نعت: کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات

407

ناصر عباس نیّر
نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک ﷺ کی عظیم المرتبت ذات والا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی ،لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میںدونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی )میں آزادی ممکن ہے۔مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔ تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکﷺ کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفات ِ نبی ﷺ کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔
تسلیم کہ ادبی تنقید اس بنیادی مفروضے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتی کہ ادب ،ایک انسانی اور ثقافتی سرگرمی ہے،لہٰذا اس کے مطالعے کے لیے وہ سب طریقے جائز ہیں،جو انسان کی ذہنی اور ثقافتی دنیا کی تفہیم و تعبیر کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ نعت کا محرک عام طور پر د وقسم کے جذبات ہیں: عقیدت اور عشق۔ان دونوں کا محور ایک عظیم المرتبت ذات گرامی ﷺ ہے ،لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دونوں جذبات انسانی دل میں موجزن ہوتے ہیں،اور اسی زبان میں ظاہر ہوتے ہیں جسے عام روزمرہ دنیا سے لے کر شعری اظہار کے لیے اختیار کیا جاتاہے۔نعتیہ شاعری کی زبان غزل ونظم کی زبان سے مختلف ہوسکتی ہے، مگر یہ انھی شاعرانہ وسائل کو بروے کارلاتی ہے ،جو دیگر شعری اصناف سے مخصوص ہیں۔دوسرے لفظوں میں بالواسطہ طور پر دو باتوں کو تسلیم کیا جاتاہے۔اوّل یہ کہ غیر معمولی عقیدت و عشق کے جذبات ،عام انسانی زبان اور رائج شاعرانہ وسائل کی نفی نہیں کرتے۔دوم یہ کہ نعت لکھنا بھی ایک انسانی تخلیقی عمل ہے ۔چوںکہ یہ دونوں باتیں نعت میں موجود ہیں ،اس لیے نعت کے معانی بھی ہیئتی تصور کیے جاسکتے ہیں۔ہیئتی معنی سے مراد وہ معنی ہے جو کسی پہلے سے موجود موضوع کاعکس نہیں ہوتا ،بلکہ متن کی تخلیق کے دوران میں وجود پذیر ہوتا ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ نعت کا موضوع متعین ہونے کے باوجود ’نئے معانی ‘ کی تخلیق کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اگر یہ نئے معانی نہ ہوں ،اور صرف چند ایک موضوعات کی،یکساں اسلوب میں تکرار ہو تواس کے ضمن میں ہم مذہبی عقیدت کے تحت خاموش احترام کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے ادبی حسن کی داد کے جذبات محسوس نہیں کرسکتے۔ نعت میں ادبی حسن ،معنی آفرینی ایک ساتھ ہوتی ہے۔ نعت کی معنی آفرینی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہر چند یہ ایک ہیئتی عمل کی پیداوار ہے ،مگر یہ محض ایک لسانی کھیل نہیں ،بلکہ اس کا دائرہ مذہب، ثقافت، سماج اور انسانی نفسیات جیسے منطقوں میںاہم تبدیلیوںتک پھیلا ہے۔ ان سب کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں،صرف چند ایک کی طرف اشارات ہی کیے جاسکتے ہیں۔
نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میںعقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میںخود آدمی کی اپنی صلاحیت ِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیت ِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعہ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میںایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔
ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل ،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک ﷺ کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروض ِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں نبی پاک ﷺ کی ذات وصفات کی سچائی کی تقدیس ،ان کی کہی گئی باتوں،اور کیے گئے اعمال کی تکریم ،مدحت ہوتی ہے ۔ عقیدت کے تحت لکھی نعتوں میں اورثواب ومغفرت کی آرزوسے عبارت نعتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت تو ایک طرح سے ،سچائی اور اس کی عظمت کو خراج تحسین ہے؛عقیدت،بے غرض ہوتی ہے،یعنی خراج ِ عقیدت خود اپنا آپ انعام ہے ۔جب کہ ثواب و مغفرت کی نیت سے لکھی گئی نعتیں ،بہ ہر حال غرض رکھتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ نبی صلعم کی ذات گرامی مغفرت کا موجب ہے ،اور ان کی طرف رجوع بالکل جائز ہے ۔
مندرجہ بالا گزارشات سے واضح ہوگیا ہوگا کہ عقیدت کا موضوع بھی کئی پہلو رکھتا ہے؛ اس کی وحدت میں کثرت کا انداز ہوتا ہے۔سچائی ،اور اس کی عظمت کو پورے اخلاص کے ساتھ خراج پیش کرنے کا رویہ ابتدا تا آخر موجود رہتا ہے۔ مظفر وارثی کی معروف نعتیہ نظم،عقیدت کے بیشتر اجزا کی حامل ہے۔

مرا پیمبر عظیم تر ہے

کمال خلاق ذات اس کی
جمال ہستی حیات اس کی
بشر نہیں،عظمت بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ،ایک چارپائی
بد ن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کل کائنات جس کی
گنی نہ جائیں صفات جس کی
وہی تو سلطان بحر وبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

مظفر وارثی کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔

ہو شوق نہ کیوں نعت رسول دوسرا کا
مضموں ہوعیاں دل میں جو لولاک لما کا
پہنچائے ہیں کس اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غار ِ حرا کا

میر تقی میراور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:

جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسول کا

واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو ۔۔۔یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔۔ متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میںظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاًخواجہ عزیر الحسن مجذوب کا ایک شعر ہے۔

اب بعد نعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں
مجذوب شعر کہنے سے معذور ہوگیا

(جاری ہے)

نعتیں

علأ الدین ہمدم خانزادہ

نہ کچھ ملے گا بہت نیک نام ہونے سے
بنے گی بات نبیؐ کا غلام ہونے سے
گلوں میں رنگ بھرا ہے فضائیں مہکی ہیں
جہاں میں ذکرِ رسولِ انام ہونے سے
نمازِ عشق ادا ہو مری مدینے میں
کروں سجود میں پہلے قیام ہونے سے
جو مصطفیٰ کی غلامی میں آگیا ہو اُسے
زمانہ روک سکے گا امام ہونے سے
نبیؐ کا عشق عقیدہ ہوا ہے جس دن سے
ہیں آرزوئیں بھی منکر تمام ہونے سے
رہے درود جو وردِ زباں سعادت ہے
یہ روکتا ہے ہمیں بے لگام ہونے سے

تابش کمال

نئے سخن کی زمینوں میں پھول کھلتے ہیں
ادب کی شرط پہ سینوں میں پھول کھلتے ہیں
چمک رہی ہے جو ہر حرف میں یہ نعت کی لَو
اسی طرح کے قرینوں میں پھول کھلتے ہیں
رواں دواں ہے ہر اک موج آپؐ کی جانب
عقیدتوں کے سفینوں میںپھول کھلتے ہیں
یہ فیضِ شاہِ مدینہ نہیں ہے تو کیا ہے
سفر مہکتا ہے زینوں میں پھول کھلتے ہیں
قدم قدم پہ جو نظریں ہوں اپنے سجدوں پر
دھلی دھلائی جبینوں میں پھول کھلتے ہیں
ہو ذکر آپؐ کا تابشؔ تو کھل اٹھیں سطریں
سبھی حروف نگینوں میں پھول کھلتے ہیں

افشاں سحر

آپؐ کے دم سے ہیں اللہ کے فرمان
آپؐ کے نام پہ ہو جائیں گے قربان سبھی
آپؐ کا ساتھ جو محشر میں ہمارا ہو نصیب
ہم پہ ہو جائیں گی پھر مشکلیں آسان سبھی
دور دنیا سے جہالت کا اندھیرا کر کے
اے نبیؐ آپ نے روشن کیے امکان سبھی
آپؐ آئے ہیں تو چرچا ہوا دانائی کا
ورنہ نادان ہوا کرتے تھے انسان سبھی
جاں نکل جائے مدینے میں مری کاش سحر
پورے ہو جائیں ادھورے مرے ارمان سبھی

حصہ