اغوا برائے تاوان

469

قدسیہ ملک
پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ نو فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے، جہاں 1038 لوگوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر، 1613 لوگوں کے لیے ہسپتال کا ایک بستر، اور 11513 افراد کے لیے دانتوں کا ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جو انتہائی ناکافی ہے۔ پاکستان پیدائش کے دوران بچوں کی اموات میں دنیا کے ممالک میں اوّلین نمبروں پر آتا ہے۔ ملک میں پانچ کروڑ لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جن کے لیے ملک کے طول و عرض میں پانچ نفسیاتی ہسپتالوں میں صرف 320 ماہرِ نفسیات دستیاب ہیں۔ وائس آف امریکا کے مطابق گھریلو ناچاقیاں، معاشرتی ناہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسیاں وہ عناصر ہیں جو پاکستان میں نوجوانوں کو ذہنی الجھنوں کا شکار بنا رہے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ ملک میں دماغی امراض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال صوبہ سندھ سے 767 بچے لاپتا یا اغوا ہوئے، جن میں سے 722کو تلاش کرلیا گیا ہے، جبکہ لاہور سے لاپتا ہونے والے 260 میں سے 207 بچے خود واپس آگئے، 29 کو بازیاب کرالیا گیا جبکہ 24 تاحال لاپتا ہیں۔ آن لائن ڈان نیوز میں ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت صوبے بھر میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے 7 اسٹیشنوں میں 167 لاوارث بچے موجود ہیں جن کے ورثاء کو تلاش کیا جارہا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 16-2015ء میں گمشدگی کے 2006 مقدمات درج کرائے گئے جن میں سے 1054 مقدمات واپس لے لیے گئے، جبکہ 1563 افراد کو حراست میں لیا گیا، 668 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا، 784 ضمانت پر رہا ہوگئے اور صرف 6 ملزمان کو سزائیں دی گئیں۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کا قیام انسانی معاشرے کی حقیقی اور بنیادی ضرورت عورت کے حقوق اور مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے ذریعے پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کی ہمہ گیر جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے مختلف شعبہ جات ہیں جن میں لیگل ایڈ، سماجی مشاورت، جیل میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام، سماجی وفلاحی کام، تحفظِ ماحولیات کے شعبے اور تحقیقی مرکز شامل ہیں۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت جہاں نادار قیدیوں کی قانونی امداد کی جاتی ہے، وہیں خواتین کے حوالے سے اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جانے انجانے میں جو گناہ کرکے وہ جیل آگئی ہیں اور اپنے پیچھے معصوم بچوں کو چھوڑ آئی ہیں ان کی ہر ممکن معاشی اور تعلیمی امداد کی جائے۔ ان کے لیے راشن کا انتظام کیا جاتا ہے، ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے جاتے ہیں، ان کو ہر ممکن امداد دینے کی قانونی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ معصوم معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں، نہ کہ اپنے بڑوں کے ناکردہ گناہوں کا بوجھ لیے ساری زندگی کے لیے گناہوں کی دلدل میں دھکیل دیئے جائیں۔
یہاں جس سچے واقعے کا ذکرکیا جارہا ہے وہ بھی دو جوان خواتین کے ذہنی انتشار کو ظاہر کرتا ہے۔ مایوسیاں، معاشرتی ناہمواریاں، شارٹ کٹ اور ذہنی انتشار کس طرح ایک فرد کو گناہ پر مجبور کردیتے ہیں۔ جیل میں ویمن ایڈ ٹرسٹ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز آئی جی جیل خانہ جات سندھ کی اجازت سے درسِ قرآن سے کیا، تاکہ گناہوں کا شکار ہوکر یہاں آنے والی خواتین درس میں آکر اپنے حقیقی معبود کو پہچان سکیں، اپنے مقصدِ زندگی سے روشناس ہوسکیں اورگناہوں سے بچ سکیں۔
یہ دو خواتین شازیہ اور آسیہ کا واقعہ ہے جو آپس میں خالہ بھانجی بھی تھیں۔ شازیہ جو آسیہ کی خالہ تھی، شہر کے معروف پوش علاقے میں کسی گھر میں ملازمہ تھی۔ اس کے دو بچے تھے۔ 7 سالہ بیٹا، اور 6 سال کی بیٹی جو خون کی بیماری کا شکار تھی۔ شوہر کی محدود آمدنی اور اپنے دو بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر وہ ایک گھر میں بطور ملازمہ کام کررہی تھی۔ وہ صبح جاتی۔ مالکن کام پر چلی جاتی، اُس کا دو سالہ بچہ دیکھنا، اُس کی دیکھ بھال کرنا اور گھر کے دیگر امور کی نگرانی کرنا شازیہ کے کاموں میں شامل تھا۔
وہ آتے ہی گھر کی صفائی میں جت جاتی، بچے کا خیال رکھتی، وقت پر کھانے اور صفائی کا دھیان رکھتی۔ مالکن، شازیہ سے بہت خوش تھی۔ وہ اس کا ہر ممکن خیال رکھتی تاکہ شازیہ کام کرتی رہے۔ شازیہ کو بھی یہاں بہت آرام تھا، اس کے پہنچتے ہی مالک مالکن کام کے لیے نکل جاتے۔ مالکن کی طرف سے یہ چھوٹ بھی تھی کہ اپنے تمام کام مکمل کرکے 4 بجے تک تم گھر چلی جانا۔ شازیہ یہی کرتی۔ وہ تمام کام مکمل کرکے بچے کو کھانا کھلاکر سلادیتی، اور وقت پر اپنے گھر کے لیے روانہ ہوجاتی تھی، کیونکہ اسے اپنی بستی میں اندھیرا ہونے سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا، جہاں اس کے دو بچے اس کا انتظار کررہے ہوتے تھے۔ شازیہ مالکن کے گھر صبح جاکر سب سے پہلے ٹی وی کھولتی جہاں رات کے تمام پروگرامات نشر مکرر ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے۔ وہ انہیں بڑے شوق اور دلچسپی سے دیکھتی۔ یہ بڑے بڑے گھر، شاندار کوٹھیاں، نوکر چاکر، بنگلوں میں رہنے والوں کو ہر طرح کی آسائشیں… وہ ان سب کا ذکر اپنی سب سے اچھی دوست اور بھانجی آسیہ سے کرتی تھی۔ دونوں اس طرح کی باتیں کرکے مستقبل کے سہانے سپنوں میں کھو جاتیں۔ وہ ایسے تمام پروگرام پڑے شوق سے دیکھتی جن میں مجرموں کو سزا دی جاتی، چاہے وہ کوئی جرم کی داستان ہو یا پولیس کی کارکردگی کا ڈراما۔ ایسے ڈراموں میں فیصلہ بہت جلدی ہوجاتا، اس کے گھر جانے سے پہلے ڈرامے کا مکمل اختتام ہوجاتا۔ ایسے ڈرامے بڑے اچھے ہوتے تھے۔ مالکن کا بیٹا انس شازیہ سے بہت مانوس ہوگیا تھا۔ انس شازیہ ہی کے ہاتھوں کھانا کھاتا، اسی سے کھیلتا، اسی کی بات مانتا تھا۔ لیکن شازیہ کے دل میں ایک خلش تھی کہ کاش یہ تمام آسائشیں اس کے پاس بھی آجائیں۔
اس بے حس معاشرے نے جہاں امیروں کو ایک اسٹیٹس سمبل بنادیا ہے، وہیں غریبوں کو مایوسی و ناامیدی نے اچھے برے، حلال حرام کی تمیز سے نکال کر ہر جائز و ناجائز طریقے سے بس پیسہ کمانے اور امیروں کی سی زندگی، عالیشان زندگی کو ایک نمونہ بنادیا ہے۔ ٹی وی جو کسی زمانے میں لوگوں کو اچھی اور مثبت سوچ کی جانب گامزن کرنے کا ذریعہ تھا، اب صرف امیروں کا ترجمان بن کر غریبوں کی خواہشات اور ان کے افعال کو ملیامٹ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ امیر کا بچہ قتل بھی کردے تو وہ باعزت گھوم رہا ہوتا ہے، لیکن غریب کا بچہ روٹی چوری کرنے کے الزام میں تمام لوگوں کے جوتے بھی کھاتا ہے اور جیل میں بھی ڈلوا دیا جاتا ہے۔ یہ خلش شازیہ کو اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی جو ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔
شازیہ کی مالکن ان تمام حالات سے بے خبر تھی۔ اس دن بھی حسبِ معمول مالکن کام پر جانے سے پہلے شازیہ کو ضروری ہدایات دے رہی تھی۔ وہ انس کے متعلق خصوصی ہدایات دے رہی تھی کیونکہ اُسے دو دن سے بخار تھا۔ شازیہ نے مالکن کی بات اطمینان سے سنی۔ جب مالکن مطمئن ہوگئی تو آفس چلی گئی۔
شازیہ خاموشی سے اپنے کام نمٹانے لگی، ساتھ ساتھ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق بھی سوچ رہی تھی۔ اس نے پہلے گھر کے ضروری کام نمٹائے۔ جھاڑو، ڈسٹنگ اور کھانا پکانے سے فارغ ہوکر اُس نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنی سب سے اچھی دوست اور بھانجی آسیہ کو فون کیا اور اُسے گھر میں رہنے کی تاکید کرکے انس کو لے کر جلد از جلد وہاں سے نکل گئی۔ وہ جلدی سے آسیہ کے گھر پہنچی، بچہ اس کے حوالے کیا اور خود گھر آگئی۔
مالکن گھر آئی۔ بچے کو نہ پاکر فوراً شازیہ کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تو کام کرکے معمول کے مطابق گھر سے نکل گئی تھی۔ مالکن نے فوری طور پر پولیس کو فون کیا۔ انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ پوش علاقہ ہونے کے باعث پولیس فوراً حرکت میں آگئی۔ شازیہ کو اس کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کی تحویل میں آتے ہی شازیہ نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ ادھر محلے میں جو بھی آسیہ سے ملتا اور بچے کے متعلق پوچھتا تو وہ یہی کہتی کہ ایک خاتون نگرانی کے لیے چھوڑگئی ہے، دو دن بعد لے لے گی۔ پولیس نے شازیہ کی نشاندہی پر آسیہ کے گھر سے بچہ بازیاب کروا لیا۔ وہ دونوں اغوا برائے تاوان کی مرتکب ہوئی تھی۔
دونوں کو اس جرم کی پاداش میں سات سال جیل کی سزا ہوگئی، جس کے باعث شازیہ کے بچے بھی بے قصور ہونے کے باوجود اُس کے ساتھ جیل آگئے۔ جیل میں آکر وہ بھی ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت ہونے والے دروس اور مختلف پروگرامات میں حصہ لینے لگیں۔ دونوں اپنے فعل پر نادم تھیں۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ نے اُن سے حالات دریافت کیے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ نے شازیہ کے بچوں کے لیے عملی اقدامات کیے۔ بیٹے کو جامعہ ستاریہ میں داخل کروایا اور بیٹی جو انیمیا کا شکار تھی، اس کا مکمل علاج کروایا۔ شازیہ اپنی بچی کے لیے بہت پریشان تھی۔ چونکہ بیٹی چھوٹی تھی، اس کو ماں سے الگ نہیں رکھا جاسکتا تھا، اس لیے اسے ماں کے پاس رکھ کر ہی جیل میں طبی سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔ دونوں کی مستقل طور پر روحانی تربیت کی گئی۔ دروس کے ذریعے رب سے کھوئی ہوئی پہچان یاد دلوائی گئی۔ دونوں بہت شرمندہ تھیں۔ جیل میں سات سال گزارنے کے بعد بھی ’’ویٹ‘‘ نے ان کے عزیزوں کی کونسلنگ کی۔ ان کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ’’ویٹ‘‘ نے دونوں خاندانوں کے لیے راشن کا انتظام کیا، تاکہ وہ دونوں جیل کی زندگی کو بھول کو دوبارہ اسی انداز میں اپنا معاشی بوجھ اٹھا سکیں۔
اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی ہماہمی، چمک دمک اور رنگینیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں۔ نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطان کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور خود کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تو اس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں، اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسے کہ اُس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔ قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشاد باری ہے:
(ترجمہ) ’’بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے، اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘(بقرہ، آیت 222)
غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے۔ جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعد اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے، گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کا اعتراف کرلیا۔ اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیسا کہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھو جائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

حصہ