خوابوں کی دنیا

383

اقصیٰ ملک
ایک بچہ جس کا نام عبداللہ تھا۔ بہت پیارا سا بچہ اس کی عمر سات برس تھی۔ ہمیشہ اپنے خیالوں میں گم رہتا اسے پریوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہر وقت انہی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ کتابوں میں بھی ہر وقت انہی کے بارے میں پڑھتا رہتا۔ یہ بچہ باقی سارے بچوں سے الگ تھا۔ دوسرے بچے ہر وقت کھیل کود میں ہی لگے رہتے اور عبداللہ کو تو اپنی خیالی دنیا سے ہی فرصت نہیں تھی۔ عبداللہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی امی اسے باہر جا کر کھیلنے کودنے کو کہتیں تو وہ ان کی بات ٹال دیتا وہ ہر وقت رات کو آسمان پر ستارے دیکھتا رہتا۔ اس کے ماں باپ اس کے اس مزاج سے پریشان رہنے لگے اسے شدت سے پریوں کی دنیا دیکھنے کی خواہش تھی وہ چاہتا تھا کہ جس دنیا کا تصور وہ اپنے خوابوں میں کرتا ہے وہ اس دنیا کو دیکھے۔ عبداللہ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک دن جب وہ اسکول سے واپس آرہا تھا تو اچانک ایک خوب صورت پری اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی۔ وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گیا وہ پری بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس نے عبداللہ کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور عبداللہ بنا کچھ سوچے اس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ دوڑتے دوڑتے اس کے پیروں میں درد ہو نے لگا۔ لیکن وہ پری کے پیچھے دوڑنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے اپنے درد کا بھی خیال نہ ہوا وہ پری ایک جگہ آ کر رک گئی۔ عبداللہ نے دیکھا کہ وہ بہت ہی شاندار اور خوب صورت جگہ پر کھڑا تھا۔ اس کے سامنے ایک بہت ہی بڑا دروازہ تھا جو اس کے لیے کھولا گیا اور وہ اندر چلا گیا۔ پری اچانک اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی اندر کا منظر اور بھی زیادہ شاندار تھا وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ آگے کا منظر اور بھی زیادہ شاندار تھا۔ اس کے چاروں طرف بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ جس پہ حسین اور خوشبو دار پھول کھل رہے تھے وہ لگاتار آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہاں پہ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی اور وہاں کا موسم خوشگوار تھا۔ جب اس نے اوپر دیکھا تو آسمان پر مختلف رنگوں کے پرندے چہک رہے تھے اور اس کے لیے گنگنا رہے تھے اس کے ارد گرد بڑی بڑی تتلیاں گھوم رہی تھیں اسے لگا کہ جیسے وہ اسے خوش آمدید کہہ رہی ہوں۔ مختلف جگہ پر مختلف پریاں اپنے کاموں میں مصروف تھیں جیسے وہ عبداللہ کو دیکھتیں تو مسکرانے لگتیں وہاں کا منظر بہت خوب صورت تھا۔ عبداللہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک بڑی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی بہت صاف اور شفاف تھا۔ جب وہ جھیل کے قریب گیا تو اسے اپنا آپ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے جھیل کا پانی پیا۔ پانی بہت ہی ٹھنڈا تھا۔ اس نے پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی کہ اچانک سامنے ایک پری آئی اس نے عبداللہ کو اپنی طرف بلایا اور عبداللہ کو ایک دسترخوان کے سامنے لے گئی دسترخوان دیکھ کر عبداللہ حیران رہ گیا۔ دسترخوان پر بہت ہی زیادہ لذیز کھانے سجے ہوئے تھے۔ جو اس نے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے اور ایک بہت ہی خوب صورت ملکہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے عبداللہ کو کھانا کھانے کا اشارہ کیا اور عبداللہ نے مزے لے کر وہ کھانا کھایا۔ اس نے ملکہ کا شکریہ ادا کیا ملکہ نے ننھے عبداللہ کو پیار کیا۔ ملکہ نے عبداللہ کو پریوں کی دنیا کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں اس کے بعد وہ خاموش ہو گئی۔ عبداللہ اس ملکہ کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ عبداللہ بہت پریشان ہوا کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی اور… یہ کیا یہ تو ’’خواب‘‘ تھا! عبداللہ یہ کہتا رہ گیا اس کو بہت افسوس ہوا کہ جس دنیا کو وہ دیکھنا چاہتا تھا وہ اس نے اپنے خواب میں دیکھ لی۔ وہ دوڑتا ہوا کمرے سے باہر گیا اور اس نے اپنے خواب کا ذکر اپنے والدین سے کیا۔ سب اس کی باتیں سن کر مسکرانے لگے۔ عبداللہ اس خواب کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔ لیکن اب وہ خوابوں سے باہر آچکا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ خواب کتنے ہی حسین کیوں نہ ہوں کبھی نہ کبھی آنکھ کھل ہی جاتی ہے اور پھر سب ختم ہو جاتا ہے۔ اور انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اسی لیے بہتر ہے کہ خوابوں کی دنیا سے باہر آکر حقیقت میں جیا جائے اور سب سے اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔

ضد کا نتیجہ

حذیفہ عبداللہ
ذیشان اور فرقان دونوں کے درمیان گہری دوستی تھی دونوں ایک محلے بلکہ ایک ہی گلی میں رہائش پذیر تھے اسکول تو دونوں کے الگ تھے مگر اسکول کے بعد کا وقت ساتھ ہی گزارتے کھیل کا میدان ہو یا ٹیوشن دونوں ساتھ ہوتے۔ محلے کی کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے بلکہ ٹیم کی جان یہ دونوں تھے دونوں کے بہتر کھیل کے باعث اکثر ٹورنامنٹ میں ان کی ٹیم نے کامیابی حاصل کی ذیشان فاسٹ بالر اور فرقان ایک اچھا بیسٹ مین تھا۔
ذیشان اور فرقان کی دوستی ایسی تھی جس کی محلے کے لوگ مثال دیا کرتے تھے دونوں کھیل ہی نہیں بلکہ تعلیمی لحاظ سے بھی ایک اچھا مقام رکھتے تھے اچھے اخلاق اور طور طریقے کے دونوں دوست کھیل اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے کھیل کے اوقات میں کھیل اور پڑھائی کے وقت پڑھائی مگر ان کی پہلی ترجیح تعلیم ہی تھی ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ علم کے ذریعے ہی مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں وہ بہتر مستقبل کے کوشاں تھے ذیشان اور فرقان مزاج کے نرم، خوش گفتار اور ملنسار تھے لیکن فرقان میں ایک خراب عادت تھی اور وہ بلا کا ضدی تھا اگر کسی بات کو درست سمجھ لیتا یا غلط جان لیتا تو اپنے اسی موقف پر قائم رہتا دوسرے کی کوئی بات اور دلیل مانے کو تیار نہ ہوتا اس کی اس عادت سے دوستوں کے علاوہ فرقان کے والدین اور اساتذہ بھی واقف تھے ان کی خواہش تھی کہ فرقان اپنی اس عادت کو ترک کرکے کسی دوسرے فرد کی بات پر توجہ دینا سیکھ لے۔ ذیشان فرقان کو سمجھاتا اور بتاتا کہ ہمیشہ ایک فرد کی بات درست نہیں ہوتی دوسرے کی بات کو بھی سننا چاہیے خواہ وہ فرد بڑا ہو یا چھوٹا۔ اچھی بات کوئی بھی کہہ سکتا ہے یا اچھا مشورہ کوئی چھوٹا بھی دے سکتا ہے فرقان کہتا یہ بات درست ہے کہ اچھی بات کوئی بھی کہہ سکتا ہے ذیشان کہتا کہ مگر تم کو اپنی کہی ہوئی بات کے سامنے کسی کی کوئی بات نہیں مانتے بلکہ سننے کو ہی تیار نہیں ہوتے ہر وقت اپنی بات پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہو بلکہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہو فرقان کا کہنا تھا جب وہ درست بات کہہ رہا ہو کیوں کسی اور کی بات نے وقت کے ساتھ فرقان کی ضد اب بڑھ کر ہٹ دھرمی تک پہنچ چکی تھی اس کو کوئی بات سمجھانا ایک مشکل کام تھا۔
شہر کی سطح پر ایک تورنامنٹ کا اعلان ہو ان کی ٹیم نے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور بھر پور تیاری شروع کی فرقان کسی روز تک پریکٹیس میں شریک نہیں ہوا ذیشان نے کئی دفعہ توجہ دلائی مگر وہ نہیں آیا پھر ایک روز آکر کہا کہ میں اپنی پچھلی پوزیشن پر نہیں کھیلوں گا بلکہ اوپن جائوں گا کپتان اور دوسرے ساتھیوں نے سمجھایا کہ تم اپنی پوزیشن پر کھیلتے ہو تو بہت اچھا کھیلتے ہو اور ٹیم کو فتح دلاتے ہو اوپن کھیلنے میں کئی خدشات ہیں لیکن فرقان اپنی ضد پر اڑ گیا اور کہا کہ میں کھیلوں گا تو اوپن جائوں گا ورنہ تو میچ ہی نہیں کھیلوں گا ذیشان نے بھی فرقان کو بہت سمجھایا کہ وہ اپنی ضد چھوڑے اور اوپن جانے کے فیصلے کو ترک کرے لیکن وہ نہ مانا۔
ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا اور مخالف ٹیم نے ٹاس جیت کر اپنی اننگ کا آغاز کیا ذیشان نے اچھی بالنگ کرتے ہوئے پہلے ہی اوور میں میں دو کھلاڑی آئوٹ کر دیے اور جلد ہی پوری ٹیم 100 رنز پر آئوٹ ہو گئی یہ ٹارگٹ زیادہ مشکل نہیں تھا جب ان کی ٹیم نے بیٹنگ کا آغاز کیا فرقان نے پہلی گیند کھیلی اور قدرے گھبراہٹ کے عالم میں کیونکہ مخالف ٹیم کے فاسٹ بالر کی گیند کو سمجھ نہیں پایا تھا دوسری گیند بھی اسی طرح گزر گئی اب تو فرقان کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایا ہو چکے تھے تیسری گیند پر وہ کلین بولڈ ہو چکا تھا اور اس کے بعد ان کے کھلاڑی تیزی سے آئوٹ ہوتے چلے گئے اور 75 رنز پر پوری ٹیم آئوٹ ہو گئی اس ناکامی سے ٹیم کو ایک بڑا دھچکا لگا کھیل ختم ہونے کے بعد ذیشان سمیت تمام کھلاڑیوں نے فرقان کو سمجھایا ایک جیتا ہوا میچ تمہاری ضد کی وجہ سے ہار گئے فرقان کسی طور پر اپنی غلطی مانے کو تیار نہ تھا اور اس نے کہا کہ کل والے میچ میں دیکھنا میں اوپن جا کر بہترین کھیل کا مظاہرہ کروں گا کیا میں اوپن نہیں کھیل سکتا آج تو اتفاق سے آئوٹ ہو گیا دوسرے روز جب میچ شروع ہوا تو فرقان نے بیٹنگ کا آغاز کیا اور پہلی ہی بال پر آئوٹ ہو گیا اور باقی ٹیم بھی بہت کم اسکور کر سکی اور میچ ہار گئی اس طرح ان کی ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔ جس کا فرقان سمیت سب کو افسوس تھا سب افسردہ گھروں کو لوٹ گئے ہمیشہ ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم ایک فرد کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث کھیل کے میدان سے باہر ہو گئی اگلے روز ٹیم نے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کیا جس میں جائزہ لیا گیا کہ ناکامی کا سبب کیا ہے اور سب نے فرقان کی ضد کو اس کا سبب بتایا خود فرقان نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرئے ہوئے اپنی ضد کی عادت کو ترک کرنے کا عزم کیا۔

اپنی بولی اپنا راگ

عنایت علی خان
اپنی بولی اپنا راگ
بطخ بولی قیں قیں قیں
میری آنکھیں دکھتی ہیں
کوئل بولی کو کو کو
اللہ شافی اللہ چھو!
طوطا بولا ٹیں ٹیں ٹیں
سچے بچے اچھے ہیں
کوا بولا کائیں کائیں
سارے بھائی مل کر کھائیں
چڑیا بولی چیں چیں چیں
میرے بچے چھوٹے ہیں
انڈوں میں سے نکلے ہیں
چوں چوں چوں کرتے ہیں

مسکرائیے

محمد جاوید بروہی
٭ استاد (شاگرد سے): اس جملے کی انگریزی بنائو ’’اس نے دو گھڑی بات کی‘‘
شاگرد: ہی اسپوک ٹو واچ
٭٭٭
٭ بیوی (بھلکڑ شوہر سے): اے جی تم گاڑی میں پیٹرول ڈالوانے گئے تھے یا پیٹرول پمپ خریدنے اتنی دیر لگا دی۔
شوہر: بیگم ایک پرانا دوست ملا تھا اسے پہچاننے میں دو گھنٹے لگ گئے۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے): اکبر اور جہانگیر کے بارے میں کیا جانتے ہو۔
شاگرد: سر اکبر میرے چچا اور جہانگیر میرے ماموں کا نام ہے۔
٭٭٭
٭ دوکاندار (گاہک سے): میں تمہیں ایسا منجن بتا رہا ہوں جسے استعمال کرنے کے بعد تمہارے پیلے دانت موتی کی طرح سفید اور چمکدار ہو جائیں گے۔
گاہک: مگر یہ میرے اصلی دانت نہیں۔
٭٭٭
٭ بڑا بھائی (چھوٹے بھائی سے): لفظ سر سبز پر جملہ بنائو۔
چھوٹا بھائی: میرے سر سبز رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے ہیں۔
٭٭٭
٭ بیٹا (باپ سے): ابو ہانگ کانگ کہاں ہے۔
باپ (بے خیالی میں): ابھی یہی تھا کہاں چلا گیا۔
٭٭٭
٭ ایک شخص (لڑکے سے): تمہیں شرم نہیں آتی اس طرح بھیک مانگتے ہوئے۔
لڑکا: تو آپ بتائیں کیسے بھیک مانگوں۔
٭٭٭
٭ پہلا لڑکا (دوسرے سے): گڑ کی جمع کیا ہے۔
دوسرا لڑکا: گڑ گڑ

حصہ