دُکھ سکھ

350

فائزہ مشتاق
(خصوصی انعام یافتہ)
پردیس کا سرد موسم آج اس کی تنہائی میں اور بھی اضافہ کیے اس کو ماضی کے جھروکوں میں دھکیل رہا تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے سفید چادر اوڑھے سڑکوں کو دیکھتا وہ سوچوں میں غرق تھا۔ پردیس جہاں لوگ زندگی بناتے، اپنا آپ گم کردیتے ہیں، بڑا ہی ستم گر کہ زندگی کے بے شمار موسم تنہائی اور اپنوں سے دوری میں بیت جاتے ہیں، جس کا ابتدا میں احساس زیادہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ پھر یہ وقتِ بے رحم انسان کو ان احساسات سے عاری رہنے پر مجبور کردیتا ہے اور ان انجان چہروں کے ساتھ رہنا عادت سی بن جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کاشف کو بھی اب تک اس تنہائی کو اپنا ساتھی بنانے میں مشکل درپیش تھی، اور جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر وہ یہاں آیا تھا وہ دھندلا سے گئے تھے۔
…٭…
کاشف پاکستان میں اچھے تعلیمی ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہایت قلیل مدت میں نوکری حاصل کرکے روشن مستقبل کی طرف گامزن تھا، لیکن گھر کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے یہ سب ناکافی تھا۔ ایک شادی شدہ بھائی جو اپنی ذمے داریاں بھی بمشکل پوری کر پاتا، بلکہ بیشتر اس کی تنخواہ پر انحصار ہوتا۔ بیوہ ماں، دو بہن بھائی اور گھر کے مختلف اخراجات اس کا منہ تکتے۔ ان سب حالات نے کاشف کو بیرونِ ملک جانے کی سوچ پر مجبور کیا اور اسکالرشپ پر اس نے مزید پڑھنے کا ارادہ کیا۔ کبھی کبھار تقدیر انسان کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ہم نقصان کے باوجود سمندر کی طرح اسی رستے پر چل دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کاشف کے ساتھ ہوا تھا۔
کاشف نے اپنے اس ارادے کا تذکرہ اپنے کچھ قریبی دوستوں سے کیا۔ ملی جلی رائے پر اس نے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ کسی نے ایسی نوکری چھوڑ کر جانا بے وقوفی قرار دیا، تو کسی نے اس کے فیصلے کی تائید کی۔ ازراہِ مذاق یہ فرمائش بھی آئی کہ ضرور جائو اور وہاں جاکر ہمارے لیے کوئی گوری میم ڈھونڈ لینا۔
خیر وہ دن بھی آگیا جب وہ بیرونِ ملک جامعہ کی اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسکالرشپ کے ساتھ ورکنگ آور اور رہائش بھی جامعہ کی طرف سے تھی، اور یہ اس کے لیے سب سے اطمینان اور تسلی بخش بات تھی کہ وہ اپنا اور فیملی کا خرچہ بھی اٹھاتا رہے گا۔ اس کو یاد ہے کہ وہ اسکالرشپ تھامے خوشی سے بھاگتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور سب سے پہلے اپنی جان سے پیاری والدہ کو بتایا، تو وہ وفورِ جذبات سے رو پڑیں اور اسے گلے لگا لیا۔ جانے سے پہلے کتنی ہی دعوتیں، ملاقاتیں ہوئیں۔ گھر میں سب خوشی سے نہال تھے۔ دن گزرتے پتا ہی نہ چلا اور سب عزیز رشتے داروں کی گہماگہمی اور دعائوں میں اس نے بیرون ملک کی اُڑان بھرلی۔
…٭…
تھکان سے بھرپور لمبی فلائٹ کے بعد جب اس نے چونکا دینے والی دنیا میں قدم رکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ تو کوئی اور ہی دنیا معلوم ہوتی ہے یا شاید میں دوسری دنیا کا باسی ہوں۔ کیا کیا سہانے خواب، سہانا اور روشن مستقبل وہ ائرپورٹ سے ہاسٹل پہنچنے تک سجا چکا تھا۔
ہاسٹل رپورٹ کرنے کے بعد کاشف کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا۔ کمرہ اس کی توقع کے برعکس وسیع، صاف ستھرا اور خوب صورت فرنیچر سے آراستہ تھا، ساتھ ہی ماڈرن انداز کا کچن بھی میسر تھا۔ غرض ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔ کاشف یہ سب دیکھ کر بہت پُرسکون ہوکر بستر پر آرام کی غرض سے دراز ہوا ہی تھا کہ ایک غیر ملکی لڑکی اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی خوشی کافور ہوکر رہ گئی جب بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کاشف کی روم میٹ ہے۔ انجلین غیر مسلم اور غیر ملکی تھی۔ کاشف کے لیے یہ سب ناقابلِ یقین تھا کہ وہ ایک نامحرم کے ساتھ رہے گا۔ اسے یہ سب ناممکن نظر آرہا تھا۔ ’’لیکن ایک مرد اور عورت کے درمیان تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
اس دیارِ غیر میں نہ وہ کسی کو جانتا تھا اور نہ ہی فوری کسی اور رہائش کا بندوبست کرسکتا تھا۔ بالآخر ’’وہ مجبوری ہی کیا جو ضرورت نہ بن جائے‘‘ فارمولے کے تحت وقتی طور پر ساتھ گزارا کرنے پر سمجھوتا کرلیا، اور یہی سوچا تھا کہ حالات موافق ہوتے ہی وہ وہاں سے شفٹ ہوجائے گا۔
…٭…
کلاس شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے۔ ان دنوں میں وہ اِدھر اُدھر گھومنے کی غرض سے باہر نکل پڑتا، لیکن خالی جیب اس کو کسی بھی عیاشی کی اجازت نہ دیتی۔ مجبوراً پورا دن کمرے میں گزرتا۔ انجلین بظاہر تو کاشف سے لاتعلق ہی رہتی لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی واسطہ ایک دوسرے سے پڑ ہی جاتا۔
…٭…
وقت گزرنے کے ساتھ اس کی عادتیں کاشف پر عیاں ہونے لگی تھیں۔ وہ اخلاقیات سے عاری معاشرے کی کھلی تصویر تھی۔ شراب نوشی، غلط صحبت، کلب، پارٹیاں انجلین اور وہاں عام طور پر ہر عورت کے ہی اطوار تھے۔ کاشف کی پڑھائی کا بھی آغاز ہوچکا تھا لیکن انجلین کی مصروفیات اب روز بہ روز خلل پیدا کرنے لگی تھیں۔ وہ آئے روز ان فضول مشغولیات کو ہاسٹل کے کمرے تک لے آتی، جب کاشف اس سے شکایت کرتا تو وہ بے مروتی سے کہتی ’’تم ہمارے ساتھ شریک ہوجائو، مزے کرو۔‘‘
ان حالات میں رہنا کاشف کو کسی آزمائش سے کم محسوس نہ ہوتا۔ وہاں کی عورتوں کو دیکھ کر کاشف کو بہ خوبی اندازہ ہوگیا کہ ہمارے معاشرے نے عورت کو کتنا بڑا مقام اور رتبہ عطا کیا ہے اور ہماری عورت مغرب کے ’’برابری‘‘ کے پُرکشش نعروں میں بری طرح جکڑ کر اپنی قدروقیمت کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہی ہے۔ وہ قدم قدم پر چونک جاتا کہ جن روشنیوں، رنگوں سے متاثر ہوکر وہ یہاں آیا تھا، حقیقت اس سے کس قدر مختلف ہے۔ اصل میں تو یہاں بے ہنگم و بے مقصد زندگی رواں دواں ہے۔
…٭…
وقت کسی کا انتظار کیے بغیر اپنے مدار میں گھومتا ہے، ہمیں ہی اس کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ تیزی سے گزرتے وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ کاشف کو پردیس آئے ہوئے چار ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا۔ اس نے بھی خود کو اس مشینی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ صبح وہ جامعہ جاتا، پھر تھکن سے چُور کردینے والی جاب جو رات گئے تک جاری رہتی۔ وہ ایک شاپنگ سینٹر میں کام کرتا تھا جہاں اسے ذرا سی کوتاہی اور تاخیر پر ہتک کا سامنا رہتا۔ مہینہ بھر سخت محنت کے بعد کچھ رقم نصیب ہوتی جس سے اُس کا اپنا خرچا ہی بمشکل پورا ہوتا، تو گھر رقم کیسے بھیج سکتا تھا! اس سے زیادہ رقم تو وہ پاکستان میں نوکری کرتے ہوئے ماں کے ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔
’’کتنے حسین دن تھے، عزت کے ساتھ اپنی زمین، اپنے لوگوں کے درمیان گھوما کرتا تھا۔ واپسی پہ ماںکے ہاتھوں کا لذیذ کھانا میسر ہوتا جس کی لذت کا احساس اسے ہوٹلوں کے کھانے کھاکر ہوگیا تھا۔ فرمائشیں، لاڈ، نخرے سب خواب معلوم ہوتا۔ کتنی چاہت سے اس کی بہن اس کی واپسی پر اس کا ہر کام کرکے رکھتی۔
اور یہاں… خواہ جیو یا مرو، ہر کام خود کرنا ہے۔ چھٹی کا دن انہی کاموں میں گزر جاتا۔ جو وقت میسر ہوتا اس میں کاشف پڑھنے بیٹھتا ہی تھا کہ پڑھتے پڑھتے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگتا… سورج کی کرنیں ہی اس کی آنکھیں کھولتیں۔
…٭…
دن رات کے پھیرے اسی طرح چلتے رہے۔ کاشف کو آئے آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا تھا، اس کو ویک اینڈ پر ایک اور جگہ جاب مل گئی تھی جس سے اس کو خاطر خواہ آمدنی ہوئی۔ بے انتہا مصروفیات کے سبب وہاں کچھ پاکستانی دوستوں سے ملاقات کیے ہفتوں بیت جاتے۔ کاشف اب جلدازجلد انجلین سے علیحدہ رہائش کا بندوبست کرنا چاہتا تھا اور انہی کاوشوں میں مصروف تھا، بالآخر ایک دوست کی وساطت سے قریب ہی وہ ایک پاکستانی کے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگیا۔
…٭…
یہاں اس کے علاوہ چار افراد اور بھی رہائش پذیر تھے۔ لمحہ بھر کے لیے ہاسٹل کا پُرسکون اور پُرآسائش کمرہ یاد تو آیا مگر شکر ادا کیا کہ ایمان و کردار کی آزمائش سے بری ہوگیا۔ وہاں تو ہر لمحہ اس کو اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر رہتی۔ ہاسٹل سے شفٹ ہوکر آج پہلی دفعہ وہ پُرسکون سو سکا تھا جب سے وہ دیارِ غیر آیا تھا۔
کاشف اپنے والدین کی تربیت پر فخر کرتا کہ آج اُن کی تربیت اور دعائوں کی بدولت وہ اس سخت امتحان سے گزر کر اپنے کردار کو سرخرو کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسے بہ خوبی علم ہوگیا تھا کہ یہاں رہتے ہوئے قدم قدم پر اور بہت سے ’’پلِ صراط‘‘ سے گزرنا پڑے گا۔
…٭…
مسلسل کام، اور آرام کی کمی کے باعث کاشف کی صحت بھی گرتی جارہی تھی۔ وہ اکثر بیمار اور تھکا تھکا سا رہتا، مگر وہ لاپروائی سے نظرانداز کردیتا۔ اپنی صحت کی خرابی کا اندازہ اسے والدہ سے ویڈیو کال کے بعد ہوتا جب وہ کاشف کے بے رونق سپاٹ چہرے کو دیکھ کر تڑپ جاتیں اور ساتھ ہی کھانے پینے پر توجہ کی ہدایات ملتیں۔
…٭…
آج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کاشف کو بلایا تھا۔ سارے راستے وہ فکرمند رہا۔ فکرمندی میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب وہاں پہنچتے ہی اسے معلوم ہوا کہ جامعہ کی طرف سے پالیسی اچانک تبدیل ہونے کے باعث کام کے اوقات (ورکنگ آورز) ختم کردیے گئے ہیں، جسے سنتے ہی اس کو پائوں سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اپارٹمنٹ واپسی کے راستے میں وہ ہزارہا سوچوں میں غرق رہا کہ وہ اپنا گزارا اور اپنے خاندان کی کفالت کیسے کر پائے گا؟ جاب ہی سے تو سب پورا کرتا تھا۔ ’’اُف اتنی کاوش کے بعد پھر وہیں آگیا جہاں سے ابتدا کی تھی، یعنی صفر…‘‘
انہی پریشانیوں میں کچھ دن میں ہی وہ اپنی عمر سے دگنا لگنے لگا تھا۔ خالی ہوتی جیب اور متفکر کردیتی۔ ابھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہی تھا کہ ایک دن اچانک کاشف کی طبیعت بگڑنے پر اس کو اسپتال لے جایا گیا تو بیماری کی تشخص ہوئی۔ دوست کاشف کو داخل کروا کر چلے گئے تھے۔
…٭…
وہ دیارِ غیر میں ایک اسپتال کے بستر پر تنہا پڑا تھا اور نرس کا مرہون منت تھا جو اُس کو بروقت دوائی اور کھانا تو دے سکتی تھی لیکن وہ اپنائیت، خیال، خدمت، احساس جو پاکستان میں اس کی ذرا سی تکلیف پر اس کی والدہ، بہن بھائی کرتے تھے، میسر نہ تھا۔ والدہ ذرا سی خرابیٔ طبیعت پر کس طرح متفکر ہوجاتیں۔
اسے یاد آرہا تھا جب ایک بار بخار کا دورانیہ طویل ہوگیا تھا تو گھر والوں کے ساتھ ساتھ رشتے دار بھی بار بار احوال پوچھتے۔ یہ دعائوں کا ہی حصار تھا جس کی بدولت وہ ہمیشہ جلد ہشاش بشاش نظر آتا۔
…٭…
آج کاشف بے یارومددگار لیٹا ہوا تھا۔ وہ سوچتا رہا کہ اس نے پُرسکون زندگی، نوکری، اپنے لوگ، اپنی گلیاں، اپنا وطن چھوڑ کر یہاں کی رونقوں اور کچھ مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیے کتنا مہنگا سودا کیا تھا۔
یہاں کا معاشرہ تو خود خاندانی نظام کی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ اس مشینی زندگی میں جہاں ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں، وہاں احساسات اور اپنائیت کی مٹھاس سے آشنائی کیسے اور کیونکر ممکن ہوسکے گی! مادیت پرستی میں سب کچھ گنوا کر اس معاشرے کے مکروہ چہرے سے وہ خوب واقف ہوگیا تھا۔ اپنے گرد ان نعمتوں کی کتنی بے قدری کی اس نے۔
’’آپ کی رپورٹس آگئی ہیں، سب مثبت آئی ہیں، کچھ دن میں آپ فارغ کردیے جائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نرس نے کاشف کو ماضی کے جھروکوں سے نکالا۔
کاشف بھی اُس دن کا بے قراری سے انتظار کرنے لگا جب وہ اسپتال سے فارغ ہوکر اپنی مٹی، اپنی سرزمین، اپنوں میں واپسی کی اڑان بھرے گا۔
آخرکار اپنی کھلی فضائوں میں لوٹنے کا دن بھی آن پہنچا۔ کاشف اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جذبات سے مغلوب ہوکر سجدۂ شکر بجا لایا اور اسی لمحے مٹی سے عہدِ وفا باندھ کر اپنے گھر کی طرف گامزن ہوگیا۔

حصہ