بچوں کے خلاف اخلاقی جرائم اور اسلام

818

مجتبیٰ فاروق
اکیسویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشرے میں بچوں پر مظالم اور جرائم کا گراف وسیع پیمانے پر بڑھ گیا ہے، بلکہ بچوں کے خلاف پیش آنے والے جرائم اور مظالم کا گراف آسمان کو چھونے لگا ہے۔ کہیں درندہ صفات انسان بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کہیں مفاد پرست انسانوں نے بچوںکو غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ کہیں بچوں کو جرائم کی طرف زبردستی دھکیلا جاتا ہے۔ کہیں آوارگی، جنسی استحصال، ڈکیتی، چوری اور بالآخر خودکشی پر مجبور کیا جارہاہے۔ غرض دنیا کے ہرکونے میں غریب، لاچار اوربے سہارا بچوں کا درندہ صفات انسانوں اور حکومتوں نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ روز سیکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو مظلوم بچوں کے ظلم و استحصال سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان واقعات و حادثات اور مظلومیت کی آہوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے، جو ہر روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔
۔2012ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے کرائے گئے سروے سے اس خطرناک صورت حال کا پتا چلا کہ 13، 14 سال کی عمر، یعنی نویں جماعت میں آنے سے پہلے 50 فی صد بچے کسی ایک نشے کا کم سے کم ایک بار استعمال کرچکے ہوتے ہیں۔ پھر زیادہ تر مزدور بچوں کی عمر 14 سال سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں 17 فی صد لڑکیاں ہیں، جن کے جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا (بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان) کی بات کی جائے تو یہاں 20 فی صد آبادی 18 سال سے کم عمر کی ہے۔ یہاں بچوں کے خلاف جرائم میں، بالخصوص پچھلے چار برسوں کے دوران جرائم میں بے حد اضافہ ہو ا ہے۔ یہاں کسی حد تک بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار پیش کیے جارہے ہیں، جن سے ملتی جلتی صورتِ حال پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی پائی جاتی ہے:
انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014 ء میں بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات 90 ہزار درج کیے گئے۔ جس میں 37 ہزار اغواکے اور 14 ہزار ریپ سے متعلق ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 43 لاکھ بچوں کو انتہائی جفا کشی سے زبردستی مزدوری کروائی جارہی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 98 لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے جن میں 80 فی صد کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ان بچہ مزدوروں کی تعداد تقریباً 2 کروڑ تک ہوسکتی ہیں۔ گلیوں میں کوڑا دان، گداگری وغیرہ سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ بچوں کے جنسی استحصال، ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ’کئیرانڈیا‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 52 فی صد طالبات سے مردوں نے زبر دستی چھیڑچھاڑ کی حرکتیں کی ہیں۔ چھیڑ چھاڑ کے یہ واقعات زیادہ تر بس اسٹینڈ، اسکول اور کالج کے راستے اور احاطے میں پیش آئے۔ (روزنامہ انقلاب، 26 اکتوبر 2016ء)
بچوں کو جرائم کی دہلیز پر پہنچانے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا چلن عام ہے، جہاں بڑے پیمانے پر فحش مواد رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے سے بچے جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بچے جب یہ فحش اور اخلاق سوز سائٹس دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اور ان کے اعصاب پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے نہ صرف جنسی جرائم کی طرف لپکتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو ترغیب دی جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے 11 سے 14 سال کی عمر تک اس فحش مواد سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہوچکے ہوتے ہیں۔ گویا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ بچوں پر جان بوجھ کر ذہنی تشدد کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے ساز گارماحول بھی بنایا جاتا ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم اور مظالم کے خلاف اگر چہ کچھ کوششیں ہوتی ہیں لیکن وہ صرف کانفرنسوں تک محدود ہیں۔2012ء میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے کولمبو میںایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی گئیں:
1۔ بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ 2۔ادارہ اور کمپنیوں اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں۔ 3۔ بچوں کے تحفظ کے لیے مضبوط قانون، پالیسیاں اور ضابطۂ اخلاق بنایا جائے۔
یہ تجاویز تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں، لیکن جرائم کے سد باب کے لیے ان میں گہرائی سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ یہ قراردادیں جو ان کانفرنسوں میں پاس ہوئی ہیں بس کچھ رسمیات ہیں جن کو پُر کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کے علَم برداروں نے بھی اس اہم مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاہے۔ وہ بھی کبھی چند قرار دادوں سے آگے بڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ہیں۔
دنیا میں تین طبقے اس وقت زیادہ مظلوم ہیں: 1۔ مزدور طبقہ 2۔ خواتین اور 3۔ بے سہارا بچے۔ ان تینوں طبقوں کو ظلم و تشدد سے نکالنے کے لیے اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشش کرنا اہم ترین کام ہے۔ اسلام نے ان تینوں طبقوں کی نگہداشت اور ان کی بہتر زندگی کے لیے جد وجہد کی بے حد تاکید کی ہے۔ معاشرہ پُرامن اور صحت مند تبھی بن سکتا ہے جب اس میں مزدوروں، یتیموں، بے سہارا بچوں، حاجت مندوں اور مظلوم خواتین کا خاص خیال رکھا جائے۔ اِن کی مالی اعانت، تعلیم و تربیت اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے جد و جہد کرنا اسلام میں لازم ٹھیرایا گیاہے۔ اس کے علاوہ بے سہارا بچوں کے غریب رشتہ داروں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کی تعلیم وتربیت کے نظم و نسق کا اہتمام کیا جائے اگر قریبی رشتہ دار اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکیں تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم و تشدد کے شکار بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی اچھی زندگی کا بندوبست کریں۔ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش نہ آنا قساوت قلب کی علامت ہے۔
انسداد کی تدابیر
دور جدید میں نام نہاد عالم گیریت، گلیمر اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے دنیا مزین ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں اس کے بہت سے منفی اثرات بھی ہیں۔ آج کے اس سائبر کلچر نے گناہوں اور جرائم کو نہایت دل کش بنا کر پیش کیا ہے۔ سائبر کلچر نے نت نئی برائیوں کو جنم دیا اور اس کے ذریعے روز بروز جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہے کہ ہر فرد کی اس تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے۔ جہاں بالغ اور باشعور لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں وہیں بچے بھی آسانی سے اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کہیں سے بھی اس کو کنٹرول کرنے یا اس کے سدباب کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیاکیا جائے جس سے بچے اس قسم کے جرائم سے محفوظ و مامون رہ سکیں؟
٭ سب سے پہلے بچوں کو ایسا خوب صورت ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ گندگیوں اور برائیوں کی طرف لپکنے کی کوشش نہ کریں۔ بچے اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جو بڑے کرتے ہیں اور وہ وہی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے آئینہ دار بڑے ہوتے ہیں۔ والدین اگر صاف ستھری زندگی اور پاکیزگی سے لیس ہوں تو اس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ بچے کو اگر کوئی بری لت لگ جاتی ہے تو محبت و شفقت اور تحفہ و تحائف دے کر سمجھایا جائے اور اگر پھر بھی وہ ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہے تو ضرورت پڑنے پر ہلکی سی سزابھی دی جاسکتی ہے۔ بچوں کی اصلاح اور ان کی اخلاقی درستی کی ذمہ داری اسلام نے والدین پر ڈالی ہے۔ اگر والدین اور سرپرست اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سے مزین دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو پہلے خود باکردار اور بااخلاق بننا پڑے گا۔ اہل ایمان پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا بھر پور اہتمام کریں تاکہ وہ دوام والی زندگی میں جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (التحریم 66:6)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اپنے آپ کو بچاتے ہیں، لیکن اپنے اہل و عیال کو کس طرح بچائیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: تم ان کو ان امور سے روکو، جن سے اللہ تعالیٰ نے تم کو روکا ہے اور ان باتوں کا ان کو حکم دو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن)
٭ والدین کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹیلی ویڑن، موبائل، فیس بک اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال سے دور رکھیں۔ کیونکہ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذرا سے بھی غلط استعمال سے بچے بے حیائی اور اور بدکاری جیسی گھناؤنی حرکت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور کھلی اور چھپی بے حیائی کی باتوں کے قریب مت جاؤ۔ (الانعام 151:6)
فواحش کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں صرف بدکاری ہی شامل نہیں ہے بلکہ بدکاری، بے حیائی اور فواحش کی تمام صورتیں اس میں شامل ہیں۔ بچوں کو حرام کاری، بے حیائی اور جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں اور اسکولوں میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے، جس سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ ان کو عفت وعصمت کی حفاظت اور پاک دامنی کے طریقے بھی سکھائے جائیں۔ ان میں خدا خوفی کا عنصر بھی پیدا کیا جائے۔ اس کار عظیم کو صرف والدین اور اساتذہ ہی بہتر انداز سے انجام دے سکتے ہیں لیکن ان کو سب سے پہلے خود مثالی بننا پڑے گا۔ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی محبت، آخرت کا خوف اوراپنا احتساب کرنا بھی سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمھیں بتادو ں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو‘‘۔ (لقمان 31:15)
والدین کو خود بھی اور اولاد کو بھی صالح بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے میرے بیٹے نماز کا اہتمام کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت تمھیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔ (لقمان18:31)
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کا اہتمام کریں۔(طٰہٰ 20:132)
تربیت جتنے اچھے ڈھنگ سے کی جائے گی، اتنا ہی وہ بچے کے لیے مفید رہے گی۔ اللہ کے رسولؐ نے اولاد کی عزت و اکرام کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے تاکہ انھیں غیرت، احساس ذمہ داری، خود داری، حوصلہ اور باکردار زندگی گزارنے کا جوش وجذبہ ملتا رہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
اپنی اولاد کی تکریم کرو، اور ان کی بہتر تربیت کرو۔

(سنن ابن ماجہ)

حصہ