نئے چیلنجز اور ہمارے اہداف

540

عاقب جاوید
[نو منتخب ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان ’’محمد عامر ناگرا‘‘ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء کو سیالکوٹ کے قصبے سمبڑیال میں پیدا ہوئے۔ اقرا یونیورسٹی سے ڈویلپمنٹ اسٹڈیزمیں ایم فل کر رہے ہیں۔ نومبر ۲۰۰۶ء کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے رُکن بنے۔ ’’پیغام اقبال‘‘ رسالے کے مدیر رہے۔ ۲۰۱۵ء تا ۲۰۱۷ء پنجاب ( شمالی)کے ناظم رہے۔ ۲۰۱۷ء تا ۲۰۱۸ء کے لیے سابق ناظم اعلیٰ برادر صہیب الدین کاکا خیل نے اِنھیں سیکریٹری جنرل (معتمد عام) مقرر کیا تھا۔ اراکینِ اسلامی جمعیت طلبہ نے سیشن ۲۰۱۸ء تا ۲۰۱۹ء کے لیے برادر محمد عامر کو ’’ ناظم اعلیٰ‘‘ منتخب کیا ہے]

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کروگے وہ تمھاری ہوگی۔ یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہے جو میرا اور آپ کا خالق و مالک ہے۔ اس کائنات کے اندر پائی جانے والے ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کی وجہ سے یہ پیغام ہدایت انسانوں تک پہنچا اور صلح اور نجات کا راستہ انسانوں کو نظر آیا کہ جس پر چل کر انسان اس دنیا کے اندر اور آخرت کے اندر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلامی اسلامی جمعیت طلبہ طلبہ اپنے سفر کے ۷۰ سال مکمل کرچکی ہے۔ اپنی قیادت کا ایک بار پھر انتخاب کرچکی ہے اور اپنا زاد ِراہ سمیٹتے ہوئے نئے جذبوں اور نئے عزم کے ساتھ سفر پر نکلنے کو ہے۔ آپ سب اسلامی اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماع میں جمع ہیں۔ کچھ دیر میں ہم یہاں سے رخصت ہوجائیں گے اور اس وطن عزیز کے گلی کوچوں محلوں میں، اس کے تعلیمی اداروں میں اللہ کی کبریائی کا پیغام لے کر نکلیں گے، انسانوں کے پاس جائیں گے، انسانوں کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلائیں گے کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا کو مبعوث کیا۔ اس کے بعد اس بات پر بھی اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں یہ پیاری اسلامی جمعیت طلبہ دی۔ مادیت پرستی کے دور میں، گمراہی کے اس دور میں، جب ہر طرف اللہ سے دور لے جارہی ہے، وہاں اللہ رب العزت نے ہم جیسے حقیر اور بے گناہ انسانوں کو اجتماعیت دی ہے کہ جہاں میں اور آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی بھی طلب کرسکتے ہیں اور جہاں میں اور آپ اللہ کے اس پیغام کو بلند کرتے ہوئے اپنی اُخروی نجات حاصل کرسکتے ہیں اور اس بات پر بھی اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے انبیا کے منصب و قافلے سے جوڑ دیا ہے۔ جو اس دنیا کے اندر اقامت دین کا قافلہ ہے۔ اقامت دین کا تصور جو سید مودودیؒ نے اس دنیا کے اندر پیش کیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ وہ تصور دین ہے، اس دنیا کے اندر انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا سب سے بہترین رستہ اسلام کا وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا۔ اور سید مودودیؒ کے لیے ہم اس لیے بھی دعائیں کرتے ہیں ، ان کو یاد کرتے ہیں، ان کی محبت رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے اس دنیا میں یہ پیغام تازہ ہوا۔
وہ لوگ جنھوں نے ۷۰ سال اس فریضے کو سرانجام دیا۔یہاں بیٹھے ہوئے سابقین یا اس دنیا میں موجود اسلامی جمعیت طلبہ کے سابقین یا اس دنیا سے رخصت ہوجانے والے سابقین جنھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے اس نظام کو چلایا۔ آج کی زندہ و توانا اسلامی جمعیت طلبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُنھوں نے اپنے اس عہد کی پاسداری کی۔ اُنھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کی اس ذمہ داری کو بہترین انداز میں نبھایا اس ملک کو جب بنگلہ دیش میں قربانیوں کی ضرورت پڑی تو اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے دس ہزار نوجوانوں کا لہو پیش کیا۔ اس ملک کو ضرورت پڑی کہ ختم نبوت کا دفاع کیا جائے۔ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اوپر حملے کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے تو اسلامی جمعیت طلبہ نے ایسے حالات کے اندر جب اس ملک کی سیاسی جماعتیںخاموش ہوچکی تھیںتحریک ختم نبوت کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسے وقت کے اند رجب اسلامی جمعیت طلبہ کے سوا اس ملک کی سیاسی جماعتیںاس ایشو پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں، ایسے وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ نے اس تحریک کو چلایااور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ آج کی اسلامی جمعیت طلبہ میرے اور آپ کے ذمے ہے۔ا س کی بنیادی ذمے داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس لیے ہر رکن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ سوچے کہ آج کی اسلامی جمعیت طلبہ کا چیلنج کیا ہے؟ آج کے پاکستانی معاشرے کا چیلنج کیا ہے، اس کا ادراک کرنا اور اس کے مطابق اپنی پالیسی ترتیب دینا۔ اپنی صفوں کو ترتیب دینا آج کے کارکن کا بنیادی ہدف ہے۔ آج پاکستانی معاشرے میں طلبہ یونین کو بین کیے ہوئے چونتیس سے چھتیس سال گزرنے کو ہیں۔ آج پاکستان کے طلبہ کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے پاکستانی طلبہ کی سب سے بڑی کمزوری اس کا غیر سیاسی ہونا ہے۔ پاکستان کے نوجوان کا اس سیاسی عمل سے لاتعلق ہونا ہے۔
پاکستان کے نوجوان کا یہ کہنا کہ پاکستان کے اندر طلبہ تنظیمیں نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے آج کے نوجوان تک یہ بات پہنچانے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک اسلامی نظریے کے مطابق بنا ہے۔ اس ملک میں اسلامی نظریے کے فروغ کے لیے اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے پاکستان کے نوجوان اور اس کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح آج کے پاکستان کا چیلنج جو میری اور آپ کی زبانوں پہ ہر وقت ہوتا ہے کہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے اس چیلنج کو بھی سمجھنے کی اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کو ضرورت ہے۔ کیا صرف نعروں سے یا سیکولر ازم کو بُرا بھلا کہنے سے اس کا تدارک ہوگا؟ یا اپنے سہانے خواب ان کے سہارے زندہ رہنے سے اس چیلنج کا تدارک ہوگا؟ کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے ۷۰ء اور ۸۰ء کی دہائی میں کمیونزم کو شکست دی۔ یہ بات سچ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا اس ملک کے تعلیمی اداروں میں بڑا اہم کردار ان لوگوں شکست دینے میںرہا ہے لیکن یہ سوال بھی آج کی تحریک اسلامی کے سامنے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے سامنے ہے کہ کمیونزم کے اس نظام کے ختم ہونے کے بعد اس دنیامیں کون سا نظام غالب ہوگا؟
پھر اس دنیا کا نظام لبرل اور سیکولر نظام کے ہاتھ میں آیا جس کا چیلنج میرے اور آپ کے سامنے ہے ۔ ایک چیلنج ختم ہوا اور دوسرا چیلنج زیادہ توانائی کے ساتھ میرے اور آپ کے سامنے کھڑا ہے اور یہ کمیونزم سے بڑا چیلنج اس لیے ہے کیوں کہ کمیونزم دنیا کے اندرکبھی بھی غالب نہیں رہا۔ کمیونزم نے جو معاشی نظام دیا وہ کبھی بھی اس دنیا میں اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ نافذ نہیں ہوا۔ آج کا نظام ِحکومت لبرل اور سیکولر ہے۔ آج اس پوری دنیا کا سیاسی نظام اسی لبرل ڈیموکریسی کے تحت گھومتا ہے جومغرب کا دیا ہوا تصور ہے ۔آج کی اس دنیا کامعاشی نظام بھی اُسی مغربی نظام کے دیے ہوئے دائرے میں گھومتا ہے۔ آج کا پورا عدالتی نظام بھی مغرب کا دیا ہوا ہے ۔یہ وہ چیلنج ہے جو ہر دور کے اسلامسٹ کا چیلنج ہے۔ اس چیلنج کا جواب دینا اس چیلنج کو قبول کرنا اور اس نظام کے سامنے وہ نظام پیش کرنا جو سید مودودی نے پیش کیا۔
کمیونزم کو شکست اس وجہ سے ہوئی کہ سید مودودی نے اس کا دلیل سے جواب دیا۔ آج دلیل سے جواب کون دے گا؟ آج سید مودودی ہمارے دمیان نہیں ہیں لیکن ان کی فکری جانشین اسلامی جمعیت طلبہ یہاں موجود ہے۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ نعرے لگاتے ہیں جہاں وہ کمیونزم کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ وہاں وہ اپنے مطالعہ کو مضبوط بنائے۔ اپنی فکر بہتر کرے، سید مودودی کی فکر کو سمجھے اور اس کی فکر کا احاطہ کرتے ہوئے اس دور کے چیلنج کا جواب دے۔ سید مودودی کی فکر کو سمجھے بغیر اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن اس تحریک کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتا۔ تھوڑی سی تلخ بات ہے لیکن آپ سید مودودی کی فکر کو نہیں سمجھیں گے تو آپ اس تحریک کا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر سکتے۔ سید مودودی کی فکر پہ گرفت کے لیے دوچار کتابیں نہیں بلکہ اس پورے نظام کو سمجھنا ہوگا جو سید مودودی نے اپنے قلم کے ذریعے پیش کیا ہے۔ جو اس کا سیاسی ،معاشی اور معاشرتی نظام بھی ہے۔ جو اسلام کا عدالتی نظام بھی ہے اور پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ سارے نظاموں کے سامنے چیلنج کرتا ہے کہ سارے مسائل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کیے جاسکتے ہیں۔
ابھی گزشتہ چند دنوں میں آنے والی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۸۲ فیصد دنیا کی دولت دنیا کے ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ یہ آج کے معاشی نظام کی حالت ہے ۔جس نے اس دنیا کو استیصالی نظام دیا ہے اور جس کے نافذ ہونے سے دنیا کے اندر حالت یہ ہے کہ آج کی اس دنیا میں عورت کو ایک پروڈکٹ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ امریکہ جیسا ملک جو خواتین کے حقوق کا پرچم بلند کرتا ہے اسی ملک میں ایک دن کے اندر سیکڑوں خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ اسی کے معاشی نظام نے دنیا کا خاندانی نظام تباہی کے دہانے پہ کھڑا کر دیا ہے۔ جو آج یہ قانون بناتے ہوئے نظر آتا ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرسکتی ہے۔ اسی طرح کے حملے وہ ہمارے معاشرے پر بھی کرنا چاہتاہے ، بتائیے آج کا اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن اس کا جواب کیسے دے گا؟
یہ سید مودودی کی فکر کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف پاکستانی سوسائٹی کو سمجھنے کا چیلنج ہے جو مجھ سے اور آپ سے مخاطب ہے، جس کے پاس میں نے اور آپ نے اسلام کی دعوت لے کر جانا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سارا معاشرہ لبرل ہے تو آپ کی پالیسی بالکل مختلف ہوگی لیکن پاکستان میں ۸۶ فیصد لوگ ایسے ہیں جو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اسلامی قوتوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ اسلام کے اس طریقے پہ عمل نہیںکرتے جس طرح کرنا چاہیے۔ ان کی زندگیاں اسلام کے اس عمل سے خالی کیوں ہیں۔ یہ میرا اور آپ کا چیلنج ہے۔ یہ آج کے اس داعی اللہ کا چیلنج ہے جو اس معاشرے کو یہ بتانے نکلا ہے کہ اسلام ہی اس دنیا کا واحد نظام ِزندگی ہے۔ لوگ اس بات کے لیے تیار ہیں کہ اسلامی نظام قائم ہو۔ مسئلہ صرف اسلام کے پیغام کی تفہیم کا ہے۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس دعوت کی حکمت کو سمجھیں اس معاشرے کے طور طریقے کو سمجھے اس معاشرے میں آنے والی تبدیلوں پر بھی غور کرے کیونکہ آج کا پاکستان آج سے ستر سال پہلے والے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ تین اہم باتیں ہیں جن کا تذکرہ کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔ جو پاکستان کے اندر بڑی تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
پاکستان میں بیسویں صدی کے آخری عشرے میں بڑے شہروں میں تعلیمی ادارے تھے۔ جہاں ہر چھوٹے شہر کا طالبعلم آکر تعلیم حاصل کرتا تھا۔ تمام تعلیمی اداروں کے اندر اسلامی جمعیت طلبہ موجود ہوتی تھی۔ اس وقت اسلام کا پیغام اور اس کی فکر لوگوں تک پہنچتی تھی۔ طلبہ یونین کا پلیٹ فارم بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس تھا ۔اس پلیٹ فارم سے اسلامی جمعیت طلبہ ہر نوجوان کو مخاطب کرتی تھی۔ آج ۲۰۱۷ء کے اندر سترہ بیس سال گزرنے کے بعد آج پاکستان کے اندر ۱۶۸ یونیورسٹیز ہیں۔ ۲۰۲۵ء کا ایچ ای سی کا پلان یہ ہے کہ پاکستان کے ہر ضلع میں یونیورسٹی ہوگی۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو پاکستان کو بدلنے جارہی ہے۔ اب نوجوان ہر بڑے شہر میں جمع نہیں ہوں گے اور ہر جگہ جہاں یونیورسٹی بنے ہوگی وہاں اسلامی جمعیت طلبہ بھی ہوگی۔ ہماری تنظیم کو پہلی دفعہ اس اسٹریکچر سے واسطہ پیش آنے جارہا ہے۔ ہماری تنظیم ہمیشہ ۹۰ فیصد سے زیادہ ان شہروں پر مشتمل رہی ہے۔ جہاں تعلیمی ادارے اسکول اور کالجزتھے لیکن اگلے آنے والے تین چار برسوں میں ان تمام شہروں میں یونیورسٹیز بنیں گی۔ یونیورسٹی کا اثر معاشرے میں دیکھیں کہ وہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان طالب علم ہوں یا طالبات وہ اس معاشرے کا ٹرینڈ سیٹ کرتا ہے۔ وہ اس معاشرے کے کلچر کو بدلتا ہے۔ اس کے نیچے کی جتنی جنریشن ہے وہ اس کو فالو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جس شہر کے اندر یونیورسٹی بنتی ہے وہاں کا کلچر بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر سارا کا سارا وہاں پہنچنا شروع کر دیتا ہے۔ وہاں کے نوجوان کا پہنا وا بدلنے لگتا ہے۔ وہاں کے نوجوان کے کھانے کے ٹرینڈ بدلتے ہیں۔ وہاں کے نوجوان کے پڑھنے کے ٹرینڈ بدلتے ہیں۔ یہ اثر ہے جو آنے والے چار پانچ سال بعد یونیورسٹیز اس معاشرے پر ڈالنے والی ہیں۔ ایچ ای سی کی ریکوائرمنٹ یہ ہے کہ ۲۰۲۵ء میں پاکستان کی یونیورسٹیز میں ۱۰ ہزار پی ایچ ڈی پڑھا رہے ہوں گے۔ اگلے آنے والے پانچ چھہ برسوں میں ۱۰ ہزار پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ یہ وہ اثر ہوگا جو طلبہ کے اوپر اثر انداز ہوگا۔ جو لوگ پڑھ کر نکلیں گے اور جس فکر کے ساتھ پڑھ کر نکلیں گے وہ اسی فکر کی ترویج کریں گے۔ اسی فکر کے مطابق طلبہ و طالبات کی تربیت کریں گے۔ اگر وہ سیکولر ہوں گے تو وہ اُنھیں سیکولر بنائیں گے۔ اگر وہ اسلامسٹ ہوں گے تو وہ اُنھیں اسلامسٹ بنائیں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا چیلنج یہ ہے کہ اگر اگلے سات برسوں میں ۱۰ ہزار پی ایچ ڈی چاہیے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کتنے کارکنان ہوں گے جو پی ایچ ڈی کر کے اس ملک کے تعلیمی اداروں میں سے نکلیں گے۔ اس ملک کی یونیورسٹیز کا نظام سنبھالیں گے۔ اس ملک کے طالبات اور طلبہ کی تربیت اور ان پر اثر انداز ہونے کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ وہ بڑا چیلنج ہے جو آج کی اسلامی جمعیت طلبہ کے سامنے ہے۔
دوسرا فیکٹر یہ ہے کہ اس ملک کے اندر ۲۰۰۲ ء سے پہلے نیوز چینلز میں صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ خبر عوام تک پہنچتی تھی اور وہی خبر پہنچتی تھی۔ جو حکومت چاہتی تھی۔ کوئی دوسرے سورسز اس وقت اس ملک میں نہیں تھے لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے۔ جو اس ملک کے عوام کے ذہنوں کو بدل رہے ہیں۔ جو ان کی تربیت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلامی تحریکیں پورا پورا سال بڑی بڑی تحریکیں چلاتی ہیں۔ لوگوں سے رابطے کرتی ہیں اُن کی ذہن سازی کرتی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ چلتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ یہ سیکولرزم کا چیلنج جو میرے اور آپ کے سامنے ہیں۔ اس کا مقابلہ صرف اس طرح نہیں ہوگا کہ تقریروں کے اند ر اِسے بُرا بھلا کہہ دیا جائے۔ یہ سیکولرزم پورا کا پورا میڈیا انڈسٹری کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ جو اس ملک کے عوام کے ذہنوں کو بدلنے کی تاک میں ہے۔
تیسرا فیکٹر جو اس ملک کے اندر ہے جو اس کی تقدیر بدلنے جارہا ہے ۔اس ملک کے اندر آنے والا وہ پروجیکٹ ہے کہ جس کے بارے میں آپ اور میں پڑھ رہے ہیں۔ اگلے آنے والے پانچ سے دس برسوں میں اس ملک کی ثقافت بدلنے والی ہے۔ اس ملک کا سماج بدلنے والا ہے ۔اس ملک کی معیشت بدلنے والی ہے۔ اس بڑی تبدیلی میں پاکستان میں معاشی خطے (اکنومکس زونز) بننے والے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت موٹر ویز کا ایک جال بچھ رہا ہے۔ کمیونیکیشن کا ایک جال بچھ رہا ہے جس سے پاکستان کی پوری کی پوری سوسائٹی تبدیل ہونے والی ہے۔ اس تبدیلی کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ نے خود کو کتنا تیار کیا ہے؟ جب یہاں غیر ملکی آئیں گے یہاں پہ سرمایہ دار آئیں گے تو وہ اپنی ثقافت لے کر آئیں گے۔ اپنی سوچ اور فکر لے کر آئیں گے۔ جو اس ملک کے لوگوں کی سوچ سے متصاد م ہوں گے۔اور ان پر اثر ڈالیں گے۔ یہ چیلنج اسلامی جمعیت طلبہ کا بھی ہے اور یہ چیلنج اس ملک کی تحریک اسلامی کا بھی ہے کہ کیسے ان لوگوں کی ثقافت اس ملک پر اثر انداز ہونے والی ہے۔ ان کی ثقافت کے اوپر اپنی ثقافت کا اثر ڈالنا ہے۔ ان کے کلچر کو بدلتے ہوئے اپنا کلچر ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔
جب معاشی دوڑ ہوگی اور آپ کس طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن سے اپنی تنظیم کا کام بھی لیں اور اس ملک کے گلی محلوں میں آپ کی تنظیم چلانے کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم بھی حاصل کرے اور اس کے اوپر جو ذمہ داریاں ہیں اُسے پورا کرنے کے لیے اس کا ذریعہ معاش بھی اچھا ہو۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ دعوت ،تنظیم و تربیت ان تینوں شعبوں کے اندر اپنے آپ کو تیار کرے۔ کیسے اپنی دعوت کا پرچار کرنا ہے، کیسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنانا ہے اور کیسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تربیت کرنی ہے کہ اس معاشرے کے اندر اپنی فکر کا اثر ڈالا جاسکے۔ اس معاشرے کو بدلا جاسکے اور وہی اثر و رسوخ جو طلبہ یونین کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس تھا۔ اگر اس ملک کا ۷۰ سے ۸۰ فیصد نوجوان یونیورسٹیز میں جاتے تھے تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ موجود ہوتی تھی۔ آج پاکستان کے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی ایک پرائیوٹ سیکٹر کا بھی اُبھرنا ہے۔ جہاں اسلامی جمعیت طلبہ اپنے نام سے موجود نہیں ہے۔ جہاں اسلامی جمعیت طلبہ مختلف ناموں سے تو موجود ہے لیکن اس کا اثر بہت کم ہے۔ ایک پورا طبقہ ہے جو اس ملک کے تعلیمی اداروں سے نکل کر اس ملک کے نظام کو چلاتا نظر آتا ہے لیکن وہ ہماری سوچ اور فکر سے خالی ہے۔ ہماری دعوت سے خالی ہے۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ سوفیصد طلبہ تک اپنی دعوت کیسے پہنچائی جائے۔ وہ نوجوان جو پاکستان کے پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتا ہو۔ اس کو کیسے اسلامی سوچ و فکر کا حامل بنایا جائے۔ اس تک اپنی بات اور فکر پہنچا کرتیار کیا جائے کہ وہ اس معاشرے کی باگ ڈور اسلامی اصولوں پر چلاتا ہوا نظر آئے۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کو ان تمام چیلنجز کا ادراک بھی ہونا چاہیے اور ان کا ادراک کرتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان کو خود کو فکری و ذہنی طور پہ تیار کرنا چاہیے۔ گزشتہ چار سے پانچ برسوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی شوریٰ کی جو پالیسی ہے جس کا اس وقت فیلڈ کے اند رنفاذ جاری ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ہم نے یہ دیکھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی طلبہ تک رسائی اس سال ۲۴ لاکھ تھی۔ گزشتہ سال ۱۹؍ لاکھ تھی۔ اس سے قبل ۱۴ ؍لاکھ تھی۔ مرکزی شوریٰ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے عرض کیاکہ یہ چیلنج بیس یا چوبیس لاکھ کا نہیں ہے بلکہ یہ ہدف اس ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ۴ کروڑ طالبعلم کا ہے۔ ان تک کیسے اپنی دعوت پہنچانی ہے اور کیسے اپنی تنظیم تیار کرنی ہے ۔جو نوجوان تعلیمی اداروں سے نکل کر آرہا ہے۔ چاہے وہ ’نسٹ ‘سے پڑھ کر آرہا ہے۔ ’لمس ‘سے پڑھ کر آرہا ہے۔ ’آئی بی اے ‘سے پڑھ کر آرہا ہے۔ وہ آپ کی تنظیم کے اندر چل سکے اور پھر اس کے بعد تربیت کا مرحلہ ہے۔ جو میرا اور آج کی اسلامی جمعیت طلبہ کا سوچنے کا کام ہے کہ اس تربیتی نظا م کو کس طرح بہتر بنایا جائے کہ آج اس اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار کارکنان ،ارکان ،امیدواران ،رفقا وابستہ ہیں۔ یہ پورے سال کے لیے اگر اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس ہوں تو ایک سال گزرنے کے بعد ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئے گی۔ تربیتی نظام کے متعلق ایک اور اہم بات جو کہ قابل توجہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے تربیتی نظام میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جسے اسلامی جمعیت طلبہ نے خود پروان چڑھایا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قرآن و سنت نے ہمیں بتائی ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے اسٹرکچر میں کمی کوتاہی ہوسکتی ہے لیکن اللہ و رسول کے بنائے ہوئے اسٹرکچر میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوسکتی ہے ۔اس لیے آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا تربیتی نظام بہتر ہو۔ اس کے لیے اپنی عبادات و فرائض کو ٹھیک کر لیجیے آپ کا تربیتی نظام ٹھیک ہوجائے گا لیکن اگر حالت یہ ہو کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا رُکن ہے اور ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔فجر کی نماز جماعت کے ساتھ نہیں ہے۔ توپھر آپ کو یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے تربیتی نظام کے اندر کیا خرابی ہے۔ اگر ایک ہفتہ ایسا گزر گیا ہے کہ قرآن نہیں پڑھاتو آپ یہ سمجھے کہ آپ کے تربیتی نظام میں کوئی مسئلہ ہے۔ اخوان جس کی مثالیں دیتے ہوئے ہم تھکتے نہیں ہیں۔ جس کے کارکردگی کی مثالیں ،جس کے کارکن کے اخلاص کی مثالیں ،اسی اخوان کے بارے میں ہر اجتماع میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے ۔وہ فرق اسی نظام کے عمل کا فرق ہے ۔کسی کارکن کی جیب قرآن سے خالی نظر نہیں آئے گی۔ کوئی کارکن ایسا نہیں ہوگا جس کی نماز جماعت سے خالی ہو۔ آج کے اس دور میں بھی کوئی کارکن ایسا نہیں جو ہفتے میں دو روزے نفلی نہ رکھتا ہو۔ یہ بنیادی فرق ہے جو آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان ہے جنھوں نے دنیا پہ اپنا اثر ڈالا ہے۔ جنھوں نے تین کروڑ لوگوں کو جھنجوڑا ہے ۔ جنھوں نے تین کروڑ ووٹ میں سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں سے ووٹ لیے ہوں۔ اگر اپنی اس تحریک کو پُرتاثیر بنانا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کو، اس کے رکن کو وہ بنیادی غذا حاصل کرنی ہوگی۔ یہ غذا قرآن و سنت سے ملے گی۔ یہ غذا حدیث ِ نبوی سے ملے گی۔ نماز سے ملے گی ۔ اس طریقے سے ملے گی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ اس لیے اس پورے کام میں جہاں پورا دن فیلڈ میں رہتے ہیں ۔نوجوان طلبہ تک پہنچتے ہیں۔ وہاں دیگر ساری مصروفیات کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کی بھی فکر کرنا چاہیے۔
اور یہی وہ اسوہ حسنہ ہے جو نبی نے پیش کیا۔ جس کے بارے کل آپ کو اس اجتماع میں بتایا گیا کہ جب سورۃ المومنوں کی دس آیات نازل ہوئی۔ جس میں مومنین کی دس خوبیاں بتائی گئی۔ اس وقت پورے مکہ اور مدینے کے اندر کوئی کافر ایسا نہیں تھا جو یہ دعویٰ لے کر کھڑا ہو کہ یہ دس آیات ،دس خوبیاں تو تم بیان کرتے ہو مگر تمھارا اپنا کردار ان خوبیوں سے خالی ہے۔ سارے مسلمان جو اس دعوت کو پیش کرنے والے تھے ،وہ سب اس دعوت کا منبع تھے۔ ان کے کردار اس دعوت کی روشنی میں تیار ہوئے اور وہ چلتے پھرتے اسی دعوت کا نمونہ تھے۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جتنی آپ کی ذات قرآن و سنت سے منور ہوگی۔ آپ کی تحریک کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ جتنا آپ اس سے خالی ہوں گے۔ اتنا آپ کا اثر اس معاشرے سے خالی ہوتا جائے گا۔ چاہے آپ ایک کروڑ لوگوں تک پہنچ جائیں۔ اس لیے آپ کو اس اسوہ کو تھامنا ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے گلی محلوں تک پہنچنا ہے۔ ہر انسان اس دنیا میں کام کرتا ہے تو کسی نہ کسی تحرک کی وجہ سے کرتا ہے ۔ کوئی نا کوئی بات اس کے ذہن میں ہوتی ہے کہ یہ کام کروں گا تو یہ ملے گا۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کا کام کرتے ہوئے ایک بات ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیے۔ جیسے کسی بزرگ سے پوچھا کہ ہمیں جنت کے بارے میں بتائیے جس سے ہمارے شوق میں اضافہ ہو۔ جواب دینے والے نے کیا خوب صورت جواب دیا کہ جنت میں حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ اس لیے میں یہ ایک بات کہنا چاہوں گا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ ہماری موٹی ویشن صرف یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ اس سے بڑی کوئی موٹی ویشن نہیں ہے۔ ہماری موٹی ویشن یہی ہے کہ جنت میں حوض ِکوثر پہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں گے۔ اپنے تھکے ہوئے جسم لے کر جائیں گے اور عرض کریں گے یہ آپ کے رستے میں تھکے ہیں۔ اس لیے اسلامی جمعیت طلبہ کا کام کرتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ یہ کوئی چھوٹا کام ہے بلکہ یہ تو انبیا کا کام ہے۔ اسے بالکل چھوٹا کام نہ سمجھیں۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ شہدا کی امین ہے ۔
سید مودودی کا کردار آپ کو بتائے گا کہ آپ مخالف کو کیسے ڈیل کریں لیکن حالت اگر یہ ہو کہ آپ کو سوشل میڈیا پہ کوئی بات کہہ دے اور آپ وہ تمام کردار پیچھے چھوڑ دیں جو اسلامی تحریک کے کارکن کا کردار ہونا چاہیے تو وہ اس معاشرے کے اندر تبدیلی نہیں لاسکتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار اس معاشرے کے لیے نمونہ ہے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کی تاریخ اس کا ورثہ ہے۔ وہ تاریخ جس پہ سیکڑوں لوگ اعتراض کرتے ہیں لیکن کوئی یہ اعتراض نہیں کرتا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا کا رکن بداخلاق ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن کسی کو گالی دے سکتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے مشن اور سید مودودی کی فکر کو لے کر نکلیں اس ملک کے تعلیمی اداروں میں جہاں لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کے منتظر ہیں۔ اس پیغام ِہدایت کے منتظر ہیں ۔جو میرے اور آپ کے پاس ہیں۔ یہ پیغام اُن لاکھوں نوجوان طلبہ تک نہیں پہنچا ہے جن کی زندگیاں تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہیں۔ آج کے پاکستان کو اس نظام کی ضرورت ہے جس سے اس ملک میں امن اور خوشحالی آئے اور پھر وہ پوری دنیا میں پھیلے۔ یہی ہمارا ہدف بھی ہے کہ ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے لاکھوں کروڑوں طلبہ تک اپنا پیغام پہنچانا ہے۔
اللہ کے حضور دعا کیجیے کہ اللہ ہمارے اس کام کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے۔ آمین

حصہ