نئے شاعر‘ سارہ خان

431

اسامہ امیر
نوجوان نسل کی خوبصورت لب و لہجے کی شاعرہ سارہ خان 20 جولائی کو پنجاب کے خوبصورت شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں، آپ نے بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی، یوں تو آپ نے زمانہ طالب علمی سے شعر کہنا شروع کردیے تھے البتہ شاعری کا باقاعدہ آغاز گذرشتہ دو تین سال پہلے کیا، آپ غزل و نظم کہتی ہیں مگر آپ کی پسندیدہ صنف نظم ہے اور نظم کی طرف خاصا رجحان ہے، آپ کے پسندیدہ شعرا میں ،فیض، ن م راشد اور محسن نقوی شامل ہیں، آئیے چلتے ہیں ان کے کلام کی طرف ۔

دیکھو اس کا جھیل سا مکھڑا جیسے خواب خیال
کیسا ہے آواز کا جادو جیسے میگھ ملہار
زلفیں ہیں کہ ہولے سے چھو لے کوئی پروائی
اس کا ہنسنا ایسے جیسے پائل کی جھنکار
رنگت ایسی دور پہاڑوں پر ڈھلتی سی شام
دیکھو اسکی آنکھیں دیکھو جیسے دیپ جلیں
دیکھو اس کے ہاتھ کی ریکھاؤں کی سندرتا
لیکن دیکھو…!
اس پر جو کچھ درج ہوا تھا
آنکھ کے جلتے پانی سے سب راکھ ہوا ہے
دیکھو اس کے ہاتھ کی ریکھا
ڈوب گئی ہے…
دیکھو دیپک آنکھ کا سپنا خاک ہوا ہے…
٭
گلاب لہجوں میں دلگزیں سے سراب کیونکر
گلاب لہجوں میں حسرتیں ہیں
گلاب لہجوں میں خواب کیونکر
گلاب لہجے جو خوشبؤں کی ضمانتوں کے امین ٹھہرے
یہ کیسی ان میں جھلک دِکھی ہے
گلاب لہجوں میں خار کیونکر…
یہ کون ہے جو گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے بھر رہا ہے
یہ کون ہے جو گلاب لہجوں میں راکھ بن کے بکھر رہا ہے
گلاب لہجوں پہ نقش کتنی کہانیاں ہیں
خزاں رتوں میں چمن میں اک آتشی سماں ہے،
گلاب لہجوں پہ ڈھیر ساری اداسیاں ہیں
گلاب لہجے جو اک زمانے میں سانس لیتے تو گل کھلاتے
گلاب لہجوں پہ کس کا سایہ پڑا ہے
کیسی ویرانیاں ہیں
گلاب لہجوں میں اِک شکن ہے
گلاب لہجوں میں کیوں تھکن ہے
گلاب لہجوں پہ شام ہجراں کا عکس کیونکر
گلاب لہجوں میں ساعتوں کی نمی چھپی ہے
گلاب لہجوں میں رقص کرتے ہزاروں منظر
مگر جو دیکھو گلاب کی ہی
گلاب لہجوں میں کچھ کمی ہے

حصہ