تابوت سکینہ

1353

سیدہ عنبرین عالم
’’اور نبی نے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین ہوگی اور موسیٰ والوں اور ہارون والوں کے سامان میں سے بچا ہوا کچھ سامان ہوگا جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے‘ اگر تم ایمان رکھتے ہو‘ تو یہ تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔‘‘ (سورۃ بقرہ‘ آیت 248)
اس آیت میں جہاں میں نے موسیٰ والوں اور ہارون والوں ترجمہ کیا ہے‘ قرآن میں لفظ آل موسیٰ اور آل ہارون آئے ہیں اور جہاں میں نے’’سامان‘‘ ترجمہ کیا ہے‘ وہ قرآن میں لفظ ’’ترکہ‘‘ استعمال کیا ہے۔
قارئین! کیا آپ نے قرآن میں یا کسی حدیث میں کبھی کسی پیغمبر کے ترکے کے بارے میں پڑھا ہے…؟ ہرگز نہیں کسی بھی پیغمبر کی وفات کے وقت کبھی اتنا مال رہا ہی نہیں کہ ترکے اور تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہوتا حتیٰ کہ حضرت سلیمان کی وراثت کا بھی کوئی تفصیل سے ذکر کہیں نہیں پایا جاتا تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے آخر اتنا کیا قیمتی ترکہ چھوڑا کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے اور جس صندوق میں یہ ترکا تھا اسے بھی تسکین کا باعث قرار دیا گیا؟ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ صرف حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا نام نہیں استعمال ہوا بلکہ آل موسیٰ اور آل ہارون کہا جارہا ہے یعنی ترکہ کسی ایسی چیز پر مشتمل تھا جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی خاندانی ملکیت تھی… اب ہم ذکر کرتے ہیں حضرت ابراہیم کی دعا کا‘ جس میں انہوں نے نبوت اپنی تمام نسل کے لیے مانگی‘ مگر اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ہم یہ نعمت صرف صالحین کو دیں گے‘ تمہاری نسل کے ہر فرد کو نہیں… اسی اصول کو مدنظر رکھیں تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ ترکہ تمام بنی اسرائیل کے لیے بھی تھا تو ان کے خلاف اور نافرمان ہونے کی وجہ سے صرف آل موسیٰ اور آل ہارون کو ان کی صالح زندگی کی بنا پر اس کا حق دار ٹھیرایا گیا یعنی موسیٰ اور ہارون کے پیرو کار۔
بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ کوئی مادّی چیز نہ سکون کا باعث ہوتی ہے نہ عبادت کے لائق ہوتی ہے‘ ہمارے لیے حضرت عمرؓ کا وہ قول مشعل راہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ حجر اسود محض ایک پتھر ہے اور اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پتھر کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں اس کو ہرگز نہ چومتا… اس مسلمہ اصول کے تحت ایک لکڑی کا صندوق ہرگز اس لائق نہیں ہوسکتا کہ اس کی برکت سے ایک قوم کی فتح اور شکست منسوب ہو‘ لامحالہ اس صندوق کی تسکین اور برکت کا اصل تعلق اس ترکے سے ہے جو صندوق میں محفوظ تھا۔
انبیا کا ترکہ دراصل ان کی وہ تعلیمات اور من جانب اللہ وہ پیغامات ہوتے ہیں جن کی ترسیل ہی ان کی رسالت کا بنیادی مقصد تھا‘ اسی کام کے لیے وہ دنیا میں آتے ہیں اور ان کے جانے کے بھی طویل عرصے بعد تک یہ تعلیمات‘ منتخب قوم یا کلی طور پر تمام انسانیت کی رہنما رہتی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وحی نہیں اترتی تھی بلکہ حضرت جبرئیل ان کو لکھی لکھائی تختیاں حوالے کر دیتے تھے جو تمام بنی اسرائیل کے لیے رہنما تھیں‘ ان تختیوں کو حضرت موسیٰؑ ایک صندوق میں محفوظ رکھتے تھے جو تاریخ میں ’’تابوت سکینہ‘‘ کے نام سے شہرت پا جاتا ہے۔
جب بنی اسرائیل کی سرکشی اور اللہ سے ٹکر لینے کی جبلت حد سے بڑھنے لگی تو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ نے ان سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی اور اپنے خاندانوں سمیت بغیر کسی اطلاع کے نامعلوم مقام پر جا کر بس گئے جس کا کھوج کبھی نہ لگایا جاسکا‘ تاہم روانگی سے پہلے ایک موہوم امید کے زیر اثر تابوت سکینہ بنی اسرائیل کے پاس ہی چھوڑ گئے کہ شاید وہ کبھی تختیوں پر تحریر پیغامات الٰہی سے ہدایت لیں اور یہ ایک امانت تھی جو اللہ نے بنی اسرائیل تک پہنچانے کے لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو عنایت کی تھی‘ لہٰذا وہ امانت پہنچا کر اللہ کے حکم سے انتہائی مایوسی کے بعد کام چھوڑ کر چلے گئے‘ بلاشبہ یہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کی ناکامی نہیں تھی بلکہ بنی اسرائیل کے چہرے پر ایک بدنما داغ تھا کہ ہر پیغمبر ان سے نالاں اور مایوس ہے اور بنی اسرائیل کا یہ اعزاز آئندہ بھی بڑی شدومد سے قائم رہا بلکہ وہ پیغمبروں کو قتل بھی کرنے لگے۔
اب ذرا ستمِ ظریفی دیکھیے‘ بجائے ان تختیوں کو پڑھ کر ہدایت حاصل کرنے کے‘ ان یہودیوں نے تابوت سکینہ کا عجیب مصرف نکالا‘ اس تابوت کو کھول کر کبھی ہدایت پڑھنے کی زحمت نہ کی بلکہ ایک عقیدہ بنا لیا کہ یہ تابوت ہمارے پاس رہے گا تو ہم کامیاب رہیں گے ورنہ ہم مغلوب ہو جائیں گے‘ لہٰذا ہر مذہبی تقریب میں اسے سامنے رکھ کر سجدے کیے جاتے‘ اس سے خیر طلب کی جاتی اور اس کی حفاظت کے لیے جانیں دینے پر بھی تیار رہے۔ تاہم اللہ نے جلد ہی انہیں سزا دی اور عمالقہ کے بادشاہ جالوت نے ان کو تہس نہس کرکے ان سے یہ تابوت چھین لیا‘ اتفاق ایسا ہو اکہ جب یہ تابوت جالوت کے ملک میں پہنچا تو وہاں کوئی وبائی مرض پھیل گیا اور ہلاکتیں ہونے لگیں ادھر ان دنوں یوشع نام کے نبی بنی اسرائیل پر مامور تھے اور طالوت کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے‘ بنی اسرائیل سدا کے نافرمان‘ ہرگز راضی نہیں تھے اور شرط رکھ دی کہ اگر صبح تک تابوت سکینہ آگیا تو ہم طالوت کو بادشاہ مانیں گے جو بظاہر ایک ناممکن سی بات تھی‘ جالوت کے خونخوار پنجوں سے تابوت نکال کر بھلا کون لاتا۔ صاف سی بات تھی کہ طالوت کو بادشاہ نہ بننے دینے کی ایک ترکیب چلائی گئی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جالوت نے خوفزدہ ہو کر وہ تابوت ایک بیل گاڑی میں رکھ کر ہنکا دیا‘ فرشتوں نے اس بیل گاڑی کی ایسی رہنمائی کی کہ وہ بیل گاڑی سیدھی صبح کے وقت بنی اسرائیل کے علاقوں میں آپہنچی اور طالوت کی بادشاہت کا راستہ ہموار ہوگیا۔ یہ اللہ کا ازسرنو کرم تھا کہ موسیٰؑ و ہارونؑ کا ترکہ دوبارہ ان کے پاس آن پہنچا۔ مگر یہ بدبخت قوم ویسے ہی اس تابوت کو بت بنا کر عبادت کرتی رہی اور کوئی ہدایت حضرت موسیٰؑ کی کتابوں سے حاصل نہ کرسکی اور یوں تاریخ میں انتہائی شیطانی‘ فسادی اور لالچی قوم کی حیثیت سے اپنا مقام قائم و دائم رکھا۔
یہ سلسلہ یونہی جاری رہا حتیٰ کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک عبادت گاہ تعمیر کی جسے تاریخ میں ’’ہیکل سلیمان‘‘ کہا جاتا ہے اور اس صندوق کو اس عبادت گاہ میں رکھ دیا گیا تاہم یہودیوں کی روش نہ بدلی حتیٰ کہ بخت نصر نے حملہ کرکے تقریباً یہودیوں کو مٹا کر رکھ دیا‘ لاکھوں اموات‘ قلعے گھر اور عبادت گاہیں ملیامیٹ کرکے رکھ دیں۔ اس دوران حضرت عزیر والا واقعہ پیش آیا جس میں وہ برباد بستی اور لاکھوں لاشیں دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں 100 سال کے لیے مار دیتا ہے۔ بہرحال اس بڑی تباہی کے بعد تابوت سکینہ ایسا کھویا کہ آج تک نہ ملا۔ یہودیوں کے پاس جو توریت وغیرہ ہیں وہ یادداشتوں پر مرتب ہیں‘ اصلی نہیں ہیں تاہم آج تک وہ مسجد اقصیٰ کی کھدائی بار بار کرتے ہیں کیونکہ وہ ہیکل سلیمانی کی جگہ بنی ہوئی ہے مگر چونکہ ان کا مقصد اب بھی ہدایت حاصل کرنا نہیں بلکہ صندوق کی عبادت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس تابوت سکینہ کو ایساغائب کر دیا کہ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد بھی یہ مل کی نہیں دے رہا اور جب محمد عربیؐ کی تازہ ترین ہدایت موجود ہے تو تابوت سکینہ کی ضرورت بھی کیا ہے؟
اس تمام تفصیل کے بیان کرنے کا مقصد کوئی پراسرار دریچے کھولنا نہیں تھا بلکہ مجھے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد آگئی تھی جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ جو حالات بنی اسرائیل پر گزرے‘ وہ تم پر بھی نہ گزریں۔ تو میں یہی سوچ رہی تھی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ امت محمدیہ کے پاس بھی محمدؐ کا کوئی ترکہ ہو اور ہم اسے غلط استعمال کر رہے ہوں جس کی وجہ سے آج ہم زوال اور ذلت کا شکار ہیں۔
کل ایک نعت سننے میں آئی جس میں محترم نعت خواں فرما رہے تھے کہ جنت نہ ملے تو پروا نہیں بس موت مدینے میں ہونی چاہیے… میں دم بخود رہ گئی‘ یہ کیسی دعا ہے؟ یعنی میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں تمام دنیا سے ٹکر لے کر اسلامی ریاست مع اسلامی نظام رائج کرنے کا کیا یہ مقصد تھا کہ پوری دنیا سے مسلمان آ آکر یہاں مریں اور یہیں دفن ہو جائیں‘ یعنی آپ خدانخواستہ مدینے کو امت مسلمہ کا دائمی قبرستان بنانا چاہتے ہیں بجائے یہ کہ نبیؐ کی اسلامی ریاست کے اصول و قوانین کو مثال سمجھ کر وہی دستور اور طریقے تمام اسلامی ملکوں میں رائج کیے جائیں‘ یہ کیسی محبت ہے کہ آپ اس شخص کے لیے مرنے کو تیار ہیں۔ مگر اس پاک روح کی تقلید آپ کو قبول نہیں؟ آپ نہ ویسے صادق بننے کو تیار ہیں نہ اس پائے کا امین بننا آپ کو گوارہ ہے کیا انہوں نے اس لیے ایسی پاک زندگی کا نمونہ دیا کہ آپ زبانی تو بڑے بڑے دعوے کریں مگر جب عمل کا وقت آئے تو کہہ دیں کہ وہ تو رسول تھے‘ کرسکتے تھے‘ ہم نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم گناہ گار ہیں… پھر رسول بھیجنے کا فائدہ کیا جب گناہ گاروں کو گناہ گار ہی رہنا تھا‘ جب کوئی اس عظیم مثال کو اپنی زندگیوں پر لاگوں کرنا چاہتا ہی نہیں بلکہ ناممکن سمجھتا ہے۔
سبز گنبد عبادت کی چیز نہیں ہے‘ یہ ایک نشان ہے اس بات کا کہ میں نے اللہ کا نظام کامیابی سے نافذ کر کے دکھا دیا‘ اب تم یہ کام کرکے دکھائو‘ اس بات کی گارنٹی کب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ جو مدنے میں بھلے ہیضے سے ہی مر جائے‘ وہ لازمی جنت میں جائے گا‘ پھر تو بہت عرب وہاں مرتے ہیں‘ وہ عرب جو یہودیوں کی پالیسیوں پر چلتے ہیں‘ یہودیوں کے ہی مفاد میں کام کرتے ہیں اور امت رسول کو یہودیوں کے کہنے پر ہی نفاق اور بے بسی کا شکار بنا دیا… کیا یہ عرب بھی صرف اس لیے جنت میں چلے جائیں گے کہ وہ مدینے میں موت کا شکار ہوئے‘ یہ کون سا اصول ہے؟ کیا واقعی اللہ تعالیٰ اعمال نہیں دیکھے گا؟ صرف یہ دیکھے گا کہ کون کس دن اور کس جگہ پر مرا؟ یہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے… یہ ہے وہ تابوت سکینہ جس کا شکار امت مسلمہ ہے۔
ہمارا دوسرا تابوت سکینہ قرآن ہے‘ ہم قرآن کو بھی صرف عبادت کے غرض سے پڑھتے ہیں‘ اللہ کی ہدایت حاصل کرکے اس کو نفاذ کرنے کے لیے نہیں۔ ہم قرآن کو چوم کر اتنا برگزیدہ بنا چکے ہیں کہ اس کو سہولت سے وقت بے وقت پڑھنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اگر ایک شخص تمام دن مزدوری کرکے آتا ہے اور سوتے وقت لیٹ کر کچھ دیر قرآن پڑھ لیتا ہے تو کیا برا ہے‘ وہ قرآن نہ پڑھے تو گناہ نہیں‘ لیکن لیٹ کر پڑھے تو گناہ ہے… یہ کون سی منطق ہے؟ گناہ تو جب ہے کہ وہ اللہ کا حکم پڑھ کر بھی اس کی نافرمانی کرے۔ قران کو روز مرہ استعمال کی چیز بننے دیں جس کو جب جیسے وقت ملے وہ جلدی سے قرآن نکالے اور جو دل چاہے پڑھ لے۔ اپنے مسئلے کا حل ڈھونڈ لے یا ایساہی بیچ میں سے کھول کر دو چار آیتیں وقت کو مفید بنانے کے لیے پڑھ لے۔ اللہ نے کہا ہے کہ جو لوگ پاک ہوتے ہیں وہی قرآن کو ہاتھ لگتے ہیں‘ کوئی ناپاک دل کا شخص کیوں اٹھتے بیٹھتے کسی بھی جگہ قران کھول کر موجودہ وقت کے معاملے کے لیے ہدایت حاصل کرے گا‘ یہ تو وہی شخص کرے گا جس کا دل پاک ہے اور اپنی ہر حرکت کے لیے قرآن کی رہنمائی چاہتا ہے۔ قرآن عبادت کے لیے نہیں ہے‘ ہدایت کے لیے ہے اور جو شخص جان بوجھ کر شیطانی سوچ سے قرآن کی بے حرمتی کرے گا وہ تو ایک نظر میں پہچان لیا جائے گا‘ قرآن پڑھنا بہت ضروری ہے چاہے جس وقت‘ جس طرح مگر اللہ کی اس ہدایت کو نظر انداز نہ کریں کہ اللہ ہم سے اسی طرح چھین لے جیسے یہودیوں سے تابوت سکینہ چھین لیا گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ترکہ ہمارے لیے چھوڑا ہے اسے ہدایت کا موجب سمجھ کر اس کی فرمانبرداری کرنی چاہیے ںاکہ اس ترکے کی عبادت شروع کر دیں یہ نہ ہو کہ یہی ترکہ ہماری بھلائی کے بجائے بربادی کا باعث بنے۔

حصہ