دہر میں اسمِ محمد ؐ سے اجالا کردے

1396

سید مہرالدین افضل
چالیسواں حصہ
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر:83اور’’ نبوتِ محمدیؐ کا عقلی ثبوت،،)
قرآن مجید میں جن قوموں کا ذکر ہوا ہے وہ اُس وقت کی دنیا کے مرکز میں واقع تھیں… اور ان کے اچھے یا برے ہونے کا اثر باقی دنیا پر پڑتا تھا۔ اگر وہ ایمان و تقویٰ کی دعوت قبول کرتے تو سب پر اس کا اثر ہوتا۔ لیکن انہوں نے انکار کیا، اور دنیا کو خیر و برکت اور بھلائی و خوشحالی سے ہم کنار کرنے کا موقع ضایع کیا اور تباہ ہوئے۔ سورۃ الاعراف آیت نمبر 96 میں ارشاد ہوا:۔ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنہوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔‘‘
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے… اور لوگوں کو ایمان اور تقویٰ کی دعوت دے رہے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑے لوگوں کے سوا اکثریت نے اس دعوت کو قبول کیا… اور یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اس کے بعد آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیئے گئے!!! کیونکہ صحابہؓ اپنے ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ساری زمین پر پھیل گئے… اور وہ جہاں گئے لوگوں نے ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر ان کی دعوت قبول کی… اور ان کی جستجو، تحقیق اور دریافت ہی کے نتیجے میں انسانوں پر زمین وآسمان میں چھپے ہوئے خزانوں کا حصول ممکن ہوا… اور ہوتا چلا جارہا ہے۔ جو کوئی بھی چودہ سو سال پرانی تاریکی کو دیکھے، اور تاریخِ عالم پر غیر متعصبانہ نظر ڈالے وہ یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ ہی دورِ جدید کے بانی اور تمام دنیا کے لیڈر ہیں۔ زندگی گزارنے کے لیے ان کے بتائے ہوئے اصول اور قوانین دورِ جدید کی روح میں رچے بسے ہیں۔ آپؐ سے پہلے انسان وہم کی پیروی کرتا تھا اور وسوسہ کا شکار تھا۔ خیال آیا کہ یہ کرکے فائدہ ہوگا چاہے اس سے نقصان ہی ہو، کر گزرے۔ کوئی منفی خیال آیا، اور ایک نفع بخش کام کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ وہم انسان کی قوتِ عمل کو کمزور کرتا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انسان کی ہزاروں سال کی تاریخ دیکھ لیجیے، اس پر ترقی کے دروازے کھولنے والی ہستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ اور انسان نے وہم کو چھوڑ کر عقل سے کام لیا اور اس پر شہریت و معاشرت کی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انسان کا حال یہ تھاکہ ہر چیز جس میں کوئی غیر معمولی بات نظر آتی، اُس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا لیا اور اپنی ذلت و پستی کا اظہار کرنا شروع کردیا… جیسے کوئی درخت صدیوں پرانا ہے اور بڑھتا جارہا ہے، اُس کے آگے ماتھا ٹیک دیا۔ کوئی بکری مسلسل نر بچے پیدا کررہی ہے، بس وہ مقدس ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ان اشیاء میں اپنا کچھ نہیں بلکہ سب اُس کا دیا ہوا ہے جس نے انہیں پیدا کیا… اُسی نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے، اور ان اشیاء کا علم تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو دیا تھا، کہ تم انہیں تسخیر کرو… یہ سب تمہارے خدمت گار ہیں… اور تم اللہ کے بندے ہو۔ اور اس طرح انسان عجوبہ پرستی کو چھوڑ کر تسخیرِکائنات کی جانب متوجہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق اور روحانیت کے بنیادی تصورات کو بدلا۔ آپؐ سے پہلے مذہب اور دین داری کا تصور یہ تھا کہ جو انسان دنیا کو چھوڑ دے، اور اپنے نفس و جسم کے تقاضے پورے نہ کرے، وہ دیندار، متقی اور پرہیزگار ہے… وہی روحانی ترقی کرسکتا ہے اور نجات پا سکتا ہے۔ آپؐ نے انسانوں کو انسانی سوسائٹی میں رہتے ہوئے سماجی زندگی گزارنے اور دنیاوی کاموں کو کرتے ہوئے اخلاقی فضیلت، روحانی ترقی اور نجات حاصل کرنے کا راستہ دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو اس کی حقیقی قدروقیمت سمجھائی اور بتایا کہ انسان اور تمہارے ہی جیسا انسان آسمانی بادشاہت کا نمائندہ اور خداوندِ عالم کا خلیفہ ہوسکتا ہے… خدا کی نظر میں سب انسان برابر ہیں… کوئی شخص پاکیزگی اور حکمرانی کا پیدائشی حق لے نہیں آیا ہے اور نہ ہی کسی کے ماتھے پر ناپاکی، محکومی اور غلامی کا پیدائشی داغ لگا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے دنیا میں وحدتِ انسانی، مساوت، جمہوریت اور آزادی کے خیالات و نظریات پیدا کیے۔
آپؐ کی لیڈرشپ کے عملی نتائج دنیا کے قوانین، طریقوں اور معاملات میں اس کثرت سے موجود ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ اخلاق اور تہذیب، شائستگی، طہارت اور نظافت کے کتنے ہی اصول ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ معاشرت کے جو قوانین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائے تھے، دنیا نے کس قدر ان کی خوشہ چینی کی… اور اب تک کیے جارہی ہے۔ معاشیات کے جو اصول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے تھے اُن سے دنیا میں کتنی تحریکیں پیدا ہوئیں… اور اب تک پیدا ہوئے جارہی ہیں۔ حکومت کے جو طریقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیے تھے اُن سے دنیا کے سیاسی نظریات میں کتنے انقلابات برپا ہوئے… اور ہورہے ہیں۔ عدل اور قانون کے جو اصول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع کیے تھے انھوں نے دنیا کے عدالتی نظامات اور قانونی افکار کو کس قدر متاثر کیا… اور اب تک ان کی تاثیر خاموشی سے جاری ہے۔ جنگ اور صلح، اور بین الاقوامی تعلقات کی تہذیب جس ذاتِ پاک نے عملاً دنیا میں قائم کی وہ دراصل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں… ورنہ پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی کہ جنگ کی بھی کوئی تہذیب ہوسکتی ہے… اور مختلف قوموں میں مشترک انسانیت کی بنیاد پر بھی معاملات ہونے ممکن ہیں۔ اب یہ کہہ کر زبان بند نہ کروائیں کہ ’’تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟‘‘بلکہ یہ باتیں اپنی نوجوان نسل کو بتائیں، تاکہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ وقت کے چیلنجز کا سامنا کریں۔ کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ اگر اقبال نے کہا کہ

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
تو اسی جوابِ شکوہ میں یہ بھی کہا ہے کہ
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے دھندلا سا ستارہ تُو ہے

اور یہ کہ

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
لیکن یہ ہو گا اس وقت جب تُو
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

اور

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ
ہو نہ یہ پھولؐ تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقیؐ ہو تو پھر مے بھی نہ ہو،خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو،تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نامؐ سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نامؐ سے ہے
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
اور فیصلہ کن بات یہ ہے کہ
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیرے ہیں
اقبال کی تو پوری زندگی پکارتے پکارتے گزر گئی کہ
اے مردِ مسلماں تو کجائی تو کجائی؟

اور

معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خوابِ گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز

از خواب گراں خیز
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ