اردو نعت کا چہار چمن

618

تحسین فراقی

ABSTRACT: Muzaffar Warsi was a prominent, renowned and famous poet of Naat. The article placed hereunder sheds some light over the craftsmanship of poet besides reflection of his deep love with the Holy Prophet Muhammad (S.A.W). Some Naatia couplets are also placed with critical commentary to highlight beauty of expression.

نعتِ نبیؐ کے نقطہ بہ نقطہ اور دائرہ در دائرہ بڑھتے اور پھیلتے سرمایے کا میں جب بھی تصور کرتا ہوں، مجھے شیخ عبدالرحیم البرعی کا یہ قول یاد آتا ہے: ’’زمانہ جوں جوں گزرتا جاتا ہے، آپؐ کا جمال بڑھتا جاتا ہے‘‘۔ اس جمالِ محمدیؐ کا ظہور ایک صحرائے بے نام سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس چٹیل صحرا سے ایک سرسبز عالم اور ایک روشن نظامِ عالم وجود میں آگیا، ایک نئی زندگی، ایک روشن تمدن، ایک انوکھا طرزِ حکومت اور ایک نرالا اسلوبِ معاشرت و ثقافت، جس کا فیضان ایران و ہند سے مراکش اور اندلس تک، اور جزیرۂ عرب سے جزائرِ غرب و شرقِ ہند تک پھیلا ہے اور ’’رفعنا لک ذکرک‘‘ کی ایک زندہ دلیل بنا ہوا ہے۔ رفعتِ ذکر کے اس باغ ہمیشہ بہار میں جناب مظفر وارثی نے بھی نعت کے تازہ پھول کھلائے ہیں۔ ان کے چار نعتیہ مجموعے ’’بابِ حرم‘‘، ’’نورِازل‘‘، ’’کعبۂ عشق‘‘ اور ’’دل سے درِنبیؐ تک‘‘ حضور اکرمؐ سے ان کے عشق و عقیدت کے زندہ ثبوت ہیں اور گویا ان کے حق میں چار دفترِ شفاعت۔
مظفر وارثی صاحب نے اپنے چوتھے نعتیہ مجموعے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ عشق کی انگوٹھی میں لعل کی مثال جَڑے ہیں۔ یہ شاعر کا بیانِ محض نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مظہر ان کا تخلیق کردہ نعتیہ ادب ہے جو عشقِ محمدؐ کی آنچ سے لپٹا ایک بھڑکتا ہوا درختِ چنار ہے، اور خود شاعر برگِ حنا کی طرح اپنے باطن میں لہو لہو۔ عشقِ محمد ؐ کی آتشِ بے دُود سے شعلہ بجاں!
اہلِ علم سے مخفی نہیں کہ اصنافِ شعر میں نعت مشکل ترین صنف ہے۔ لکنت یہیں کرتی ہیں زبانیں فصحاء کی۔ اس صنف میں جاننے سے زیادہ دیکھنے کی قیمت پڑتی ہے۔ کامیاب نعت اُس وقت تک کیسے کہی جا سکتی ہے جب تک نبی اکرم ؐکے ساتھ والہانہ محبت اس درجے میں نہ پہنچ جائے کہ ان ؐ کی ذات چاہنے والے کے لیے حاضر و موجود تجربہ بن جائے۔ وارثی صاحب کی نعتیں اس بات کی کھلی گواہی دیتی ہیں کہ حضور اکرم ؐ کی ذات ان کے لیے ایک زندہ روحانی اور باطنی تجربہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گلے کے رستے نہیں، روح کے واسطے سے نعت کہتے ہیں، سنائی نے کس قدر درست کہا تھا ؎
اے سَنائی از رہِ جاں گوئی مدحِ مصطفیؐ
تاترا سُوئے سپہرِ برتریں سُلّم بُوَد
اورمظفر وارثی کا یہ قول کتنی بڑی وجدانی صداقت کا حامل ہے جب وہ کہتے ہیں ؎
میں اُن ؐ میں فنا ہو کے انھیں دیکھ رہا ہوں
وہ زندہ سلامت پسِ دیوارِ عدم ہیں
مظفر وارثی کی نعت کا ممتاز ترین وصف اس کا گداز ہے۔ سپردگی اور والہیت ہی سے نعت کی شریانوں میں زندگی کا لہو دوڑتا ہے۔ وارثی صاحب کی نعتوں میں پیازی آنسوئوں کے کتنے ہی لعلِ شب چراغ روشن نظر آتے ہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ اشک و آستین کا مضمون ہے:
ز چشمم آستیں بردار و گوہر را تماشا کن
سوز اور گداز کی اس نعمت میں دیوہ شریف کے اس شیخ کے فیضِ روحانی کا حصہ بھی ہے جن کے باعث مظفر، وارثی ہیں اور وارثِ گنجینہ نعت!
گداز، طلب، تپک اور تڑپ کے تیور ان کے چاروں نعتیہ مجموعوں میں جگہ جگہ مشہود و مبرہن ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے لیل و نہار واقعی یادِ رسول ؐ میں حلقہ بگوش ہوچکے ہیں… اور اس کا پورا وجود رشتہ برشتہ اور تار بہ تار مہرِ رسول ؐمیں ڈوب چکا ہے۔ چند شعر دیکھیے جن میں سے بعض اپنی متحرک تمثالوں کے حوالے سے بھی ناقابلِ فراش ہیں:
نہ دھنک نہ تارہ نہ پھول ہوں
قدمِ حضورؐ کی دھول ہوں
میں شہیدِ عشقِ رسولؐ ہوں
مری موت کو بھی بقا کہو
————-
تو ؐ ہی میرا مدار
تو ؐ ہی میرا حصار
تو ؐمرے آ ر پار
جیسے شیشے سے نور
————-
ہونٹ جب متصّل ہوں ترے اسم سے
روشنی پھوٹتی ہے مرے جسم سے
یوں تری مشعلیں
میرے اندر جلیں
جگمگائوں تمام
تجھ پہ لاکھوں سلام
————-
مری روح تیری غلام تھی، یہ ازل سے ہی ترے نام تھی
میں یہاں ہی تیرا نہیں ہوا، مرا تجھ سے ربط عدم سے ہے
————-
ان کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جائوں
ضرب دوں خود کو جو اُنؐ سے تو لگوں لاتعداد
وہ جو مجھ میں سے نکل جائیں صفر ۱ہو جائوں
————-
چھاپ دے اپنے خد و خال مری آنکھوں پر
پھر رہائش کے لیے آئنہ خانہ دے دے
————-
جب اُنؐ کی یادوں کا آئے ریلا
لگے ہرے گنبدوں کا میلا
میں اپنے اندر ہجوم بن کر
طواف کرتا رہوں اکیلا
حرم سے نکلیں حضورِ عالیؐ
تو ان کے ہمراہ چلنے والی
ہوائوں کا روپ دھارتا ہوں
بنیؐ بنیؐ بس پکارتا ہوں
گداز اور والہانہ پن کا یہ سیلِ بے پناہ جب کہیں،کہیں ہندی روپ رس میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے برہا کی ماری کملی ناری پیت کی پرتیں کھول رہی ہے:
تنہائی میں بھیڑ لگا دوں، بھیڑ میں پھروں اکیلی
تیری راہ میں لٹ کر میں نے اپنی قیمت لے لی
نام ترا لے لے کر اپنے آپ کو دوں آوازیں
تیرے اندر ڈوب کے پار اتر گئی میں البیلی
ٹھاٹھیں مار رہے ہیں مجھ میں عشق کے سات سمندر
جب سے مجھ پر تُو نے رحمت کی اک بوند انڈیلی!
یہ سوز، یہ خود فراموشی، یہ سپردگی، یہ خواہش، یہ تڑپ اور یہ خود گدازی اردو نعت میں نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہے۔
وارثی صاحب کی نعت کا دوسرا نمایاں وصف یہ ہے کہ انھوں نے نعت کے پیرائے میں نبی اکرم ؐ کی انقلاب انگیز سیرت کو بھی خوبی سے نمایاں کیا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ نعت کے اس پہلو کو نمایاں کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں ایک ہمہ گیر انقلاب کی بنیاد ڈالی جا سکے اور اذہان و قلوب میں معنوی تبدیلی پیدا کی جا سکے:
تاج نہ طرہ مال نہ مایا
اور ساری مخلوق رعایا
انسانوں کے بھاگ جگائے
تہذیبوں کی پلٹی کایا
اس کا تکلّم حکم الٰہی
اس کی زباں سے بولے خدا ہی
بات آفاقی، لہجہ مدھم
صلّی اللہ علیہ وسلم
————-
اصول یکتا، حیات یکتا، عجیب ہے اس کی ذات یکتا
کہ اس کی یکتائی کے جلو میں جلوسِ جمِ غفیر آیا
مٹا دیے سب غرور اس نے، عطا کیا وہ شعور اس نے
کہ آپ اپنے مقابلے پر، ہر آدمی کا ضمیر آیا!
نعتِ نبیؐ کی تخلیق کے لیے وارثی صاحب نے پابند و آزاد کے نو بہ نو پیرایے چُنے ہیں۔ ان کا آہنگ ہیئت اور دروبست ہی کے حوالے سے منفرد نہیں، معانی و مضامین میں بھی اپنی انفرادیت کا عَلم کُشا ہے۔ اپنی بعض نعتیں انھوں نے اپنے مخصوص عمدہ ترنم پر ڈھالی ہیں۔ تازہ ہیئتوں اور منفرد اسلوبِ بیان نے ان نعتوں کو تاثیر کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی ہے۔ منفرد اسلوبِ بیان کے چند نمونے دیکھیے:
حشر کے میداں سے کُچھ کم تو نہیں دنیا بھی
ایسے جیو، جیسے ہر دن پرسش کا دن ہے
تقلیدِ سرکارِ دو عالمؐ کے فیتے سے
اپنے اپنے قد کی پیمائش کا دن ہے
————-
آواز دی تو رحمتِ سرکار رک گئی
جو دل پہ چل رہی تھی وہ تلوار رُک گئی
جاتا ہوا وقار ملا ان کے نام پر
سر سے گری تو ہاتھ پہ دستار رُک گئی
————-
محاذِ نفس پہ سُنّت کی سربراہی میں قسم خدا کی بڑا قتلِ عام کرتا ہوں۔
حق یہ ہے کہ مومن کے لیے یہ قتل مباح بلکہ واجب ہے اور اسی قتل میں حیات ہے۔ اِنَّ فیِ قَتلی حَیَاتیِ۔
وارثی صاحب کے اس توانا اور عشق افروز نعتیہ سرمایے میں کہیں کہیں اظہار کی لکنت بھی ہے اور بعض مصرعے ثمر نیم رس کی مثال ہیں۔ امام شرف الدین بوصیریؒ نے درست فرمایا تھا کہ آپؐ کے مداح خواں آپؐ کی صفات کے صرف عکس ہی دکھاتے ہیں۔ کیا کِیا جائے تالاب ستارا نہیں ستارے کا عکس ہی دکھا سکتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی وارثی صاحب نے مہرِ انور کے جو عکس دکھائے ہیں، بڑی جگر کاوی، سہولت اور احتیاط سے دکھائے ہیں:
ہر ایک سانس محمدؐ کے نام پر نکلا
خیال ذہن سے احرام باندھ کر نکلا
کہی ہے نعتِ نبیؐ روح کی نمو کے لیے
لہو میں ڈوب گیا ہے قلم وضو کے لیے
لگتا ہے کہ غزل کے میدان میں ایک عمر کی نتیجہ خیز ریاضت کرنے والے شاعر کو اپنی بہتر منزل مل گئی، اس کی زندگی کے خزاں آثار گلستان میںعشقِ محمدؐ کی سبز خوشبو کے جھونکے پے درپے چلنے لگے اور نعتوں کے گلابوں نے سرشاخِ تخیل کھل کر اردو کے نعتیہ ادب کا ایک زندہ، توانا، شور انگیز اور عشق خیز چہار چمن ترتیب دے دیا ہے جس کے لیے ہمارا یہ نہایت محترم شاعر مبارک باد کا مستحق ہے۔

نعتیں

آفتاب مضطرؔ
نہ پوچھ ہجرِ نبیؐ میں ہیں لذتیں کیسی
سرور بخش ہیں اس غم کی راحتیں کیسی
مدینے جاتی ہے دن رات میرے دل کی لگن
لگن کو فاصلے کیسے، مسافتیں کیسی
حضورؐ آپ کے در کی گدائی کے آگے
جہاں کی خسروی کیسی، حکومتیں کیسی
جو رب نے خاتمِ مرسل کہا محمدؐ کو
تو اس میں حجتیں کیسی، وضاحتیں کیسی
ہوائے ختمِ نبوت کے روبرو گئے کیوں!
’’جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی‘‘
جو گوش بولہبی ہو، نظر ہو بوجہلی
تو پھر سماعتیں کیسی، بصارتیں کیسی
غمِ حضور میں جو دل ہے روز و شب مضطرؔ
فدا ہیں اس پہ نہ پوچھو مسرتیں کیسی!

اشرف طالب
ان سا کوئی نہ دیکھا جہاں میں امیں
ذات اقدس پہ ہے مجھ کو کامل یقیں
سید المرسلیں ہیں سراج منیر
آپ نورالہدیٰ آپ نورِ مبیں
جو بھی الفت میں سرکار کی کھو گیا
راستہ اس کا تگتی ہے خلدِ بریں
وہ ہیں محبوب رب وہ ہیں خیرالبشر
ان سا کوئی نہیں ان سا کوئی نہیں
ان کے روضے کی جب ہو زیارت نصیب
جاں نکل جائے طالب ہماری وہیں

منظر عارفی
خلق میں سب سے معتبر انساں
آپ کو مانتا ہے ہر انساں
دین و دنیا کے ہر حوالے سے
آپ ہی کامیاب تر انساں
آپ ہی سب سے بے مثال نبی
آپ ہی سب سے با اثر انساں
آپ کی وسعتِ نظر کی قسم
آپ ہی سب سے دیدہ ور انساں
مستقل دورِ انتشار میں بھی
آپ نے رکھے جوڑ کر انساں
اب مدینہ ملا ہوا ہے اسے
اب نہ بھٹکے اِدھر اُدھر انسان
رہبری سے رسول کی منظرؔ!
ہو گیا سب کا راہبر انساں

حصہ