مارچ سے پہلے مارچ

203

زاہد عباس
ویسے تو ہر سال ہی مارچ کا مہینہ آتا ہے، لیکن اِس مرتبہ ہمارے ملک میں مارچ آنے سے قبل ہی مارچ مارچ ہونے لگا ہے۔ کسی کی پیشین گوئی ہے کہ موجودہ حکومت مارچ آنے سے قبل ہی گھر چلی جائے گی، تو کوئی مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کے التواء کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہے، کوئی مارچ کے پہلے دو ہفتے سیاسی طور پر انتہائی اہم بتا رہا ہے، تو کسی کو ملک میں نئے سیاسی و انتظامی سیٹ اَپ کی نوید سنائی دے رہی ہے… اور تو اور چور دروازے سے حکومت میں آنے والے اس آس پر اپنی شیروانیاں تیار کیے بیٹھے ہیں کہ مارچ میں ضرور کوئک مارچ ہوگا۔ اس مرتبہ ماہِ مارچ آنے سے قبل ملکی سیاسی عدم استحکام بتارہا ہے کہ آنے والا مہینہ کوئی نہ کوئی گل ضرورکھلائے گا۔
جو بھی ہو، ان سیاسی چال بازوں سے ہمیں کیا لینا دینا! ہمارے گھر بھی مارچ آرہا ہے لیکن مختلف انداز میں۔ کل رات میری بھانجی میرے گھر آئی، کہنے لگی ’’ماموں اِس مرتبہ 23 مارچ پر کالج میں کی جانے والی تقریر کا عنوان ’’23 مارچ اور آج کا پاکستان‘‘ ہے، میں نے اس سلسلے میں جو تقریر لکھی ہے، آپ سن لیں: میرے عزیز ہم وطنو!‘‘
میں نے فوراً ہی روکتے ہوئے کہا ’’عزیز ہم وطنو، ہٹا دو، یہ آواز اچھا شگون نہیں… کچھ اور کہو۔‘‘
بولی ’’بھائیو، بہنو، اور ساتھیو‘‘۔
’’بیٹا لیڈر نہ بنو، طالب علم بنو، صدرِ مجلس سے مخاطب ہوکر سناؤ۔‘‘
میرے بار بار ٹوکنے پر تلملاتے ہوئے کہنے لگی ’’جو لکھا ہے وہ سن لیں: آج ہمارا وطن دو حصوں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک وہ جو اس ملک کی دس فیصد اشرافیہ کا پاکستان ہے، جہاں اشرافیہ کو ہر طرح کے حقوق، ریاستی تحفظ اور زندگی کی آسائشیں میسر ہیں، یعنی جہاں مال داروں کی الگ کلاس ہے، وہ جب اور جہاں سے بھی چاہیں مفادات حاصل کرتے رہیں… اپنا ملک تو ایک طرف، لوٹی ہوئی دولت کے بل پر ساری دنیا میں جائدادیں بناکر غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان کے رہنما اور خیر خواہ ٹھیریں، جہاں ان سے پوچھنا تو درکنار کوئی آواز تک نہ اٹھے… ساری زندگی خودساختہ جلا وطنی اختیار کرکے اپنی باری کے لالچ میں پاکستان سے محبت اور دل میں عوام کا درد لیے واپس آکر عوام پر مسلط ہوجائیں… جن کی اولادوں کو نہ صرف اُن کے پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی سہولیات میسر ہوں بلکہ دنیاکے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں قائم تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بھی پورے مواقع ہوں… علاج معالجے کی غرض سے جہاں کے مکینوں کے لیے جدید اسپتالوں کا انتخاب کیا جائے… جن کے پروٹوکول کی گاڑیاں پیدل چلنے والوں کو کچلتی پھریں اور قاتل معصوموں کی جان لے کر دولت کے نشے میں بدمست وکٹری کے نشان بناکر قانون کی ہنسی اڑاتے رہیں! میرے ساتھیو! دوسرا وہ پاکستان ہے جس کے 90 فیصد عوام پچھلی سات دہائیوں سے مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں… جہاں کے بے کلاس عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں… بدامنی، دہشت گردی، بے روزگاری جن کا مقدر ہو… جہاں صحت وتعلیم کی سہولیات تو کجا، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کو اپنے گردے تک فروخت کرنے پڑتے ہوں… جہاں کچرا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں لوگوں کا نصیب بنا دی جائیں… جہاں کی گلیاں سیوریج کے گندے پانی کی وجہ سے گندے نالوں کا منظر پیش کرتی ہوں… جہاں بجلی برائے نام آتی ہو… جس کے نااہل اور خود مسائل زدہ ادارے مسیحائی کے دعوے دار ہوں… جہاں دورانِ سروس انتقال کرجانے والوں کی بیوائوں کو اپنے حق کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہوں… جہاں افسر شاہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدے اٹھاتی ہو… شاید یہی وہ پاکستان ہے جہاں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ غریب عوام اور حکومت کے درمیان نہ صرف بداعتمادی کی فضا موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہم یہی کچھ پچھلے ستّر سال سے ہوتا دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ میرے ساتھیو! بہت ہوچکا اس ملک کے ساتھ۔ سنو، اب وقت آگیا ہے کہ اس خلیج کو ختم کیا جائے اور محض اشرافیہ کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے 90 فیصد عوام کو ملکی وسائل میں شراکت و ملکیت کا حامل قرار دیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جہاں عوام کے بنیادی آدرش ادھورے رہیں، اپنے مستقبل سے محروم ہوجاتی ہیں۔ یہ المیہ تباہی اور شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ موجودہ مسائل کے تناظر میں ہمارے لیے اہم ترین اقدام قومی سطح پر ایک ایسے عملی بیانیے کی تشکیل و تعمیل ہے جو ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کردے۔ صرف عملی اقدامات کے ذریعے ہی ہم اُن اہداف کا حصول یقینی بنا سکتے ہیں جو قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران بانیانِ پاکستان کے پیش نظر تھے۔ آج دہشت گردی، انتہاپسندی، علاقائیت، طبقاتی تفریق اور فرقہ وارانہ اندازِ فکر ہمیں تصورِ پاکستان سے دور لے جا رہا ہے۔ یہ سارے مسائل صرف اس لیے پیدا ہوئے کہ ہم نے اس قومی اندازِ فکر، جس میں انسانی اقدار اور قومی بہبود شامل ہے، کو کبھی اہمیت نہیں دی، جس کے سبب ہم قومی سطح پر فکری کم مائیگی اور اس قومی افلاس کا شکار ہیں جو ہماری قومی سالمیت کی منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کوئی بھی ایسا وژن جس میں واضح قومی اہداف کے حصول کا یقینی اور مؤثر لائحہ عمل موجود نہ ہو، اور جو جدوجہد سے خالی ہو، کبھی بھی زوال پذیری کے اثرات کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ عوام کا اپنے قومی وجود پر اعتماد اسی صورت میں بحال ہوسکتا ہے جب انہیں اس امر کا یقین ہو کہ ریاست ان کے مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی سکت رکھتی ہے۔ یہاں سب کے لیے برابر کے مواقع موجود ہیں اور کسی قسم کی بھی طبقاتی تفریق نہیں… اور قانون کا منصفانہ نفاذ انہیں ہر طرح کے ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کررہا ہے۔ اس سے ہی معاشرے میں عوام کا فعال اور ذمہ دارانہ کردار بحال ہوتا ہے۔ ایک جمہوری اور پُرامن معاشرے کا قیام جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کو بھی ہر طرح کی مذہبی آزادی اور مکمل تحفظ حاصل ہو، ہماری منزل ہے۔
عوامی خدمات ہر میدان میں چاہے وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا گورننس، بجلی اور صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یا جو بھی شعبہ زندگی… ان سب میں بنیادی محرک عوام کی خدمت کا جذبہ ہی ہے۔ اس جذبۂ خدمت کی اساس قائداعظم کا وہ فرمان ہے جو 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے ان کے تاریخی خطبے کا حصہ ہے۔ قائداعظم نے فرمایا:
’’اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی بہبود اور فلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ آپ میں سے ہر ایک بلا تفریقِ رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی تقسیم کے اس ملک کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے‘‘۔ بابائے قوم کے فرمان کی روشنی میں
آیئے میرے ساتھ مل کر آنے والے 23مارچ پر ہم یہ عزم کریں کہ پاکستان سے نفرتوں، اقربا پروری اور طبقاتی تفریق کو اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، تاکہ ہمارے اجداد کا وہ خواب جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا، کو حقیقت مل سکے۔
ملک سے محبت کی خاطر جو بھی میرے دل میں تھا کہہ ڈالا۔ مجھے یقین ہے کہ اربابِ اختیار میری گزارشات پر ضرور دھیان دیں گے۔ میں یہ بھی امید رکھتی ہوں کہ میری آواز ہر اُس پاکستانی کی آواز بنے گی جسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اور ایک وقت ضرور ایسا آئے گا جب غریبوں و مظلوموں کی آہوں سے اٹھنے والے انقلاب سے ملک میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہوجائے گا۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد۔‘‘
مجھے بھانجی کی زوردار تقریر نے حیرت زدہ کردیا۔ اُس کی تحریر اتنی جان دار تھی کہ میرے نزدیک اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں خاصی دیر اُس کے چہرے کی جانب دیکھتا رہا، نہ جانے کون سی کتابیں یا اخبارات پڑھ کر لکھی جانے والی یہ ایک مکمل تقریر تھی۔ یہ میرا ذاتی خیال تھا، لیکن اُس کے جذباتی لب و لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ واقعی تقریر اسی کی شب و روز کی محنت کا نتیجہ ہے۔ مجھے بہت خوشی ہورہی تھی، خاص کر اُس کی ملک سے محبت کو دیکھ کر میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔
سہمی سہمی اور خاموش طبیعت رکھنے والی بھانجی کا یہ انداز میرے لیے حیران کن تھا۔ مجھے اُس کے اندر اُس پاکستانی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اُس کی تقریر سن کر حوصلہ افزائی کی غرض سے میں نے اُسے پانچ سو روپے کا انعام دیتے ہوئے کامیابی کی دعائوں کے ساتھ اپنا یہ شعراس کی نظرکیا
علم و ہنر کی دولت سے تم اونچی اپنی شان کرو
علم کی شمعیں روشن کر کے روشن پاکستان کرو

حصہ