بات یہ ہے

292

عبدالرحمن مومن
’’سر پلیز، کسی اورسے کہہ دیں میں نہیں لکھ سکوںگا۔‘‘علی نے سر جھکا کر کہا۔
’’کیوں بیٹا، پچھلے برس تو آپ نے بہت اچھا مضمون لکھا تھا۔اس برس بھی آپ ہی مضمون لکھیں گے۔‘‘سر نے فیصلہ سنایا۔
’’پچھلے برس میں نے اپنے ابو کی مدد سے وہ مضمون لکھا تھا۔ آپ جانتے ہیں سراب میرے ابو…‘‘علی کی آنکھ سے آنسو جھانکنے لگے۔
’’ارے ارے با ہمت بچے روتے نہیں ہیں۔ اچھا مضمون چھوڑو ،یہ بتاؤ کہ تم نے کبھی ٹی وی میں یا کسی تصویر میں پہاڑی علاقہ دیکھا ہے۔؟‘‘سر نے علی کا دھیان بٹایا۔
’’جی ، میں نے حقیقت میں بھی دیکھا ہے۔‘‘ علی نے جلدی سے بتایا۔
’’ارے واہ،اس کا مطلب ہے تم نے پہاڑوں سے اُبلتی ہوئی آبشاریں اور چشمے بھی دیکھے ہوںگے۔‘‘ سر نے کہا۔
’’جی سر، وہ تو بالکل فوارے کی طرح لگتے ہیں۔ دو برس پہلے میں نے ابو کے ساتھ سوات میں خوب مزے کیے تھے۔‘‘ علی نے خوش ہو کر کہا۔
’’بیٹا فوارے کے نظارے سے تو آپ لطف اندوز ہوئے ۔ کبھی آپ نے غور کیاہے کہ فوارہ آپ کو لطف اندوز کرنے کے لیے کسی بیرونی مدد کے بجاے اپنی اندرونی طاقت استعمال کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے پیارے بیٹے آپ کی اندرونی طاقت، ہمت اور صلاحیت فوارے سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ سرنے علی کی ہمت بندھائی اور اُسے علامہ اقبال کا شعر سنایا۔
اُدھر نہ دیکھ اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز
بلند زورِ دَروں سے ہوا ہے فوارہ

دوستی کا مان

آسیہ پری وش
طبقاتی فرق کے باوجود علی اور حمزہ کی دوستی پوری کلاس میں مشہور تھی۔ جس کی وجہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے مخلص ہونا تھا۔ علی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا تو حمزہ غریب گھرانے سے۔ حمزہ پڑھائی میں ہوشیار ہونے کی وجہ سے کلاس میں ہمیشہ پہلا نمبر آتا۔ علی بھی پڑھائی میں بہت اچھا تھا لیکن پھر بھی وہ پڑھائی میں حمزہ سے دوستی کا فائدہ بھی لیتا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی کلاس میں ہمیشہ دوسرا نمبر آتا۔ حمزہ کی طرح علی بھی اکثر اس کی کبھی کسی چیز تو کبھی چیز کے ذریعے مالی مدد کرتا رہتا تھا جبکہ حمزہ خوددار لڑکا ہونے کی بنا پہ ہر بار اس سے ایسی مدد لینے سے انکار کرتا لیکن پھر اس کے پرخلوص انداز پر ہار مان جاتا تھا۔
ان کا کلاس فیلو فہد ان دونوں کی دوستی سے بہت جلتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان دونوں کی دوستی ختم کروا کے خود علی سے دوستی کرکے اس کے دولتمند ہونے کا فائدہ لے۔ وہ حمزہ کا کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ پڑوسی بھی تھا۔
دو دنوں سے حمزہ اسکول نہیں آرہا تھا۔ اس کی دو دنوں کی غیر حاضری سے علی فکرمند ہوگیا کیونکہ حمزہ ریگولر آنے والا طالب علم تھا بغیر کسی بڑی وجہ کے وہ چھٹی نہیں کرتا تھا۔ علی فکرمند سا فہد کی طرف گیا اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے حمزہ کی غیرحاضری کی وجہ جاننی چاہی۔ جس پر فہد نے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ایک منصوبہ بناڈالا۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟
حمزہ کے لیے تمہاری فکرمندی دیکھ رہا ہوں جبکہ وہ کل مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھ کر تم پہ ہنس رہا تھا کہ پڑھائی میں تمہاری تھوڑی سی مدد کردینے سے مفت میں ہی اسے کتنی اچھی اچھی اور مہنگی چیزیں مل جاتی ہیں۔ ان چیزوں کی وجہ سے اس کے گھروالے اس پہ رشک کرتے ہیں۔ علی جیسے بیوقوف کی دوستی سے وہ تو بڑے فائدے میں ہے۔ فہد کی ایسی بات پہ اس کے اندر کچھ کھٹکا۔
تمہیں پتا ہے فہد! حمزہ کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ وہ ایسا کبھی نہیں کہہ سکتا اسی لیے اپنی یہ حاسدانہ اور جھوٹی باتیں اپنے پاس ہی رکھو۔ علی کو حمزہ پہ مکمل اعتماد تھا اور وہ فہد کے مزاج کو بھی سمجھتا تھا تبھی فہد کی بات پہ اسے دوٹوک انداز میں اپنا جواب سنا کر چپ کروادیا۔ اپنی باتوں سے علی کو حمزہ کے خلاف کرکے اسے اپنا ہمنوا بنانے کا منصوبہ مکمل ناکام دیکھ کر وہ جلتا کڑھتا کلاس روم سے باہر نکل گیا۔ لیکن اسے اپنے حاسدانہ منصوبے کے دوسرے حصے پہ عمل کرنے کا موقعہ دوسرے دن ہی مل گیا جب باپ کی سخت بیماری کی وجہ سے کچھ دنوں سے اسکول سے غیرحاضر رہنے والے حمزہ نے بھی فہد سے علی کی خیرخیریت پوچھی۔
کل علی بھی تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا اور وہ تمہیں لالچی بھی کہہ رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ حمزہ کی نظریں میری قیمتی قیمتی چیزوں پر ہوتی ہیں۔ مجھے اگر پڑھائی میں اس کی مدد کا سہارا نہ ہوتا تو میں کب کا اس لالچی سے دوستی توڑ چکا ہوتا۔ اس کی وجہ سے میں اپنی اتنی اچھی اور مہنگی گھڑی بھی’ جو کہ پاپا میرے لیے ملائیشیا سے لائے ہیں’ اسکول پہن کے نہیں آتا کہ کہیں اس کو بھی وہ اپنی حریصانہ نظروں سے نہ دیکھے اور مجھے پاپا سے اس کے لیے بھی ویسی ہی گھڑی کی فرمائش نہ کرنی پڑے۔
حمزہ جو خوددار طبیعت ہونے کے باوجود کبھی کبھی دولت مند علی کی دوستی سے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا تھا فہد کی ان باتوں میں آگیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہفتے کی غیرحاضری کے بعد جب وہ اسکول گیا تو علی کے گرمجوش استقبال پہ اس کا انداز روکھا تھا اور ہر کلاس میں علی کے ساتھ ایک سیٹ پر بیٹھنے والا حمزہ دوسری سیٹ پہ جاکر فہد کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سارا دن فہد کے ساتھ مصروف اس نے علی سے بات بھی نہیں کی۔ حمزہ کے ایسے رویے سے علی کو بہت دْکھ تو ہورہا تھا لیکن وہ چْپ تھا اور حمزہ کے اس رویے کی وجہ جاننے کی کوشش کررہا تھا۔
حمزہ کو فہد کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھتے ہوئے اچانک اس کے ذہن میں کچھ دن پہلے فہد کی کہی باتیں پھرنے لگیں اور وہ سارا مسئلہ سمجھ گیا اور پھر بریک میں ایک ساتھ باتیں کرتے حمزہ اور فہد کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ تمہیں پتا ہے فہد جھوٹ بولنا اور حسد کرنا کتنی بْری چیز ہے؟
جھوٹ۔۔۔ ممم میں نے تو کوئی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ چونکہ فہد کے دل میں چور تھا تبھی علی کے یوں اچانک سامنے آکر کھڑے ہونے اور ایسی بات پہ ایکدم گھبرا گیا۔ حمزہ بھی حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔ کیا کچھ دن پہلے تم نے مجھ سے یہ نہیں کہا تھا کہ حمزہ مجھ جیسے بیوقوف کی دوستی اور مجھ پہ ہنس رہا تھا کہ پڑھائی میں تھوڑی سی مدد کردینے سے میں اسے اتنی قیمتی قیمتی چیزیں دے دیتا ہوں علی کی بات پر فہد بوکھلا تو حمزہ حیران ہوگیا۔
اب حمزہ تم بھی اسے بتادو کہ اس نے میرے بارے میں تم سے کیا جھوٹ بولا ہے؟
اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تم مجھے لالچی اور اپنی قیمتی چیزوں کو حریصانہ نظروں سے دیکھنے والا کہہ رہے تھے۔
دیکھا کْھل گیا ناں تمہارے جھوٹ کا پول۔ فہد تمہیں پتا ہے دوستی کیا ہوتی ہے؟ دوستی کا مطلب ایک دوسرے پہ مکمل بھروسہ کرنا اور ایک دوسرے کے لیے بولے جھوٹ پہ یقین نہ کرنا ہوتا ہے اور الحمدللہ حمزہ اور میں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں سو پلیز ہمارے بارے میں آئندہ ایسی کوشش نہ کرنا۔ علی’ حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر فہد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ تو فہد شرمندگی سے نظریں جْھکا کر وہاں سے چلاگیا۔ سوری علی۔ مجھے معاف کردینا۔ حمزہ شرمندہ سا علی سے بولا۔
کوئی ایکسیوز ویکسیوز نہیں۔ ہم اچھے دوست ہیں سو بس اچھے دوست ہیں اور ہمیشہ رہیں گے بھی۔ انشاء اللہ۔ حمزہ کو مزید شرمندہ کیے بغیر علی نے اسے گلے سے لگالیا۔

شیر یا گیدڑ

مناہل
غروب آفتاب کے ساتھ اندھیرا ہوتے ہی محلے میں ایک شور مچ گیا بات یہ تھی کہ محلے کے چند لوگوں نے جنگل کے بادشاہ شیر کو علاقے میں چہل قدمی کرتے دیکھا تھا کچھ لوگوں نے شیر کی آمد کا یقین کیا اور کچھ نے یقین نہ کرتے ہوئے اسے سایۂ قرار دیا بعض نے ذہن کا فتور۔ ان سب باتوں کے باوجود ایک پراسرار خوف تھا جو ہر ایک پر طاری تھا علاقے میں سناٹا سا چھا گیا لوگ گھروں میں قید ہو گئے علاقے سے باہر کسی کام سے گئے ہوئے افراد کو خطرے سے آگاہ کر دیا گیا تاکہ وہ آتے وقت احتیاط سے کام لیں۔ شیر کی علاقے میں آمد اور معمول کی لوڈ شیڈنگ کے باعث شہری علاقہ ایک جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شیر نہیں ہو سکتا کیونکہ جنگل کا بادشاہ ہے جہاں اس کی حکمرانی ہے وہ اپنی سلطنت چھوڑ کر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کیوں کرے گا کچھ کا خیال تھا ہمارے علاقے سے جنگل قریب ہے کوئی 25 کلو میٹر دور ہے شیر آسکتا ہے اور ضرور آیا ہوگا۔ یہ علاقہ جو گائوں سے قریب تھا حال ہی میں آیا۔ ہوا اور مکانات کی تعداد بھی زیادہ نہیں۔ کچھ علاقے جہاں تعمیرات نہ ہوئی تھیں جنگل کا منظر پیش کر رہے تھے۔ معمول کے مطابق جب لائٹ آگئی تو لوگوں نے چھتوں پر چڑھ کر شیر کو دیکھنے کی کوشش شروع کردی۔ امجد بھی اپنے گھر کی تیسری منزل سے علاقے کا جائزہ لے رہا تھا اس کا گھر علاقے کا سب سے اونچا گھر تھا اچانک امجد کی نظر شیر پر پڑی اس نے فوراً آواز لگائی امجد کے ابو امی اور گھر کے دیگر افراد آگئے انہوں نے بھی شیر کو دیکھا وہ سست انداز میں چل رہا تھا اس کے چلنے کا انداز بتا رہا تھا وہ تھکا ہوا ہے۔ امجد نے ابو سے پوچھا شیر یہاں آیا کیسے اور کیوں؟ ابو نے کہا بیٹا شیر خاص مقصد سے تو آیا نہیں ہو سکتا ہے بھٹک کر آگیا ہو اور اپنے آنے پر پچھتا رہا ہو… کچھ ہی دیر بعد شیر کے دھاڑنے کی آواز جس نے پورے علاقے کو دھلا کر رکھ دیا۔ علاقے کے لوگوں نے شہر کے ذمہ داران کو شیر کی آمد سے مطلع کیا کہ اس مسلے پر فوراً قابو پایا جائے ورنہ نقصانات کا خطرہ ہے شہری انتظامیہ نے اگلی صبح تک کاروائی کا وعدہ کیا اور کہا کہ رات کو احتیاط سے کام لیا جائے کوئی فرد گھر سے باہر نہ آئے اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت کرے جس سے شیر مشتعل ہو۔
دوسرے دن صبح سویرے شہری انتظامیہ شیر کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا یعنی اپنے آپریشن کا آغاز کیا بڑی تلاش کے باوجود شیر نظر نہیں آ رہا تھا ایسا معلوم ہو رہا تھا شیر گیڈر کی طرح بھاگ گیا آخر بڑی تلاش کے بعد شیر کو دیکھا گیا وہ ایک غیر آباد جگہ جھاڑیوں کے درمیان اپنے پیروں میں سر دیے بیٹھا تھا گویا اظہار شرمندگی کر رہا تھا شہری انتظامیہ کے اہلکاروں نے اسے فوراً قابو کیا تو معلوم ہوا کہ وہ چڑیا گھر کا شیر ہے اسے فوری طور پر چڑیا گھر پہنچادیا گیا لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
شیر کی علاقے میں آمد اور پکڑے جانے پر مختلف قسم کے تبصرے کیے گئے اگر جنگل کا شیر ہوتا تو نا جانے کیا تماشا کرتا یہ تو بھوک کا مارا چڑیا گھر کا شیر تھا۔ مسلسل قید میں رہنے آزادی سے محرومی کے باعث اس کی وہ صفات جو قدرت نے اسے عطا کیں وہ ختم ہو چکی ہیں اس کی شکل و صورت ہی شیر جیسی رہے گئی ہے دراصل شیر نے نہ صرف غلامی قبول کر لی ہے بلکہ اس کی آزادی کی خواہش بھی ختم ہو چکی ہے۔

منو ماموں نے کیا شکار

عائشہ اسلمایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ اس نے گائوں میں سب کو بہت تنگ کر رکھا تھا۔ بادشاہ نے اعلان کیا کے جو اس شیر کو مارے گا اس کو 100 اشرفیاں ملیں گی۔ منے ماموں نے جب اعلان سنا تو خوبصورت خیالوں میں گم ہو گئے اور سوچنے لگے کہ آدھی اشرفیوں سے عید کی خریداری کروں گا اور آدھی سے اماں کو راشن لادوں گا تو اماں بھی خوش ہو جائیں گی ایک دن منے ماموں نے امی سے بہانہ بنایا کہ دوستوں نے بلایا ہے اور پھر ایک تیز دھار چھری اپنی کمر پر باندھ لی۔ جب منے ماموں جنگل میں پہنچے تو شیر کے آنے کی آواز سن کر ڈر کے مارے درخت پر چڑھ گئے شیر وہاں پہنچا تو اسے کچھ نہ دکھا اتنی دیر میں منے ماموں پیڑ کی شاخ ٹوٹنے سے نیچے گرے لیکن دوسری شاخ کی نوک میں انکی قمیض پھنس گئی اور ان کی کمر میں بندھی چھری نیچے گری اور شیر کی گردن میں جا گھسی اور شیر کی موت ہو گئی، منے ماموں کے خیالات پورے ہوگئے اور منے ماموں کو 100 اشرفیاں مل گئیں۔ اس تقریب میں ان کی اماں بھی شامل ہوئیں۔

حصہ