سوشل میڈیا، نکاح سے نااہلی تک

386

اس ہفتہ بھی سوشل میڈیا پرمقامی ایشوز بلکہ نان ایشوز پر بھی دل کھول کر صدائیں بلند کی جاتی رہیں۔ تحریک انصاف کے سَربراہ عمران خان صاحب کی پاک پتن کی معروف روحانی شخصیت بشریٰ بی بی کے تیسرے آفیشل اعلان نکاح کی تصاویر بھی سوشل میڈیا کے تبصروں کی زینت بنی رہیں ۔ان تبصروں میں اِس نکاح کا سب سے پہلے انکشاف کرنے والے پاکستانی صحافی عمر چیمہ کو بھی مبارکباد دی جاتی رہیں ۔ ساتھ ہی مختلف فتوؤں کی روشنی میں مردوں کو دوسری شادی کے لیے بھی خوب پوسٹیں بنا بنا کر، بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر شیر کی جاتی رہیں۔ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں خصوصاً ہمارے برصغیر میں دوسری شادی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ،شاید اس لیے ہمارے میڈیا پر کسی معروف شخصیت کی دوسری یا تیسری یا پہلی شادی بھی پورا موضوع بنی رہتی ہے ۔ وسیم اکرم دوسری کریں،عمران خان تیسری یا پھر شیخ رشید کوئی بھی نہ کریں۔آصف محمود نے اپنی وال پر مدلل تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’نکاح ایک مقدس کام ہے اسے طنز اور دشنام کا عنوان نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران خان نے نکاح کیا ہے کوئی جرم نہیں کیا ۔ ہمارے ہاں بہت سے افرادکی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا جاتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے لیکن عمران خان شادی کرتے ہیں توانہیں سینگوں پر لے لیاجاتا ہے۔ میرے خیال میں جہاں دیگر عوامل کارفرما ہیں وہیں عمران خان کی افتاد طبع بھی اس کی ذمہ دار ہے۔عمران خان سے غلطی یہ ہوئی کہ ڈی چوک کے دھرنے میں وہ اپنی شادی کو خودزیر بحث لائے ۔سید مودودی ؒنے کہا تھا غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ عمران خان کی اس غلطی کے ہاں بھی اولاد نرینہ کا سلسلہ جاری رہا۔جناب عارف نظامی نے ان کی شادی کی خبر دی تو تحریک انصاف نے اس کی باجماعت تردید کرنا شروع کر دی حالانکہ یہ عمران خان کا نجی معاملہ تھا ۔ پھر جب شادی کو تسلیم کیا گیا تو اس کا باضابطہ اعلان بھی پارٹی ترجمان نے کیا ۔بعد میں تناؤ کی خبریں آئیں تو ان کی تردید بھی پارٹی رہنما کرتے رہے۔پارٹی ترجمان کا یہ کام نہیں تھا کہ ازدواجی امور کی وضاحت کریں۔ اس غیر سنجیدہ رویے نے عمران کے سیاسی مخالفین کو شہہ دی کہ جب عمران کی نجی زندگی عمران کی اپنی پارٹی کے ترجمان زیر بحث لا رہے ہیں تو ہم کیوں نہ لائیں چنانچہ جواب آں غزل یعنی دولہے کا سہرا خوب ٹھونک بجا کے کہا جانے لگا۔‘‘ دیکھنے والوں کی نگاہ اتنی تیز رہی کہ تقریب نکاح میں شُرکاء کے پہنے ہوئے سوئیٹرز اور جیکٹس دیکھ کر تصاویر کے پرانے ہونے کا عقدہ بھی کھول ڈالا۔ساتھ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کی نا اہلی ( پارٹی صدارت) کے فیصلے کو خان صاحب کے نکاح ، یعنی اُن کی اہلیہ کی کرامات سے جوڑا گیا وہ بھی خاصہ دلچسپ رہا۔ مگر اُن سب پر جانے سے قبل ، سوشل میڈیا کے آداب و اخلاقیات سمجھاتے ہوئے ہمارے عزیز دوست زبیر منصوری کی ایک تحریر پیش خدمت ہے جو اُنہوں نے اپنی وال پر شیئر کی ۔اس تحریر کو فیس بک اورواٹس ایپ پر بھی خاصی مقبولیت ملی۔’’مریم نواز پر کوئی گندہ ساکمنٹ پڑھتا ہوں تو پورا پڑھ نہیں پاتا!اپنی پیاری اکلوتی بہن آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔کسی کومحترمہ بشری عمران خان پر کیچڑ اُچھالتے پاتا ہوں تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔مبشر زیدی بھائی کی معصوم بیٹی اور اس کی سہیلی کو بکواس کی نذر ہوتے پاتا ہوں تو دیکھ نہیں پاتا ادھورا چھوڑ دیتا ہوں۔کیا کوئی میری مدد کرے گا میں کیسے ایسی پوسٹس سے بچ سکتا ہوں؟میرے لئے بیٹیاں بہنیں مائیں بہت قابل احترام ہیں میں کسی بھی قیمت پر ان کی توہین ہوتے ،انہیں طعنوں کا نشانہ بنتے ،ان پر جملے اچھلتے ،نہیں دیکھ سکتا اس کے باوجود کہ انہوں نے کچھ غلط ہی کیوں نہ کر دیا ہو!آقاﷺ نے اُنہیں ’’نازک آبگینے ‘‘قرار دیا تھا ،اِن سے نرمی کا معاملہ کرنے کا حکم دِیا تھا ،آقا ﷺ ان کی آخری پناہ گاہ بنے رہے تھے ،ان کو ہمیشہ پیار سے رکھا ،انہیں چادریں ْاڑھائیں ،ان کے لئے چادریں بچھائیں، ان کو اونٹ اوربکریاں ،غلام اور لونڈیاں دے کر رخصت کیا ،سفر سے لوٹے تو صحرا کی تھکن اتارنے سے پہلے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا ،ان کے آنسو پونچھے ،انہیں عزت دی ،توجہ دی ،خیال رکھا۔کوئی آقا کا امتی نہ جانے کس دل سے ان کے توہین آمیز خاکے بناتا ہے؟ گندے گندے جملہ تخلیق کرتا ہے، لطیفے گھڑتا ہے ،چسکے لے لے کر انہیں شئیر کرتا ہے ،آگے بڑھاتا ہے ،مرچ مصالحے لگاتا ہے۔کیسے ؟ آخر کیسے ہم سب ایسا کر لیتے ہیں ؟ محض اس لئے کہ اس سے سیاسی اختلاف ہے؟ اس لئے کہ اس نے کچھ غلط کہہ یا کر دیا ہے؟ ممکن ہو تو معاف کر دو درگزر کر دو کچھ منہ یا کی بورڈ سے نکلنے لگے تو لمحہ بھر کو سوچ لو کہ ایسی ایک کہیں تمہارے گھر بھی موجود ہیں۔ بہن کی صورت ۔بیٹی کی صورت۔بیوی کی صورت۔ماں کی صورت۔ پلیززز‘‘۔ اسی تناظر میں ہم نے بھی صرف مقبول ہونے والی سیاسی ٹوئیٹس کا انتخاب کیا ہے ۔جن میں ’’پیرنی سے زیادہ پکا کام تو مریم صفدر کا لگتا ہے۔باپ نااہل۔ امی بیمار۔ شوہر بیکار۔ دونوں بھائی فرار۔اب ہے موقع شاندار‘‘ ۔’’کل تک مسلم لیگ ن والے پیرنی بھابھی کا مذاق اڑاتے رہے لگتا ہے اب انہیں بھی پیر پیرنی اور دم درود کی ضرورت پیش آگئی ہے۔‘‘اسی طرح ایک اور ’’کرکٹ کھلینے گیا تو گوری لے آیا…انٹرویو دینے گیا تو اینکر لے آیا …دَم کروانے گیا تو پیرنی لے آیا…خان صاحب! رایئونڈ دا وی پھیرا پاؤ ‘‘ ۔ جہاں ایک جانب یہ اسٹائل تھا تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ضمنی الیکشن میں ہونے والی کامیابیوں کو عوامی فیصلے سے جوڑا جاتا رہا ،جس کے جواب میں عوام اشارہ دیتی رہی کہ۔’’اُن سب کے نام جو عدالتی فیصلوں کے مقابلے میں عوامی فیصلوں کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عوام تو ممتاز قادری کو ہیرو، مشال خان کو گستاخ رسول، ملالہ کو مغربی ایجنٹ اور عاصمہ جہانگیر کو جہنمی قرار دیتے ہیں۔پھر عوام کے یہ فیصلے بھی قبول کر لیں؟‘‘آمنہ الیاس اپنی ٹوئیٹ میں لکھتی ہیں کہ ’’تمام سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر نواز شریف اپنا فیصلہ سپریم کورٹ کے بجائے عوام کی عدالت سے کروانا چاہتا ہے تو یہ عوام اس سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ او لوہار!ممتاز قادری کا فیصلہ کیوں عوام کی عدالت سے نہیں کروایا؟۔معاملہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جس طرح سے تحریک انصاف نے اپنا کنٹرول جما رکھا ہے ، مسلم لیگ (ن) خصوصاً مریم نواز نے بھی اس ضمن میں بڑے بڑے عوامی جلسوں کو سوشل میڈیا کنونشن کے عنوان سے کرتی رہی ہیں ۔اس کے باوجود آج ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں پبلک سپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان موجود رہا ۔اسی طرح ’’کیلیبری ‘‘ (لکھائی کا کمپیوٹر فونٹ ) کی بھی ٹوئٹر ٹرینڈ میں موجودگی ، مریم نواز شریف کے اپنے بھائی سے کیے گئے ’معاہدے ‘کی سچائی پر سوالات اٹھاتی رہی۔ایسی صورتحال میںجب بڑے بڑے سوشل میڈیا کنونشن بلکہ سوشل میڈیا جلسہ عام منعقد کیے جا رہے ہوں ، سوشل میڈیا پر اتنی کمزور گرفت سمجھ میں نہیں آتی ۔خود مریم نواز شریف کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ کا حال یہ ہے کہ وہ کسی فیک اکاؤنٹ کی بنائی گئی اس ٹوئیٹ کو ری ٹوئیٹ کر رہی ہیں ۔’’جس طرح کے کیس چل رہے ہیں اور جس طرح کے گواہ آ رہے ہیں اس سے ظاھر یہ ہو رہاہے کہ نوازشریف کے خلاف سب کچھ خود ساختہ تھا اور اس کے باوجود اقامہ میں تنخوہ نہ لینے پر فیصلہ آنا اور اسے 62/63 کی چھتری تلے لا کر نوازشریف کو فارغ کرنا مزید واضح کرتا ھے کہ فیصلہ کہاں لکھا گیا‘‘۔
یہ تو تھی مقامی منظر نامے کی ایک جھلک ، اب ذرا گذشتہ ہفتہ کے ایک تذکرے کو آگے بڑھاتے ہیں جس میں افریقی نژاد امریکی خاتون کے ہیش ٹیگ mosquemetooکے ذریعہ حج جیسی مقدس عبادت کے دوران ایک ایسا موضوع اٹھایا گیا جس کا کوئی ذکر پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے دین نے عورت کو سفر میں محرم کے ساتھ رکھنے کی سخت ترین تاکید کی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس جگہ چالیس لاکھ لوگ شریک ہوں وہاں اس طرح کے گنتی کے واقعات کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد یا اس سے ملتی جلتی تعداد میں ہونے والے مذہبی یا غیر مذہبی اجتماعات میں کیا کچھ ہو جاتا ہے اور کتنی بڑی تعداد میں ہوتا ہے ۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت موضوع بنایا گیا۔جیسا کہ ہم سنتے آرہے ہیںکہ الحاد ، کے طریقہ واردات میں اللہ اور مذہب سے جڑی تمام مقدس چیزوں کو بے وقعت او ر ایک عام سی چیز محسوس کروا کر اُن کا تقدس اور مقام ختم کرانا مقصود ہے ۔یہی کام اللہ کی کتاب کے حوالے سے جاری رہا، یہی کام کبھی ناموس رسالت ﷺ کی توہین کی کوشش کی صورت جاری رہا، کبھی نماز،کبھی پردہ، جہاد کو تو ایسا کر دیا کہ نام لینا ہی جرم بن چکا ہے ۔اسی کوشش کے تناظر میں لگتا ہے کہ اب خانہ کعبہ کی تقدیس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ چل رہا ہے ۔سورۃ الفیل کا سبق بھلا دینے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ سکتی ۔ہو سکتا ہے کہ میرا تجزیہ غلط ہو ،مگر اسی ہفتہ دوسرا ایشو کا وائرل ہوجانا میرے کان کھڑے کر گیا۔سوشل میڈیا پر اس ہفتہ ایک انتہائی مبہم سی دور سے کھینچی گئی تصویر وائرل ہوئی جس میں یہ کیپشن لگایا گیا تھا کہ ’’ مکہ کے اندر برقع پوش خواتین سیکوئینس گیم کھیل رہی ہیں‘‘، اس کے علاوہ گلف نیوز، اوکاز ، انڈین ایسکپریس سمیت جو عالمی ابلاغی اداروں نے اس واقعہ کو جو سرخیاں دیں وہ بھی انتہائی خطرناک ہی قرار دی جا سکتی ہیں۔Burqa-clad women playing board game at Mecca mosque spark controversy
Photo of four women in hijab playing board games at Khana-e-Kaaba has gone viral
خبر کی تفصیل خود یہ بتا رہی تھی کہ مسجد الحرام میں رات11بجے کے قریب ، شاہ عبد العزیز گیٹ کے قریب چار برقع پوش خواتین کوئی بورڈ گیم کھیل رہی تھیں ، جس پر مقامی انتظامیہ نے جب اُنہیں منع کیا تو وہ اُسے بند کر کے واپس عمرہ کی ادائیگی میں مصروف ہو گئیں اس معمولی سے واقعہ کو سوشل میڈیا پر دانستہ یا نا دانستہ طور پر وائرل کرنے سے کیامقاصد حاصل کیے گئے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔خبر کی تفصیل خود چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ کوئی خبر سرے سے ہے ہی نہیں ، لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی دلیل پر اسے جگہ دی گئی ۔ٹوئٹر پر اس موضوع کو لے کر کیا شرارتیں جاری رہیں ،ذرا ایک نظر یہ بھی دیکھ لیں۔
No blasphemy charges for Saudi women but Christians in Pakistan suffer attack on false blasphemy charge
ایک اور اہم بات جو بہت واضح طور پر محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ زیادہ ایک تو یہ موضوع بھارتی( ہندو) حضرات کی جانب سے سب سے زیادہ شیئر ہوتا رہا ۔بہرحال جس نقطہ نظر سے میں دیکھ رہا ہوں وہ یہی بتاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے منصوبہ بند اقدامات اور اسلام کے خلاف تمام الحادی و کفریہ قوتوں کے اتحاد سے ایسی ہی چیزوں کے نمودار ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔

حصہ