’’ادھورا وعدہ‘‘ کی تعارفی تقریب

374

ڈاکٹر نثار احمد نثار
یونیورسٹی آف گریجویٹس فورم آف کینیڈا (کراچی چیپٹر) اور نیاز مندان کراچی کے اشتراک سے شاہد الیاس شامی کے تحریر کردہ ناول ’’ادھورا وعدہ‘‘ کی تعارفی تقریب کے ایم سی آفیسر کلب کے سیمینار ہال میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیب اذکار حسین نے کی۔ رضوان صدیقی مہمان خصوصی تھے۔ شاہد اقبال شاہد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ شاہدہ عروج نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ صغیر احمد جعفری نے نعت رسولؐ پیش کی۔ حنیف عابد نے اس ناول کے بارے میں کہا کہ انہوں نے جزوی طور پر اس کا مطالعہ کیا ہے تاہم اس ناول میں زندگی کے مختلف تجربات بیان کیے ہیں اس میں چونکا دینے والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ شاہد الیاس شامی نے اپنے اردگرد کے حالات و واقعات رقم کیے ہیں انہوں نے اپنا عہد‘ اپنا معاشرہ لکھا ہے۔ ہر شاعر و ادیب اپنے دور کا نقیب ہے وہ بتاتا ہے کہ ہم کیا غلطیاں کر رہے ہیں اور یہ بحیثیت ایک قوم ہمیں کیا کرنا چاہیے اس ناول میں مصنف نے یہ بتایا ہے کہ ہم معاشرے میں رہتے ہوئے بہت سی چیزیں اپنے مزاج کے خلاف برداشت کرلیتے ہیں یہ ہمارا قومی المیہ ہے یہ ناول ایک متوسط خاندان کی کہانی ہے اس تحریر کی زبان آسان اور جملے کاٹ دار ہیں۔ مجید رحمانی نے کہا کہ شاہد الیاس شامی نوزائیدہ لکھاری ہیں میرے نزدیک ناول نگاری ایک مشکل صنفِ سخن ہے لیکن ناول نگار نے معاشی مسائل پر ایک عمدہ تحریر پیش کی ہے اس ناول میں پندرہ سولہ کرداروں کو بہت خوب صورتی سے نبھایا گیا ہے‘ ناول کا پلاٹ مضبوط ہے یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی ہے اس میں زمینی حقائق بیان کیے گئے ہیں میرے خیال میں یہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ ناول نگاری کی عمر 140 سال ہوچکی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ناول نگار نے قابل ستائش کام انجام دیا ہے ادبی حلقوں میں اس کی پزیرائی کی جائے گی۔ اگرچہ یہ مصنف کا پہلا ناول ہے لیکن انہوں نے اوّل تاآخر اپنے تمام کرداروں سے انصاف کیا ہے اس میں مشرقی روایات کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک آدمی جب اپنے گھر بار کو چھوڑ کر معاشی مسائل سے مجبور ہو کر دیارِ غیر میں روزی روٹی کمانے جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے اس کے اہل خانہ کے کیا تاثرات و حالات ہوتے ہیں گھر والے کس طرح اس رخصت کرتے ہیں یہ ناول ایک انسانی المیہ کا اظہار ہے اس کی کہانی خوابوں کی حسرت سے جنم لیتی ہے اس ناول میں ایک نوجوان کی معاشی جدوجہد کی منظر کشی کی گئی ہے اس میں رومانی عنصر بھی ہے یعنی عشق و محبت کی داستان اور زندگی کی تلخیوں کا تذکرہ بھی ہے اس ناول کا مرکزی کردار بہت جان دار ہے واقعات کو اثر پزیری سے ہم کنار کیا گیا ہے مصنف نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ناول کا انجام چونکا دینے والا بنا دیا ہے یہ ناول ایک سچی کہانی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ مصنف کی اپنی کہانی ہو بہرحال یہ ایک عمدہ تحریر ہے اور قاری کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ رحمان نشاط نے کہا کہ اس ناول میں تنوع موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے کرداروں کے ساتھ کہانی کا تانا بانا بُن کر ناول کو منطقی انجام سے دوچار کیا ہے‘ اس ناول میں کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں ہے یہ ناول ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو معاشی تنگ دستی سے تنگ آکر دوسرے ملک میں چلا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کما کر اپنے والدین اور بہنوں‘ بھائیوں کے خوابوں کی تکمیل کرسکے اپنے اہل خانہ کو آسودگی فراہم کرسکے۔ اس ناول میں مصنف نے صیغۂ ماضی کی ٹیکنک استعمال کی ہے۔ اس تحریر کی زبان سادہ اور دل چسپ ہے۔ ’’ادھورا وعدہ‘‘ کے مصنف شاہد الیاس شامی نے کہاکہ وہ رونق حیات اور زیب اذکار حسین کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ ہر دو صاحبان نے میری ہمت افزائی کی جس کے باعث آج کی اس خوب صورت تقریب کا انعقاد ممکن ہوا۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ ہمارے یہاں ناول اور افسانہ مغرب سے آیا ہے لیکن ہر ناول اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے لیکن کئی بار ناول اپنے عہد کے ساتھ ساتھ دوسرے ادوار کی عکاسی بھی کرتا ہے نیز وہ ناول زیادہ کامیاب مانا جاتا ہے جو مختلف زمانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہد الیاس شامی قلم کاروں میں نیا اضافہ ہے انہوں نے اپنی کتاب میں انسانی زندگی کے مثبت رویوں کی عکاسی کی ہے اس ناول میں ایک بھی منفی کردار نہیں ہے۔ ناول میں محبتوں کا اظہار ہے اس میں معاشرتی سچائیوں کا ذکر ہے‘ اس میں اچھے کردار اور اچھی روایاتِ زندگی کا تذکرہ ہے۔ ناول کے تمام کردار انسان دوست ہیں ا سمیں کوئی کردار بدکردار نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سچا ادب تحریر کیا ہے لیکن اس ناول میں یہ تعین نہیں ہو پارہا کہ یہ کس زمانے کی کہانی ہے‘ کس عہد کی داستان ہے تاہم اس ناول پر کسی تنقید نگار کا کوئی تبصرہ نہیں ہے یہ بھی ایک اہم بات کہ اس سے پتا چل رہا ہے کہ ہم صاحبِ کتاب باہمت شخص ہیں۔ صاحبِ تقریب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کا اجتماع اس شہر کے پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے یہ بڑی خوش آئند ہے کہ لوگ ادبی تقریبات میں شامل ہو رہے ہیں۔ آج جس ناول پر گفتگو ہوئی ہے اس میں معاشرتی رویوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ ناول ایک ادھورے خواب کی تعبیر ڈھونڈنے میں پورا ہوا ہے اس میں تین بہنوں کی معاشرتی زندگی کا تذکرہ ہے یہ یک رومانس پرور تحریر بھی ہے‘ یہ اَن دیکھے خواب کی کہانی ہے جس کے سہارے ہر کردار معروف نظر آتا ہے۔ ناول میں ماضی کے زمانے کا تذکرہ ہے اور زمانہ حال کا ذکر بھی موجود ہے۔ کچھ جملے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ موجودہ عہد کی بات ہو رہی ہے یہ کراچی کے حالات کا ناول ہے۔ یہ ایک پورے خاندان کی داستان ہے۔ اس موقع پر نیاز مندان کراچی کے معتمد اعلیٰ رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم ایک غیر سیاسی ادارہ ہے ہم طویل عرصے سے نظر انداز قلم کاروں کے مسائل کے حل کے لیے مصروف عمل ہیں اس سلسلے میں ہم نے ان اداروں کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو کہ ہمارا استحصال کر رہے ہیں‘ ہمارا حق مار رہے ہیں۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ جن اداروں کو زبان و ادب کی ترقی کا کام تفویض کیا گیا تھا وہ ناکام ہو گئے۔ ان اداروں میں ایسے لوگوں کو لا کر بٹھا دیا گیا ہے جو شاعروں اور ادیبوں کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیاز مندان کراچی کے پلیٹ فارم سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور آج کی تقریب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کراچی یونیورسٹی گریجویٹس فورم کراچی کی ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے اظہار تشکر کے عنوان پر اپنی گفتگو میں کہا کہ ان کی تنظیم ہر تنظیم کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ زبان و ادب کو فروغ حاصل ہو۔ اس سلسلے میں ہم کئی قابل ذکر پروگرام کر چکے ہیں۔ نیاز مندان کراچی کے ساتھ یہ ہمارا دوسرا پروگرام ہے ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج کے تمام حاضرین محفل کا شکریہ ادا کرتی ہیں کہ ان کے آنے سے پروگرام کامیاب ہونے کے علاوہ صاحب کتاب شاہد الیاس شامی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ آپ خواتین و حضرات ہمارے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔

ایوانِ ادب کی شعری نشست

اگرچہ ایوان ادب ایک نوازئیدہ ادبی تنظیم ہے لیکن اس کی روح رواں شاہدہ عروج ہر مہینے ایک شعری نشست پُر تکلف عشائیہ کے ساتھ منعقد کرتی ہیں اس روایت کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے ہفتے کے دن 17 فروری 2018ء کو اپنے دولت کدے پر ظفر محمد خاں ظفر کی صدارت میں ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کا اہتمام کیا تھا جس میں گلنار آفرین مہمان خصوصی‘ ڈاکٹر اکرام الحق شوق مہمان اعزازی اور نثار احمد نثار ناظم تقریب تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت خالد رانا قیصر نے حاصل کی اور نعت رسولؐ شہناز رضوی نے پیش کی۔ رضوان صدیقی اس مشاعرے کے واحد سامع تھے جنہوں نے کہا کہ مشاعرے ہماری ثقافت کا حصہ ہیں یہ وہ ادارہ ہے جو ہر زمانے میں زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے کراچی میں اس وقت ادبی تقریبات ہو رہی ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن مشاعروں سے سامعین غائب ہوگئے ہیں یہ ایک سنگین صورت حال ہے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور سامعین کو مشاعروں میں لانا چاہیے انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان اس لیے زندہ ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس وقت جو زبان بولی جارہی ہے اس میں انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہو رہے ہیں خاص طور پر انگریزی کے بہت سے الفاظ اردو میں رائج ہو گئے ہیں اگر ہم ان کا نعم البدل تلاش کرتے ہیں تو کانوں کو اچھا نہیں لگتا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ آج کی مختصر سی نشست میں بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا خاص طور پر سکندر مطرب نے ماں کے حوالے سے خوب صورت نظمیں سنائیں انہوں نے مزید کہا کہ شعر و سخن کے فروغ میں ادبی تنظیمیں بہت اہم ہیں کراچی میں بہت سی عمدہ انجمنیں اردو کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں ایوان ادب بھی ان میں شامل ہے اردو زبان و ادب کی حفاطت ہمارا قومی فریضہ ہے‘ اردو ہماری قومی زبان ہے جس کا علاقائی زبانوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اردو کی ترقی میں علاقائی ادب کی ترقی پوشیدہ ہے۔ ہر علاقے کا کلچر الگ ہوتا ہے تاہم زبانوں کی ترویج و اشاعت ہونی چاہیے کیونکہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے‘ اس زبان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اب یہ سرکاری زبان بننے جارہی ہے۔ میزبانِ تقریب شاہدہ عروج نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور کلماتِ تشکر بھی ادا کیے انہوں نے کہا کہ وہ ادب کی ادنیٰ خادمہ ہیں میرے شوہر میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کے باعث میں ادبی پروگرام منعقد کر رہی ہوں لیکن مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب کوئی اپنی سینیارٹی کلیم کرنے کے لیے کسی کی محفل خراب کر دیتا ہے ایسے لوگوں سے اجتناب ضروری ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ متشاعروں کی حوصلہ شکنی کی جائے‘ یہ طبقہ ہرزمانے میں موجود ہوتا ہے اور شاید قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہاکہ وہ اپنی تنظیم کے تحت بلا تفریق رنگ و زبان و نسل اس شہر کے اہم لکھنے والوں کو دعوت دیتی ہیں تاہم جگہ کی تنگی کے باعث شعرا کی تعداد محدود کرنی پڑتی ہے۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں ڈاکٹر سکندر مطرب‘ تنویر سخن‘ خالد رانا قیصر‘ شہناز رضوی‘شاہدہ عروج اور فرخ اظہار شامل تھے۔

عالمی اردو مرکز کی تعارفی تقریب اور مشاعرہ

گزشتہ ہفتے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو مرکز (جدہ) کے زیر اہتمام تعارفی تقریب و مشاعرہ ہوا اس موقع پر اس ادارہ کے جنرل سیکرٹری حامد اسلام خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا اردو زبان و ادب ہمارا تاریخی ورثہ ہے اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں‘ ان کی تنظیم چاہتی ہے کہ اردو زبان و ادب کو دنیا کے تمام ممالک میں روشناس کیا جائے ہم سعودی عرب‘ جدہ میں اردو کی ترقی و اشاعت کے لیے مصروف عمل ہیں اس سلسلے میں ہم نے وہاں مشاعرے اور ادبی تقریبات منعقد کرائی ہیں مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ اس وقت کراچی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اس پروگرام کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ پروفیسر سحر انصاری مہمان خصوصی تھے۔ تجسیم الحق حقی مہمان اعزازی تھے۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یاسین حیدر رضوی نے کلمات تشکر ادا کیے اس پروگرام میں صاحب صدر مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا اپنا کلام پیش کیا ان میں حیات رضوی امروہوی‘ قمر وارثی‘ ڈاکٹر اختر ہاشمی‘ خلیل احمد خلیل‘ انورانصاری‘ اختر سعیدی‘ خالد معین‘ پیرزادہ خالد حسن رضوی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ محمد علی گوہر‘ محسن علوی‘ وقار زیدی‘ زاہد علی سید‘ افضل ہزاروی اور اکرم رضی شامل تھے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی اردو مرکز (جدہ) اردو ادب کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے ہم ان کی خدمات پر سلام پیش کرتے ہیں۔ جو شعرا پاکستان سے حج و عمرہ کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں یہ ادارہ ان کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیتا ہے اس ادارے نے جدہ میں بہت شاندار پروگرام منعقد کیے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان ایک عالمی زبان ہے یہ اپنی ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے یہ زبان ہر حالت میں زندہ رہے گی کیونکہ یہ عوام کی زبان ہے پاکستان میں یہ زبان رابطے کی زبان ہے یہ ہر علاقے اور ہر صوبے میں بولی جانے والیی سب سے بڑی زبان ہے۔

حصہ