سبقت

446

حافظہ فاطمہ نعیم
تاریک رات میں تاروں کی مدھم روشنی نے دسمبر کی سرد راتوں کے حسن کو دوبالا کررکھا تھا۔ پُرسکون ماحول میں اس کے آنسو اس کے رخساروں پر بکھر رہے تھے۔ وہ جانتا تھا آج اس نے جس ہستی کے سامنے دامن پھیلایا ہے وہ اسے مایوس نہیں کرے گی۔ وہ دسمبر کی اس سردی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے رب سے محوِ گفتگو تھا:
’’اے میرے پروردگار! تجھے تیری رحمت کا واسطہ، تجھے تیری شان، تجھے تیرے جلال کا واسطہ، میرے پیارے رب ہماری مدد فرما، یاہادی ہمیں ہدایت کا نور عطا کر، ہمیں صراط مستقیم دکھا دے، اے مولا مجھے معاف فرما۔‘‘
………
25 دسمبر۔ آج ابوبکر کی زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ آج اس کے انتظار کے لمحات کو ہمیشہ کے لیے ختم ہونا تھا۔ آج صبح کا سورج اس کی امیدوں کا ثمر لے کر نکلا تھا۔ اس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا، جب وہ پہلی بار الیگزینڈرسے ملا تھا۔
شانوں تک بکھرے سنہری بال، گہری نیلی آنکھیں، سفیدو گلابی رنگت، معصوم سا چہرہ، جینز، شرٹ میں ملبوس الیگزینڈر اسے پہلی ہی نظر میں بہت اچھا لگا تھا۔
………
’’ایکسکیوز می ابوبکر!‘‘
میں نے پلٹ کر دیکھا۔
’’ہائے! میرا نام ’الیگزینڈر‘ ہے۔‘‘
’’السلام علیکم‘‘… میں مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ میرے جواب میں وہ ہلکا سا مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں حیرانی واضح تھی۔
’’مجھے آپ کے نوٹس مل سکتے ہیں؟‘‘ اس کا سوال مجھ سے تھا۔
’’جی ضرور‘‘! میں نے خوش دلی سے جواب دیا۔
’’تھینک یو! ورنہ میں بہت پریشان تھا‘‘۔
’’کوئی بات نہیں، یہ تو میرا فرض تھا‘‘۔
اتنے میں عمر نے مجھے آواز دی، جب کہ اگلے پیریڈ کی بیل بھی ہوچکی تھی۔ ’’ٹھیک ہے، اللہ حافظ‘‘۔ مجھے یہ افسوس ہوا کہ میرے ان الفاظ سے وہ مزید حیران ہوا ہے۔ مگر وقت کی قلت نے اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ میں اُس سے اُس کی حیرانی کی وجہ پوچھ سکتا۔
………
آج کالج سے آف تھا۔ لندن شہر میں ہمارا سنڈے بھی بہت مصروف گزرتا ہے۔ گھر کا ضروری سامان میں ہی سنڈے کو لاتا۔ ابھی مارکیٹ جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ امی نے بتایا ’’بیٹا! آپ کا دوست آپ سے ملنے آیا ہے‘‘۔ میں حیران تھا، کیونکہ عمر ہمیشہ آنے سے پہلے کال کیا کرتا تھا، یا کم از کم میسج پر بتا ہی دیتا۔ لیکن میری حیرت وقتی ثابت ہوئی۔ وہ الیگزینڈر تھا۔
’’ہیلو! کیسے ہو تم…؟‘‘
وہ خاصا ملنسار ثابت ہوا تھا۔ لیکن شاید مجھ سے ہی… کیونکہ میں نے اُسے کبھی بھی کالج میںکسی سے بات کرتے یا فرینک ہوتے نہیں پایا تھا۔
’’الحمدللہ… آپ کیسے ہیں‘‘۔ میں نے گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ اِس بار بھی وہ حیران ہوا اور شاید کچھ پریشان بھی، اور اس حیرانی میں وہ مجھے جواب دینا بھی بھول چکا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’نہیں کچھ نہیں‘‘۔ وہ مسکرایا۔ ’’وہ میں آپ کے نوٹس واپس کرنے آیا تھا‘‘۔ اُس نے نوٹس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور اچانک ہی جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔
’’وہ الیگزینڈر…!!!‘‘ اس سے پہلے کہ میں اسے چائے وغیرہ کے لیے روکتا، امی چائے لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ ’’بیٹا! آپ ایسے کیوں جارہے ہو؟‘‘ امی نے پیار بھرے لہجے میںالیگزینڈر کو مخاطب کیا۔ ’’یہ چائے پیو اور تھوڑی دیر ٹھیرو، کھانا کھا کر جانا۔‘‘
’’نہیں آنٹی! ابھی مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں بیٹا!آپ تو ہمارے مہمان ہیں، ہم آپ کو ایسے کیسے جانے دے سکتے ہیں!‘‘
’’او کے آنٹی‘‘۔ الیگزینڈر واپس بیٹھ چکا تھا۔
’’ابوبکر! میں تم سے کچھ پوچھوں؟‘‘
’’جی ضرور پوچھیے‘‘۔ میں اُس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’آپ لوگ، میرا مطلب تم اور عمر جب بھی کسی سے ملتے ہو، یا الگ ہوتے ہو تو یہ کیا الفاظ (السلام علیکم)کہتے ہو؟ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟‘‘ یہ بات پوچھتے ہوئے اُس کے لہجے میں ہچکچاہٹ واضح تھی۔
’’جی اس بات کی بہت بڑی وجہ ہے الیگزینڈر۔ ان الفاظ کے ذریعے ہم سامنے والے فرد کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں، اور یہ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے۔‘‘
’’آپ کا مذہب کیا ہے؟‘‘
’’ہمارا مذہب اسلام ہے اور ہم مسلمان ہیں۔‘‘
’’ابوبکر! اسلام اور کیا کیا سکھاتا ہے؟‘‘ اب وہ باقاعدہ مجھ سے سوال کررہا تھا۔
’’ہمارا مذہب ہماری زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے لیے ہمارے پروردگار نے ایک ’’کتاب‘‘ ہمیں دی ہے، جو آخری نبیؐ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اس میں اللہ عزوجل کا کلام ہے، جس میں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک ہے، اسی کی عبادت کرو۔ نماز قائم کرو۔ چوری نہ کرو۔ جھوٹ نہ بولو۔ کسی کو دھوکا نہ دو۔ زکوۃ ادا کرو۔ اور حج کرو وغیرہ وغیرہ۔ پھر جو یہ کام کرے گا اور اس کا حق ادا کرے گا، اللہ نے اُس کے لیے ایک شاندار انعام مقرر کررکھا ہے ۔ جب کہ وہ، جو اس کی خلاف ورزی اور اللہ کی نافرمانی کرے گا اسے اللہ سزا کے طور پر جہنم کا حق دار ٹھیرائیں گے۔‘‘
میں نے محسوس کیا کہ وہ میری باتیں بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا۔
’’السلام علیکم بیٹا! یہ کھانا کھا لیں۔‘‘
امی نے کھانے والی ٹرے ہماری طرف بڑھا دی۔
’’چلو الیگزینڈر آپ کھانا کھائو‘‘۔ میں نے الیگزینڈر کو دعوت دیتے ہوئے ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی۔ ’’تھینک یو‘‘ الیگزینڈر نے کھانا کھانا شروع کیا۔کچھ دیر بعد جب وہ کھانا کھا کر چلا گیا، تو خاصی دیر تک میں اُس کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔
………
اب ہمیں ملتے ہوئے ایک سال سے بھی زیادہ ہوگیا تھا۔ الیگزینڈر اب بھی مجھ سے بہت زیادہ سوال پوچھا کرتا تھا۔ اور میں اُس کی ہر بات کا جواب اچھے اور تفصیلی انداز میں دینے کی ہرممکن کوشش کرتا تھا۔ اور ہر مخلص انسان کی طرح میری بھی یہی کوشش ہوتی تھی کہ الیگزینڈر کے اندر جو یہ اسلام کی کونپل نکل رہی ہے وہ ایک پھول بن کر کھلے، اور اس کی خوشبو سے اُس کا دل اور اُس سے وابستہ ہر چیز معطر ہوجائے۔
………
آج وہ کالج میں مجھے کچھ پریشان سا لگ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی توجہ زیادہ دیر تک کلاس میں نہ رکھ سکا اور پیریڈکے دوران ہی کلاس سے اٹھ کر باہر لان میں آگیا۔ میں بھی اُس کے پیچھے لان میں چلا آیا۔
’’کیا ہوا الیگزینڈر؟… اگر کچھ مسئلہ ہے تو مجھ سے شیئرکرو، شاید میں تمہاری مدد کرسکوں‘‘۔
لیکن اسے دیکھ کر مجھے حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ رو رہا تھا۔
’’کیا ہوا میرے دوست؟‘‘
’’وہ میری ماما مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔‘‘
’’پر کیوں؟‘‘
’’میرے ڈیڈ سے اُن کا جھگڑا ہوا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اُس نے سر جھکا لیا… ’’ابوبکر! مجھے ایک لمحہ بھی سکون نہیں ملتا۔ میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ میری زندگی تم لوگوں کی طرح پُرسکون کیوں نہیں ہے؟ تمھارے گھر میں سب کس طرح ایک ساتھ رہتے ہیں، جب کہ میں…‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے بھی اُسے کچھ دیرتک رونے دیا تاکہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے۔ لیکن کچھ دیر بعد اُس نے وہ بات کہی جس نے میرے روئیں روئیں کو سرشار کردیا، مجھے یوں لگا کہ اس کائنات کی ہر چیز خوشی کے نغمے گا رہی ہے۔ ’’ابوبکر! میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ایک پُرسکون زندگی کی تلاش میں…‘‘
اُس کے اِس جملے نے مجھے لمحہ بھر میں دنیا کی دولت سے مالامال کردیا۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی محنتوں کا ایسا ثمر عطا کرے۔ میرا دل شکر کے جذبات سے لبریز تھا۔
’’لیکن ابوبکر! میں نے بہت گناہ کیے ہیں۔ میں نے ہر وہ کام کیا ہے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ تو کیا اللہ تعالیٰ مجھے پھر بھی معاف کردیں گے؟‘‘
’’تو کیا ہوا میرے دوست! اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ بندہ زمین و آسمان کے برابر بھی گناہ کرکے میرے پاس آئے اور سچے دل سے معافی مانگے تو بھی میں اُسے معاف کردیتا ہوں۔ وہ بہت کریم ہے الیگزینڈر، وہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘ وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’جی الیگزینڈر!‘‘
’’اچھا ابوبکر! جلدی کرو، اب میں مزید گناہ کی دلدل میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ مجھے بتائو مجھے اب کیا کرنا ہے۔‘‘
پھر میں نے اپنے سب سے بہترین دوست کو کلمہ طیبہ پڑھایا، اور اپنے ہاتھوں سے اُسے نور کے اُس ہالے میں داخل کروایا جس میں کوئی تنہا نہیں رہتا۔ جس میں کسی کو کسی مشکل کی پروا نہیں رہتی۔ اور ویسے بھی اُس کے گھر والوں کو اُس کے اسلام قبول کرنے سے کوئی غرض نہ تھی۔ سچ ہے۔ اللہ اپنی راہ پہ چلنے والوں کے لیے خود ہی آسانیاں پیدا فرما دیتے ہیں۔ الیگزینڈر کی خواہش کے مطابق میں نے اُس کا نام عبداللہ رکھا۔
………
عبداللہ کو آج اسلام قبول کیے دوسرا ہفتہ تھا۔ ان دنوں میں وہ مجھ سے نماز اور تھوڑا بہت قرآن پڑھنا بھی سیکھ چکا تھا، اور بڑی دلچسپی سے سارے کام کرتا تھا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ مطمئن تھا۔ جب مجھے وہ خبر سننے کو ملی جسے سن کر میں اپنے حواسوں میں نہیں رہا تھا، مجھے اپنی سماعت پر بالکل یقین نہیں آتا تھا۔ غم کی شدت نے میرے اندر کو تہس نہس کردیا تھا۔ رات ساڑھے تین بجے مجھے عمر کی کال آئی۔ اُس نے بتایا کہ عبداللہ مسجد سے واپسی پر روڈایکسیڈنٹ میں شہادت پا گیا ہے۔ میں جیسے تیسے اُس کے گھر پہنچا۔
لیکن وہاں اُس کا پُرنور چہرہ میرے دل کو مطمئن کرنے کے لیے کافی تھا۔ جس کے نصیب پر رشک آتا تھا۔ اس کی ماں بھی ادھر موجود تھی۔ اس نے فوت ہونے سے پہلے اپنی امی کو ایک میسج کیا تھا:
’’بسم اللہ۔ السلام علیکم پیاری ماما جان! میں اسلام قبول کرچکا ہوں اور میں دل سے مطمئن ہوں۔ میں نے اسلام کی اچھائی اور اس کی عظمت کو اپنی سوچ سے بڑھ کر پایا ہے، اور میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ چاہوں گا کہ آپ بھی نور کے اس ہالے کو اپنا لیں۔ یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والے منزلِ مراد سے ضرور ہمکنار ہوتے ہیں۔ اس کے اندر ماں کی ممتا جیسا پیار ہے… اور ماں کی ممتا کو ماں سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے!
اللہ حافظ ‘‘
آپ کا پیارا بیٹا عبداللہ‘‘
اور پھر جیسے ہی اُس کی وفات کی خبر اُس کی امی تک پہنچی تھی اور انہوں نے اُس کے پاکیزہ چہرے کو دیکھا تھا، وہ اسلام لا چکی تھیں۔ میں نے اور عمر نے عبداللہ کو غسل دیا اور اسے سپردِ خاک کیا۔
وہ واقعی بہت عظیم تھا۔ اس کی امی کے اسلام لانے کے واقعے نے اُس کے غم کو سہنے میں میری بڑی مدد کی تھی، اور میری سوچ کے انداز کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ اور شاید واقعی ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ’’السابقون‘‘ اور ’’مقربین‘‘ میں شامل فرماتے ہیں۔
اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے شعوری مسلمان ہونے پر تھوڑے عمل سے بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ لمحہ بھر میں اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر ہمیشہ کی جنت کو اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔

حصہ