جب صدائے کن کا اگلا مرحلہ آجائے گا

329

تلخیص و تحقیق: خرم عباسی
آج کا کالم لکھتے ہوئے ،ایک عزیز دوست اور ایک باکمال شاعر عمران شمشاد کا ایک شعر یاد آ گیا
جب صدائے کن کا اگلا مرحلہ آ جائے گا
آسماں کے کاج میں ہوں گے زمینوں کے بٹن
یہ ذکر ہے صدائے کن کے اگلے مرحلے سے پہلے بہت پہلے ،لازماں و لامکاں کا، جب کائنات اور وقت ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ جب حکمرانی تھی ایک حاکمِ اعلٰی کی جس کو آیندہ، یعنی مستقبل میں وہ تمام کر گزرنے پر مکمل اختیار حاصل تھا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ وہی حاکمِ اعلٰی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ وہی تو تھا اور ہو گا جو اصل حقیقت ہے۔ وہی ہر اصل کا خالق و مالک ہے اور اُسی نے تمام مراحل کو ایک گوناگوں سانچے میں ڈھال دیا ہے۔
اُس لمحہ کُن کا تصور کیجیئے جب لازماں سے تخلیقِ زماں (کائنات اور وقت) کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکم ہوتا ہے : آسمان اور زمین وجود میں آ جائیں، تو فیکون (پس ڈھل گئے)، یہ تمام عمل ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کائنات کو اپنے تمام مراحل طے کرنے میں اربوں سال لگ گئے اور یہ ہے بھی حقیقت، جب کہ قرآن کہتا ہے کہ : زمین و آسمان تعمیلِ حکم میں فوری طور پر وجود میں آ گئے۔” سائنس اس وقت کو Plank Time (دس کی طاقت 43 سیکنڈ) کا نام دیتی ہے۔ میں اُسے لمحہ کُن سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آسمان اور کائنات جدا ہو چکے تھے۔ آسمانوں نے اپنی تخلیق کا عمل جاری رکھا جس کا انسانی ذرائع اور ذہن قطعی طور پر ادراک نہیں کر سکتے لیکن تخلیق عالمین میں یہ سفر پہلے ایک سیکنڈ میں تمام وسائل و اسباب اور اصول کے ساتھ معرض وجود میں آ چکے تھے۔
جب حکم ہوا کہ تمام آسمان اور زمین وجود میں آ جائیں (اور ” کُن ” جو دراصل اُس حاکمِ اعلٰی کے ارادے ہی کا نام ہے) تو Nihility (عدم یا نیستی – جو خود آسمان و زمین کا تکملہ ہے) ایک دم اربوں میل پر محیط فضا میں دھوئیں کی طرح بکھر جاتی ہے۔ اور وہ تمام اصول جو کائنات کی تخلیق کے لیے ضروری تھے، اس پہلے لمحے میں معرضِ وجود میں آ جاتے ہیں۔ جب اصول طے پا گئے تو تخلیق نے اپنی منازل طے کرنا شروع کر دیں۔
قرآن کریم کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے سائنسی پس منظرکے ساتھ دوسرے علوم کا جاننا ضروری ہے۔ میں کلام پاک کی سب سے پہلی آیت کریمہ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعَالَمِين َ کا ذکر کروں گا جس میں رب العزت فرماتے ہیں کہ میں رب ہوں عالمین (multiverse) یعنی عوالم کا نہ کہ ایک عالم (universe) کا۔
20ویں صدی کے تقریباً اواخر تک سائنس دان اس بات پر متفق تھے کہ یہ ایک کائنات ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ 20ویں صدی کے آخری عشرے میں سائنس دانوں نے یہ معلوم کیا کہ ہمارا عالم تو ایک ذرہ ہے اور ایسے بے شمار عوالم موجود ہیں۔ سائنس دان اب تک چار متوازی طبقاتِ عوالم دریافت کر چکے ہیں۔ ہم ہر Strata of Universe کوMultiverse کہہ سکتے ہیں جس میں بے شمار عوالم موجود ہیں اور ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ایسی ہی ایک کہکشاں میں جس کا نام ملکی وے (Milky way) کہکشاں ہے، ہم رہتے ہیں۔
ہم جب رات کو آسمان پر نگاه ڈالتے ہیں تو دراصل ہم ارب ہا سال پرانے ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید یہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ بگ بینگ کےتقریباً ّ تین لاکھ اسی ہزار سال بعد کائنات کچھ شفاف ہونا شروع ہوئی۔اس سے پہلے وه دودھیا سی تھی۔ یہ دودھیا کہر، آزاد الیکٹرونوں پر مشتمل تھی۔ کائنات کو اپنا درجہ حرارت ابھی اور بھی کم کرنا تھا؛ اس حد تک کہ الیکٹرون مزید دھیمے پڑجاتے، ایٹموں کے مرکزے انہیں اپنے مداروں میں قید کرنے کے قابل ہوجاتے، اور بھرپور ایٹم تشکیل پا جاتے۔ کائنات کو اس کی موجوده ساخت دینے میں ہائیڈروجن ، ہیلیم اور لیتھیم کو بہت ہی طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا۔سائنسدانوں کے تخمینے کے مطابق، الیکٹرونوں کو دھونے اور بڑی تعداد میں ایٹم بنانے میں لگ بھگ تین لاکھ اسی ہزار سال لگ گئے۔ اسی کے ساتھ کائنات پر چھائی ہوئی دودھیا کہر ختم ہوگئی؛ اور روشنی کی پہلی کرن کو خلاء میں فرار ہونے، اور پوری کائنات میں پھیل جانے کا موقع ملا۔تقریباً ١٤ اَرب سال بعد، دو نوجوان سائنسدانوں نے اتفاقاً ان لہروں کا (روشنی کی اوّلین کرنوں کا) سراغ لگالیا۔ یہ ١٩٦٤ء کی بات ہے آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن،ہماری کہکشاں میں پھیلی ہوئی ریڈیو لہروں کی نقشہ کشی کرنے میں مصروف تھے ،لیکن وه جہاں کہیں بھی دیکھتے، ہر جگہ پس منظر میں ایک عجیب سی بھنبھنا ہٹ جیسے ریڈیائی سگنل پاتے۔ پہلے پہل انہیں لگا کہ ان کے آلے(انٹینا) میں کوئی خرابی ہوگئی ہے۔ انہیں شک ہوا کہ شاید کبوتروں کی بیٹ اس انٹینا پر گری ہے جس کی وجہ سے ایسے سگنل موصول ہورہے مگر خوب اچھی طرح سے انٹینا صاف کرنے کے بعد بھی وه سگنل ویسے ہی موصول ہوتے رہے۔اس بارے میں ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ وه اپنی اس دریافت کے بارے میں پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے اس پر تبصره کرتے ہوئے کہا: ’’آپ نے یا تو کبوتروں کی بیٹ کے اثرات دریافت کئے ہیں یا پھر تخلیقِ کائنات کے۔‘‘درحقیقت یہ تخلیق کے لمحے کی دریافت ہی تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا جب تقریباً ١٤ اَرب سال قبل، ایٹموں نے پہلی پہلی بار الیکٹرونوں کو اپنی آغوش میں لیا تھا اور اپنی تکمیل کی تھی… جب کائنات پر چھائے ہوئے دودھیا بادل صاف ہوئے تھے؛ اور نوزائیده کائنات اپنا نظاره کرانے کو بے پرده ہوئی
اس یادگار لمحے کو بہتر انداز سے سمجھنے کےلئے ناسا نے ’’کوبے‘‘ نامی مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا تھا۔ اس نے خلاء میں جا کر کائناتی پس منظر کے مختلف حصوں کا درجہ حرارت ناپنا شروع کیا۔ پھر اس کا تجزیہ کیا گیا، جس سےاوّلین کائنات کی نقشہ سازی ہوئی۔ کوبے سے حاصل شده معلومات، بگ بینگ کی گتھی سلجھانے میں کافی نہیں تھیں۔ لہذا، ناسا نے ایک اور مصنوعی سیارہ خلاء میں چھوڑا جو کوبے کے مقابلے
میں کہیں زیاده جدید اور حساس تھا۔ ٢٠٠١ء میں ڈیوڈ اسپر جیل اس ٹیم کا حصّہ تھے جس کا کام کائناتی پس منظر کی تفصیلی نقشہ کشی کرنا تھا۔ اس یادگار لمحےکے بارے میں بتاتے ہوئے، کہ جب وه سیاره (ڈبلیومیپ) خلاء میں چھوڑا گیا تھا، اسپرجل کہتے ہیں: ’’یہ بہت ہی پُرجوش موقعہ تھا جب میں کیپ کیناورل گیا تھا۔ وہاں میرے گھر والے بھی میرے ساتھ تھے۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر راکٹ کو خلاء میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بہت ہی قیمتی تھا جب اس سیارے کے خلاء میں پہنچنے کے ایک دن سے بھی کم وقت کے دوران، ہمیں اس سے اوّلین سگنلز موصول ہوئے ِ اور تب ہمیں اطمینان ہوا کہ وه مصنوعی سیاره صحیح طرح سے کام کر رہا ہے۔‘‘
کائناتی پس منظر کی تصویر، جو ڈبلیومیپ سے حاصل ہوئی تھی، اب تک کی حاصل کرده تصاویر میں سے سب سے بہتر اور واضح تھی۔ یاد رہے کہ تب ہماری کائنات کی عمر تین لاکھ اسی ہزار سال ہوچکی تھی؛ اور تب تک وه کھرب ہا کھرب میلوں پر محیط ہوچکی تھی۔ ہائیڈروجن اورہیلیم کے گیسی بادل خلاء میں تیر رہے تھے۔ پہلا ستاره بننے میں اب بھی ٢٠ کروڑ سال باقی تھے۔ ان ستاروں نے اس وقت کائنات میں آتش بازی وه شاندار مظاہره کیا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہوگا۔کائنات ایک تاریک دور سے نکل کر ایک ایسے شاندار دور میں داخل ہورہی تھی جب اوّلین گیسی بادلوں کو اپنی ضو سے منور کرنا شروع کیا اور اسی کے ساتھ کائنات ایک شاہانہ انداز میں روشن ہونا شروع ہوئی۔کاش کہ ہم اس نظارے کو دیکھنے کے لئے وہاں موجود ہوتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے کسی نےگھپ اندھیرے میں برقی قمقموں کو روشن کردیا ہو۔ کائنات ہر سمت سے روشن ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ یکے بعد دیگر ستارے وجود میں آنا شروع ہوگئے تھے۔بگ بینگ کے ایک ارب سال بعد پہلی کہکشاں نے جنم لیا۔ اگلے آٹھ ارب سال میں لاتعداد کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ تقریباً پانچ اَرب سال پہلے کس کہکشاں کے ایک گوشے میں قوّت ثقل نے گرد اور گیس کے بادلوں کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا۔ یہ ایک گرم گیسی گولا تھا جو گیس اور گرد کے مزید بادل ہڑپ کرتے ہوئے خود کو بڑا کررہا تھا۔ اور آخرکار وه وقت بھی آگیا جب گیس کے اسی گولے سے ایک ستارے نے جنم لیا… جسے ہم اپنےِ سورج کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ بگ بینگ کے تقریباً ٩ اَرب سال بعد ہمارے اس ننھے سے نظام شمسی میں کچھ امن و امان ہوا؛ اور ہماری زمینی زندگی نے اپنی پہلی پہلی جڑیں نکالنا شروع کیں۔بگ بینگ ہی کی وجہ سے ہر چیز کا وجود ہے۔ ہر چیز تب سے مسلسل نشوونما پارہی ہے۔ ہر چیز جس کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہوگا۔بگ بینگسےلے کر اب تک، ان تقریباً ١۴ اَرب سال میں کہکشائیں تخلیق ہوتی رہیں اور وه ستاروں، سیاروں اور چاندوں سے بھرتی رہیں۔ اور اس پورے عرصےمیں کائنات بھی مسلسل پھیلتی رہی۔ہم یہ جان گئے ہیں کہ کائنات بہت ہی بڑی جگہ ہے؛ لگ بھگ ١٥٠ اَرب نوری سال پر پھیلی ہوئی۔ لیکن یہ لامحدود بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا یہ کائنات واقعی ہمیشہ ہمیشہ پھیلتی ہی رہے گی؟ ہوسکتا ہے کہ کائنات کے باہر کچھ بھی نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کائنات محدود ہو۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ کائنات ایک بند جیومیٹری کی حامل ہو؛ یعنی اگربہت دور تک خلاء میں دیکھیں تو اپنے آپ ہی کو دیکھیں۔ شاید ہم یہ کبھی نہ جان پائیں کہ بگ بینگ سے وجود پذیر ہونے والی یہ کائنات ہمیشہ جاری و ساری رہے گی۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ بگ بینگ رکا نہیں؛ وه آج بھی کائناتی پھیلاؤ کی صورت میں جاری ہے۔ایک اور تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ سست نہیں پڑرہا، بلکہ یہ تو تیز ہورہا ہے! یعنی کائنات صرف پھیل نہیں رہی، بلکہ اس کے پھیلنے رفتار بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ (یعنی کائناتی پھیلاؤ کی بڑھتی ہوئی رفتار) کے پس پشت ایک’’توانائی‘‘ کارفرما ہے۔ یہ پراسرار اور غیرمرئی شئے، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ لیکن ہم اس طاقت کو نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آخر یہ پراسرار توانائی موجود ہی کیوں ہے۔ مگر کہیں توانائی کی موجودگی کا مطلب یہ تو نہیں کہ بگ بینگ سے جو کچھ بھی تخلیق ہوا، وه سب کچھ ختم ہو جائے گا؟ اگر توانائی اسی طرح کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دوردھکیلتی رہی تو ہماری ملکی وے کہکشاں اکیلی ہی ره جائے گی۔ آج سے ایک کھرب سال بعد ہمارے کائناتی پڑوس میں موجود زیاده تر اجرام فلک ہم سے بہت دور ہوکر ہماری نظروں ہی سے اوجھل ہوچکے ہوں گے۔ تب تک ہماری کہکشاں میں موجود ستارے اپنا ایندھن پھونک چکے ہوں گے۔کہکشائیں اندھیری ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اور شاید ایٹموں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ره جائیں گے۔ کائنات کی ابتداء، بگ بینگ سے، چشم زدن میں ہوگئی تھی۔ لیکن شاید اس کے اختتام کو ایک اَبد کا زمانہ درکار ہے؛ اِک ہمیشگی کی ضرورت ہے۔ یہ بحث کہ کائنات کا اختتام کیسے ہوگا، بگ بینگ ہی کی مانند ایک پہیلی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاکائنات اس غبارے کی طرح پھس ہوجائے گی جس کی ہوا نکال دی جائے؟ یا اس کا خاتمہ ایک عظیم چٹاخے، ایک ’’بگ کرنچ‘‘ کی صورت میں ہوگا، جو بگ بینگ کے بالکل الٹ ہے؟ یا پھر یہ پھیلتی چلی جائے گی اور آخرکار ایک سرد و تاریک اختتام پر منتج ہوگی؟ اگر کائنات واپس
سکڑتی ہے اور اپنے آپ میں منہدم ہوجاتی ہے، تو شاید ایک اور بگ بینگ کی ابتداء ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہو؛ ہماری کائنات اس کے نتیجے میں پیدا
ہونے والی کوئی ایک کائنات ہی ہو۔ ممکن ہے یہ ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو جس میں کائناتیں آپس میں ٹکراتی ہوں، منہدم ہوتی ہوں، نئی کائناتوں کو جنم دیتی ہوں… شاید ایسی کائناتوں کو کہ جن میں ایک دوسرے سے مختلف قوانین طبیعیات حکمرانی ہو۔ شاید، اس سے ہٹ کر، یہ سب کچھ پہلی بار نہ ہوا ہو۔ بلکہ یہ ایک چکردار سلسلہ ہو: بگ بینگ سے کائنات پیدا ہوئی ہو اور بگ کرنچ ختم ہوگئی ہو؛ لیکن فوراً ہی ایک نئے بگ بینگ سے ایک نئی کائنات وجود میں آگئی۔ اس طرح زمان و مکان کی بار بار پیدائش اور اختتام کا سلسلہ
جاری رہا ہو۔ خیر! کائنات ایک ہو یا لامحدود، ان سب کا نقطہ آغاز بہرحال بگ بینگ ہی ہے۔ ہر وه چیز جو ہمارے انسان ہونے کا باعث ہے – ہمارے جسم میں موجود ایٹم، ہمارے زیورات، وه تمام چیزیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں، غمگین کرتی ہیں، جن سے ہم میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے، محبت جاگری ہے – اس لئے وجود پذیر ہوئیں کیونکہ آج سے لگ بھگ چوده ارب سال پہلے ’’بگ بینگ‘‘ وقوع پذیر ہوا تھا؛ جس نے یہ سب کچھ جنم دیا۔ اور اگر ہم واقعی میں خود کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بگ بینگ کو صحیح طریقے سےسمجھنا ہوگا۔ لمحہ کُن میں ،اَربوں سال پہلے اس کائنات نے، اس تمام زمان و مکان نے جنم لیا۔ وقت کے بے انتہاء مختصر لمحے میں سارے کے سارے قوانین طبیعیات وجود میں آئے۔ بس! یہی وه لمحہ کُن ہے جس میں اس ساری کائنات کا، ہمارے اپنے وجود کا، عظیم ترین راز پوشیده ہے۔ اگر ہم ابتدائے وقت کے اس لمحے کی باریک ترین جزئیات کو کھنگال پائے، اور اس سربستہ راز سے پرده اٹھاسکے، تو شاید یہ ہماری سائنس کی، ہمارے فہم و فکر کی، پوری انسانیت کی سب سے بڑی فتح ہوگی۔ غرض اسی لمحے میں ہمارا ماضی، حال اور مستقبل، سب کچھ پنہاں ہے .
بشکریہ: ترجمان القرآن،محترم عبد الرشید سیال .جہان سائنس .زہیر عبّاس

حصہ