لہجہ میری تہذیب کا

701

خالد معین
1980ء کی زرخیز دہائی میں کراچی کے ادبی منظر میں ابھرنے والی تخلیقی نسل اس اعتبار سے خوش قسمت رہی ۔انہیں بہت جلد صف ِ اول کے شہرت یافتہ شعرا کی پذیرائی بھی ملی اور ان شعرا کی نجی محفلوں میں جگہ بھی ملی ۔اُن دنوں کراچی کی ادبی فضا قابل ِ دید تھی ۔ایک جانب معیاری ادبی رسائل تھے ،دوسری طرف معیاری مشاعرے تھے ۔اس کے ساتھ مختلف شعرا کی بیٹھکیں تھیں ،جو گھروں اور مخصوص ہوٹلوں میں آباد رہتی تھیں ۔وہ نام ور شعرا جو صف ِ اول سے تعلق رکھتے تھے اور اسی کی دہائی کی تخلیقی نسل پر مہربان تھے ،اُن میں عزیز حامد مدنی ،سلیم احمد ،قمر جمیل،حمایت علی شاعر ،عبید اللہ علیم ،جون ایلیا،رسا چغتائی،خالد علیگ،انجم اعظمی،رضی اختر شوق ،محسن بھوپالی،صابر ظفر ،جمال احسانی اور سلیم کوثر سمیت تمام نمایاں شعرا شامل تھے جب کہ دوسری جانب وہ شعرا بھی تھے ،جو تخلیقی طور پر تو صف ِ اول سے تعلق رکھتے تھے مگر اُن کی عوامی شہرت ملک گیر نہ تھی ،جیسے وقار صدیقی ،مقبول نقش ،ساقی امروہوی،رضا الہ آبادی اور نیاز بدایونی جیسے درجنوں محبتی بزرگ تھے ۔اب یہ محض اتفاق ہے یا کوئی اور معاملہ کہ دونوں صفوں میں شامل شعرا کا تذکرہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ،پھر بھی زیادہ شہرت والے شعرا کا ذکر ِ خیر تو کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتا ہے لیکن نہیں ہوتا تو ایسے کسی بھی خوش کلام کا ذکر اذکار کسی ادبی پیلٹ فارم سے نہیں ہوتا ،جن کے پیچھے کوئی لابی موجود نہ ہو ۔ایک ایسا ہی تکلیف دہ معاملہ شہرت اور نام وری سے اپنی زندگی میں بھرپور بے نیازی برتنے والے کمال کے بزرگ شاعر اور ادیب نیاز بدایونی کا بھی ہے۔
مجھے تو یاد نہیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران یعنی نیاز بدایونی کے گزر جانے کے بعد اُن کی یاد میں کہیں کوئی مشاعرہ ہوا ہو ،یا اُن کی کے لیے کوئی ادبی ریفرینس کیا گیا ہو ،آرٹس کونسل ،کراچی تو دور کی بات کراچی کی درجنوں ادبی انجمنوں نے بھی کبھی بھولے سے اُن کے لیے کوئی نشست نہیں رکھی اور نہ ہی آیندہ ایسی کسی نشست کے رکھے جانے کا امکان ہے ۔لیکن اس کا مطلب کیا ہے ،کیا ہمارا شہر ایک سلجھے ہوئے ،تہذیبی اور شریف تخلیق کار کو اب کبھی یاد نہیں کرے گا ،نہیں! یقینا ایسا تو نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے ۔نیاز بدایونی کراچی کے ایک نام ور اور خوب صورت غزل گو تھے ،اور بدایوں سے کراچی ہجرت کرنے کے بعد اُنہیں کئی محاذوں پر صف آرا رہنا پڑا ۔
پہلے تو ہجرت کا کرب سہنا پڑا ،پھربدایوں سے دوری اور ایک آشنا شہر سے نا آشنا شہر میں بسرام کرنا کوئی آسان مر حلہ نہ تھا ،خاص طور پر اُس شخص کے لیے ،جو پڑھتا لکھتا تھا، سوچتا بھی تھا ،خواب بھی دیکھتا تھا اور اُس کی نظریں منظر کوپس منظر تک دیکھنے کا ہنر جانتی تھیں ،پھرخانہ آبادی کے ساتھ معاشی ضرورتوں نے اُنہیں اندر باہرسے ایک نئے سانچے میں ڈھالنا چاہا ،اس کشمکش میں وہ کچھ عرصے کے لیے سخن آرائی سے جبری رخصت پر بھی رہے لیکن جلد لوٹ آئے ،روایتی غزل کا چولہ بھی نئے زمانے اور نئے ادب کے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے اتار پھینکا اور یہیں سے نیاز بدایونی کا وہ تخلیقی سفر شروع ہوا ،جو متاثر کُن بھی ہے اور قابل ِ ستایش بھی ہے۔بھارت میں رہ جانے والے اُن کے بھائی عرفان صدیقی ،جو جدید اردو غزل کے مایہ ناز اور معتبر ترین شاعر قرار پائے یقینا ،اُن کی جدید غزل کے تیور بھی کسی نہ کسی سطح پر نیا ز بدایونی کی تخلیقی شخصیت پر اثر انداز ہوئے ہوں گے ۔لیکن ٹھہرئیے ! یہ نیاز بدایونی کون ہیں،کم سے کم وہ کراچی میں وارد نئی نسل کے لیے تو بالکل اجنبی ہوں گے اور کراچی سے باہر کی ادبی دنیا کے لیے بھی ایک شخص ِ ناشناس ہی ٹھہریں گے ؟آئیے !پہلے اس بنیادی سوال کا جواب اختصار سے تلاش کرتے ہیں اور پھر مزید کچھ باتیں بھی کریںگے ۔
قصہ یہاں سے شروع ہوا کہ گزشتہ دنوں میں نے بکھری ہوئی قدیم منجمد یادوں کے خزانے سے ایک نایاب تصویر برآمد کی۔یہ تصویر شاہ فیصل میں ہونے والے ایک اہم مشاعرے کی تھی ،جو میرے بڑے بھائی عاصم معین کی معروف کمپیوٹر اکیڈمی ’کمپیوٹو مین ‘ کے زیر ِ اہتمام منعقد کیا گیا تھا ۔اس تصویر میں بھارت سے آئے ہوئے جدید غزل کے اہم ترین شاعر عرفان صدیقی بھی تھے،وہی عرفان صدیقی جو اپنی سادہ اور پر کار غزلوں کی کہکشاں سجانے میں جواب نہیں رکھتے تھے ،جن کے بارے میں پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ہم عصر غزل کو دیا زیادہ اور اُس سے لیا بہت کم۔عرفان بھائی کی محبت تھی کہ وہ اپنی شدید مصروفیات کے باوجود میری درخواست پر اس مشاعرے میں شریک ہوئے اور وہاں سے خوش خوش رخصت ہوئے ۔ اسی تصویر میںڈاکٹر پیر زادہ قاسم بھی تھے ،درویش ِ خوش نوا اور نڈر شاعر خالد علیگ بھی تھے اور شاعر ِ خوش نوا نیاز بدایونی بھی تھے،جو کم کم مشاعروں میں شریک ہوتے تھے لیکن اپنے بھائی عرفان صدیقی کی محبت میں اور ہماری درخواست پر اس مشاعرے میں بہ خوشی آئے ،ایک نہیں دو غزلیں سنائیں اور سماں باندھا ۔
ویسے بھی نیاز صاحب بڑی گرج دار آواز میں ،انتہائی وارفتگی اور شائستگی سے اپنی غزل سناتے تھے ،اُنہیں داد کی پروا نہیں ہوتی تھی ،تاہم وہ اپنے اطراف اچھے شعرا کی توجہ ضرور چاہتے تھے ،ایسا ہوجاتا تو اُن کا سرخ سفید چہرہ مزید تمتما جاتا اور اُن کی بلند آہنگی میں مزید گرم جوشی پیدا ہوجاتی تھی ۔ خیر! اس یاد گار تصویر کو فوری طور پر اسکین کرکے فیس بُک پر سجا دیا گیا ،قریبی دوستوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا ،لیکن اسی دوران نیاز صاحب کی فیملی تک بھی کسی نہ کسی صورت یہ تصویر پہنچ گئی اور اُن کی صاحب زادیوں اور صاحب زادے کے محبتی کومنٹس بھی پڑھنے کو ملے اور ساتھ ساتھ کچھ شعر بھی پڑھنے کو ملے ،جو کچھ یوں تھے :

خود کو شائستہ آداب ِ محبت رکھنا
میرے بچوں مرے اسلاف کی عزت رکھنا
حسن ِ اخلاق ہی پہچان رہا ہے میری
میرا ورثہ مرے بچوں بہ حفاظت رکھنا

دونوں شعر ایک ہی غزل کے تھے اور بڑے کمال کے تھے ،اور خوبیوں کے علاوہ ان دونوں شعروں سب سے بڑی خوبی ،شاعر کی شخصیت کا شعروں میں اس طرح در آنا تھا کہ شاعر اور شعروں کو جدا کرکے دیکھنا ممکن نہیں رہا تھا ،واقعی یہ شعر اور نیاز بدایونی کی تہذیبی ،گرم جوش ،منکسر المزاج اور اخلاق مند شخصیت ہم عکس اور ہم رنگ ہوگئے ہیں ۔بس یہیں سے مجھ میں نیاز بدایونی کے باقی اشعار اور اُن کی مکمل شخصیت سے آگہی کی طلب بیدار ہوئی اور ذہن میں درجنوں مختصر مگر خوب صورت اور خوش گوارملاقاتوں کی تہذیبی خوش بُو بھی اطراف بکھر گئی ۔
اس تلاش کے دوران ایک عقدہ تو یہ کھلا کہ بدایوں کا قدیم نام یا اصل نام ’بدائوں ‘ ہے ۔نیاز بدایونی نے بدایوں میںمکتب سے تعلیم کا آغاز کیا ،جو اُنہیں مشن اسکول لے گیا ،پھر وہ اسلامیہ اسکول پہنچے ،پھر حافظ صادق اسلامیہ کالج سے ہوتے ہوئے بریلی کالج چلے گئے ،جہاں اُنہوں نے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی ۔شاعری تو بدایوں میں ایک عام روش رہی ہے ۔اس حوالے سے ایک مشہور لطیفہ کچھ اس طرح سے ہے کہ بدایوں میں ایک پتھر ہٹائو تو دو لوگ نکلیں گے ایک شاعر ہوگا اور دوسرااُس کو داد دینے والا ہوگا ۔نیاز بدایونی کے چھوٹے بھائی تو وہی عرفان صدیقی تھے ،جو ہندو پاک کے جانے پہچانے اور جانے مانے شاعر تھے ،وہ محکمہء اطلاعات میں کسی بڑے عہدے پر فائز رہے،اُن کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں،اور ’لہجہ مری تہذیب کا‘ انتساب بھی نیاز صاحب نے اُنہی کے نام کیا ہے ،ایک چھوٹے بھائی اشفاق صدیقی ہیں ،جو شاعر نہیں مگر ادب نواز ضرور ہیں ،پولیس سیکڑیٹ کے اعلا عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بریلی میںمقیم ہیں ۔نیاز بدایونی 1955ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے ،1958ء میں دوبارہ بدایوں گئے تو معروف محقق مولانا نظام بدایونی کی پوتی اور مدیر ہفت روزہ ’ذوالقرنین ‘ مولوی حیدرالدین نظامی کی صاحب زادی خالدہ ادیب کو شریک ِ حیات بنا کے لوٹے ۔پاکستان میں پہلے وزارت ِ مالیات سے وابستہ رہے ،پھر محکمہ ء موسمیات چلے گئے ،اس دوران بہادر شاہ ظفر کالج میں اعزازی طور پر اردو ادب پڑھاتے رہے ،ادبی جریدے ’انجم ‘ کے اعزازی مدیر بھی رہے ،ریٹائر منٹ کے بعد نصابی و تعلیمی کتب کا محض چند برس میں ڈھیر لگا دیا اور چندرہ سولہ کتابیں تحریر کر ڈالیں ،نہج البلاغہ کا منظوم ترجمہ ’حرف حرف آئینہ‘آسان اردو اور قواعد و انشا پر پانچ کتابیں الگ تحریر کیں ۔دو صاحب زادیاں صہبا نیاز ،سلمٰی نیاز اور اکلوتے صاحب زادے ذیشان نیاز ہیں ،سب بچے شادی شدہ اور بچوں والے ہیں ،اعلا تعلیم یافتہ ،اخلا ق مند اورتہذیب آشنا ہیں۔یہ چیدہ چیدہ معلومات میں نے نیاز بدایونی صاحب کے اہم شعری مجموعے ’لہجہ مری تہذیب کا ‘ سے لیںہیں اور ان کے روای نیاز صاحب کے کلاس فیلو افضال احمد صاحب اور پروفیسر ثروت سلطانہ ثروت صاحبہ ہیں ۔
یہ باتیں ، یقینا آپ میں اکثر دوست نہیں جانتے ہوں گے ،میں خود بھی نیاز بدایونی صاحب کے حوالے اتنی تفصیلات نہیں جانتا تھا ،لیکن اب میرے پاس اُن کا مجموعہ ’لہجہ مری تہذیب کا ،اور اُن کے فن اور شخصیت پر مبنی ایم اے کا مقالہ موجود ہے،یہ مقالہ نایاب فاطمہ نے ڈاکٹر سہیلا فاروقی کے زیرِ نگرانی 2009 ء میں کراچی یونی ورسٹی سے تیار کیا،اس مقالے میں جائے پیدایش کا تعارف ،خاندانی پس منظر ،غزل گوئی ،نظم نگاری ،نیاز بدایونی بہ حیثیت سربراہ خاندان جیسے بنیادی ابواب شامل ہیں،اور یہ دونوں اہم چیزیںمجھ تک اُن کی صاحب زادی صہبا نیاز کے حوالے سے پہنچیں ہیں ،اور میں اس حوالے سے اُن کا ممنون بھی ہوں ۔آئیے !اب نیاز صاحب کی شاعری کا مجموعی رنگ بھی دیکھتے چلیں :
سب سے پہلے عصر ِ حاضر کے سیاسی احتساب پر کمر بستہ پاکستان سپریم کورٹ کے عملی ایکشن کے پس منظر میں بہت پہلے کہا جانے والا نیاز صاحب کا ایک کمال کا مطلع دیکھیے:
دن جب بھی محاسبے کے ہوں گے
سب سامنے آئینے کے ہوں گے
اب اسی غزل کا مقطع بھی ملاحظہ کیجے ،جو نیاز صاحب کی روایت شکنی اور بدلتے ہوئے فکری اور تخلیقی رویوں کی مضبوط گواہی بھی دیتا ہے ،نئے تخلیقی دور میں اُن کے تخلیقی اعتماد کا اشاریہ بھی ہے :
کب ہوں گے نیاز کی غزل میں
مضمون جو سامنے کے ہوں گے
اب ’لہجہ مری تہذیب کا ‘ سے مزید کچھ اشعار ،جن میں نیاز صاحب کا ڈکشن ،موضوعات ،طرز ِ بیاں ،روایت اور جدت کا متواز ن اور تخلیقی امتزاج اور وہ لہجہ ،جو ایک جانب مجموعی تہذیب کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف ایک تہذیب یافتہ اور تخلیقی سرشاریوں میں ڈوبے صاحب ِ دل ،صاحب ِ نگاہ اور صاحب ِ ظرف کے انفرادی خیال و خواب فکر و نظر ،تجربوں ،مشاہدات ،تمنائوں اور آرزوئوں کی اجتماعی تصویر کشی بھی ہے اور ایک سلجھا ہوا متواز ن لہجہ بھی ہے ،جس میں دردمندی اور شائستگی نمایاں ہے :

میں تو اُس کے روپ میں گم ہوں ،اس کی خوش بُو سے سرشار
لوگ ابھی تک سوچ رہے ہیں ، کس نے پھول کھلایا ہے
جن کو دعوا ہے پار سائی کا
اپنے اندر بھی جھانک کر دیکھیں
میری تہذیب میرا لہجہ ہے
اجنبی بن کے بات کر دیکھیں
گھر کے لوگ اپنے ہوتے ہیں
گھر سب مٹی کے ہوتے ہیں
آپ کا وہم ہے حضور آپ کی بارگاہ میں
ہو کوئی او ر کج کلاہ قبلہ من ، نہیں نہیں
شہر تو بس گئے مگر
رسم ِ وفا کہاں چلی
یاد آنے والوں کی شکل تک بھلا دی ہے
آ کے اس کنارے پر نائو ہی جلا دی ہے
میری شاعری تجھ سے میرا حال کہہ دے گی
میں نے اپنی غزلوں کو شاعری سکھا دی ہے
اب میری بصارت پہ جو الزام بھی آئے
مجھ کو تو بھرا شہر بیاباں نظر آیا

چلیے ! کچھ نہ کچھ تو بات آگے بڑھی ،ویسے تو نیاز بدیونی کا حق ادا نہ ہوسکا ،تاہم ایک گم شدہ اور فراموش شدہ اچھے شاعر کی بازیافت کے حوالے سے اس دستک کو ہی کافی جانیں ،نیاز صاحب اسی گزرے ہوئے فروری کی 29تاریخ کو سن ۔۔۔۔۔19میں جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن اُن کی بھرپور تہذیبی شخصیت اور بھرپور تہذیبی لب ولہجے میں رچی بسی شاعری اُن کے ہونے کا احساس دلانے کے لیے بہت ہے ،اگر اس شاعری کو تلاش کیا جائے اور اس شاعری کا ایک بار پھر پھیلائو کیا جائے تو یقینا وہ ہمارے لیے ایک بار اپنی تخلیقی سج دھج کے آئینے میں زندہ ہو سکتے ہیں ۔

حصہ