معروف شاعر اور تنقید نگار ، ڈاکٹر ضیا الحسن سے خصوصی گفتگو

1009

سیمان کی ڈائری
(دوسرا حصہ)
ادب اصل میں آدمی کو انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔لٹریچر وجود کی باطنی دنیا کو پیش کرتا ہے۔ایک طرح سے وہ دریافت کرتا ہے۔دنیا بھرکے انسان ثقافتی طور پر ایک مختلف مخلوق ہوتے ہیں لیکن وجودی طور پر تو ایک ہی ہیں۔خواہ وہ لکھتے ہوں ،بولتے ہوں ، پڑھتے ہوں۔یعنی انسانی سروپا ایک ہی ہیں۔ان کے وجود کی بنت بھی ایک جیسی ہے۔ ایک ہی طرح سے اْن کی آرزوؤیں ہیں ،تمنائیں ہیں،اْن کی حسرتیں ہیں،اْن کی پسندناپسند ،خوشیاں غم ،تکلیف، درد دکھ یہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔باہر کی دنیا کا ان کا تجربہ ایسا نہیں ہے جو ہماری رسائی سے باہر ہو۔cultural differenceکے باوجود جو اس کا انسانی تجربہ ہے وہ ہمارے لیے مشکل بات نہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔میں اپنے آپ کو درست نہیں سمجھتا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم ادبی طور پر عبوری دور میں ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم نہ اِدھر کے ہیں نہ اْدھر کے ہیں۔نہ ہم اپنے آپ کو شاعری میں دریافت کرپا رہے ہیں۔نہ ہم اپنے آپ کو فکشن میں دریافت کرپارہے ہیں۔شاید ابھی ہم سمجھ ہیں نہیں رہے کہ ہم کون ہیں۔کہاں کھڑے ہیں اور کس طرح کے انسان ہیں۔ہمیں دھیان کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔البتہ ہمارے ہاں افسانہ بہت بڑا لکھا گیا ہے۔دنیا کی ہزارہا زبانیں ہیں اور ان میں چند بڑی زبانیں ایسی ہیں جن میں بڑا ادب تخلیق ہوتا ہے۔کم از کم اردوں والوں کو یہ تسلی ہونی چاہیے کہ ان کے پاس چار پانچ دنیا کے عظیم شاعر بھی ہیں اور چار پانچ افسانہ نگار بھی ہیں۔ابھی ظاہر ہے ہمیں یہ تجربے پوری طرح بیان نہیں کرپا رہے لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہم اس تجربے کو بھی ڈھونڈلیں گے جو ہمیں بیان کر سکے گا۔
پچھلے پندرہ بیس برسوں میں اردو میں ناول کی ایک نئی تہذیب بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ان برسوں میں نئے ناول نگار اور نئے ناول سامنے آئے ہیں۔ یہ ناول نگار اور ناول پچھلوں سے مختلف ہیں۔ مختلف ہونا ایک ایسا اشارہ ہے جو یہ امید پیدا کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب اردو ناول کا نیااور زیادہ تخلیقی دور شروع ہوا ہے۔اگرچہ ابھی بھی اردو میں عالمی معیار کا کوئی ناول نہیں لکھا گیالیکن اب امکانات زیادہ روشن ہوئے ہیں۔ان برسوں میں حسن منظر، مرزا اطہر بیگ اور مستنصرحسین تارڑ نے متعدد قابل توجہ ناول لکھے ہیں۔ ان برسوں میں دنیا کے بہترین ناولوں کے ترجمے تواتر سے ہوئے ہیں۔ان تراجم نے بھی اردو ناول کی نئی تہذیب تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ناولوں نے عالمی مالیاتی کارپوریشنوں کی بنائی ہوئی اس نئی دنیا میں انسانی وجود کی پیچیدہ ساخت کو اپنا مرکز بنایاہے۔ اگرچہ اردو ناول میں برصغیر کے اس پیچیدہ انسانی باطن کو دریافت کرنے کا کام ابھی آغاز نہیں ہوا لیکن ہم عالمی ناول کے ترجموں کے ذریعے اپنے وجود سے کچھ نہ کچھ آشنا ضرور ہو جاتے ہیں۔ یہ ناول اردو ناول نگاروں کو اس راہ پر لانے کا کام کررہے ہیں کہ وجود کی دنیا تک رسائی کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے۔ہمارے ناول نگاروں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ثقافت بیان کرنے میں پوری صلاحیتیں صرف کردیتے ہیں اور اس ثقافت میں ظہور کرنے والے پیچیدہ انسانی باطن پر یا تو ان کی نگاہ جاتی نہیں اور اگر جاتی ہے تو اسے بیان کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ادب معاشرتی معیاروں پر تخلیق نہیں ہوتا بلکہ عموماً معاشرتی قدروں اور رویوں سے متصادم ہوتا ہے۔ اس تصادم میں معاشرتی عزت، شہرت ارو نیک نامی داؤ پر لگ سکتے ہیں جس کاخطرہ مول لینا کچھ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ خاص طور پریہ ادبی انعامات اور ایوارڈز کے دل دادہ ادیبوں کے بس کا کام نہیں ہے۔
بڑا کام کرنے کے لیے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرنا پڑتا ہے ۔ ہمارے ادیب مشاعروں، سیمیناروں اور ادبی میلوں کے لیے لکھتے ہیں۔اتنے ہجوم کے درمیان جتنا اچھا ادب تخلیق ہو سکتا ہے ، ہم کررہے ہیں۔ لیکن ناول زیادہ گوشہ گیری اور ارتکاز کا متقاضی ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ادب میں شاعروں نے جتنا بہترطور پر انسان کو پیش کیا ہے، ویسا ناول میں ممکن نہیں ہو سکا۔ ناول سے زیادہ تو ہمارے افسانہ نگاروں نے انسانی وجود کو دریافت کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ منٹو سے اسد محمد خان تک ہمیں ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ منٹو،بیدی، انتظار حسین، نیئرمسعود اور اسد محمد خان کم ازکم پانچ افسانہ نگار تو ہمیں ایسے مل ہی جاتے ہیں جنھوں نے خارجی دباؤ کو قبول نہیں نہ کرتے ہوئے انسانی وجود کو سچائی سے پیش کیا ہے اور ہر طرح کا الزام اٹھانے سے گریز نہیں کیا ۔ ہمارے یہی افسانہ نگار جو موجود ہ سیاسی، سماجی اور مذہبی نظام سے مبازرت طلب ہوئے ہیں اور مناقفتوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ اردو زبان میں عظیم شاعری اور عظیم افسانہ تخلیق ہوا ہے۔ جو اس زبان کو تخلیقی امکانات کی خیر دیتا ہے۔ ہم جس دنیا میں ہیں اس دنیا میں انسانی وجود پہلے سے زیادہ پیچیدگی اختیار کرگیا ہے۔ اس پیچیدہ انسانی وجود کو اب شاعری اور افسانہ اس طرح سے دریافت نہیں کرپا رہا۔ اس کے لیے ہمیں ناول کے تجربے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ناول نگار اس عظیم اسلوب کی جستجو میں ہیں جو اس وجود کو دریافت کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ راکھ،بہاؤ،غلام باغ،حسن کی صورت حال، کئی چاند تھے سر آسماں،اس اسلوب کی تلاش میں حاصل ہوئے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے کچھ اور ناول سمجھنے کے لیے کافی ہیںکہ اب ہمارے ناول نگار اس رستے پر ہیں جو منزل کی طرف جانے والا ہے۔ ہمارے ناول نگاروں کے سامنے ہماری سماجی زندگی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس معاشرے میں ناول نگاروں کو کھل کر اظہار کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ انسانی وجود معاشرتی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور جس معاشرے پر جتنی پابندیاں زیادہ ہوں، وہاں نفسیاتی عوارض اور وجودی جرائم کی شرح اتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے اور چھوٹی بچیوں کے ریپ، خود کش حملوں، فرقہ وارانہ قتل اور عدم برداشت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گھٹے ہوئے انسان کس طرح کے رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ہمارے ناول نگار کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوہستو فسکی کی طرح لکھے ۔ہم اپنے مذہبی اکابرین کے بارے میں ویسا اظہار نہیں کر سکتے جیسے مغربی ناول میں نظر آتا ہے۔ مذہبی تشکیک قابل گردن زنی جرم ہے اور اس سے ارتداد کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ناول نگاروں میں وہ جرأت بھی فی الحال مفقود نظر آتی ہے۔ اور تو اور ہم نظریۂ پاکستان یا کچھ ریاستی اداروں کے حوالے سے بھی کھل کر اظہار نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہماری سیاست، عدالت اور ریاستی اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ہمارے وجود پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے اور ہمیں کیا بتا رہا ہے اس کا بیان بھی معتوبیت کے لیے کافی ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے وجود کو ویسا دکھا سکیں جیسا وہ ہے۔ ایسے معاشروں میں تخلیقی تجربہ اظہار کیسے پا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں وجودی کشمکش کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا اور جسے غالب نے ’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘ کی صورت بیان کیا۔ آج ہمارے لیے بیان کرنا ممکن نہیں رہا۔ اٹھارہویں صدی میں پیدا ہونے والی یہ کشمکش اب اپنے عروج پر ہے لیکن اسے بیان کرنے کے لیے نہ اقبال اور نہ راشد جیسے شاعر ہیں اور نہ منٹو جیسا افسانہ نگار۔ اب یہ شاید شاعری یا افسانے سے زیادہ گہرائی اور گیرائی کے متقاضی ہے جو ناول میں ہی ممکن ہے۔
اردو میں بیسویں صدی تک اپنے عہد کی زندگی اور انسان کو اس کی آرزوؤں، تمناؤں، حسرتوں، مصیبتوں اور مسائل کے ساتھ شاعری اور افسانہ پیش کرت رہے ہیں۔ ہر دور میں چند اعلٰی درجے کے شاعر تخلیقی تجربے کے ذریعے حیات و کائنات کا سراغ لگانے کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان میں کبھی کبھی وہ عظیم شاعر بھی ظہور کرتاہے جو زندگی کو اس کلیت میں دیکھنے اور بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اردو زبان کی خوش قسمتی کہ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور راشدؔ جیسے شاعرتسلسل سے ہمارے معاشرے کو بیان کرتے رہے ہیں۔ اقبال نے سرمایادری نظام میں جکڑے ہوئے انسانی باطن کو دیکھا، سمجھا اور بیان کیا۔ اس کا خیال تھا کہ خودی کی بیداری سے انسانی وجود ان جکڑ بندیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے، جو نظام کی زایدہ ہیں۔ خودی انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری ہے جو نیا علم پیدا کرتی ہے۔ راشد کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے کہ ہم غیر تخلیقی ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے تباہ حال ہیں۔ اس کی معروف نظموں ’ ہم کہ عشاق نہیں‘’ اسرافیل کی موت‘’حسن کوزہ گر‘’اندھا کباڑی‘’سفرنامہ‘ میں اسی انسان کو پیش کیا گیا ہے جو راشد کے بہ قول منفی زیادہ اور انسان کم ہیں۔ ان کی نظم ’بوئے آدم زاد‘ میں دنیا کو ایک جنگل کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جس میں دیوؤں کی حکمرانی ہے۔ اس غیر انسانی دنیا میں راشد اس انسان کی آرزو کرتا ہے جس کی موجودگی سے دیو ابترحال ہو جاتے ہیں۔ یہ دیو وہ استعماری طاقتیں ہیں جنھوں نے اس غیر انسانی دنیا کو تشکیل دیا ہ جس میں آدم زاد اپنی خُو بو کھو چکا ہے۔ ایسے میں راشد کا تخلیقی انسان جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کی بو سے دیو ابترحال ہو جاتے ہیں۔ اسرافیل کی موت میں اعلیٰ انسانی قدریں اور تخلیقی علم کی آرزو ختم ہو چکے ہیں۔ ’تعارف‘ میں بتاتا ہے کہ اب بندگانِ زمانہ اور بندگانِ دام کا دور ہے ۔ وہ ان سرمایہ داروں کو نو تونگر گدا کہتا ہے جو دنیا کے اسی فی صد وسائل پر قابض ہیں۔
راشد کے بعد آپ کو بتانے والا کوئی نہیں ہے۔فیض صاحب محدود ہوگئے ایک خاص آئیڈیالوجی میں۔شاعر کسی بھی آئیڈیالوجی،کسی بھی جماعت یا کسی بھی نظریے تک محدود نہیں ہوتا۔نظریہ اس کے اندر ہو سکتا ہے وہ نظریے کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ یعنی bynature وہchemonist بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ کمیونیزم کے مطابق تخلیق نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اس کے مطابق تخلیق کرے گا تو وہی ہوگا جو روس میں ہوا تھا۔ہمارے ہاں ترقی پسندوں نے بھی یہی کیا۔ سمجھا نہیں بات کوکہ نظریے کو impose نہیں کریں گے تو ادب تخلیق نہیں ہوگا۔
اقبال ایک نظریاتی شاعر ہے۔اس کا نظریہ کسی نے impose نہیں کیا تھا۔ یہ اس نے خودبنایا تھا۔ اس لیے وہ نظریاتی شاعری کرسکا۔ہماری ساری کلاسیکی شاعری تصوف کے نظریے سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ نظریہ بھی کسی نے کسی پر imposeنہیں کیا۔زیادہ سے زیادہ ہمیں دردؔ کے ہاں imposed نظر آتا ہے کیونکہ وہ صوفی بزرگ شاعرتھے۔دردؔ تصوف کے چھوٹے شاعر ہیں اور میرؔ تصوف کے بہت بڑے شاعر ہیں۔صوفیانہ شعری تجربہ میرؔ کا دردؔ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ دنیا کی تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی قوتیں ان کی زرخرید غلام ہیں اور اس نظام کی ترویج کے لیے سرگرم عمل ہیں جو انسان کو منفی زیادہ اور انسان کم بنانے والی ہیں۔ اب مقامی اور بین الاقوامی طور پر انسان اور معاشروں کے بارے میں وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوں گے۔ وہ ایسے ادارے بناتے ہیں جو ادیب کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خاص طرح کا ادب تخلیق کریں۔ ایسا ادب جو انسانی جوہر کو سلب کرے اور ایسا معاشرہ تشکیل دے جو سرمایہ داری نظام کے قیام کے لیے معاونت کرے۔ اس مقصد کے لیے فحاشی کے مقدمات،کافر قراردینے کے فتوے، غدار قرار دے کر ان کی کتابوں کو ضبط کرنے اور انھیں جیل میں ڈالنے کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد کو پروان چڑھانے والے ادیبوں کے لیے انعامات، تمغے، ایوارڈز، پلاٹ اور دیگر مراعات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں ادب کی تخلیق سے زیادہ دنیاوی فوائد کے حصول کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے اور ایسے ادیبوں سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ آزاد انسانی معاشرے کے خواب دلوں میں بونے والا ادب تخلیق کریں گے۔ ادب کے لیے نظریہ اتنا ضرر رساں نہیں جتنا ادیب کو کسی خاص نظریے یا نقطۂ نظر کے مطابق ادب تخلیق کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ ادیبوں کی اکثریت یہ نظریہ یا نقطۂ نظر اختیار کر ک ترقی پسند ادب، اسلامی ادب، جدید ادیب کرتے رہتے ہیں اور منٹو، راشد، میرا جی، مجید امجد ، انتظار حسین اور نیئر مسعود نظم یا افسانہ تخلیق کرتے ہیں۔
اب ہم چلتے چلتے اکیسویں صدی میں داخل ہو گئے ہیں لیکن ہمارے پاس نہ اقبال ہیںاور نہ راشد ہیں۔ نہ انتظار حسین اور نئیر مسعود ہیں اور ہم پہلے سے بھی منفی زیادہ اور انسان کم ہو گئے ہیں۔ اب ہم زندگی کو نہیں گزارتے بلکہ زندگی ہمیں گزارتی ہے۔ ہم سوچتے اشتہاروں کے ذریعے ہیں۔ عمل اشتہاروں کے مطابق ہیں۔ حتٰی کہ سانس بھی ان کی مرضی کے مطابق لیتے ہیں۔ انھوں نے ہمارا پانی،ہماری ہوا، ہماری آرزو سب کچھ اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہم وہی کچھ سوچتے ہیں اور کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ اب ہمیں کسی بڑے شاعر، افسانہ نگار یاناول نگار کی ضرورت ہے جو ہمیں بتاسکے کہ ہم کون ہیں؟ کیا کررہے ہیں اور کیسے اس طلسم سے آزاد ہوں گے۔ (جاری ہے)

حصہ