ادب میں بیگمات کا کردار

899

خالد معین
گزشتہ دنوں منفرد شاعر،جمال احسانی اپنی برسی کے موقع پر ہمیشہ کی طرح یاد آئے ہی آئے ، لیکن اس باراُن کی شریکِ حیات شہناز بھی بے ساختہ یاد آ گئیں ۔جمال احسانی کے قریبی احباب کے لیے وہ شہناز بھابھی رہیں ۔جمال احسانی بھی اپنے گھر آئے تمام خاص مہمانوں سے اپنی خدمت گزار اور خوش اخلاق بیگم کا بھرپور تعارف کرانے سے پہلے بڑی اپنائیت سے اُنہیں با آواز ِ بلند پکارتے اور ڈرائینگ میں اُن کے آتے ہی بڑی بشاشت اور خوش دلی سے تعارف کی رسم ادا کرتے ،یہ شہناز ہیں میری بیگم شہناز اور شہناز یہ میرے دوست فلاں فلاں ہیں ،بھئی !شہناز چائے بہت اچھی بناتی ہیں ، اور شہناز،جو پہلے ہی گھر کے کاموں میں مصروف ہوتیں ،یہ سنتے ہی بڑی سعادت مندی سے مسکراتی ہوئی اندر چلی جاتیں،اور چائے کا انتظام کر دتیں اور یوں شام گئے روز کے روز نئی محفلیں سجانے کے شوقین جمال احسانی کی ایک نئی محفل سج جاتی ۔جمال احسانی ایک طرح دار شاعر تو تھے ہی ،وہ بڑے خوش باش،خوش فقرہ ،خوش انداز اور یاروں کے یار بھی تھے ۔جتنے مشہور وہ اپنی زندگی میں تھے ،اُس سے زیادہ شہرت اُنہیں اپنی بے وقت موت کے بعد اپنے مرصع اور جان دار شعروں کے ذریعے ملی ۔جمال احسانی پر اب تک کوئی ایسا مضمون سامنے نہیں آیا ،جو اُن کے کمالات اور شخصی اوصاف کا بھرپور تجزیہ کر سکے ،لیکن اس کی کسی حد کمی خود اُنہوں نے اپنے آخری شعری مجموعے کے دیباچے میں اپنے ہی شان دار مضمون سے پوری کر دی ۔جمال احسانی کے جانے کے بعد اُن کے لائق بچوں نے جلد ہی زندگی کے نئے قرینوں اور نئی تب و تاب سے اپنی ماں کو بھی ہم کنار کرایا اور خود بھی ہم کنار ہوئے ۔یوں جمال احسانی کے گہرے خلا کے ساتھ اُن کے بچے علی ،حرا اور ثبات لندن میں ہیں ،سب کے سب شادی شدہ ہیں ،اپنے اپنے پروفیشنل کریئر میں کام یاب ہیں اور اپنی محبوب والدہ یعنی شہناز بھابھی کے ساتھ وہ زندگی گزار رہے ،جو جمال احسانی کا بھی خواب تھا ۔شادی اور شعرا ادب کے حوالے سے شادی کرنے والوں کے حوالے سے ایک مفروضہ بہت عرصے سے میرے ذہن میں چپکا ہوا ہے اور یہ محض لطف لینے کی حد تک ہی ہے جب کہ کچھ لوگ اس پر جلد پورا یقین بھی کرنے لگتے ہیں ،خیر مفروضہ کچھ ااس طرح ہے :ایک شاعر یا فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا پورا فن کار شادی کے بعد (اگر اس کی ہمت والی بیوی اُسے چھوڑ نہ دے ) تو اس نیک عورت کی تصوراتی جنت پکی ہے ۔اسی طرح کسی شاعرہ یا فنون َ لطیفہ سے تعلق رکھنے واکی فن کارہ کا باہمت شوہر (اگر اُسے چھوڑ نہ دے ) تو یقینا اُس کی تصوراتی جنت بھی پکی ہے جب کہ میاں بیوی دونوں ہی شاعر اور شاعرہ ہوں یا فنون ِ لطیفہ کے کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اور پوری زندگی ساتھ ساتھ گزار دیں نہ طلاق ہو ،نہ خلع کی نوبت آئے تو یقینا اُن کے بچے ضرور جنتی تصور کیے جا سکتے ہیں (ہاہاہاہا)
جمال احسانی کے قریبی دوست اور شاعرِ خوش خیال و خوش فکر عبیداللہ علیم ایک ایسے وارفتہ شخص و شاعر رہے ،جو عشق پیشہ بھی تھے اور عشق و جمال کو اپنی شاعری میں قرینے سے برتنے والے بھی تھے۔’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ‘ بڑا شان دار مجموعہ ہے ،اس مجموعے میں علیم صاحب نے کمال عشقیہ غزلیں اور نظمیں لکھیں جب کہ اُن کی شاعری میں آشوب ِ ذات اور کائناتی شعور کی قابل ِ قدر جھلکیاںبھی اپنا جدا گانہ رنگ دکھا تی رہیں ،یہ کیفیات اُن کے دوسرے مجموعے ’ویران سرائے کا دیا ‘ میں زیادہ میچور انداز میں واضح ہوئیں ۔اُنہوں نے عشق تو جانے کتنے کیے ،لیکن شادیاں تین کیں اور اُن کی تینوں شادیاں ہم عصر ادب میں معروف ہوئیں ۔پہلی بیگم صفیہ حیدر ،انوپا تھیں مگر یہ شادی بہ وجودہ زیادہ عرصے نہ چلی اور انہوں نے اس ضمن میں اپنے مخصوص شاعرانہ پیرائے میں بہت کچھ لکھا بھی :
اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا
وہ رنگ فشاں آنکھ ، وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا
اک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کو ئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا
دوسری شادی نگار صاحبہ سے ہوئی اور یہ شادی خوب چلی ،بچے بھی ہوئے ،اس شادی سے وہ خوش بھی رہے ۔کئی ایسے شعر اور غزلیں لکھیں ،جو غزل کا شاعر عام طور پر نہیں لکھتا :
مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے
میں خشک پیڑ خزاں کا تھا ،مجھے کیسا برگ و بار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوںجینا بھی
اُس نے عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
باہر کا دھن آتا جاتا ،اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایا دے ،جو اصل خزانہ گھر میں ہے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی پریس کلب میں اسی کی دہائی کے دوران عبید اللہ علیم کی دوسرے مجموعے ’ویران سرائے کا دیا ‘ کی تقریب تھی ،تقریب میں شاعر ِ طرح دار اور علیم صاحب کے یار ِ دیرینہ نصیر ترابی نے ایک شان دار مضمون پڑھا ،لیکن اس مضمون میں ایک دو بڑے چبھتے ہوئے فقرے بھی تھے ،جن پر حاضرین نے تو زبردست رد ِ عمل کا مظاہرہ کیا اور خوب تالیاں بجائیں مگر علیم صاحب کا منہ بن گیا ،جو تقریب کے آخر تک بنا رہا ۔ایک فقرہ آپ بھی پڑھیں :
’علیم دوستوں کی بیگمات کو داغ کی غزل اور اپنی بیگم کو مسد س ِ حالی سمجھتے ہیں ‘
پھر عبداللہ علیم نے ڈھلتی ہوئی عمر میں ایک نوجوان لڑکی سے تیسری شادی کرکے سب کو حیران اور اپنے دوسری بیوی اور بچوں کو پریشان کیا ،مگر یہ شادی بھی اُنہوں نے بڑی عمدگی سے نبھائی اور تیسری بیوی نے بھی حق ِ محبت خوب خوب ادا کیا اور مشکل حالات میں علیم صاحب کی رفاقت کو سرمایہ ء حیات جانا ۔یہ لڑکی ،جو اب ایک میچور خاتون ہیں ،اُن کا نام تحسین فاطمہ ہے :
تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو
تم مہر ہو مہ تاب ہو تم کون ہو
میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی
تم روح تک شاداب ہو تم کون ہو
میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا
تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو
ہمارے ا یک سینیر جمالیاتی شاعر حسنین جعفری مرحوم کبھی کبھی کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے موڈ میں ہوتے تو ویٹر سے تھوڑی سی جلی ہوئی روٹی کی فرمایش کر بیٹھتے ۔اس فرمایش کا پس منظر پوچھا جاتا تو وہ بڑی اُداس سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے یار تھوڑی سی جلی ہوئی روٹی سے تمھاری بھابھی کی یاد آ جاتی ہے ۔اس پُر لطف بات کے پیچھے تو جانے کیا دکھ پوشیدہ تھا لیکن جن دنوں وہ کبھی کبھی موڈ میں آ کر یہ فرمایش کر بیٹھتے تھے ،اُن دنوں وہ ذہنی طور پر خود بھی فٹ فاٹ تھے اور اُن کی ازدواجی زندگی بھی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی ۔البتہ آگے چل کر جب اُن پر شیزوفرینیا کے دورے پڑے،اور وہ شک و شبہات کی دلدل میں پھنسے تو حال سے بے حال ہوگئے ،اچھا خاصا پُر سکون گھر بے سکون ہوا ،بیگم اور بچے سخت کرب اور سخت آلام کا شکار ہوئے ۔اتنے خراب ہوئے کہ اسی کی دہائی کے تمام نمایاںلکھنے والے حسنین جعفری کی ذہنی بیماری کے سبب خود بھی شدید ذہنی کوفت کا شکار ہوئے اور حسنین جعفری اسی بیماری کے دوران ایک دن اپنا ہنستا بستا گھر خود اپنے ہی ہاتھوں اجاڑبیٹھے ۔پھر چند برس کے بعد اُنہوں نے دوسری شادی بھی لیکن جو تباہی وہ کر بیٹھے تھے ،اُس کا مداوا شاید اب ممکن نہ تھا اور یوں وہ دنیا ہی سے منہ موڑ بیٹھے۔
پچاس ، ساٹھ اور سترکی دہائی سے تعلق رکھنے والے کراچی کے بیش تر بزرگ شاعروں اور ادیبوں کے شادی شدہ زندگیاں بڑے توازن سے گزریںاور اس توازن میں بیگمات کا کردار بہت مثالی رہا ہے ۔حمایت علی شاعر صاحب کی بیگم نے اُنہیں گھر اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے قدرے آزادی دی اور خود
یہ تمام ذمے داریاں بڑے احسن انداز میں پوری کیں ۔یہی صورت ِ حال تابش دہلوی ،راغب مراد آبادی، رضی اختر شوق ،محسن بھوپالی ،محشر بدایونی ،سحر انصاری ،نصیر ترابی اور پوری صف کی صف اسی توازن اور نگہ داری کی امین دکھائی دیتی ہے ۔
شاعر جمالیاتی حسن اوروں سے زیادہ رکھتا ہے اور وہ اوروں سے زیادہ جمالیاتی تجربات بھی کرتا ہے ،ظاہر ہے یہ کام شاعر نہیں کرے گا تو کیا کوئی اور کرے گا ،یہاں شاعر سے مراد تخلیقی آدمی ہے اور تخلیقی آدمی چاہے فنون ِ لطیفہ کی کسی شاخ سے وابستہ ہو جمالیاتی نہ ہو تو فنون ِ لطیفہ کے حوالے سے کوئی زندہ شہ پارہ بھی یقینا تخلیق نہیں کر پائے گا ،تاہم گھر بار بسانا اور عشق کی کام یابی یا ناکامی کے بعد شادی کر لینا ،ایک بڑی مذہبی اور سماجی ذمے داری ہے ،اور اس کو بہ حس و خوبی نبھانا چاہیے اور اس نبھائو میں اپنی شریک حیات کی مشکلات کو مد ِ نظر رکھنا چاہیے ورنہ تخلیقی آدمی کی شادی شدہ زندگی پہلے ایک مذاق اور بعد میں خوف ناک مذاق بن جاتی ہے اور بچے الگ رُل جاتے ہیں ۔آئیے ! اس تقریر کے بعد پہلے شاعری کے صاحب ِ عہد غالب کی ازداوجی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں ،جہاں لطف آرائی کے باوجود بیگم کا احترام اور بیگم کے وجود کی اہمیت کسی طور نظر انداز ہوتی محسوس نہیں ہوتی ،جب کہ دوسری طرف فراق گھورکھ پوری کی افسوس ناک ازدواجی زندگی کا ایک رآک بھی دیکھتے ہیں ،جہاں فراق صاحب کا رویہ ناقابل تفہیم اور ناقابل ِ برداشت سا لگتا ہے ،لیکن پہلے غالب :
غالب کی شادی اپنے عہد اور خاندانی روایات کے مطابق صرف تیرہ سال میں امرائو بیگم سے ہوئی اور مرتے دم تک ہزار پیچ و تاب کے باوجود قائم رہی ،اس ضمن میں امرائو بیگم کی استقامت کی داد کے ساتھ غالب کی شیریں مزاجی اور بیگم پر شگفتہ چوٹوں اور چٹکلوں کی داد بھی بنتی ہے اور کئی بچوں کو جنم دینے اور ان کے دو سال سے زیادہ زندہ نہ رہنے کے شدید دکھ سے گزرنے والی عبادت گزار ، ماہر ِامور خانہ اور مذہبی خیالات رکھنے والی ، امرائو بیگم نے ساری زندگی مرزا کے مخصوص شاعرانہ مزاج کی بے اعتدالیوں کو بھی جھیلااور ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب غالب جیسے آفاقی شاعر کے ساتھ ساری عمر نباہ کیا ،یہ بھی کم کمال نہ تھا ،اوپر سے غالب کے شگفتہ لطائف نے امرائو بیگم کو ایک افسانوی بیگم کی جس شہرت سے ہم کنار کیا ،وہ بھی اپنی جگہ بڑے لطف کا مقام ہے ۔لطیفہ :مرزا زندگی بھر کرایے کے مکانوں میں رہے ۔ایک بارمکان بدلنے کا ارادہ کیا ،نئے مکان کا دیوان خانہ تو پسند آگیا مگر محل سرا نہ دیکھ سکے ،بیگم کو بھیجا ،وہ دیکھ آئیں تو مرزا پوچھا پسند آیا کہ نہیں ،امرائو بیگم نے جواب دیا ،اُس میں تو بتاتے ہیں بلا رہتی ہے ،مرزا نے چہک کے جملہ چست کیا’کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کے بھی کوئی بلا ہے ؟‘ایک اور لطیفہ :اپنے ایک شاگرد کی دوسری بیوی کے مرنے کی اطلاع پر مرزا کہتے ہیں ’اُس کے حال پر اُس کے واسطے رحم اور اپنے حال پر رشک آتا ہے ،اللہ اللہ ایک وہ ہے ،جو دو دو باراُس کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں ،اور ایک ہم ہیں کہ پچاس برس سے اوپر جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے ،تو نہ پھند ا ہی ٹوٹتا ہے اور نہ ہی دم نکلتا ہے ۔اس ضمن میں آخری لطیفہ :ایک مرتبہ مرزا زنان خانے جانے لگے تو دیکھا امرائو بیگم عین صحن میں مصلہ بچھائے نماز پڑھ رہی ہیں ۔مرزا نے یہ منظر دیکھا تو دروازے ہی پر رک گئے ،جب امرائو بیگم نماز ادا کر چکیں تو مرزا نے اپنا جوتا سر پر رکھا اور ہچکچاتے ہوئے صحن میں قدم رکھا ،امرائو بیگم نے مرزا کی ی حالت دیکھی تو مسکرا کے کہا ،یہ کیا ہے ؟مرزا نے جواب دیا کچھ نہیں ، یہ صرف آپ کے مصلے کی تعظیم وتکریم ہے ۔
انتہائی حسن پرست اور عشق پیشہ فراق گورکھ پوری کی ازداجی زندگی بھی اردو ادب میں ایک درد ناک نقشہ پیش کرتی ہے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ فراق کی زندگی کا یہ سب سے بڑا المیہ تھا اور اسی المیے کی نذر اُن کا ایک نوجوان مگر خبط الحواس بیٹا بھی ہوا اور اُس نے عین نوجوانی میں خود کشی کر لی کیوں کہ فراق کا ازدواجی زندگی ابتدا ہی سے ایک تماشا بنی رہی ۔خود فراق کے بہ قول کسی نے اُن کے بزرگوں سے غلط بیانی کی اور دھوکا دہی سے ایک ایسی لڑکی سے اُن کی شادی کرادی جو کسی بھی طرح اُن کی رفیقہ ء حیات بننے کے لائق نہ تھی ۔حسن ِ ظاہر ، چہرے مہرے اورجسمانی بناوٹ کیاعتبار سے بدصورتی اور ناپسندیدگی کی حدوں کو چھوتی ہی تھی ،ذہنی اعتبار سے بھی کند ذہن ،خانہ داری میں پھوٹر اور گھر چلانے کی صلاحیت سے عاری تھی ۔
اس کالی کلوٹی بیوی کو فراق نے طلاق نہ دی بل کہ ایک جانب بچے بھی پیدا کیے اور دوسری طرف اپنی مشہور ِ زمانہ غیر اخلاقی حرکات کے ذریعے اپنی بیوی اور بچوں کو سارے معاشرے میں ذلیل و رسوا الگ کیا ۔اب کوئی فراق سے پوچھتا کہ کبھی اپنے مجرمانہ کرتوت پر اپنی پاک باز بیوی سے معذرت طلب کی یا نفرت اور صرف نفرت ہی اُس کے دامن میں بھرتے رہے ۔اس اعتبار سے مجھے لگتا ہے کہ بے جوڑ شادی کے نتیجے میں جتنا بڑا المیہ فراق کو درپیش رہا ،اُس سے بڑا المیہ اُن کی شریمتی نے جھیلا ۔یہ اور ایسی کئی پریشان کُن ازدواجی مثالیں شعرو ادب میں بیگمات کے مثبت رویوں کے جواب میں انتہائی منفی رویوں کی عکاس ہیں اور کم سے کم نئی نسل کو اس سے ضرور بچنا چاہیے ،مطلب شادی سے نہیں ،شادی کے بعد منفی رویوں سے کنارہ کشی ضروری ہے ،گھر کے اندر ،جو بیگم ہے ،اُس کا خیال رکھنا آپ کی ذمے داری ہے ،اُس کے ماں باپ کی ہر گز نہیں ۔

حصہ