بات یہ ہے

261

عبدالرحمن مومن
چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اس نے چاند کی طرف دیکھا اور چاند کی روشنی اور خوب صورتی سے متاثر ہو کر اسے اپنا خدا سمجھ لیا۔ صبح ہوئی، آنکھ کھلی، آسمان کی طرف دیکھا تو وہاں رات میں موجود خدا (چاند) کو نہیں پایا تو حیرانی ہوئی۔ علم ہوا کہ چاند تو ڈوب گیا ہے، سوچا جو خود ڈوب جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ آسمان کی طرف نظر اٹھی تو ہاں چاند سے زیادہ روشن اور بڑا سیارہ یعنی سورج نظر آیا۔ اس کی ہیبت سے متاثر ہو کر اسے خدا سمجھ لیا۔ وقت گزرا، مغرب کے وقت سورج بھی نظر سے اوجھل ہو گیا۔ اس کی خدائی بھی ناقابلِ اعتبار ٹھہری۔ اس نے کائنات کی مختلف چیزوں کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کائنات کو چلانے والا کوئی خدا ہے جو واحد ہے۔ وہ اپنی بڑائی اور تمام معاملات میں یکتا ہے۔ اس نے غور و فکر کیا اور خود کو چاند اور سورج سے بہتر پایا۔
پہلے وہ چاند اور سورج کو دیکھ کر متاثر ہوتا تھا۔ اس کو معلوم ہوا کہ وہ زمین پر خدائے واحد (اللہ) کا نائب ہے۔ اس انکشاف سے وہ اپنی نظر میں معتبر ہو گیا۔ اس کے علم اور آگہی سے اس کی شخصیت میں ایسا انقلاب آیا کہ صرف اس کی اپنی ہی نظر میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں اور تمام مخلوقات کی نظر میں اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گیا۔ اس کے علم کی روشنی اور نور نے وہ جلوہ دکھایا کہ صرف چاند، سورج ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ انسان نے بھی اس کی شخصیت کا گہرا اثر قبول کیا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ آپ سے کر سکتے ہیں کہ آپ روزانہ دن میں کم از کم پانچ بار اسے یاد کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ سمجھ گئے ہیں کہ میں کسی شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں۔ علامہ اقبال آپ کو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح زندگی بسر کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

کتابیں ہماری دوست

کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ کتابیں ادبی ہوں یا علمی، تاریخی ہو ں یا سیاسی، اخلاقی ہوں یا معلوماتی وہ ہر وقت ہماری غم خوار اور زندہ دل ساتھی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ہر وقت ہمارا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔
وہ ہماری وفادار دوست ہوتی ہیں جن پر ہم اعتماد اور بھروسا کرسکتے ہیں۔
دنیا میں اس وقت بڑے بڑے کتاب خانے موجود ہیں جن میں لا تعداد علمی ، ادبی، تاریخی اور سائنسی کتابیں محفوظ ہیں۔ ان کتابوں میں بھی بہت سی قدیم ہیں اور اب دوبارہ چھپ رہی ہیں۔
میں اپنے کتاب خانے میں بیٹھا ہوا کتابوں سے ہم کلام رہتا ہوں اور میرے پاس ان ہی مخلص دوستوں کا ہجوم رہتا ہے۔ بڑے بڑے مصنف اور بڑے بڑے عالم اور محقق اپنی شب وروز کی کاوشوں سے ان کتابوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ ہمیں ان لاثانی کتابوں سے ہم کلامی کا ہر وقت موقع مل سکتا ہے۔
دنیا کی ترقی نے ہمیں ہر قسم کی کتابیں مہیا کر دی ہیں۔ ہم جس زمانے کی سیر کرنا چاہیں اسی عہد کی کتابیوں کی ورق گردانی کرنے بیٹھ جائیں ہماری طبیعت سیر ہو جائے گی اور یہ معلوم ہوگا کہ واقعی ہم اسی زمانے کی سیر کر رہے ہیں۔
ان کتابوں سے لطف اندوز ہونا زیادہ مشکل نہیں ہے۔جب ہم کسی مصنف کی محنتوں کا مطالعہ کر لیتے ہیں تو اس کے شریکِ حال ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مستقبل کی تمام اْمیدیں ان ہی علمی ادبی شہ پاروں سے وابستہ ہو جاتی ہیں ان سے ہمیں ہر موضوع پر معلومات حاصل ہوتی ہیں اور ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی ان مصنفین کی طرح عزت اور نام وری حاصل کریں۔
عام طور سے کتابیں مذہبی ، تمدنی ،تاریخی ، نفسیاتی ، سائنسی اور عام معلوماتی موضوعات پر لکھی ہوتی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے ہم زندگی کے مختلف عنوانات سے واقف ہوتے ہیں اور زندگی کے مسائل حل کرنے کی فکر ہمارے دل کو گدگدانا شروع کر دیتی ہے۔
ہم میں زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا ذہنی اْفق وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور ہم رفتہ رفتہ ملک و قوم کی شیرازہ بندی میں مصروفِ دکھائی دیتے ہیں۔
کتابیں کردار اور اخلاق کی اصلاح میں بھی اہم حصہ لیتی ہیں اور علمی نقطئہ نظر پیدا کرتی ہیں۔
ہماری علمی، مذہبی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم ادبی مشاغل میں مصروف ہو کر اپنی ذہنی، جسمانی صلاحیتوں کا بہترین مصرف سیکھ جاتے ہیں۔ ہم اپنے تہذیبی ورثے کو سمجھ کر اس میں اور زیادہ اضافے پر مائل ہوتے ہیں۔
وقت کے تقاضوں کا احساس جاگ اْٹھتا ہے اور ہم ان کی تکمیل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کتاب ہماری زندگی کی ایک ایسی وفادار ساتھی ہے جوکسی حالت میں بھی دھوکا فریب نہیں دیتی بلکہ ہماری مونس اور غم خوار بن کر ہماری راہبری کرتی ہے۔

ریچھ کا شکار

کاغان کی خوب صورت وادی مغربی پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا موسم کشمیر کی طرح نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ یہ علاقے چاروں طرف سے بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں صاف شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔ اس وادی میں بالاکوٹ کے مقام پر ایک خوبصورت کوٹھی میں احسن کی والد جو محکمہ جنگلات کے افسر تھے، رہا کرتے تھے۔
احسن اور اس کا چھوٹا بھائی ضیا دونوں گرمیوں کا موسم اپنے والد کے پاس ہی گزارا کرتے۔
ایک روز دونوں بھائی سیر کو نکلے۔ چوں کہ اس علاقے میں جنگلی جانوروں کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے، اس لیے باہر جاتے وقت احسن اپنی شکاری بندوق ہمیشہ ساتھ لے جاتا اور آج بھی بندوق اس کے پاس ہی تھی۔
دونوں بھائی اطمینان سے باتیں کرتے چلے جارہے تھے کہ احسن نے ضیا کا بازو پکڑ کر اسے ایک دم ٹھہرادیا۔
کیا ہے؟ ضیا نے گھبرا کر پوچھا اور پھر احسن کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے اسے خاموش کرنے کے لیے اس کے منہ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا اور پھر فوراً ہی بندوق تان کر سامنے فائر کردیا، فائر کے ساتھ ہی وہ سڑک کے پار جھاڑیوں کی طرف بھاگا اور ضیا کو بھی اپنے پیچھے پیچھے بھاگنے کو کہا۔
اب ضیا سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک ریچھ کا بچہ لنگڑاتا ہوا بڑے عجیب انداز سے ان کی طرف چلا آرہا ہے۔ وہ گولی کھا کر زخمی ہوچکا تھا۔ جونہی وہ ان کے قریب آیا، اس نے اپنا منہ اور دونوں پنجے ان پر حملہ کرنے کے لیے اوپر اٹھائے، اس نے بڑھ کر بندوق کا دستہ ان کے منہ پر زور سے دے مارا جس سے اس کے منہ سے خون فوارے کی طرح بہنے لگا۔
زخمی تو وہ ہی چکا تھا۔ دوسری ضرب کھا کر اور کچھ دیر زمین پر تڑپنے اور شور مچانے کے بعد وہیں ختم ہوگیا۔ احسن نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور ضیا کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگا، گویا اس کی زبان سے اپنی بہادری کی تعریف سننا چاہتا ہے۔
اب اسے گھر لے چلیں؟ ضیا نے کہا۔ ہاں ابا جان کو دکھائیں گے۔ اس نے جواب دیا۔
لیکن مجھے تو اس پر رحم آتا ہے تم نے اس بے چارے کو مارا کیوں۔ ضیا نے کہا۔
’’کیوں مارا؟ یہ موذی جانور ہے۔ نہ مارتے تو یہ ہمیں مار ڈالتا، احسن نے مردہ ریچھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ضیا کی طرف دیکھنے لگا لیکن ضیا نے اس کی بات نہ سنی کیوں کہ اس کی توجہ کسی اور طرف چلی گئی تھی۔
وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے کانوں میں کچھ فاصلے پر سے خوفناک قسم کی آواز آرہی تھی اور اب اس آواز کو دونوں بھائی سن رہے تھے۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ نزدیک آنے لگی، اچانک احسن نے گھبرا کر ضیا کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔
ریچھ! ریچھ آگیا۔
گھبراہٹ میں یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے اور سامنے ایک بہت بڑا سیاہ ریچھ نمودار ہوا۔ وہ اپنے خوفناک سر کو زمین کی طرف جھکائے بڑے خطرناک انداز سے آرہا تھا۔
دونوں بھائیوں پر اس قدر دہشت چھاگئی کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔
بندوق احسن کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اسے اندازہ تھا کہ گولی بھرنے اور نشانہ باندھنے سے پہلے ہی ریچھ اسے آلے گا۔ وہ بندوق زمین پر پھینک قریب کے ایک درخت پرچڑھ گیا اور ضیا کو بھی فوراً دوسرے درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی۔
ریچھ نہایت تیزی سے ادھر ادھر زمین کو سونگھتا ہوا اپنے بچے کے قریب آیا اور اسے چاروں طرف سے ہلا جلا کر سونگھنے لگا۔
ریچھ سونگھ کر معلوم کرلیتا ہے کہ لاش میں جان ہے یا نہیں جب اسے تسلی ہوگئی کہ بچہ مرچکا ہے تو اس نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سارا جنگل دھل گیا اور دونوں بھائیوں کے دل بھی دہل گئے۔ اب وہ لاش کو چھوڑ کر ان دونوں کی طرف لپکا۔
غصے کے مارے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔پہلے وہ اس درخت کے قریب آیا جس پر خوفزدہ احسن بیٹھا ہوا تھا۔ ریچھ نے اپنا بھاری سر اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے پنجے درخت پر جما کر اس پر چڑھنا شروع کردیا۔ ضیا دور ایک درخت پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور خوف سے لرز رہا تھا۔
ابھی ریچھ احسن تک پہنچا نہ تھا کہ احسن چھلانگ لگا کر اسی درخت کے ساتھ والی شاخ پر کود گیا۔ ریچھ دوسری شاخ تک نہ جاسکتا تھا۔ اس لیے وہ اب نیچے اتر آیا تاکہ نیچے سے دوسری شاخ کی طرف جاسکے۔اسی دوران میں ضیا نے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔
اس نے درخت سے نیچے اتر کر زمین پر پڑی ہوئی بندوق اٹھائی اور گولی بھر کر ریچھ پر نشانہ لگایا۔ ریچھ جو ابھی درخت کے تنے پر ہی چڑھنے کی کوشش کررہا تھا زخمی ہو کر ایک دم مڑا اور احسن کو چھوڑ کر ضیا کی طرف دوڑا جو اب بندوق پھینک کر دوبارہ در خت پر چڑھ رہا تھا۔
دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تھا۔ ریچھ نے اپنا اگلا پنجہ اسے مارا جس سے وہ زخمی ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کی لٹکتی ہوئی قمیض کے ٹکڑے علیحدہ ہو کر ریچھ کے پنجے میں رہ گئے اور ریچھ پھسلتا ہوا زمین پر آگیا۔ احسن نے دوسرے درخت پر سے بھائی کو آواز دی کہ اور اوپر چڑھ جائے کیوں کہ ریچھ دوبارہ درخت پر چڑھ رہا تھا۔
اب جب احسن کو ضیا کی جان خطرے میں نظر آئی تو وہ درخت پر سے اترا اور ایک گولی ریچھ پر چلادی۔ ریچھ جو ضیا سے اب چند فٹ کے فاصلے پر تھا، گولی کھاتے ہی دھڑام سے زمین پر آگرا۔ اس دوسری گولی کا زخم اتنا کاری ثابت ہوا کہ وہ گرتے ہی ٹھنڈا ہوگیا۔
ضیا نے جو درخت کی بہت اونچی شاخ پر بیٹھا تھا، جب ریچھ کو اس طرح زمین پر گرتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ شاید ریچھ کو گولی نہیں لگی بلکہ اس نے درخت پر سے احسن پر چھلانگ لگا دی ہے اور اب وہ احسن کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔یہ خیال آتے ہی وہ بھائی کے غم میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور غش کھا کر درخت سے نیچے گر پڑا لیکن خوش قسمتی سے وہ مردہ ریچھ کے اوپر گرا جس کے بدن کی کھال اور بڑے بڑے بالوں نے اس کے لے گدے کا کام دیا، جب اسے ہوش آیا تو ریچھ کو مردہ اور بھائی کو زندہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی اور پھر دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
اب ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دونوں ریچھ اور اس کے بچے کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے اور جب دونوں بھائیوں نے سب واقعات گھر والوں کو سنائے تو وہاں ان کی بہادری پرحیران رہ گئے اور دونوں بھائیوں کی اس محبت کی یادگار کے طور پر ریچھ اور اس کے بچے کی کھال اتروا کر انہوں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لٹکادی۔

حصہ