احمد کی بلی

260

حذیفہ عبداللہ
احمد کو پالتوں جانوروں سے بہت محبت تھی اپنے اسی شوق کے خاطر ایک خوبصورت نیلی آنکھوں والی بلی پالی تھی جس کی عادتیں بڑی نرالی تھیں اس کی چال شیر جیسی تھی اور کیوں نہ ہوتی آخر شیر کی خالہ جو ہوئی احمد اس کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتا اسکول سے آنے کے بعد اس کا پہلا کام یہ ہی ہوتا کہ بلی کو کھانا دے اور اس کے سامنے پانی رکھے ان کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ کھانا کھاتا پھر آرام۔
احمد کی امی کو اس کا یہ فضول شوق قطعی پسند نہ تھا وہ ہمیشہ کہتی کہ احمد بیٹا بلی پالانے کا کیا فائدہ۔ آپ کی بلی کو کھانے اور سونے کے علاوہ کام ہی کیا ہے تم نے اس کے لیے جو گھر بنایا ہوا ہے اس میں سوتی رہتی ہے اور آپ اسکول سے آنے کے بعد اس کی خاطر مدارت میں لگ جاتے ہو۔ اپنے کھانے کی فکر ہوتی اور نہ ہی آرام کی اس سے آپ کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور میرے خیال سے اسکول میں پڑھائی کے دوران بھی آپ کا ذہن اسی طرح رہتا ہوگا اگر ایسا ہے تو پڑھائی کا بھی نقصان ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بلی کسی دوست کو دے دو جس کو بلی پالنے کا شوق ہو۔ احمد امی کی اس بات پر افسردہ ہو جاتا اور کہتا کہ بلی مجھے اچھی لگتی ہے اور مجھے شوق ہے بلی پالنے کا۔ کسی اور کو کیوں دو اس کی وجہ سے میری پڑھائی تو متاثر نہیں ہو رہی ہے۔
احمد کی ضد اور اداسی کو دیکھتے ہوئے اس کی امی کہتی کہ تم بلی پالو مگر وہ گھر میں ادھر ادھر نہ گھومے کھانے پینے کی چیزوں کو خراب نہ کرے اور اسی طرح بلی اپنے مخصوص گھر میں پلتی رہی کچھ دن گزرے احمد کی امی نے محسوس کیا کہ کوئی ہے جو کچن میں کھانے کی چیزوں کو کتر کر خراب کر رہا ہے انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ رفتہ رفتہ اس عمل میں تیزی آرہی ہے انہوں نے اس کا ذکر احمد سے کیا اور کہا کہ تمہاری بلی تو اپنے گھر میں رہتی ہے لیکن پھر یہ کیا ہو رہا ہے میرا خیال ہے چوہے گھر میں داخل ہو گئے ہیں۔ احمد نے فوراً کہا کہ امی آپ بلی کو آزادی دیں، گھر میں گھومنے دیں تو چوہوں کا خاتمہ ہو جائے گا امی کو یہ بات پسند آئی بلی کو آزادی ملی اور چوہے بلی کا کھیل شروع ہو گیا چند روز ہی میں گھر سے چوہوں کا خاتمہ ہو گیا۔ احمد کی امی نے کہا احمد بیٹا آپ کی بلی تو براے کام کی نکلی جس نے چوہوں کی کارستانیوں سے محفوظ کر دیا سچ ہے دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں ہوتی۔ احمد نے اپنی بلی کی آزادی اور کارناموں پر خوش ہو کر میری بلی شیر نہیں تو کیا شیر کی خالہ تو ہے۔

گڈو اور میاں مٹھو

مشعل
گڈو شام کو ٹیوشن سے جب گھر آئے تو انہوں نے ایک پنجرے میں میاں مٹھو (طوطے) کو پاکر بہت خوش ہوئے ان کی امی نے بتایا کہ یہ ابو آپ کے لیے لائے ہیں اور اس میاں مٹھو کی خوبی یہ ہے کہ بولتا بھی ہے آپ نے غور نہیں کیا جب آپ آئے تو اس نے آپ کو خوش آمدید کہا تھا گڈو میاں مٹھو کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور اس سے باتیں کرنے لگے وہ جو بات کہہ رہے تھے مٹھو ان کو دھرا رہا تھا اس دوران گڈو کے ابو آگے اور کہا کہ یہ مٹھو میاں جو ہم آپ کے لیے ہیں بولتا ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر اللہ کا نام لیتاہے آنے والے کو خوش آمدید کہتا ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے سامنے جو بات کریں گے وہ اس کو دھرایے گا اچھی بات کریں گے تو اچھی بات کرے گا۔
ایک روز گڈو اپنا سبق یاد کر رہے تھے اور انہیں اس بات کا خیال نہیں تھا کہ مٹھو میاں اس عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ میاں مٹھو نے جب شام کو سب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے مٹھو نے گڈو کا سبق دھرانا شروع کر دیا انہوں نے حیران ہو کر ابو کی طرف دیکھا تو ابو بولے کہاجاتا ہے طوطے کی طرح سبق رٹا ہوا ہے یعنی سمجھا نہیں بس یاد کر لیا اسی طرح یہ مٹھو سمجھتا نہیں بلکہ یاد کرلیتا ہے آپ کے سبق کے الفاظ یاد کرے اور دھرا دیے۔
چھٹی والے دن دوستوں کی خواہش پر گڈو میاں مٹھو کو دیکھانے کے لیے گھر سے باہر گلی میں لے گئے دوستوں نے انجوائے کیا مٹھو میاں کی باتیں سنتے رہے۔
رات کے وقت گڈو ابو کے پاس بیٹھے ریاضی کا کوئی سوال بوجھ رہے تھے طوطے نے آواز لگائی۔ اوے کیا کر رہا ہے اے تمیز نہیں تجھے۔ طوطے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ابو نے گڈوسے پوچھا آپ مٹھو میاں کو گھر سے باہر لے گئے تھے گڈو نے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کو دکھانے کے لیے لے گئے ابو نے کہا گڈو بیٹا آپ کے دوستوں نے بد تمیزی کے جملے ادا کیے وہ اس طوطے نے دھرا دیے۔ جو غلط بات کہی جائے وہ اسے دھرائے اس کی مثال یہ ہے کہ وہ ماحول کے اثرات فوراً قبول کرتا ہے اور اسے ظاہر کرتا ہے۔ مٹھو میاں نے اس بات کو ظاہر کر رہا کہ آپ کے دوستوں کا انداز گفتگو کیسا ہے۔ انہوں نے ابے اور تجھے کے الفاظ ادا کیے وہ مٹھومیاں نے دھرا دیے۔ میاں مٹھوکو ایسے دوستوں سے بچانے علاوہ آپ کو بھی ان سے دوستی کے متعلق سوچنا چاہیے۔ اگر دوستی کی بھی جائے رابطہ رکھا بھی جائے تو اصلاح کے لیے۔ آپ ان سے غلط بات سیکھنے والے نہ ہوں بلکہ انہیں اچھی بات سکھانے والے اور اچھائی کی طرف لانے والے ہوں تو یہ ایک اچھا عمل ہے اجر و ثواب کا باعث بھی ورنہ یہ دوستی فضول ہیں۔

احمد کی شرٹ کہاں گئی

مریم شہزاد
احمد ایک بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ ویسے تو وہ ابھی پانچ سال کا تھا، مگر چاہتا تھا کہ اپنے سب کام خود کرے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ صبح اٹھتے ہی احمد کو خیال آیا کہ وہ گاڑی والی شرٹ پہنے گا جو اس کی نانی نے اسے تحفے میں دی تھی۔ اس نے جلدی سے الماری کھولی۔ مگر اسے وہ شرٹ کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ کمرے سے نکل کر امی کو ڈھونڈتا ہوا کچن میں آگیا اور امی سے پوچھا “امی! آپ کو پتہ ہے کہ میری وہ گاڑی والی شرٹ کہاں ہے؟
امی کھانا بنا رہی تھی اور ساتھ ہی دوسرے کام بھی کر رہی تھی انہوں نے اس کو دیکھے بغیر کہا۔
“آپ کی الماری میں ہوگی”
نہیں وہاں نہیں ہے۔
“اچھا آپ ابھی ناشتہ کر لو، میں ابھی آکر ڈھونڈ دیتی ہوں”
اچھا آپ کام کر لیں، میں پھپو سے پوچھ لیتا ہوں۔
وہ پھپو کے پاس گیا وہ اپنے کپڑے استری کررہی تھیں انہوں نے بھی اس کو دیکھے بغیر منع کردیا۔
اب وہ دادی کے پاس گیا وہ نماز پڑھ رہی تھی احمد اداس ہو کر سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔
ابو وہاں سے گزرے تو اس کو اس طرح سے بیٹھا دیکھ کرپوچھا۔
“یہ ہمارا شہزادہ اداس کیوں بیٹھا ہے؟”
ابو میری لال والی شرٹ نہیں مل رہی، جس پہ بڑی سی گاڑی بنی ہوئی ہے، احمد نے بتایا۔
ابو نے اس کو دیکھا اور مسکرا کر پوچھا۔
“وہ والی، جو نانو نے گفٹ دی تھی”۔
احمد نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔
“اور جو آپ کو بہت پسند بھی ہے”۔
جی ہاں، بتایے نا آپ کو پتا ہے نا؟
بالکل پتا ہے، آیے میں آپ کو دکھاو کہ وہ شرٹ کہاں ہے
ابو نے احمد کو گود میں اٹھایا اور لے جا کر آینے(شیشے) کے سامنے کھڑا کر دیا اور احمد شیشے میں اپنے آپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
کیونکہ وہ شرٹ خود پہنے ہوئے تھا۔

مسکرائیے

ثروت یعقوب
٭ ادریس احمد (لطیف سے) یہ بتائو دن میں تارے کیوں نہیں نکلتے۔
لطیف: (ادریس احمد سے) وہ سورج کے راستے میں ٹانگ نہیں ارانا چاہتے۔
٭٭٭
حلیم (حنیف سے) ہماری گاڑی پیٹرول سے چلتی ہے۔
حنیف (حلیم سے) ہماری گاڑی ڈیزل سے چلتی ہے۔
حلیم (حنیف سے) ہماری گاڑی ڈنڈے سے چلتی ہے۔
حنیف (حلیم سے) کیا مطلب۔
حلیم (حنیف سے) ہمارے پاس گدھا گاڑی ہے۔
٭٭٭
٭ ایک شخص اپنے گھر کے سامنے کسی کو ڈانٹ رہا تھا۔
ایک راہ گیر نے ڈانٹنے والے سے پوچھا۔ اس بے چارے غریب کو کیوں ڈانٹ رہے ہو اس نے جواب دیا۔ میرے سر پر ایک بال بھی نہیں ہے اور یہ میرے گھر کے سامنے کنگھے بیچ رہا ہے۔
٭٭٭
٭ ایک پہلوان نے اعلان کیا کہ وہ فلاں تاریخ کو مینارِ پاکستان اپنے کندھے پر اٹھائے گا۔ مقررہ دن وہ پہلوان ایک ہجوم کے ساتھ وہاں پہنچا۔ لوگوں نے کہا پہلوان جی۔ اٹھائو اب مینارِ پاکستان اپنے کندھے پر۔
پہلوان نے اپنے رومال کندھے پر رکھا اور بولا ٹھیک ہے رکھ دو مینار میرے کندھے پر ۔
٭٭٭
٭ ایک آدمی کافی دیر تک چاند کو دیکھتا رہا جب تھک گیا تو بولا جلتے رہو۔ جلتے رہو پتا تو تب چلے گا۔ جب بجلی کا بل آئے گا۔
٭٭٭
٭ ڈاکٹر (مریض سے) تم تازہ دودھ پیا کرو۔ بہت جلد صحت مند ہو جائوگے۔
مریض: مگر ڈاکٹر صاحب میرا ایک دوست تازہ دودھ پینے کے دوران مر گیا۔
ڈاکٹر: وہ کیسے؟
مریض: جناب وہ دودھ پی رہا تھا کہ اس کے بھینس کے اوپر بیٹھ گئی۔
٭٭٭
٭ ادریس احمد نے اپنے دوستوں سے کہا آج مجھے تنگ مت کرنا۔ میرا موڈ آج بے حد آف ہے۔
لطیف نے ادریس احمد کی بات سن کر جواب دیا۔ تمہارا موڈ کبھی آف ہو جاتا ہے۔ کبھی آن ہو جاتا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ ایک دن تمہارا فیوز ہی نہ اڑ جائے۔
٭٭٭
٭ حنیف نے حلیم سے کہا۔ آج کل ملاوٹ بہت بڑھتی جا رہی ہے۔
احمد اس کی بات سن کر سر تائید میں ہلاتا ہوا بولا۔ ہاں واقعی۔ کل ہی روبی چاولوں میں دال ملا کر کھا رہی تھی۔
٭٭٭
٭ ایک سات سالہ بچہ کلینک میں داخل ہوا۔ اور ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ڈاکٹر انکل۔ آپ نے دادا ابو کو جو گولیاں دی تھیں۔ ویسی ہی بیس گولیاں اور دے دیں صاحبزادے! لگتا ہے ان گولیوں سے آپ کے دادا ابو کو بہت زیادہ افاقہ، میرا مطلب ہے فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اتنی زیادہ گولیاں آپ کے دادا ابو نے کیوں منگوائی ہیں؟
ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔ ڈاکٹر انکل فائدے کا تو مجھے پتا نہیں۔ مگر وہ گولیاں میری کھلونا پستول میں بالکل فٹ آتی ہیں۔ بچے نے سادگی سے جواب دیا۔

حصہ