کراچی کا مقدمہ اور جماعت اسلامی

337

محمد انور
سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم جن حقوق کو حاصل کرانے کے لیے بنی تھی ان کی طرف تو اُس نے اپنے قیام کے 34 برسوں میں کبھی کوئی سنجیدہ توجہ دی ہی نہیں، البتہ ایم کیو ایم کی وجہ سے لوگ امن و امان کی خراب صورتِ حال جیسے مسائل کا شکار ہوئے۔ اس دوران نہ صرف اس کے کارکن بلکہ عام لوگ تک اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ جبکہ دوسری طرف عروس البلاد کے پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں نے ہمیشہ ہی کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی اور اس کے کارکنوں کو سرگرم دیکھا۔
وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی طرف سے کراچی کو درپیش مسائل کے حل سے چشم پوشی اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ ماضی کی طرح اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں کراچی کے حقوق کی دعویدار ایم کیو ایم میں مزید گروپ بندی کے بعد ملک کے اس سب سے بڑے شہر کے باسیوں کو اس بات کی فکر ہے کہ ان کا مقدمہ اب کون لڑے گا؟ ان کو درپیش مسائل کے لیے آواز کون اٹھائے گا؟ اور کون ہے جو پریشانی میں ان کے ساتھ کھڑا ہوگا؟
سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم جن حقوق کو حاصل کرانے کے لیے بنی تھی ان کی طرف تو اُس نے اپنے قیام کے 34 برسوں میں کبھی کوئی سنجیدہ توجہ دی ہی نہیں، البتہ ایم کیو ایم کی وجہ سے لوگ امن و امان کی خراب صورتِ حال جیسے مسائل کا شکار ہوئے۔ اس دوران نہ صرف اس کے کارکن بلکہ عام لوگ تک اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ جبکہ دوسری طرف عروس البلاد کے پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں نے ہمیشہ ہی کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی اور اس کے کارکنوں کو سرگرم دیکھا۔
ان کی جانب سے شہر کے حقوق دلانے اور اس کے مسائل کے حل کے لیے جس طرح کوششیں کی جاتی رہیں اور کی جاتی ہیں وہ سب ہی کے سامنے ہیں۔ جماعت اسلامی اقتدار میں ہو یا نہ ہو، عوام کو درپیش مسائل کے خاتمے اور اس کے لیے جدوجہد ہمیشہ ہی جماعت اسلامی کا ایجنڈا رہی۔ یہی وجہ تھی کہ 2016ء میں جب ایم کیو ایم شہر کے نان ایشوز کو ایشوز بنانے کے لیے اپنا روایتی کردار ادا کررہی تھی، جماعت اسلامی شہریوں کو ’’کے الیکٹرک‘‘ کی لوٹ مار سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کررہی تھی۔ اسی طرح شہر کا کوئی بھی مسئلہ ہو، جماعت اسلامی اس کے حل کے لیے فوراً ہی کمر کس لیا کرتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایم کیو ایم کے اندر ٹوٹ پھوٹ سے اب کراچی کا مقدمہ کون لڑے گا، یہ فکر ہی بے کار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شہریوں کو یقین ہے کہ ہر وقت کی طرح آئندہ بھی جماعت اسلامی، سماجی خدمت کو عبادت سمجھ کر کرنے والے کارکنوں اور متفقین کی مدد سے شہری امور کو درست انداز میں چلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔
شہر کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کراچی کی جن یونین کونسلوں میں دل جمعی سے عوامی خدمت کی جارہی ہے اُن کا تعلق جماعت اسلامی کے منتخب کردہ یوسی چیئرمینوں سے ہے۔ بہادر آباد کے علاقے کی یوسی جس کے ناظم جنید مکاتی ہیں، نامناسب حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود یہاں کے مسائل حل کیے جارہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف سڑکوں اور پارکوں کی حالت بہتر کی گئی ہے بلکہ پینے کے پانی اور سیوریج کے مسائل بھی حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک
ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے روزنامہ جسارت نے اپنی 16 فروری کی اشاعت میں انکشاف کیا کہ حکومت کی جانب سے کرائی جانے والی متنازع مردم شماری کے کراچی کے لیے بنائے گئے منصوبے پر منفی اثرات ظاہر ہونے لگے۔ خبر کے مطابق وفاق کی بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی اور سندھ کی بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی کو فراہمیٔ آب کے منصوبے ’’کے فور‘‘ کے فیز ٹو کی منظوری نہ ہوسکی، کیونکہ ایکنک کے اجلاس میں موجود وفاق کے افسر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ’’نئی مردم شماری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی کی کُل آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار ہے، آبادی کے حساب سے کراچی کو صرف 810 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے، جو کے فور کے فیز ون کی تکمیل سے پوری ہوجائے گی، اس لیے فیز ٹو کے منصوبے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
وفاقی افسر کے اس مؤقف پر سندھ کی بیوروکریسی خاموش رہی، نتیجے میں کے فور فیز ٹو کا منصوبہ التوا میں ڈال دیا گیا۔ اس بڑی خبر پر صرف جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے احتجاج کیا اور آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کراچی کے شہریوں کے لیے پانی کے منصوبے K4 کے فیز 2 کی وفاقی حکومت کی طرف سے منظوری نہ دینے کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔ ایسے فیصلے کی سخت مذمت کی جاتی ہے‘‘۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکومت کا یہ فیصلہ عوام دشمنی کے مترادف ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کی پانی کی ضروریات K4 کی تکمیل کے بعد ہی پوری ہوسکیں گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کے عوام کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک بند کریں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جواز بناکر K4 کے فیز 2 کی منظوری میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور اس منصوبے کو ایک بار پھر التوا میں ڈالنے کی سازشیںکی جارہی ہیں، حالیہ مردم شماری پر کراچی کے تمام طبقات اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔کراچی کی آبادی کسی طور ڈھائی کروڑ سے کم نہیں، جماعت اسلامی نے کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کرنے پر احتجاج کیا لیکن اربابِ اختیار نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، اب اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے یاد دلایا کہ K4 کا منصوبہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں شروع کیا گیا تھا جس کی مدتِ تکمیل 4 سال تھی اور جسے 2010ء میں مکمل ہونا تھا، لیکن بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والی سٹی حکومت اور صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی اور مجرمانہ غفلت کے باعث یہ منصوبہ التوا میں چلا گیا اور اس کی مجموعی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اس منصوبے کی عدم تکمیل کے باعث کراچی کے شہری پانی کے بحران میں مبتلا ہیں، یہ منصوبہ اگر بروقت مکمل ہوجاتا تو کراچی میں پانی کی جو قلت آج ہے، وہ نہ ہوتی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کو جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے، اور جو فراہم کیا جاتا ہے وہ ترسیل کے غلط نظام، پانی چوری، واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت کے باعث پوری طرح سے شہریوں کو نہیں ملتا، ٹینکر مافیا مہنگے داموں پانی فروخت کررہا ہے، لیکن شہری حکومت اور صوبائی حکومت نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہK4 منصوبے کی عدم تکمیل اور اس راہ میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا فوری نوٹس لیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ K4 کے تینوں فیز جلد از جلد مکمل کیے جائیں اور شہر میں پانی کے مسائل حل کیے جائیں۔

مسائل کے سدباب کے لیے جماعت اسلامی کی پبلک ایڈ کمیٹی کا مثبت کردار

شہریوں کو بجلی، پانی، سیوریج اور سڑکوں کی تباہ حالی سے متعلق مسائل درپیش ہوں، یا قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ’’نادرا ‘‘ کی جانب سے بے جا مطالبات کا مسئلہ… ان سب کے حل کے لیے جماعت اسلامی کراچی کی پبلک ایڈ کمیٹی کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ بہت مختصر عرصے میں جماعت اسلامی نے نہ صرف کے الیکٹرک سے متعلق تکالیف کو دور کرنے کے لیے قانونی اور عوامی جدوجہد کی، اور کررہی ہے بلکہ انفرادی طور پر بھی لوگوں کی رہنمائی کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لیے مسائل کے شکار افراد کی انفرادی طور پر ہر ممکن مدد بھی جاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عام شہری بھی وقت نکال کر جماعت اسلامی اور اس کی پبلک ایڈ کمیٹی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے آگے آئیں اور اس کارِ خیر میں ان کا ساتھ دیں، تاکہ جلد سے جلد مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔

حصہ