غلامی کی تاریخ اور اسلام

1498

سفیر احمد چوہدری
غلامی دنیائے انسانیت کا ایک قدیم اور محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہر طاقتور قوم اپنی مطلوب و مجبور اقوام کو نہ صرف غلام بنا دیتی بلکہ ان سے کھیتوں، کاروباری مراکز اور دیگر مقامات پر کام کرایا جاتا۔ اس دور میں غلاموں پر ہرطرح کے تشدد کا مالک کو قانونی حق حاصل تھا اور ان کی تجارت بھی جانوروں کی طرح کی جاتی تھی۔اہل مصر ، ہندو اور فارسیوں جیسی قدیم اقوام میں بھی غلاموں کو ادنیٰ حقوق بھی حاصل نہیں تھے اور ذرا سی بات پر ان کو زندہ جلا دیا جاتا۔ یونانی اور رومی تہذیب میں بھی غلاموں کو حیوانوں کی طرح استعمال کیا جاتا رہا۔ عیسائی اور یہودیوں میں بھی تقریبا یہی سلوک کیا جاتا۔
18ہویں صدی میں مملکت فرانس میں یہ قانون بنایا گیا کہ کوئی غلام اگر کسی آزاد انسان سے زیادتی، چوری یا لڑائی کرتا اسے سزائے موت دی جاتی۔ جو غلام بھاگ جاتے ان کو پکڑ کر ان کے کان کاٹ دیے جاتے اور ان کو داغا جاتا۔ اگر غلام مسلسل تین بار بھاگتا تو اس کی سزا موت متعین کر دی گئی۔ غلاموں کو صرف یورپ نے پنجروں میں بند رکھا۔ اس سے پہلے ایسا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کے گلے میں رسیاں ڈالی جاتی اور جانوروں کی طرح پنجروں میں بند رکھاجاتا۔ گیمبیا اور نائجیریا ساؤتھ اور سینٹرل افریقہ میں باقاعدہ جال لگا کر سیاہ فام باشندوں کو پکڑا جاتا اور غلام بنا کر امریکا لے جایا جاتا۔ جہاں ان سے دو وقت کی روٹی کے بدلے سب کام لیے جاتے تھے۔ مرد اور عورتوں کو جنسی غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔ یہ وہ تصور غلامی ہے جو یورپ اور امریکا میں انیسویں صدی کے اوائل تک قائم رہا۔ امریکا اور یورپ والے ڈیڑھ سو سال پہلے تک اس جہالت زدہ نظام کو اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی زرعی ترقی میں اہم کردار انہیں غلاموں کا ہے جنہیں جانوروں کی طرح جوتا جاتا اور کام لیا جاتا۔ جب سائنسی دور آیا اور اس نظام کی ضرورت نہ رہی تو ایسی اقوام نے انسانی حقوق کا عالمی چمپئن بن کر اس نظام پر پابندی عاید کر دی۔
اسلام میں کسی بھی آزاد انسان کو غلام بنانے کے تمام طریقے ناجائز اور حرام قرار دیے گئے ہیں، سوائے ایک صورت جنگی قیدی کے اور ان سے بھی محبت کا سلوک روا رکھا جاتا۔ جبکہ ہر قوم قیدیوں کو اپنا غلام بناتی تھی۔ اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو اپنے جنگی قیدیوں کو چھڑانا مشکل ہوتا اور کفار کو چھوڑ دینے سے وہ دوبارہ قوت پکڑ کر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اگر دشمن کا رویہ ٹھیک ہو تو ان قیدیوں کو معاوضہ لے کر یا جنگی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جاتا۔
جن قیدیوں کو مسلمان رہا نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزائے موت دے سکتے ان کو رہا کر کے معاشرے میں سمو دیا جاتا اورمکمل انسانی حقوق دیے جاتے تا کہ وہ خود کو حقیر نہ سمجھیں۔ وقت گواہ ہے کہ ان قیدیوں میں بہت سے عالم، مفکر،اور اولیاء کرام سامنے آئے۔ ایسے قواعد بنائے جن سے غلامی اور آزادی کا فاصلہ بہت کم رہ گیا۔ اسلام میں غلامی کی یہ محدود صورت جو کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم نہیں بلکہ آپشن کے طور پر رہی مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی۔
اسلام ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے انسانوں کی خرید فروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔ اب تمام قوموں کا غلامی کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی مدد سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ تو اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی 1973ء کے آئین شق 11 کے تحت غلامی کے تصور کو ختم کر دیا گیا اور اسے غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ دیکھاجائے تو اس معاہدے کا فائدہ مسلمانوں کو زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلمان جنگی قیدیوں سے حسن و سلوک کے پابند تھے۔ جب کہ غیر مسلم جنگ کے علاوہ بھی مسلمانوں کو غلام بنا دیا کرتے تھے۔ تا ہم اگر کفار یا دیگر مغربی اقوام اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو مسلمان بھی اس آپشن کو محدود حد تک استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ طلاق ناپسندیدہ فعل ہونے کے باوجود حالت مجبوری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔
مغرب آج اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے انسانی خرید و فروخت ختم کر دیا ہے مگر آج کے دور کی غلامی بہت سی شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ اب افراد کی بجائے اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں شرعی لحاظ سے لونڈی رکھنے کا کوئی نظریہ موجود نہیں اور نہ ہی اسلام اجازت دیتا۔ مگر مغرب میں لونڈی کو دیگر نام دے کر رکھا جاتا ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو اسلام میں گرفتار ہو کر آنے والوں کے بھی بہت سے حقوق تھے اور مگر مغرب میں چند ٹکوں کے عوض رکھے جانے والے غلاموں کے نہ تو کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی عزت و احترام ملتا ہے۔
تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو انسانی حقوق کے چمپئن نے مخالف اقوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگیں ان کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہزاروں عورتوں کو قید کر کے ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ ان جنگوں میں مردوں کے ساتھ ہونے والا سلوک گوانتاناموبے جیسے عقوبت خانے سے عیاں ہے۔یہ بات تو دور کی ہے ابھی گزشتہ ماہ انکشاف ہوا کہ اقوام متحدہ کے ادارے مہاجرت کے کارکنان نے مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی حرکات تک کرتے ہیں۔
آزادی کا جو تصور اسلام میں ہے شاید ہی وہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں یا اقوام میں ہو۔اسلام کے احکامات سے (نعوذ باللہ) اگر کوئی خود کو قیدی تصور کرتا ہے تو اس چاہیے کہ وہ بہتر مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ اقوام عالم میں نظر دوڑائے اور پھر آزادی کی شرح کا اندازہ لگائے کہ اسلام میں کتنا آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ باتوں سے تو صرف الجھا جاسکتا ہے، حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا۔

صاف پانی اور غریب عوام

مہوش کنول
پانی ایک نعمت ہے اور اس کے بغیر کسی جاندار کا گزارا ہی نہیں ۔جانور کو تو پیاس مٹانے کے لیے پانی کے صاف یا گندے ہونے سے کوئی غرض نہیں ہوتی البتہ انسان پینے کے لیے صاف پانی چاہتا ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں غریب گھرانے کو دووقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے اگر وہاں پانی بھی خرید کر پینا پڑے تو غریب کی جھکی ہوئی کمر مزید جھک جاتی ہے۔
صاف پانی کو اشتہارات میں تو عام کر دیا گیا ہے اور منرل واٹر کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے فلٹرز کا عوام سے تعارف تو کرایا گیا ہے لیکن غریب آدمی کی پہنچ سے صاف پانی کوسوں دور ہو گیا ہے ۔ حکومت کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ جب وہ صاف پانی کی روایت ڈال ہی رہے ہیں تو کیوں نہ اسے غریب تک بلا معاوضہ پہنچا بھی دیں ۔جن علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت ہے اور پانی لائنوں میں ایک عرصے سے بند ہے وہاں ٹینکر مافیا نے قبضہ جما لیا ہے اور وہ غریب آدمی کی جیبب پر راج کر رہا ہے ۔ جس کی جو مرضی آتی ہے وہ منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے تب کہیں جا کر غریب کو پینے کا صاف پانی نصیب ہوتا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں ٹینکر مافیا نے ٹینکر کی قیمت میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ گویا پانی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں ۔ خصوصاََ جتنے بھی صنعتی علاقوں میں رہائشی علاقے ہیں وہاں زمین کا پانی جسے بورنگ کا پانی بھی کہا جاتا ہے وہ ملوں کے زہریلے مواد کے باعث اتنا خراب ہو چکا ہے جسے عام استعمال میں لانے سے قبل بھی دس بار سوچنا پڑتا ہے ۔کیونکہ ملوں سے نکلنے والے زہریلے مواد جو زمین میں جذب ہو جاتے ہیں وہ زمین یا بورنگ کے پانی میں مل جاتے ہیں ۔ان علاقوں میں پینے کے لیے تو کیا روز مرہ کے مختلف چھوٹے بڑے کاموں کے لیے بھی ٹینکر مالکان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔جو اپنی مرضی کے داموں میں پانی فروخت کرتے ہیں ۔
اور جب ان کو پانی کے ٹینکر کی قیمت میں اضافہ کرنا ہو توعوام کی پہنچ سے کچھ دن کے لیے دور ہو جاتے ہیں ۔ اور جب بار بار فون کال کرکے ان حضرات کو پانی کا ٹینکر ڈلوانے کی درخواست کی جاتی ہے تو اکثر کا کہنا ہوتا ہے کہ واٹر اسٹیشن سے پانی نہیں مل رہا۔ یاٹینکر لائن میں لگا ہوا ہے ، پانی پہنچانے میں ایک لمبا وقت درکار ہوگا ۔ اور جب یہ لوگ پانی لے کر مطلوبہ افراد تک پہنچتے ہیں تو ایک احسانِ عظیم کی طرح انھیں ایک لمبی سی داستان سناتے ہیں کہ کس طرح دور دراز کے علاقوں سے لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر پانی کا ٹینکر بھرا گیا ہے اور کس مشقت کے بعدآ پ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ہیں ۔تو اب پانی کی قیمت گزشتہ قیمت کے مقابلے میں اتنے فیصد زیادہ ہوگی۔ اگر ڈلوانا ہے تو ڈلوائیں نہیں تو اور بھی خریدار مل جائیں گے جو نئی طے کردہ قیمت پر بلا چوں چرا کئے پانی ڈلوا لیں گے ۔
انھیں بہتر طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے چار پانچ دن سے پانی کو تبرک کے طور پر استعمال کرنے والی ترسی ہوئی عوام میں انکے پانی کے ٹینکر کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گااور یہ مجبور لوگ پانی کے حصول کے لیے کتنی بھی قیمت دینے کو تیار ہو جائیں گے ۔ جو لوگ پانی کی قیمت میں ہونے والے اس اضافے کی گنجائش رکھتے ہیں وہ خود پر اللہ کی رحمت سمجھ کر ان باتوں میں آ کر پانی ڈلوا لیتے ہیں اور جن بے چارے لوگوں کی اتنی بھی استطاعت نہیں ہوتی وہ کسی ٹنکی والے کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں اور یہ ٹنکی والے حضرات بھی ایسے وقت میںجو ایک ٹنکی انھیں 50یا 60روپے کی پڑتی ہے اس ٹنکی کے 100روپے وصول کرتے ہیں ۔اور اس طرح بڑے ٹینکر مالکان سے لے کر چھوٹی سی ٹنکی والے حضرات اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور غریب کا مزید بیڑہ غرق کر دیتے ہیں ۔
الیکشن میں اربوں روپے خرچ کرکے اور غریب عوام سے ووٹ حاصل کر کے حکومتیں تو بن جاتی ہیں لیکن شہریوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آتا ۔انھیں کسی حکوت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ جو بھی نئی حکومت آتی ہے وہ اپنے علاقوں کی چاندی کر دیتی ہے اور باقی علاقوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جاتی ہے جن کا کوئی پرسا ن حال بھی نہیں ہوتا ۔
غربت کی چکی میں پسے ہوئے ہر فرد کی ایک ہی التجاء ہے کہ غریب علاقوں میں پانی کی نئی لائنیں ڈلوائی جائیں یا پھر جو پرانی لائنیں عرصہ دراز سے پانی کی قلت کے باعث سوکھی پڑی ہیں ان ہی کو بحال کر دیا جائے اور خداراٹینکر مافیا سے شہریوں کی جان چھڑوا ئی جائے ۔

خود کو مفلسی سے بچائیں

بنتِ عطا
کسی بھی چیز کو بناتے وقت انسان کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی جاتی۔ عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ اس میں رہا جا سکے، لباس جوتے وغیرہ بنائیے جاتے ہیں تاکہ پہننے اوڑھنے کے کام آسکیں، برتن بنائے جاتے ہیں تاکہ کھانے پینے کے لیے استعمال ہوں، کھانا بنایا جاتا ہے کاشت کاری کی جاتی ہے غلہ اگایا جاتا ہے تاکہ کھانے پینے کی ضرورتیں پوری ہوں غرض کوئی بھی چیز بے مقصد وجود میں نہیں لائی جاتی۔
اسی طرح اربوں کھربوں مخلوقات بھی بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اسے پیدا کرنے دنیا میں بھیجنے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔فرمان باری ہے کہ: میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا (القرآن) ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں اس کی اطاعت کریں اس کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اسی کی عبادت کریں۔عبادت صرف نماز روزہ کا نام نہیں بلکہ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں حقوق اللہ داخل ہیں اور دوسری قسم حقوق العباد کو شامل ہے۔ اصل کامیابی ان دونوں کی ادائیگی میں ہے۔ کسی ایک پر چلنا اور دوسری سے غفلت برتنا یہ فلاح کا راستہ نہیں۔
ایک شخص اگر نماز روزے کا پابند ہے کوئی نماز کوئی روزہ اس سے قضا نہیں ہوتا ہر وقت ذکر الٰہی میں لگا رہتا ہے مگر اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ بد زبان بد اخلاق ہو تو محض ان نماز روزوں سے اس کی نجات ممکن نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص صدقہ خیرات کا عادی ہو مگر احسان بھی جتلاتا ہو تو اس کی یہ نیکی رائیگاں جائے گی۔ والدین و اساتذہ کی نافرمانی ان سے زبان درازی کرنا، صلہ رحمی سے غفلت، مسلمان بھائی سے قطع تعلقی رکھنا، کسی کو تکلیف پہنچانا یہ ساری باتیں قیامت کے روز آپ کی نماز روزہ قبول ہونے نہیں دیں گی۔قیامت کے روز ہر چھوٹی بڑی بات کا حساب ہوگا فرمان باری ہے کہ ’’جو کوئی ذرہ سی بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا‘‘ (القرآن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پوچھا مفلس کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز ایک شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے دنیا میں کوئی زیادتی کی ہوگی وہ آتے جائیں گے اور اپنے حق کے بقدر اس کی نیکیوں میں سے لیتے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے تمام اعمال ختم ہوجائیں گے مگر حقدار باقی ہوں گے۔ پھر ان تمام حقداروں پر ہوئے ظلم کے بقدر ان کے گناہ ان سے لے کر اس شخص کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی بد اعمالیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل مفلس وہ شخص ہے۔
لہذا اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔ اپنی زبان اپنے تمام اعضاء کی حفاظت کریں کسی کو آپ سے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، ناپ تول میں کمی نہ کریں، جھوٹ، دھوکہ، لوٹ مار، والدین کی نافرمانی، غیبت، بہتان، بغض، حسد، کینہ، لعن طعن، منافقت ان سب عیوب سے خود کو بچاتے ہوئے نماز روزے و دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔ تاکہ آپ کی نیکیاں بروز قیامت بھی آپ کے پاس محفوظ رہیں۔ ان پر صرف آپ کا حق ہو کوئی اور حقدار نہ نکل آئے جو آپ کا پلڑا خالی کرکے آپ کی نیکیاں لے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ زندگی کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود کو مفلس ہونے سے بچا لیجیے۔

حصہ