ایک عورت کی کہانی، کچی بستی کے پکے ناسور

1446

افروز عنایت
میں:۔ ماسی آج دیر ہوگئی تمہیں آنے میں۔
ماسی:۔ ہاں جی، میاں پنجاب جارہا تھا، اس کو روٹی شوٹی بناکر دینے میں وقت لگ گیا۔
میں:۔ چلو شکر ہے تم نہیں گئیں، ورنہ…
ماسی:۔ میں کدھر جاتی باجی! کون سے وہاں میرے ابا اماں بیٹھے ہیں۔
میں:۔ ماں باپ، بہن بھائی سب کراچی میں ہی رہتے ہیں؟
ماسی:۔ نہیں جی… پتا نہیں، شاید مر کھپ بھی گئے ہوں (اداسی سے)۔
مجھے اُس کی بات سن کر بڑا تعجب ہوا، اسی لیے اسے کریدا… ’’کیا مطلب، تمہیں نہیں معلوم اُن کے بارے میں؟‘‘
ماسی:۔ مجھے کیسے معلوم باجی، اُس وقت میں بہت چھوٹی تھی جب… میرے ابا نے مجھے بیچ دیا تھا۔
میں:۔ بیچ دیا تھا…! کیا مطلب… کیوں؟
ماسی:۔ (کچھ سوچتے ہوئے) میرا تعلق بنگال کے کسی گائوں سے ہے، بس میں اپنے علاقے کے بارے میں اتنا ہی جانتی ہوں کہ وہاں غربت کی وجہ سے اکثر ماں باپ کو اولاد کو بیچنا پڑتا ہے۔ میرے ابا نے بھی میرے آٹھ بہن بھائیوں کو بھوک و افلاس سے بچانے کے لیے مجھے بیچ دیا۔ کسی ایک کی قربانی تو دینی ہی تھی۔ مگر اچھا ہوا پیٹ بھرنے کے لیے کھانا اور تن ڈھانپنے کے لیے لٹا (کپڑا) تو مل جاتا ہے۔
میں:۔ پھر… پھر تم یہاں کیسے پہنچیں؟
ماسی:۔ خریدنے والے نے یہاں چاچا فضلو کے ہاتھ مجھے بیچ دیا۔ چاچا فضلو خود مزدوری کرتا تھا، اُس کی بیوی میرا مطلب ہے چاچی گھروں میں کام کرتی تھی۔ اُن دنوں چاچی کی طبیعت خراب تھی، اسے بچہ ہونے والا تھا، چاچی نے ہی مجھے گھروں میں کام کرنا سکھایا، پہلے کچھ دن وہ میرے ساتھ جاتی رہی، پھر بچے کی وجہ سے وہ مجھے اکیلا بھیجنے لگی۔ (وہ کچن میں برتن بھی دھوتی جارہی تھی اور اپنی داستان بھی سنا رہی تھی)
میں ہمیشہ کسی کہانی کی تلاش میں رہتی ہوں، اس لیے اُسے بولنے دیا تاکہ وہ بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے۔
میں:۔ پھر تمہاری شادی… بچے؟
ماسی:۔ میں جوان ہوئی تو ہماری بستی کے کچھ لڑکوں کے میرے لیے رشتے آئے۔ چاچا اور چاچی سر جوڑ کر بیٹھے اور آخر فیصلہ کیا کہ اپنے بھائی کو گائوں سے بلاکر اُس کے ساتھ میرا ویاہ (بیاہ) کردیں۔ وہ گائوں میں پہلے سے ہی شادی شدہ تھا لیکن میں چاچا کے لیے سونے کی چڑیا تھی، اس لیے اُس نے میرا ویاہ اپنے بھائی شرفو سے کردیا۔
میں:۔ اور… تمہاری کمائی، میرا مطلب ہے تمہاری تنخواہ؟
ماسی:۔ اُس نے اسی شرط پر شادی کی کہ آدھی کمائی اُس کی اور آدھی چاچا کی ہوگی۔
میں:۔ اُس کی پہلی بیوی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا؟
ماسی:۔ کیا پتا ہوا،، نہ ہوا، لیکن اُس نے یہ شرط رکھی کہ میں کبھی اُس کے گائوں نہیں جائوں گی، نہ میرے بچے (ہنستے ہوئے)۔ اُس بھلی مانس نے سوچا ہوگا نکھٹو شوہر کے ہاتھ میں کچھ پیسے تو آجاتے ہیں اسی طرح…
مجھے اس عورت کے حوصلے پر بڑی حیرانی ہوئی کہ دنیا میں ہمارے آس پاس کیا کچھ ہورہا ہے۔
میں:۔ تمہیں اپنے یاد نہیں آتے؟ میرا مطلب ہے کہ ماں باپ، بہن بھائی وغیرہ۔
ماسی:۔ (ہنستے ہوئے) وہاں بھوک سے مرجاتی، یہاں اللہ کا شکر ہے پیٹ بھر کر میں اور بچے کھانا تو کھالیتے ہیں، سر چھپانے کے لیے جھونپڑی تو ہے۔ ابا نے میرے بعد میری کسی دوسری بہن کو بھی بیچ دیا ہوگا۔ نہ جانے وہ کہاں ہوگی…!
مجھے اس کی باتوں پر بڑی حیرانی ہورہی تھی کہ وہ اتنی سخت دل ہے کہ اپنوں کو اس طرح فراموش کر بیٹھی ہے!
میری خاموشی دیکھ کر خود ہی بولی:۔ باجی، اچھی یادیں ہوں تو اپنوں کو یاد کیا جاتا ہے، وہاں گائوں میں اس زندگی میں کیا تھا؟ اس سے بھلے تو ہم یہاں ہیں۔
میں:۔ تمہیں یہاں آئے کتنا عرصہ ہوگیا ہوگا؟
ماسی:۔ معلوم نہیں باجی، ہم حساب کتاب نہیں جانتے۔ شاید تیس سال یا چالیس سال… مجھے نہیں معلوم، لیکن اب تو سب مرکھپ گئے ہوں گے۔
میں:۔ تمہیں یاد آتے ہیں؟
ماسی:۔ نہیں جی، میں نے بتایا ناں آپ کو۔ اور یاد کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔
ماسی برتن دھوکر، جھاڑو پوچا لگانے میں مصروف ہوگئی۔ اُس کے چہرے پر صرف چند لمحے، شاید ایک آدھ منٹ میں نے اداسی کی جھلک دیکھی، پھر وہ اپنے کام میں اس طرح مصروف ہوگئی کہ جیسے وہ کسی اور کی داستان سنا رہی ہو۔
کام ختم کرکے وہ جانے لگی تو میں نے ہمدردی سے اس سے کہا: ماسی مجھے تمہاری کہانی سن کر واقعی بہت دکھ اور افسوس ہوا۔
میری بات سن کر ہنس کر کہنے لگی: ہماری کچی بستیوں میں تو آپ کو ایسی کئی کہانیاں ملیں گی۔
اُس کی بات بڑی جان دار تھی، اس اَن پڑھ عورت نے ایک بامعنی جملہ بولا تھا جس میں بہت کچھ تھا۔
اس عورت کے اس جملے نے مجھے اپنی ایک آزاد نظم کی کچھ لائنوں کی یاد تازہ کردی جو میں نے آج سے تقریباً 20، 25 سال پہلے تحریر کی تھی…
’’پکے شہر کی وہ کچی بستی
بہت سی تصویروں کے رُخ دیکھے
کچھ بے رنگ پھیکی کلیاں
حسرت ویاس میں ڈوبے چہرے
بے نام اُمنگیں، بکھرے ادھورے سپنے
جذبات سے عاری دھڑکنیں
بے نام و نشان زندگی
کچی بستی کے یہ پکے ناسور

حصہ