنی والے افراد کو اشیائے ضرورت رعایت پر دی جائیں، بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کیا جائے، نوجوانوں کو تعلیم اور ترقی کے مواقع دیے جائیں، خواتین اور اقلیت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ ساری باتیں ہمارے منشور میں موجود ہیں۔
جسارت میگزین: کچھ اپنے بارے میں بتائیں۔
دردانہ صدیقی: دین دار گھرانے سے تعلق ہے، والدین کا تعلق بھی تحریک سے تھا، والدین جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ والد احمد مجتبیٰ صدیقی کا ذاتی تعلق بھی سید مودودیؒ سے تھا، وہ مولانا کی عصری نشستوں میں شرکت کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں موجود لٹریچر خاص طور پر تفہیم القرآن کا سیٹ مولانا کے دستخط کے ساتھ تھا جس سے استفادہ کیا ہے۔ گھر میں چھوٹی تھی، بڑے بہن بھائی جمعیت سے وابستہ تھے، گھر میں پروگرامات ہوتے تھے۔ الیکشن کے موقع پر گھر میں گہما گہمی ہوتی تھی۔ پوسٹروں کے لیے لئی بنتی، جھنڈے سیے جاتے۔ مجھے یاد ہے الیکشن کا زمانہ تھا، ساری محنتوں کے بعد جب نتائج آئے تو دوسری جماعت جیت گئی۔ ایسا میں نے اکثر دیکھا، تو ایک دفعہ امی سے کہا کہ ہم اُسی جماعت میں کیوں نہیں چلے جاتے جو جیت جاتی ہے! امی نے کہا کہ بیٹا اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اور دنیا میں حق کے ساتھ کھڑے ہوجانا کامیابی ہے۔ ممکن ہے ہمارے کام میں کمی ہو، یا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو۔ ہمیں ان چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ میری والدہ ذکیہ مجتبیٰ کے ذریعے جماعت اسلامی کا تعارف ہمارے گھر میں پہنچا۔ میری والدہ انڈیا میں جب کچھ عرصہ گزار کر آئیں تو اُن کے ساتھ ترجمان القرآن کے کچھ شمارے تھے، وہ والد صاحب نے پڑھے تو بہت متاثر ہوئے اور جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ پھر میرے بھائی مصباح الہدیٰ صدیقی… اُن کی زندگی کا بڑا حصہ مشرق وسطیٰ میں گزرا ہے، یو اے ای میں جماعت کے ذمے دار رہے ہیں۔ ان کے بعد دوسرے بھائی مشکوٰۃ الہدیٰ صدیقی بھی جماعت کے رکن رہے ہیں۔ تیسرے بھائی سراج الہدیٰ صدیقی بھی جماعت کے رکن رہے، وہ سعودی عرب میں رہتے تھے، وہیں ان کا انتقال ہوا ہے، وہ وہاں کے ذمے دار تھے۔ سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی جماعت اسلامی سندھ کے امیر ہیں۔ ہم چار بہنیں ہیں۔ سب سے بڑی فخر زمان عائشہ امریکا میں مقیم ہیں، وہ فکر کی حد تک جماعت سے وابستہ ہیں، ان کا تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ ان سے چھوٹی فرزانہ فصیح رکن ہیں۔ ان کے بعد ریحانہ نسیم ہیں، وہ بھی رکنِ جماعت ہیں۔ میں سب سے چھوٹی ہوں۔
جسارت میگزین: جماعت اسلامی میں عہدوں پر انتخاب کا طریقہ کیا ہے اور کیسا ہے؟
دردانہ صدیقی: جماعت کا انتخاب کا طریقہ شفافیت پر مبنی ہے۔ ارکان کی رائے کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ امیر جماعت براہِ راست ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، جبکہ دیگر ذمے داروں کے لیے استصواب ہوتا ہے جو ارکان کی رائے کی روشنی میں ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: جماعت میں آپ کے دوبارہ منتخب ہونے کی کوئی خاص وجہ ہے؟
دردانہ صدیقی: یہ سوال ارکانِ جماعت سے پوچھنا چاہیے۔ میری تو یہی خواہش تھی کہ تین سال بعد فارغ ہوتی، لیکن شاید الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے قیادت کا تسلسل درکار ہوتا ہے، اس لیے ایسا ہوا۔ اب یہ بھاری ذمے داری ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جسارت میگزین: خواتین کے حقوق کے حوالے سے جماعت اسلامی کیا کررہی ہے؟
دردانہ صدیقی: آج کی عورت کے لیے، یا عورت کو جو چیز درکار ہے، صرف پاکستانی عورت نہیں بلکہ پوری دنیا کی عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جو ذمے داریاں دی ہیں ان میں بحیثیت ماں انسان سازی کی ذمے داری بہت بڑی ذمے داری ہے۔ استحکام خاندان کی ذمے داری بھی بڑی ذمے داری ہے، اس کے ساتھ ہی اصلاحِ معاشرہ بھی اس کی بڑی ذمے داری ہے۔ اصلاحِ نظام بھی اس کی ذمے داری میں شامل ہے۔ گو کہ یہ چار مختلف عنوانات ہیں لیکن یہ باہم مربوط بھی ہیں اور ان کا تسلسل بھی ہے۔ انسان سازی میں ماں دراصل خاندان کا دل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب عورت کی گود میں بچہ دیتا ہے تو دراصل کارِ نبوت جیسی ذمے داری عطا کرتا ہے۔ اولاد کی پرورش و پرداخت کے ساتھ تعلیم و تربیت بڑی ذمے داری ہے۔ تعلیم و تربیت اس طرح کہ وہ خلیفۃ اللہ کی ذمے داری ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ یہ بہت بھاری ذمے داری ہے۔ اگر ہماری نسلیں اس انداز میں تیار ہوجائیں تو اصلاحِ معاشرہ ہوجائے گی۔ اسی طرح نظام کی اصلاح میں بھی عورت کا کردار بالواسطہ بھی ہے اور بلاواسطہ بھی۔ آج گھروں سے باہر کی مصروفیات یا معاشی سرگرمیوں میں عورت کو الجھا دیا گیا ہے۔ اس وقت جو اقوام ان ساری چیزوں کو اختیار کرچکی ہیں یا دوسرے الفاظ میں بھگت چکی ہیں انہوں نے بھی Back to Home کا نعرہ لگانا شروع کردیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بناتے ہوئے جو نظام بنایا ہے اُس میں مرد کی ذمے داری معاش کی ہے، کفالت کی ہے، اور عورت کی ذمے داری گھر کی ہے، نسلوں کی پرورش کی ہے۔ اگر ہم اس فطری ذمے داری اور فطری نظام کی طرف پلٹیںگے تو اپنی ذات کے لیے بھی اور اپنی نسلوں اور معاشرے کے لیے بھی خیر حاصل کریں گے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی جو پروگرام رکھتی ہے اُس میں خواتین کا تحفظ، ان کا اکرام اور ان کے جائز حقوق شریعت کے مطابق دلوانے کی کوشش شامل ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ان کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ وہ گھروں میں ہوں، گھر سے باہر ہوں، ملازمت پر ہوں یا سیاسی و سماجی کاموں میں مصروف ہوں… ان کو تحفظ ملنا چاہیے۔ پھر تعلیم کے ذریعے ان کی کردار سازی کی جائے۔ پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک خواتین کے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کا قیام، اور ان اداروں میں تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ عورت کا معاشی تحفظ بھی کیا جائے۔ اسلام شادی شدہ عورت کو مہر کا حق دیتا ہے، اور ہمارے معاشرے میں مختلف عنوانات سے اس حق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت کے اندر بھی عورت کا حق رکھا ہے۔ اس کے وراثت کے حقوق کو یقینی بنانا… اس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی رسوم اور رواج پائے جاتے ہیں جن کی ضرب خواتین پر براہِ راست پڑتی ہے، ان رسوم و رواج سے نجات دلانا جن میں کاروکاری ہے، ونی، سوارہ ہے، وٹہ سٹہ ہے… خواتین کے ساتھ جہاں جہاں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ان تمام چیزوں کی اصلاح کرنا ہمارے مطالبات میں شامل ہے۔ ہم حکومت میں آئیں گے تو عورتوں کے لیے ان سے تحفظ کا اہتمام کریں گے۔
جسارت میگزین: پسند کی شادی کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟
دردانہ صدیقی: جو نظام اسلام نے ہمیں دیا ہے اُس میں تربیت کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر تربیت ایک خاندان کی، ایک باپ، ماں، بیٹی، بیٹے کے ہو اور معاشرے کی ہو، تو پھر یہ سوالات اس طرح جنم نہیں لیتے، بلکہ خاندان کا سربراہ بچی سے خود پوچھ کر اُس کا رشتہ کرتا ہے اور بچی کی رضامندی بہت ضروری ہوتی ہے۔ ان چیزوں کو فروغ دیں گے تو پورے ماحول کے اندر خیر کو فروغ حاصل ہوگا، پھر اس طرح کے جذبات بھی پرورش نہیں پائیں گے، نہ اس طرح کے احساسات اور سوالات اٹھیں گے۔
جسارت میگزین: آج ہمارے معاشرے میں پسند کی شادی کے بعد جو سلوک ہوتا ہے اس پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ (مار پیٹ اور قتل، یہاں تک کہ زندہ جلا ڈالنا)
دردانہ صدیقی: اصل میں جو بعد کا سلوک ہے اس کو پہلے سے سوچ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے خاندان کی کیا اہمیت بنائی ہے، فرد کے استحکام اور تحفظ کے لیے خاندان کی جو اہمیت ہے اگر فرد پہلے ہی اس کا ادراک کرلے، اپنے والدین کو اہمیت دے تو پھر مجھے نہیں لگتا کہ وہ مسائل ہوں گے جو آج پسند کی شادی کے بعد ہوتے ہیں۔ پسند کی شادی کرنے کے لیے لڑکا اور لڑکی دونوں چلے گئے، پھر دونوں خاندان متحارب فریق کے طور پر کھڑے ہوگئے۔ اس طرح معاملات اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اصل میں بنیاد کی اصلاح ہوجائے گی تو پھر سب کچھ خیر پر مبنی ہوگا۔
جسارت میگزین: اصل سوال یہ ہے کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس میں کیا کِیا جائے؟ کیوں کہ معاشرے کی تربیت تو اس نہج پر نہیں ہوئی ہے!
دردانہ صدیقی: اصولی بات تو یہ ہے کہ ہمیں معاشرے کے اندر تعلیم و تربیت… خصوصاً قرآن و سنت کے مطابق تعلیم و تربیت کو فروغ دینا ہوگا۔ دوسری صورت میں یہ ہے کہ اس وقت تعلیم و تربیت نہ صرف اسکول کالج کے نصاب کا حصہ ہو بلکہ میڈیا بھی اس کے لیے استعمال ہو۔ وہ معاشرے کی تربیت کرے، اس میں والدین کی اصلاح بھی شامل ہے کہ بعض والدین کی تربیت میں اس قدر جبر ہوتا ہے کہ مجبوراً نوجوان نسل غلط قدم اٹھاتی ہے۔ دوسری طرف اس تربیتی نظام کے ذریعے نوجوان نسل کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اُن کے لیے بھی بھلائی اور خیر اسی چیز کے اندر ہے کہ وہ اپنے خاندان، اپنے بزرگوں اور اپنے بڑوں کی رائے کو اہمیت دیں۔
جسارت میگزین: معاشرے کا بنیادی مسئلہ آپ کی نظر میں کیا ہے جس کو بہت پہلے حل کرنے کی ضرورت ہے؟
دردانہ صدیقی: مملکتِ خداداد پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ سیاسی، معاشی، نظریاتی… ہر طرح کی کرپشن۔ اس کرپشن نے ایسے مسائل کو جنم دیا ہے جو ہمیں زندگی کے ہر دائرے میں نظر آرہے ہیں۔ معاشی کرپشن کو دیکھیں تو ہمارے اداروں میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ جس ادارے کو دیکھیں وہاں کرپشن کی نئی داستان موجود ہے۔ یہ الزام تراشی نہیں بلکہ پاناما لیکس کا جو مقدمہ چلا اور عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ اس کی مثال ہے۔ ابھی بھی نیب میں ان کی کرپشن سے متعلق مقدمات موجود ہیں۔ جماعت اسلامی کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے میں کسی ایک خاندان کا احتساب کیا جائے، بلکہ مقصود یہ تھا کہ 342 افراد جو پاناما لیکس میں موجود ہیں ان سب کا احتساب ہو۔ اس وقت ہمیں اپنی تہذیب میں جو مسائل نظر آرہے ہیں، ہمیں اپنے معاشرے میں خواتین اور بچوں کے عدم تحفظ کے مسائل درپیش ہیں۔ یہ اخلاقی کرپشن ہے۔ اسی طرح پاکستان کو اس کی نظریاتی بنیادوں پر استوار نہیں کیا گیا۔ آئین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ ہم اس وقت اپنی سمت سے ہٹ چکے ہیں، اپنی سمت کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک کرپشن فری پاکستان بنائیں۔ جماعت اسلامی اس چیز کا پورا پروگرام، اور اس کے لیے منشور رکھتی ہے۔ کرپشن فری پاکستان ہوگا، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل بھی کرپشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو بے انتہا غربت ہے وہ اسی کرپشن کی وجہ سے ہے۔ جماعت اسلامی اس بات کا منصوبہ رکھتی ہے کہ کم آمدنی والے افراد کو اشیائے ضرورت پر رعایت دی جائے، بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کیے جائیں، نوجوانوں کو تعلیم اور ترقی کے مواقع دیے جائیں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، یہ ساری چیزیں ہم منشور میں رکھتے ہیں۔ ہم آئینِ پاکستان کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کو اُس کا سیاسی، سماجی اور معاشی حق دیں گے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی عدل دیں گے۔ بلا تفریق رنگ، نسل، زبان، مذہب، صنف عدل کریں گے۔ پھر پاکستان میں ایسا معاشرہ قائم ہوگا کہ سب امن اور سکون سے رہیں گے۔
جسارت میگزین: خواتین کے ووٹ ڈالنے کے حوالے سے جماعت اسلامی کا کیا مؤقف ہے؟
دردانہ صدیقی: جیسا کہ ذکر کیا، خواتین کے سماجی حقوق کا تحفظ ہمارے پروگرام میں شامل ہے۔ خواتین کے معاشی حقوق کے تحفظ کا پروگرام ہے۔ اسی طرح خواتین کے سیاسی حقوق کا تحفظ بھی ہمارے پروگرام کا حصہ ہے۔ جماعت اسلامی کوشاں ہے کہ خواتین کو ووٹ کا حق دلایا جائے۔ جہاں خواتین کو گھروں میں مقید کرکے ان کا ووٹ اور رائے کا حق سلب کرلیا جاتا ہے، جماعت اسلامی یہ یقین دہانی کرواتی ہے کہ ان خواتین کو یہ حق واپس دلوائیں گے، اور جہاں جہاں اس حق پر قدغن لگائی جارہی ہے ہماری پوری کوشش ہوگی کہ وہاں خواتین کو ووٹ کا حق دلوایا جائے۔
جسارت میگزین: جماعت اسلامی کی قیادت دیانت دار ہے، اس کے باوجود لوگ منتخب نہیں کرتے، اس کی کیا وجہ ہے؟
دردانہ صدیقی: جس منشور کا میں نے ذکر کیا اسی طرح کا پروگرام دیگر جماعتوں کے پاس بھی ہے۔ سب دعوے کرتے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ اس کو یقینی کون بناتا ہے۔ جو خود دیانت دار ہو، امین اور صادق ہو وہی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں پر عمل درآمد کرے گا۔ جماعت اسلامی کے پاس جب جب اور جتنی جتنی حکومتیں رہیں انہوں نے اپنی صلاحیت کو بھی منوایا اور اپنی صالحیت کو بھی منوایا، اس کے باوجود ہمارے ہاں عوامی رائے بنانے میں جن اداروں کا حصہ ہے وہ اگر بغیر کسی عصبیت کے عوام کے سامنے ان ساری چیزوں کو لے کر آئیں، حقائق کو بھی لے کر آئیں کہ پاکستان کا مستقبل کن ہاتھوں میں محفوظ ہے، عوام کے حقوق کا تحفظ کن لوگوں کے ذریعے ممکن ہے، اور کس نے کب کیا کِیا، تو تبدیلی اور بہتری ممکن ہے۔ اس میں میڈیا کا بڑا رول ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں لاکھوں کا مجمع میڈیا کو ترستا رہتا ہے، اور کہیں خالی کرسیاں بھی ناظرین کو دکھائی جارہی ہوتی ہیں۔ جب آپ ایک منصوبے کے تحت کسی کو آگے بڑھاتے ہیں اور کسی کو پیچھے ہٹاتے ہیں تو بے شک آپ کسی کی کرپشن کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن آپ اس کے بالمقابل دیانت داری کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو عوام کے سامنے نہیں آتے تو عوام دھوکا کھاتے ہیں۔ لہٰذا جن کو جھولی بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اگلے ہی لمحے ان کو جھولی بھر بھرکر ووٹ دیتے ہیں۔
جسارت میگزین: بچیوں کے ساتھ زیادتی اور چائلڈ لیبر کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
دردانہ صدیقی: اگر ہم نظام ایسا بنائیں جس کے اندر ایک خاص عمر تک بچوں میں تعلیم کا انتظام کیا جائے، جیسے امیر جماعت نے یہ بات کہی ہے کہ بچیوں کے لیے بھی علیحدہ تعلیمی اداروں کا انتظام کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے محروم ہیں، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے والدین کو بھی پابند کیا جائے گا کہ وہ لازماً اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجیں ورنہ ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا، یا کوئی سزا دی جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم خود عملاً یہ دیکھیں کہ بڑے بڑے لوگ جو تقریریں کرتے ہیں، این جی اوز کے وہ لوگ جو بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اُن کے اپنے گھروں میں چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں کام کررہی ہوتی ہیں اور انہی کی طرف سے زیادتیوں کا نشانہ بن رہی ہوتی ہیں۔ اس چیز کو بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارا اپنا عمل کیا ہے۔ قانون سازی بعد کی چیز ہوتی ہے، سب سے پہلے ہمارا اپنا عمل اس بات کی گواہی دے کہ ہم اس سلسلے میں کیا کررہے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے غربت بہت بڑھ چکی ہے، والدین کے مسائل بڑھ چکے ہیں، وہ معاشی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تو بچوں کو بھی معاش پر لگا دیتے ہیں۔ ہم پورا پروگرام رکھتے ہیں کہ کس طرح معاشی مسائل کو حل کریں گے تاکہ والدین بچوں کو کام پر نہ لگائیں۔
جسارت میگزین: الیکشن میں کم وقت رہ گیا ہے، کیا جماعت اسلامی کی تیاری مکمل ہے؟
دردانہ صدیقی: تیاری جاری ہے، مکمل تو نہیں ہے۔ الیکشن میں ہم بھرپور طریقے سے اترنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری پہلی کوشش تو یہ ہے کہ اپنے منشور کا تعارف عوام میں پہنچائیں، اپنی دیانت دار قیادت کا تعارف پہنچائیں، اپنی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کریں۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشن کی سطح پر تنظیم سازی، اس کے لیے افرادِ کار کی تربیت اور تیاری، عوام کو بتانا کہ شناختی کارڈ بنوائیں، ووٹر لسٹوں میں ناموں کا اندراج ہو، امیدواروں کا چنائو، کیونکہ 33 فیصد خواتین کا بالواسطہ انتخاب بھی ہوتا ہے اس حوالے سے امیدواروں کا چنائو ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: مردم شماری کے بعد ہی حلقہ بندیاں ہورہی ہیں، الیکشن کمیشن سے اس سلسلے میں آپ کے کیا مطالبات ہیں؟
دردانہ صدیقی: مردم شماری پر کسی کا اطمینان نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کراچی کی آبادی 2کروڑ کے قریب پہنچ رہی ہے لیکن اس مردم شماری میں یہ ایک کروڑ دکھائی گئی ہے۔ اس میں کچھ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے اور کچھ لسانی بنیادوں پر۔ اس صورتِ حال میں ہم سمجھتے ہیں کہ حلقہ بندیاں درست نہیں ہوئی ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن سے ہمارا مطالبہ بھی یہی ہے کہ کرپشن فری الیکشن کرائے جائیں جس میں ووٹر لسٹوں کی درستی، حلقہ بندیاں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر کرنے کے بجائے اصولی بنیادوں پر کی جائیں۔ شناختی کارڈ بنوانے میں مسائل اور مشکلات ہیں ان کو دور کروایا جائے، اور پولنگ کے عمل کو شفاف بنایا جائے، اور شفاف بنانے کے لیے ہر قسم کے جبر اور بددیانتی سے پاک کیا جائے، بائیو میٹرک نظام اپنایا جائے، اور اَن مٹ سیاہی کو لازمی قرار دیا جائے۔ الیکشن کمیشن وہ تمام اقدامات بروئے کار لائے جن کے ذریعے شفاف الیکشن ممکن ہو۔ ابھی الیکشن میں چار پانچ ماہ ہیں، اُس وقت تک ان چیزوں کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے اور جو تحفظات ہیں ان کو دور کیا جائے۔
جسارت میگزین: اس وقت کراچی میں سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے، اس سلسلے میں جماعت اسلامی کیا کررہی ہے؟
دردانہ صدیقی: کراچی میں آباد لوگوں کی اکثریت نظریۂ پاکستان کی اصل جانشین ہے، جن کے بزرگوں نے ہجرتیں کی تھیں۔ لہٰذا اس پاکستان کے لیے ہمیں پلٹنا ہوگا اُن بنیادوںکی طرف۔ پھر گزشتہ تیس سال جو صورت حال رہی اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ مشرقی پاکستان بنگلا دیش کیوں بن گیا، اور کراچی تیس سال سے ان مسائل اور پریشانیوں، بوری بند لاشوں، بھتا خور کلچر سے کیوں دوچار کیا گیا حالانکہ بات حقوق کی تھی۔ اگر ایسا نظام تشکیل دیا جاتا جس میں پاکستان کے ہر شہری کو اس کا سیاسی، سماجی اور معاشی حق ملتا تو پھر اس طرح کے گمراہ کن نعرے مقبول نہ ہوتے اور ایسے گمراہ لوگ قوموںکو تباہ نہ کرتے۔ جماعت اسلامی اس پر یقین رکھتی ہے کہ عدل پر مبنی نظام قائم کیا جائے، کسی خاص لسانی اکائی کو نشانہ نہ بنایا جائے، اور نہ کسی عصبیت کی وجہ سے کسی اکائی کو آگے بڑھایا جائے۔ ہم پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہر شہری کے حق کی بات کرتے ہیں، جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کے روٹ کار کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس جڑ کو سمجھ لیا جائے، اس کی اصلاح کرلی جائے تو یہ مسائل نہیں ہوں گے۔ جماعت اسلامی آج بھی اہلِ کراچی سے کہتی ہے کہ ہم آپ کے وہ نمائندے ہیں کہ اگر اسمبلیوں میں پہنچیں گے تو آپ کو تمام پاکستانیوں کے مساوی حقوق دلوائیں گے۔ ہم مسائل کو حل کرنے کی بات کریں گے۔ جو لوگ حقوق کے نام پر ووٹ لے کر پہنچتے رہے انہوں نے آپ کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ آج وہ خلا موجود ہے، اس کو پُر کرنے کے لیے جماعت اسلامی موجود ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔
جسارت میگزین: خواتین کے نام آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
دردانہ صدیقی: خواتین اپنے اندر بہت بڑی طاقت رکھتی ہیں۔ میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اس طاقت کو بحیثیت ماں اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت، خاندان کے استحکام اور معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پھر وہ خود اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں۔ یوں خواتین پوری قوم کا مزاج اور کردار تبدیل کرسکتی ہیں۔
جسارت میگزین: بہت شکریہ دردانہ صدیقی صاحبہ۔

میں کہ تاریخ کا طالب علم

ابوبکر قدوسی
کبھی کبھی سوچتا تھا کہ جب غرناطہ میں خونِ مسلم ارزاں ہوچلا تھا، تب ترکی میں عثمانی اوجِ ثریا پر تھے، ہندوستان میں مسلمان ناقابلِ شکست سلطنت قائم کرچکے تھے … ایسا عروج، کمال کا عروج اور طاقت۔
میں بہت جذباتی ہوا کرتا تھا، گھنٹوں خواب بُنتا، دل چاہتا کہ وقت واپس آجائے، اور کوئی اندلس کو نکل جائے۔ کوئی عالمگیر، کوئی ابراہیم لودھی، کوئی شاہ جہاں تاج محل کو ادھورا چھوڑ کے، باقی کی رقم سے توپ و تفنگ خریدے اور الحمرا کو بچا لے۔ دریائے کبیر کے کنارے اترے اور وادیوں میں نکلے، بکھرے مجاہدین کو صدا دے کہ آؤ ہم پار پردیس سے، سات سمندر پار سے تمھارے بھائی چلے آئے ہیں۔
پھر سوچتا کہ وہ کون سا ایسا رسل و رسائل کا زمانہ تھا کہ بھائی کو بھائی کی خبر ہوتی! بزدلی اور بے حمیتی کو کچھ تو بہانے چاہیے ہوتے ہیں ناں۔
اور پھر اجداد کی عزت کا معاملہ تھا۔ لیکن سوچتا بہت تھا۔
میں کہ تاریخ کا طالب علم تھا۔
پھر تکریت، فلوجہ، بغداد اجڑے۔ ازابیلا اور فرڈی نینڈ کی روح جارج بش کی شکل میں دوبارہ زمین پر اتر آئی۔
میں چپ چاپ تاریخ کو ٹک ٹک دیکھ رہا تھا… کبھی فلوجہ کا دھواں اور کبھی پس منظر کو پیش منظر میں بدلتا غرناطہ کا لہو…
پھر حلب، دمشق، موصل، اور اب غوطہ…
مجھے سب بھول گیا، ہاں سب بھول گیا کہ میرے من میں کیا کیا شکوے عثمانیوں اور مغل، لودھی، افغانی حکمرانوں سے جو پیدا ہوتے تھے، میں حیران حیران سا سوچتا رہتا کہ یہ سب اندلس کیوں نہ گئے، وہاں اپنے بھائیوں کی مدد کیوں نہ کی، امت کیوں لاچار اجڑ گئی!
ہاں سب شکوے بھول گئے۔
میں اب تاریخ کا طالب علم نہیں تھا… اب میں تاریخ بنا رہا تھا، اب میں تاریخ کا حصہ تھا… اُس تاریخ کا جس تاریخ میں ایک ایک جلتے بدن کی کہانی تصویر بن کے روز میرے کمپیوٹر پر آموجود ہوتی۔
جلتے گھر، اجڑتے محلے، مرتے بچے، سسکتی مامتا، بے بس موت مرتی جوانی، بھوک سے بلکتی معصوم ادائیں، تاراج ہوتی مقدس قبائیں، لہو روتی لاچار مائیں روز مجھے دِکھتیں اور میں خاموشی سے منہ موڑ لیتا۔
ہاں میں ابوبکر قدوسی کہ کبھی تاریخ کا طالب علم تھا، اب خود تاریخ تھا، کہ جس نے بغداد کا سقوط دیکھا، نوحہ پڑھا، کچھ آنسو بہائے اور پھر اپنی زندگی میں کھو گیا، اور تاریخ ہوگیا۔
مجھے سمجھ میں آگیا کہ اندلس کیوں برباد ہوا؟ کوئی اس کی مدد کو کیوں نہ پہنچا؟
مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔

عورت آبگینہ ہے،اپنی بات

عورت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نازک آبگینہ کہا ہے۔ مرد پر واجب قرار دیا گیا ہے کہ وہ عورت کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرے، اسے اشیائے ضرورت فراہم کرے، اس کے لیے اپنی کمائی خرچ کرے تاکہ عورت کی زندگی پُرامن ہوسکے، اس کو راحت اور آسائش ملے۔ مرد کو عورت کے لیے وسائل کی فراہمی کی تگ و دو کا مکلف بنایا گیا۔ اسی کام کو اس کے لیے عبادت کہا گیا۔ اس کے مقابلے میں عورت کو اپنے بچوں کی تربیت اور اپنے شوہر کی مدارات کے سوا کسی بات کا مکلف نہیں قرار دیا۔
لیکن مغرب عورت کو آزادی اور مساوات کا سبز باغ دکھا کر مسحور کررہا ہے۔ آج عورت کو اپنے خلاف ایک نہایت وسیع اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ اس جنگ کا مقصد عورت کو اس کی محفوظ پناہ گاہ ’’گھر،، سے نکال کر یا تو ایک نمائشی چیز بنانا ہے، یا پھر ملوں، کارخانوں اور دفاتر کی محنتی اور سستی کارکن بنانا ہے۔
چاروں طرف کاری گری سے عورت کو عورت کے بجائے کچھ اور ہی بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ وہ نسوانی خصوصیات جو خواتین کا طرۂ امتیاز ہیں، انہیں خامیاں قرار دیا جارہا ہے۔ سادگی، محبت، اطاعت، وفا شعاری کے بجائے کچھ دوسری ہی خوبیاں اجاگر کی جارہی ہیں جن سے عورت انسانیت کے معیار سے اتر کر مصنوعات کے فروغ کا ایک آلہ بن کر رہ گئی ہے۔ عورت کے دل میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ اسے بچوں کی پیدائش، ان کی پرورش اور پرداخت کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔
اس کی بنیاد میں وہی حسین اور اسمارٹ بنے رہنے کا جذبہ کارفرما ہے، حالانکہ ایک عورت کا حُسن اس کی وفا شعاری، محبت اور عفت کی حفاظت ہوتی ہے۔ خوش جمال بننے کا شوق اپنی جگہ، اس سے انکار نہیں، عورت کے اندر اس کا جذبہ بہت طاقتور ہے، لیکن ایک طرف اسے اپنے محرم خاص طور سے اپنے شوہر کے لیے مخصوص کرنا ضروری ہے، اور دوسری طرف خوش جمالی کے ساتھ خوش خصالی پر بھی توجہ دینا لازم ہے۔ شادی کے بعد محدود عرصے تک تو محبوبیت اچھی لگتی ہے لیکن پھر ایک مخلص اور غم گسار ساتھی، سچے دوست، وفا شعار اور خدمت گزار شریکِ حیات ہی دلوں کو ٹھنڈک اور سکون بخشتی ہے کہ
حسنِ صورت چند روزہ، حسنِ سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہے آنکھیں اس سے خوش ہوتا ہے دل
غزالہ عزیز
انچارج صفحہ خواتین

حصہ