اے زندگی اے زندگی

430

بشریٰ ودود
آج آنکھیں خواہ مخواہ ہی بہے جارہی ہیں۔ ابھی تو ہم بوڑھے بھی نہیں ہوئے‘ ابھی تو چلتے پھرتے ہیں‘ بہت سوں سے اچھے ہیں‘ ہنستے مسکراتے ہیں‘ کچھ لوگوں کو یاد کرتے ہیں کچھ کو یاد آتے ہیں… لوگ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں اور ہم لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں جو چاہیں پکا سکتے ہیں‘ جو چاہیں منگوا سکتے ہیں… جس کا دل چاہے یہ بہلا سکتے ہیں ابھی یادون کا بھرم نہیں ٹوٹا نہ میخانہ کا در چھوٹا ہے۔
زندگی کے بہت سے عنوان ہیں۔ پھر بھی ہم نہ جانے کیوں:
پلکو پہ لیے اشکوں کے دیے
راتوں میں اجالا کرتے ہیں
فرقت کے سلگتے لمحوں کو
الفاظ میں ڈھالا کرتے ہیں
اللہ تیرا بھی عجب نظام ہے۔ جب ہم بچے ہوتے ہیں تو اپنے لوگوں میں رہتے ہیں جن کا ہم دل و جان ہوتے ہیں۔ ہمارے دکھ پر جن کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ خوشی پر وہ مسرت سے جھوم اٹھتے ہیں۔ کوئی چوٹ ہماری ہی غلطی سے ہمیں لگ جائے تب بھی وہ چاہنے والے خود ہی قصوروار بن جاتے ہیں۔ ارے یہ میں نے یہاں چھری کیوں رکھ دی‘ اوہو دکھائو چوٹ کہاں لگ گئی؟ یہ برتن کس نے میز پر چھوڑ دیے ہیں… بچے کا کیا قصور ٹوٹ گئے تو رکھنے والے کی غلطی ہے… ارے بھئی پانی کیوں گرا دیا بچہ پھسل گیا بے چارہ ذرا خیال نہیں ہے کسی کو… اور کیا ضرورت تھی اتنا شیشہ کا کام کروانے کا… ہر الماری میں آئینہ لگا رکھا ہے بچہ کیا کھیلے گا نہیں… اب اسے ڈانٹ رہے ہیں سب توبہ ہے شور مچا رکھا ہے۔ آئینہ میں بال آگیا… ٹوٹ گیا شاید اور اس بے چارے کا دل دھلائے دے رہے ہیں… آجا میرے بچے میرے پاس آجا… یہ لوگ تو سب ایسے ہی ہیں… ارے کچن کا دروازہ تو بند کرو‘ دشمن ہوگئے ہیں جیسے سب اس کے… توبہ ہے۔
وقت کی دہلیز پر کھڑے کتنی صدائیں آتی ہیں محبتوں کی اک نہ ختم ہونے والی گفتگو… باتیں دل کی دنیا کے رہنے والوں کی ملاقاتیں… مسکراہٹیں بانہوں میں سمیٹ کر چھپا لینے والی ادائیں… پیار کی آہٹیں… محبت کے تقاضے اور نہ جانے کیا کیا… پھر نوجوان ہوتے ہیں تو عزمِ و حوصلے کا سفر‘ صحت و تندرستی کی چستی… کچھ کر گزرنے کا ارادہ… ارادوں کی تکمیل… اک بھاگ اک دوڑ… آگے نکلنے کی… بڑھنے اور جیت جانے کی ہر مقابلے میں اوّل آنے کی… اپنے گول پا لینے کی‘ بلندیوں کا سفر سنبھلنے سنبھالنے کا دور اور ایسے میں ساری دنیا کو چیلنج… ہم سا ہو تو سامنے آئے… کہ اس دنیا میں جو چاہیں ہم تو چھین لیاکرتے ہیں اور یوں زندگی کا ایک اور باب گزر جاتا ہے۔ مالک تیری شان نرالی‘ کیسے کیسے منہ زوروں کے تو منہ بند کر دیتا ہے… اک نئی دنیا آواز دیتی نظر آتی ہے‘ پھر یہ بہت چاہنے والے… ڈھیروں دعائوں‘ آنسوئوں‘ امیدوں میں‘ اندیشوں کی ڈولی میں بٹھا کر رخصت کر دیتے ہیں۔ اک نیا گھر‘ نیا ساتھ اور نئی آس… وہ بچہ جو بولنا شروع کرتا تھا تو اک اک لفظ سن کر ماں باپ سارا دن خوش ہوتے اسے بار بار سنتے ہر اک کو سناتے ’’پتا ہے گڑیا نے آج اللہ کہا ہے… اب بابا کہنے لگی ہے… پتا نہیں اماں کب کہے گی… تو سارا دن ہم کام کریں اور وہ تو ابا ابا کرتی ہے… شریر…
آج ڈولی میں بٹھاتے تلقین کرتے ہیں بیٹا چپ رہنا‘ جواب نہ دینا‘ تمہیں کوئی کچھ کہے تو خاموش رہنا… کیا ہے اگر کچھ کہہ دیا تو خاموش رہنا… وہ بھی تو ماں ہیں ناں۔
پھر اک نیا ساتھ ہی سب کچھ بن جاتا ہے اک نئے رشتے کا انوکھا بہار‘ محبتوں کا سیلاب بہا لے جاتا ہے۔ سنبھلنے نہیںدیتا۔ سوچنے نہیں دیتا… پھر ہوش تو جب آتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔ (فاصلے وقت کے ساری سوچیں لے کر کہیں چھپا آئے ہیں‘ اتنے دن جو ہوگئے‘ اب کیا لکھوں‘ دیکھو کوشش کرتی ہوں۔)
زندگی اپنے رنگ بکھیر کر جیسے خالی ہونے لگتی ہے۔ جوانی کی بے ساختگی گو گزرتی عمر کا ٹھیرائو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے‘ قوت و شدت کو روک لگا دیتا ہے‘ ننھے ننھے بچوں کو پیچھے بھاگتے‘ الجھتے‘ روٹھتے اور پھر خود ہی من جاتے… زمانہ پر لگا کر اڑ جاتا ہے… وقت کی دہلیز پر ہم کھڑے رہ جاتے ہیں اور بچے جوان ہو جاتے ہیں کالے چمکیلے بالوں میں آہستہ آہستہ وقت کی چاندنی اترنے لگتی ہے۔ یاد بھی نہیں رہتا پہلا بال کب سفید ہوا تھا۔ قویٰ بھی کچھ کمزور ہونے لگتے ہیں زندگی کے تقاضوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اب ہم کچھ تھک سے جاتے ہیں۔ پھر ہوش آتا ہے تو ہم ان لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں جو اکثر ہم سے پیار نہیں کرتے۔
قدرت کا عجب نظام ہے جن پر زندگدی وار دی ایسے یکسو ہوکر مصروف رہے کہ ٹھیر کر سوچنے کا بھی موقع نہ ملا… اب جب بہتے دریا کی طرح سمندر میں جا اترتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا خیال آیا ہے۔ گزرا سفر ایک لمبی کہانی سناتا ہے تو راتیں آنکھیں کھلی چھوڑ جاتی ہیں جن کا کوئی مقصد تھا وہ یہ سب سوچ کر مسکرا دیتے ہیں کہ معبود! کوئی تھا نہ تھا… رک کر سوچنے کا وقت نہ تھا‘ کوئی ساتھ نہ تھا پر تُو تو اپنا تھا‘ تُو تو راضی ہے ناں… اور جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا وہ زندگی کے اس مذاق پر تلملا اٹھتے ہیں… دکھ دے کر سکھ لے گیا‘ ظالم سارا کچھ ہمارے اندر سے نچوڑ لے گیا زمانہ اب کیا ہے‘ کیا ہوگا اور جو کھو گیا وہ جانے کیا کچھ تھا۔
اک نیا دور شروع ہوجاتا ہے وہ جنہیں ہاتھ پکڑ کر چلایا تھا اب چلنے کے لیے ان کا ہاتھ چاہیے۔ ان کا ساتھ چاہیے اگر وہ کسی اور کے ہو رہے تو پھر ہم صرف اتنا ہی سوچ سکتے ہیں کہ ہاتھ نہ ساتھ ہیں ان کا ظرف چاہیے۔
زبان بار بار کچھ یاد دلانا چاہتی ہے… تم ہمیں کتنے پیارے تھے‘ تم پر کیا کیا وار دیا‘ تمہارے لیے کیا کچھ چھوڑ دیا بس تم آج ہمیں نہ چھوڑنا۔ مگر لفظ ساتھ نہیں دیتے اور آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں پھر کوئی ظرف والا پوچھ لے تو بڑا دل کرکے کہہ دیتے ہیں:
یونہی آنکھوں میں آ گئے آنسو
جایئے آپ کوئی بات نہیں
واہ رہے مولا کیا تیری شان ہے… یہ کوئی ایسے وقت سے گزرتا ہے مگر جانے والے کے بتانے کے باوجود بھی آنے والے کو یقین نہیں آتا کہ اس پر بھی یہ وقت آئے گا… پھر کون سنبھالے گا؟ کون بتائے گا؟ ہماری ایک خالہ جان ہیں چلنا بھی محال ہے‘ بچے انہیں گود میں اٹھا کر اِدھر سے اُدھر لے جاتے ہیں۔ ساری زندگی انہوں نے رب کا پیغام پہنچانے میں لگا دی… میں دیکھتی ہوں کہ کبھی ان کو گود میں اٹھاتے کسی بچے‘ بڑے کے چہرے پر ناگواری نہیں آئی۔ منہ سے کچھ نہیں نکلتا ایسا جو برا لگے حتیٰ کہ بہوئیں بھی ان سے پیار کرتی ہیں۔ سچ ہے جو دلوں میں رہتے ہیں انہیںدل والے گودوں میں بھی پیار سے لیے پھرتے ہیں مگر ہم اور آپ…؟
ویسے اداس نہ ہوں یہ کچھ ہر ایک کی اپنی قسمت اور اس سے بڑھ کر آزمائش بھی ہوتی ہے کہ ساری زندگی بی سی ڈال ڈال کر‘ پیسے جوڑ جوڑ کر جو گھر بناتے ہیں اس کا مالک بننے کوئی اور آجاتا ہے۔ اک اک مہینہ کی بچت سے جو سامان جمع کیا ہوتا ہے اسے لاپروائی سے استعمال کرتے اور توڑنے والا ہم خود سجا سنوار کر لاتے ہیں۔ کیا بات ہے اوپر والے کی سارے گھر پر حکم چلانے والوں نے اپنی کرسی خود ہی چھوڑ دی ہے۔ اب ایک اور مالکن لے آئے ہیں… پھر اپنے انتخاب پر خفا بھی خود ہی ہیں اور وہ جو ہمارے اپنوں کے دل میں رہتے ہیں جانے کتنی جگہ پر قابض ہو جاتے ہیں کہ ہماری جگہ بھی نہیں بن پاتی۔ اب ہماری باتوں میں غلطیاں نظر آتی ہیں۔ ہمارا غصہ بے جا محسوس ہوتا ہے‘ ہماری روک ٹوک بے معنی لگتی ہے۔ سوال جواب برے لگتے ہیں‘ وہ جو خوب صورت رشتوں میں بندھے تھے‘ پیار و محبت کے رشتوں میں‘ اب ان کو باتیں ناگوار لگنے لگتی ہیں دو قدم آگے بڑھ کر سوچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے وہ جو نیا آنے والا ہے اس کی ایک دو نہیں ساری باتیں سچ ہیں… صحیح ہیں اور وہ جو مدتوں سے ساتھ تھے انہیں نہ جانے کیا ہوگیا ہے… میرے مسائل کو سمجھتے ہی نہیں… بات ہی اپنی کرتے… اب کیا کروں۔
اب ہم سب جان لیتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں جو بس ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ شاید ہم سے پیار نہیں کرتے جیسے میزبان اس مہمان کو دیکھتا ہے جو بس جانے ہی والا ہو پر ابھی جا نہیں رہا ہو… وہ کبھی گھڑی دیکھتا ہے‘ کبھی اپنے کام یاد کرتا ہے… کبھی خفگی سے دیکھتا ہے… کبھی کچھ کہتا ہے… کبھی چپ رہتا ہے پھر ساتھی اچھا نہ ہوگا کہ ہم ان کے دل میں جگہ بنائیں جو اچھے تھے ابھی بھی اپنے بنے ہیں۔ ان کا خیال رکھیں تو پھر ہوسکتا ہے وہ بھی ہمارا خیال رکھیں اور دل سے رکھیں۔ یہ دل کا معاملہ بھی عجب ہے دل والے ہی جانیں… شکر ہے اللہ تُو ہمارا ہے‘ دل جس نے دیاس بس وہی ہمارا ہے پھر کیا غم اسی کی راہ پر چل پڑتے ہیں… باقی لوگوں کو بس اتنا منا لیں کہ وہ میں پیار سے اللہ حافظ کہنے پر راضی ہو جائیں۔
سمجھنے سمجھانے کا وقت گزر گیا‘ اب صرف نبھانے کا وقت رہ گیا ہے وہ بھی تھوڑا سا مگر اس نبھانے کے لیے منانا بھی تو پڑے گا ناں روٹھنے و الوں کو اور اپنے آپ کو۔

حصہ